قومی لباس ملکی تشخص اور ہمارا میڈیا

2655

عالیہ عثمان
ہمارے معاشرے میں یوں تو بہت سے تشویش ناک رجحانات جنم لے رہے ہیں، لیکن ان میں سب سے خطرناک رجحان یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص سادہ زندگی اختیار کرنے کے بجائے آرام و آسائش کے قیمتی سامان کی ہوس کا شکار ہوچکا ہے، خاص طور سے ہماری شہری آبادی کے لوگ تو بہت بری طرح اس مرض کا شکار ہیں۔ یہ لوگ قیمتی ملبوسات اور فیشن پرستی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ شاندار عمارت کی تعمیر میں اپنی بساط سے بڑھ کر خرچ کرنا معیاری زندگی کا لازمی جزو سمجھ لیا گیا ہے۔ اور بات شاندار عمارت کی تعمیر پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس کی آرائش کے لیے بے دریغ روپیہ خرچ کردیا جاتا ہے اور کوشش یہ کی جاتی ہے کہ بنگلے یا کوٹھی کا آرائشی سامان اور ضرورت کی چیزیں قیمت میں حریفوں سے بڑھ چڑھ کر ہوں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس نمائشی کاروبار کو کچھ ایسا فروغ ملا ہے کہ اب انسان کے ذاتی کردار اور اعلیٰ انسانی اوصاف کے مقابلے میں اس کے قیمتی لباس، خوشنما کار اور نفیس بنگلے کی زیادہ اہمیت ہے۔
انسان اور لباس کا بہت پرانا تعلق ہے۔ لباس جسے انسان نے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لیے بنایا تھا، ہماری تہذیب اور وفا کی علامت ہوتا ہے۔ یہ ہماری شخصیت اور مزاج کو ظاہر کرتا ہے۔ موزوں لباس کا انتخاب ہماری شخصیت کو نکھارتا ہے اور اس سے ہماری شخصیت کا منفی تاثر قائم ہوتا ہے۔ لباس کے انتخاب میں مختلف عوامل اثرانداز ہوتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب انسان کی پہچان اُس کے لباس سے ہوتی تھی، کیونکہ اس کا لباس اس کے علاقے کو نمایاں کرتا تھا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہوسکتی ہے کہ لباس کو ہر علاقے کی ضرورت کے مطابق بنایا گیا تھا۔ گرم اور سرد علاقے کے ملبوسات میں خاصا فرق ہوتا تھا۔ اس لحاظ سے پاکستان میں کچھ ملبوسات کو بہت اہمیت حاصل تھی۔ مختلف تہواروں پر مختلف مخصوص لباس پہنے جاتے۔ شلوار قمیص اور شیروانی کو ہمارا قومی لباس کہا جاتا ہے۔ لیکن اب ایک نیا ٹرینڈ چل نکلا ہے جس کا شکار ہماری نوجوان نسل ہورہی ہے۔ خاص طور پر اُن تعلیمی اداروں میں جہاں یونیفارم کی پابندی نہیں ہے، طالب علم ایک نئے کلچر کے رنگ میں رنگے جارہے ہیں۔ درس گاہیں جو کبھی درس و تدریس کا مرکز ہوا کرتی تھیں، اب ایک فیشن شو کی طرح نظر آتی ہیں۔ جہاں تعلیم کو اہمیت دی جانی چاہیے تھی وہاں لباس کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔ جامعات جہاں پر کسی دور میں تعلیمی اور ادبی مقابلے ہوا کرتے تھے اب وہاں پر مہنگے ملبوسات کے مقابلوں نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ طالب علم مہنگے لباس پہنتے ہیں اور غور طلب بات یہ ہے کہ برانڈز کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
آج ہمارے مسلم معاشرے میں عورتیں اور لڑکیاں عریاں لباس زیب تن کرکے اور بنائو سنگھار کرکے اس طرح سربازار نکلتی ہیں کہ انسان کیا انسانیت بھی شرم و حیا میں ڈوب جاتی ہے، جبکہ عورتوں پر فرض ہے کہ وہ اِدھر اُدھر گھوم کر اپنی آرائش و زیبائش کی نمائش نہ کریں، کیونکہ یہ زینت و خوبصورتی صرف اُن کے شوہروں کے لیے ہے، غیروں کو دکھانے کے لیے نہیں۔ اس لیے اسلام نے معاشرے کی پاکیزگی اور عفت شعاری کے لیے عورتوں کا پردہ لازمی قرار دیا ہے۔
میڈیا نت نئے فیشن اور عریانی کو سب سے زیادہ پروموٹ کرتا ہے۔ ڈراموں میں، اشتہارات میں، اور مارننگ شوز میں مختلف بوتیک اور برانڈز کے ایسے ایسے اوٹ پٹانگ ڈیزائن کے کپڑے دکھائے جاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ دوپٹے تو سرے سے غائب ہی ہوگئے ہیں۔
لباس کے انتخاب میں پہلے مذہبی اور شناختی پہلوئوں کو بہت اہمیت دی جاتی تھی لیکن آج کے دور میں ان سب باتوں کے برعکس ہورہا ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے لباس پہننا پسند کرتے ہیں جو کسی لحاظ سے موزوں نظر نہیں آتے۔ لڑکوں میں پھٹے ہوئے کپڑے پہننا ، اور لڑکیوں میں لڑکوں جیسے کپڑے فیشن سمجھا جاتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مبارک زندگیاں ہمارے لیے سادگی کا بہترین نمونہ ہیں۔ تاجدارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس میں دو چادریں ہوا کرتی تھیں، وہ ان کو باری باری استعمال میں لاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ بھیڑ چال چلنے والوں پر رحم فرمائے۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا

حصہ