ہاجرہ ریحان
تمام کے تمام کاغذ جو رات بھر میں نے اپنی بے مقصد سوچیں لکھ کر کالے کیے تھے بس ہوا کے ایک جھونکے سے باغی ہوکر زمین پر آپڑے تھے… کبھی ان بے جان، ہلکے، قلم کی سیاہی سے کالے کیے گئے کاغذوں کو ہوا کی زد میں اُڑتے دیکھا ہے؟
جس پر جتنی زیادہ سیاہی ہوگی… جو جتنا زیادہ الفاظ سے بھرا ہوا ہوگا، وہ اتنا ہی دور جاکر گرے گا کہ کبھی آپ سمیٹنے میں اسے نظرانداز ہی کردیں، اور پھر صدیوں بعد وہ کاغذ اچانک سے آپ کی نظروں میں اڑتا پھرتا آجائے گا، آپ اسے اٹھا کر دیکھیں اور یاد کرنے پر بھی یاد نہ کرسکیں کہ آیا یہ کسی کہانی کا حصہ تھا جو اُس وقت لکھی جارہی تھی، یا زندگی کا کوئی لمحہ… مجھے یقین تھا کہ میں بھی چند ایک کو کھو چکی ہوں۔ میں نے سمیٹے ہوئے باقی ماندہ کاغذوں کو میز پر کتاب کے نیچے دباتے ہوئے کھڑکی سے جھانکا۔ بارش کی آمد آمد تھی، ہوا میں مٹی کی دھیمی مسحورکن خوشبو بس چکی تھی۔ میں نے ایک لمبا سانس کھینچ کر اسے پلٹ کر دیکھا… یونہی پُھرتی سے بھاگ دوڑ کررہا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ میں ناشتا بناکر میز پر اُس کے تیار ہونے سے پہلے لگا دیتی ہوں… صبح کی چائے وہ بستر پر آنکھ کھلتے ہی پی لیتا ہے… کپڑے رات میں ہی استری کرکے واش روم میں لٹکا دیتی ہوں… جوتے، موزے اپنی جگہ پر ہمیشہ یوں اسے ملتے ہیں جیسے کسی نے ان کو وہاں گوند سے چپکا دیا ہو… پھر وہ کیا چیز ہے جو اس کو صبح صبح اس طرح دوڑاتی ہے؟
میں نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش تک نہیں کی کیوں کہ میں صبح کے ستارے کی مانند دن کا آغاز کرنے کی عادی ہوچکی ہوں۔ جیسے ایک بڑا قرض لے کر کوئی لمبی مسافت کو چلے۔
میں نے اسے ناشتے کی میز پر بیٹھے ایک بار پھر دیکھا۔ وہ روزانہ کی طرح اپنی عینک کو احتیاط سے اپنے بیگ میں رکھ رہا تھا۔ پھر فائلوں کی باری آئی، ایک عدد رومال، بٹوا اور بے رنگ سا قلم۔
وہ روزانہ کسی عبادت میں کی جانے والی نپی تلی حرکات کی طرح گھر آکر اپنا سامان پڑھنے کی میز پر بیگ سے نکال کر سجا دیتا اور صبح اسی طرح واپس بیگ میں رکھ لیتا۔ اس کی معمول کی حرکات دیکھ کر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے لگا… میں نے ٹھنڈی سانس بھر کر سوچا:
’’اے دل… نہیں… کبھی بھی نہیں… یہ شخص پتھر کی صورت اپنی جگہ سے کبھی ہلا بھی تو ٹھوکر لگنے پر… اس کو اپنی جگہ سے اس کے یا میرے جذبات نہیں ہلا سکتے… یہ آج بھی مشینی انداز میں کام پر چلا جائے گا… اس کے گلے میں لٹکتی کھلی ہوئی ٹائی میرے ہاتھوں کی منتظر تھی، میں اس کے قریب گئی تو وہ ہمیشہ کی طرح بیگ میں اپنا سامان بھر چکا تھا اور پھر مجھے آتا دیکھ کر گردن اکڑائے اپنی جگہ پر جما کھڑا تھا۔ میں ایک ہاتھ سے اس کی ٹائی باندھنے لگی اور دوسرے سے اس کی شرٹ کے کالر کو ٹائی پر بٹھا رہی تھی اور شرٹ کے آخری بٹن کو بند کرتے وقت میں نے اس کی گردن پر اپنے ہاتھ سے ہلکا سا دبائو ڈالا جو اس کے لیے نیا تھا۔ اُس کی نظریں جھکیں اور میری اٹھتی آنکھوںسے جا ملیں… ہلکا سا مسکرایا اور بولا ’’جانتا ہوں دیر ہوگئی ہے آج… ناشتا نہیں کرسکوں گا۔‘‘
میری آنکھیں شرم سے بوجھل ہوکر جھک نہ جاتیں تو آنسوئوں سے چھلک ضرور جاتیں۔ میرے خاموشی سے راستے سے ہٹ جانے پر… بیگ اٹھایا اور ’’خدا حافظ‘‘ کہتا ہوا چلا گیا۔
اُس وقت تک بارش شروع ہوچکی تھی، گھر میں کچھ دنوں کے لیے آئے ہوئے اُس کے چند رشتے دار آہستہ آہستہ ناشتے کی میز پر جمع ہونے لگے۔ میں نے روزمرہ کا کام شروع کرنے سے پہلے حسبِ عادت ریڈیو لگا دیا۔ اتنے میں اُس کی چچازاد کزن اپنے بچوں کو کرسی پر جماتے ہوئے چہکی ’’ارے واہ بھابھی، کیا گانا ہے… موسم ہے عاشقانہ… اے دل کہیں سے ان کو ایسے میں ڈھونڈ لانا‘‘… کیوں بھئی فون کرکے بھائی صاحب کو واپس نہ بلا لوں آفس سے؟‘‘
میں اس کی بیٹی کو دودھ کا گلاس پکڑاتے پکڑاتے مسکرا اٹھی… گو کہ زخم تازہ تھا پھر بھی صبر آچکا تھا، میں نے تحمل سے جواب دیا ’’ارے نہیں… نہیں بہن بس رہنے دو۔‘‘
اس کو میں کیا بتاتی کہ موسم تو اللہ کی مہربانی سے عاشقانہ ہو بھی سکتا ہے مگر شوہر نہیں… سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
وہ کبھی عاشقانہ مزاج بھی رکھتا تھا، شاید ابھی بھی اس کو اس کے یار دوست ایسا ہی سمجھتے ہوں، کیونکہ بظاہر ہم دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ بہت مطمئن اور خوش نظر آتے ہیں… وہ مجھ سے مل کر اور میں اس سے مل کر مکمل ہوچکی ہوں، اور یوں مکمل ہوجانے کے بعد ہم نے ایک دوسرے کو کھو دیا… ادھورا کردیا… اتنے ہوئے قریب کہ ہم دور ہوگئے۔
کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ دو لوگ ہزاروں میل کے فاصلے پر رہ کر بھی ایک دوسرے سے قریب رہے ہوں؟ اس کے وہ دعوے کہ وہ مجھے جانتا ہے کہ وہ میری کہی اَن کہی کو سمجھ سکتا ہے… کیا محض دکھاوا تھا؟ میں سوال کرنا جائز نہیں سمجھتی۔ سوال انسان کو بہت ذلیل کرتے ہیں۔ ہاں کچھ کھوئے ہوئے کاغذ ہیں جو وقت بے وقت اچانک کہیں سے نمودار ہوکر نظروں میں اڑتے پھرتے ہیں۔ پھر ہاتھ بڑھا کر اٹھا لوں، پڑھ لوں یا بغیر دھیان دیے پھاڑ کر پھینک دوں؟
وہ پہلا اور آخری دن تھا جب میں اس کے آفس گئی تھی۔ وہ اپنے کیبن میں تھا جہاں وہ اپنے بزنس کو برقرار رکھنے اور ترقی دینے کے جتن کرتا ہے، جہاں سے اس نے مجھے کتنے ہی فون کیے تھے اور بتایا کرتا تھا کہ وہ کیسے ترقی کرتا ایک چھوٹی سی فیکٹری سے گارمنٹ مل کا مالک بن گیا… وہ سب باتیں جو وہ مجھ سے کرتا تھا انہیں سننا اور سنتے چلے جانا میرا فرض ہے جیسے اپنی سب باتیں وہ ایک امانت کے طور پر، ایک تحفے کی صورت میں مجھے سونپ رہا ہو۔ میں سمجھتی تھی کہ اتنی کچھ امانت رکھ لینے کے بعد میں اس کی کام کی زندگی میں بھی شامل ہوگئی ہوں… کام کی جگہ، آفس… جہاں میں جاسکتی ہوں، جہاں وہ مجھ سے مل سکتا ہے۔ گو کہ ایک دن جب اُس نے مجھے آفس پہنچنے پر باہر انتظار گاہ میں بٹھوایا تو میرا منہ کس طرح اتر گیا تھا… میں تو سمجھتی تھی کہ میں اس کے آفس پہنچوں گی تو وہ دروازے سے ہی مجھے خوشی خوشی اندر لے کر جائے گا… ایک ایک کام کرنے والے سے ملوائے گا… مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو صرف چند دن پہلے فون پر بتا رہا تھا کہ وہ میرے لیے ہی تو اتنی محنت کررہا ہے۔
وہ ایک کامیاب انسان تھا، ایک مشہور اور ینگ بزنس مین… جس پر چند دوسرے کامیاب بزنس مینوں کی اس لیے نظرِ کرم تھی کہ وہ اسے اپنی بیٹی، بہن یا سالی کے لیے منتخب کرنا چاہ رہے تھے… اور وہ سمجھدار، بردبار ایساکہ سب سے راہ و رسم رکھ کر بھی ان کے گھروں میں گمنام رہا… مجھے اس کی سادگی اور ہمارے رشتے کے ساتھ اس کی وفاداری پر فخر تھا… میں تھی ہی کیا…! انتظار گاہ میں بیٹھی میں یہی سوچ رہی تھی… ان چند لمحوں میں مجھے اپنی اوقات کا اچھی طرح سے اندازہ ہوچکا تھا… میں اس کا خود سے موازنہ کررہی تھی کہ اس کی سیکرٹری نے آکر مجھے اندر جانے کا اذن دیا… جب اتنے آفس روٹین سے مجھے اندر لے جایا جارہا تھا تو میرا بھی فرض تھا کہ ایک مہذب انسان ہونے کا ثبوت دوں… میں نے اس کے کیبن کے بند دروازے پر ہلکی سی دستک دی۔
’’یس کم اِن…‘‘ وہ فائل پر سر جھکائے تیزی سے قلم چلا رہا تھا، میں ابھی اندر داخل ہوئی تھی کہ اس نے فائل سے سر اٹھائے بغیر بیٹھ جانے کا حکم سنا دیا۔
’’تو تم میرے منع کرنے کے باوجود بھی آہی گئیں…‘‘
’’اس میں حرج کیا ہے؟‘‘ میں نے بڑی مشکل سے جواب دیا۔
’’آخر یہ تم کو کیا سودا سمایا ہے؟ کہا ناں آج کل کا ماحول بہت گندا ہوگیا ہے، اب عورتوں کی ہمارے معاشرے میں وہ وقعت نہیں رہی، اب مردوں کی نظروں سے شرم کا پردہ ہٹ چکا ہے۔ کتنی بار تم کو سمجھا چکا ہوں مگر تم کو پتا نہیں کیوں یہ دھن سوار ہوگئی ہے؟
نوکری… نوکری… نوکری… کیا کرو گی نوکری کرکے؟ ہاں چند روپے مل جائیں گے، اور چند روپوں کی خاطر تم خاندان کی عزت نیلام کرتی پھرو گی… اوپر سے مجھ سے اجازت مانگ رہی ہو؟ یہ کیا بے وقوفی کی رٹ لگا رکھی ہے۔‘‘
میں حیران تھی… یہ وہی شخص ہے جس کی اعلیٰ تعلیم ملک سے باہر ہوئی، جہاں اس نے عورتوں کے شانہ بشانہ کام بھی کیا… کیا یہ وہی شخص ہے جس نے ایک محفل میں تمام مردوں کو یہ کہہ کر چپ کروا دیا تھا کہ ’’عورت کی بھی معاشرے میں ایک حیثیت ہے۔ اگر اس کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے تو اسے یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کا پروفیشن چن سکے اور اس میں بغیر کسی تامل کے نوکری بھی کرسکے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ ہم نے عورتوں کو صرف چند ہی پروفیشن کے لیے مخصوص کردیا ہے…! یونیورسٹی کے ہر تعلیمی شعبے میں عورتوں کی وہی تعداد کیوں نہیں ہوتی جو میڈیکل یا فیشن ڈیزائننگ کے شعبے میں ہوتی ہے! اور کچھ نہیں تو کسی اسکول کی ٹیچر، بس…‘‘
اس کی تقریر سن کر میں اُسی دن سے اس کو سراہنے لگی تھی۔ بڑی پھوپھی کا بیٹا تھا اور ہمیشہ سے الگ تھلگ سا رہتا تھا… بڑی پھوپھی جوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں، جس کے بعد بابا جانی ان کو ہمارے ہاں لے آئے تھے… سارا سارا دن بڑی پھوپھی ہر کام میں پیش پیش رہتیں، جب کہ وہ جب تک گھر میں رہتا ہر دو منٹ بعد چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بازار دوڑایا جاتا تھا… کبھی بڑے بھیا کا سگریٹ، تو کبھی باجی کی کاپی… کبھی مرچ ختم ہوجاتی تو کبھی کسی کا چھولے کھانے کو دل چاہنے لگتا… کام کرنا اور پھر کتابوں میں گم ہوجانا۔ اس نے کبھی بھی باجی کے ساتھ ٹیبل ٹینس نہیں کھیلا، نہ کبھی بڑے بھیا کے ساتھ سنیما جانے کا شوق دکھایا۔ (جاری ہے)
٭٭٭