شرارت یا حماقت

297

حذیفہ عبداﷲ
احمد ایک ذہین طالب علم ہونے کے ساتھ اپنی کلاس کا مانیٹر بھی تھا اس کی ذہانت، ہوشیاری اور شرافت کے اسکول کے ساتھی طالب علم، اساتذہ کے علاوہ محلے کے لوگ بھی معترف تھے وہ اپنی کلاس میں ہمیشہ اول پوزیش حاصل کرنا اور کھیل میں بھر پور طریقے سے حصہ لیتا اور بحیثیت مانیٹر کلاس پر بھی توجہ دیتا وہ کلاس کے طلبا کے عادات و اطوار اور معاملات سے بخوبی واقف تھا وہ اپنے ساتھیوں کے مسائل میں دلچسپی بھی لیتا اور اُن کو حل کرانے کی بھر پور کوشش کرتا۔
گزشتہ ایک ماہ سے احمد کو ایک مسئلے نے پریشان کیا ہوا تھا کہ کلاس کے بچوں کی چیزیں غائب ہوتی اور پھر کہیں اور سے مل جاتی جس کے باعث ساتھی بچوں میں لڑائی اور ناراضی کے واقعات پیدا ہو رہے تھے ایک روز تو انتہا ہو گئی جاوید کا بیگ غائب تھا اور بڑی تلاش کے باوجود نہیں مل رہا تھا استاد سمیت سب بچے پریشان تھے کہ آخر جاوید کا بیگ کہاں گیا جاوید اپنے بیگ کی گمشدگی پر پریشان تھا خاصا وقت گزرنے کے بعد دوسری کلاس کے استاد نے آکر بتایا کہ یہاں ایک بیگ رکھا ہوا ہے دیکھا گیا تو وہ جاوید کا ہی بیگ تھا ٹیچر نے جاوید سے کہا کہ وہ اپنا سامان چیک کرے جاوید نے بیگ کو چیک کرنے کے بعد کہا کہ سر کوئی بھی چیز کم نہیں ہے۔
اسکول کی چھٹی سے قبل کلاس ٹیچر نے احمد کو اسٹاف روم میں بلایا اور کہا کہ مسئلہ کیا ہے آخر یہ ہو کیا رہا ہے۔ بچوں کا سامان غائب ہوتا پھر مل جاتا ہے پہلے چھوٹی موٹی چیزیں غائب ہوتی تھیں اب تو پورا بیگ ہی غائب ہو گیا پھر دوسری کلاس سے ملا۔ کوئی چیز چوری نہیں ہوئی چوری کا عمل تو نہیں شاید کوئی بچہ شرارت کے طور پر یہ کام کر رہا ہے آخر کون ہو سکتا ہے احمد میاں آپ کلاس کے مانیٹر ہیں آپ بتائے۔
احمد نے کہا کہ سر میں بھی جب سے یہ واقعات ہو رہے ہیں پریشان ہوں آخر یہ حرکت کون کر رہا ہے میرے خیال میں جب سے فرقان ہماری کلاس میں آیا ہے اس کے بعد سے یہ واقعات ہو رہے ہیں وہ اپنی حرکات و سکنات سے ایک شریر بچہ معلوم ہوتا ہے۔
احمد کی بات سن کر کلاس ٹیچر نے کہا کہ آپ کی بات درست ہے لیکن یہ شرارت نہیں وہ عمل شرارت نہیں ہوتی جس میں کسی کو تکلیف ہو ظاہر ہے کوئی بھی چیز غائب ہونے پر بچے تو پریشان ہوتے ہیں ایسے عمل کو عمل شرارت نہیں کہہ سکتے اگر کوئی شرارت سمجھ کر ایسا کر رہا ہے تو حماقت کر رہا ہے ہمیں اصلاح کرنا چاہیے۔
کلاس ٹیچر نے احمد کی ذمہ داری لگائی کہ وہ فرقان پر نظر رکھے خاص طور پر کلاس میں آنے انٹرویل اور چھٹی کے وقت اگر فرقان یا کوئی اور بچہ ایسا کرتا ہوا پایا جائے تو مجھے فوراً بتائیں۔
جاوید کے بیگ غائب ہونے کے واقعہ کے بعد تقریباً ایک ہفتے تک کلاس میں شرارت کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
ایک دن انٹرویل میں احمد نے دیکھا کہ فرقان کھیل کے میدان سے نکل کر دوسری کلاس کے پیچھے سے ہوتا ہوا اپنی کلاس کی طرف بڑھ رہا ہے احمد نے فرقان کا پیچھا کیا اور جب فرقان کلاس روم میں داخل ہو گیا تو فرقان نے کھڑکی سے دیکھا تو فرقان بچوں کی کتابیں نکال کر دوسروں کے بیگ میں رکھ رہا تھا احمد نے فوری طور پر کلاس ٹیچر کو اطلاع دی وہ آئے انہوں نے خود یہ معاملہ دیکھا اور فرقان کو اسٹاف روم لے آئے۔
فرقان اسٹاف روم میں کلاس ٹیچر کے سامنے شرمندگی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور کہہ رہا تھا سر میں چوری نہیں کر رہا تھا میں تو شرارت کے طور پر یہ کام کررہا تھا۔
کلاس ٹیچر نے فرقان سے کہا کہ بیٹا چوری تو ایک بہت ہی برا عمل ہے لیکن یہ شرارت جو آپ کر رہے تھے یہ بھی کم برا نہیں ہے کسی کو تکلیف پہنچا کر خوشی حاصل کرنا کسی کو پریشان دیکھ کر کسی ضرورت کی چیزیں اپنی جگہ غائب کرکے آپ جس خوشی کو حاصل کرنا چاہتے ہیں ایک گناہ ہے ایک مسلمان حیثیت سے کسی کو تکلیف پہنچانا اچھا عمل کیسے ہو سکتا ہے۔
فرقان نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ کوئی شرارت نہیں کرے گا اور اچھے بچے کی طرح اپنی تعلیم اور کھیل کے وقت کھیل پر توجہ دے گا غیر ضروری کاموں سے دور رہے گا۔

حصہ