اقوال علا مہ اقبال
٭…قطرہ سمندر میں مل کر فنا ہوجاتا ہے اور میں قطرہ رہبر سمندر بننا چاہتا ہوں۔
٭… عالم قلم پر چلتا ہے، صوفی قدم پر۔
٭… صاحبِ امروز وہی ہوتا ہے جو زمانے کے سمندر کا غواص ہو۔
٭… گر جھکا تُو غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من۔
٭… فکر و وجدان ایک دوسرے کی ضد نہیں، ان دونوں کا سرچشمہ ایک ہے۔
٭… انسان قدرے مختار ہے، قدرے مجبور۔ لیکن جب اس ہستی تک پہنچا جو کاملاً مختار ہے تو زندانِ جبر سے آزاد ہوجاتا ہے۔
٭… جب تک قوموں کو خود اپنی اصلاح کا خیال نہیں آتا قدرت بھی انہیں درست نہیں کرتی۔
٭… مومن ریشم کی طرح نرم اور فولاد کی طرح سخت ہوتا ہے۔
٭…انسان ایک حقیقی فعالیت ہے۔ ایک صعودی روح جو اپنے عروج میں ایک وجود سے دوسرے میں قدم رکھتی ہے۔
٭… مجھے ان جوانوں سے محبت ہے جو ستاروں پر کمندیں ڈالتے ہیں۔
٭… زندگی وہ فرحت ہے جس میں خودی کو عمل کے بے شمار مواقع ملتے ہیں اور موت اس کا پہلا امتحان ہے، یہ دیکھنے کے لیے کہ اسے اپنے اعمال کی شیرازہ بندی میں کتنی کامیابی ہوئی۔
٭… مذہبی زندگی تین ادوار سے گزرتی ہے: اول ایمان جہاں انسان ہر بات کو بے دلیل لیتا ہے۔ دوم دور فکر اور آخر معرفت، جس میں حقیقتِ مطلقہ سے براہِ راست رابطہ قائم ہوتا ہے۔
شیشوں کا گھر
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے، ایک دور دراز کے چھوٹے سے گائوں میں ایک گھر تھا، جسے ہزار شیشوں کا گھر کہا جاتا تھا۔ ایک پستہ قد خوشگوار مزاج رکھنے والے کتے نے فیصلہ کیا کہ وہ اس گھر کا وزٹ کرے گا۔ وہ جب وہاں پہنچا تو چھلانگیں لگاتا، سیڑھیاں عبور کرتا اس کے دروازے تک جاپہنچا۔ وہ دروازے میں سے اس شان کے ساتھ گزرا کہ اس نے سر اٹھا رکھا تھا، کان کھڑے تھے اور اس کی دُم ہل رہی تھی۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اسی کی طرح کے ایک ہزار پستہ قد کتے وہاں موجود ہیں۔ ان کے سر اٹھے ہوئے ہیں، کان کھڑے ہیں اور وہ بھی اس کی طرح دُمیں ہلا رہے ہیں۔ وہ خوبصورت سے پوز کے ساتھ مسکرایا اور جواب میں اس نے دیکھا کہ تمام کتے اس کی طرح خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ مسکرا رہے ہیں۔ جب وہ گھر سے باہر آیا تو اس نے سوچا کہ یہ بڑی حیران کن جگہ ہے۔
’’میں دوبارہ یہاں آئوں گا اور اس جگہ کا اکثر وزٹ کروں گا۔‘‘
اسی گائوں میں ایک اور کتا تھا، جو پہلے کے برعکس اس قدر خوش مزاج طبیعت کا مالک نہ تھا۔ اس کتے کو جب شیشوں والے گھر کا علم ہوا تو اُس نے بھی اس کے وزٹ کا فیصلہ کیا۔ وہ آہستگی سے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دروازے تک پہنچا۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا، کان لٹکے ہوئے اور دُم نیچے تھی۔ دروازے سے گزر کر اُس نے سر اٹھا کر دیکھا تو اسے ایک ہزار بگڑے مزاج اور موڈ والے کتے دکھائی دیے۔ اس نے ان پر غرانا شروع کردیا تو وہ یہ دیکھ کر پریشان ہوگیا کہ ہزار کتے واپس اس پر اسی طرح غرا رہے ہیں۔ جب وہ پلٹا تو اس نے سوچا:
’’یہ بڑی خوفناک جگہ ہے۔ میں کبھی اس جگہ واپس نہیں آئوں گا۔‘‘
دنیا شیشوں کا گھر ہے۔ اس میں آپ اپنے ہی کردار، مزاج اور رویّے کا عکس دیکھتے ہیں۔ اپنی سوچ و فکر کو مثبت بنایئے، آپ کو خارج کی دنیا میں اسی کے مظاہرے دیکھنے کو ملیں گے۔
( مرتب: علی حمزہ)
اقبال کی باتیں
… کیا آپ پردے کے قائل ہیں؟
٭بے شک، حُسن بے حجاب ہوجائے تو وہ اپنی قدر کھو بیٹھتا ہے ۔ پردہ حُسن کے وقار اور احترام میں اضافہ کرتا ہے۔
… کیا موت کے بعد اگلی زندگی فوراً شروع ہوجائے گی یا قیامت تک انتظار کرنا پڑے گا؟
٭ اس کا انحصار ذوقِ حیات پر ہے۔ اس ذوق میں جتنی شدت ہوگی حیاتِ نو اتنی ہی جلدی عطا ہوگی۔ شہید میں حیات کی تڑپ شدید ہوتی ہے اس لیے وہ مرتے ہی جی اٹھتا ہے۔
…عالم وصوفی میں کیا فرق ہے؟
٭ عالم قلم پر چلتا ہے اور صوفی قدم پر۔
… کیا آپ نے ویدوں کا مطالعہ کیا ہے؟
٭ویدوں میں کڑکتے ہوئے بادلوں، دھاڑتے ہوئے سمندروں، گرجتے طوفانوں اور سربفلک پہاڑوں کا ذکر اتنی مرتبہ آیا ہے کہ انسان فطرت سے مرعوب ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف قرآن بار بار سخرلکم الشمس و القمر و سخر لکم مافی السماء والارض کی بشارت دیتا ہے جس سے ہم میں آقائی ارض و سما کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
… آپ کے اس مصرع ’’علم و حکمت از کُتب دیں از نظر‘‘ میں نظر سے مراد کیا ہے؟ مردِ مومن کی صحبت اور مردِ مومن کی علامت یہ ہے کہ الٰہی احکام کی تعمیل اس کی فطرت بن جائے، یعنی تمنا بن کر اس کی روح میں اتر جائے۔
…نطشے کے نظریۂ فوق البشر کے متعلق آپ کی رائے کیا ہے؟
٭ میرے خیال میں اسلامی نظام وہ واحد سانچہ ہے جس میں فوق البشر ڈھل سکتے ہیں۔
… ایک ہی قسم کا شوق رکھنے والوں کی صحبت بعض دفعہ ایسے نتائج پیدا کرجاتی ہے جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتے۔ یہ بات زندگی کے پوشیدہ اسرار میں سے ہے جس کے جاننے والے مسلمانانِ ہند کی بدنصیبی سے اب اس ملک میں پیدا نہیں ہوتے۔
(مکتوب بنام حکیم محمد حسین قرشی،6 مارچ 1935 ء ماہنامہ ماہِ نو اقبال نمبر، ستمبر 1977 ء)
… طویل اور سنجیدہ مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اسلامی قوانین کو صحیح طریقے پر سمجھا اور ان پر عمل بھی کیا جائے تو پھر ہر شخص کی بنیادی ضرورتیں قانونی طور پر پوری ہوجاتی ہیں۔
(مکتوبِ اقبال، بنام محمد علی جناح، 28 مئی 1937ء)