تزئین حسن (کینیڈا)
ہندوستان کی ریاست بھوپال کے آخری نواب حمیداللہ خاں کی بیٹی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے سابق چیئرمین نواب زادہ شہر یار خان کی والدہ، عابدہ سلطان اپنی یادداشتوں The Memories of a Rebel Princess میں رقم طراز ہیں کہ انہیں بچپن ہی میں انگریزی، فرانسیسی زبان کی تعلیم، گھڑسواری، تیراکی، پیانو بجانے، یہاں تک کہ شیر کے شکار کی تربیت دی گئی تھی، لیکن خود ان کے بیان کے مطابق ان کی شادی شدہ زندگی کی ناکامی کی واحد وجہ یہ تھی کہ انہیں شوہر اور بیوی کے درمیان ازدواجی تعلق کے بارے میں کوئی آگاہی نہیں دی گئی، جس کے باعث وہ ازدواجی عمل کو انتہائی قابلِ نفرت عمل سمجھتی تھیں۔ اس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روایتی طور پر مسلمان معاشروں میں تربیت کے اس اہم پہلو کو کس طرح نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
فی الوقت مغرب میں مقیم مسلمان والدین اسکولوں میں بچوں کو جنسی تعلیم (Sex Education) دینے کے حوالے سے شدید کرب کا شکار ہیں، کیوں کہ اس معاملے میں مغربی نقطہ نظر ہمارے دین، معاشرے، کلچر اور روایات سے براہِ راست متصادم ہے، اور اکثریت اس معاملے میں مغربی پبلک اسکولوں کے نصاب پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں۔
فی الحال کینیڈا میں Sex Education لازمی یعنی Mandatory نہیں لیکن بعض جگہ اسے لازمی کرنے کے لیے مہم چلائی جارہی ہے جسے مختلف کمیونٹیز کی مخالفت کا سامنا ہے۔ عام طور سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں ہندو، سکھ اور بہت سے قدامت پرست عیسائی اور یہودیوں کے کچھ فرقے بھی اسکول میں اس نوعیت کی تعلیم کے خلاف ہوتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا جنسی تعلیم فی الواقع سرے سے ہی غلط ہے؟ یا ہمارے بچوں کو اس کی ضرورت ہے؟ اس تعلیم کے لیے دلیل قرآن اور حدیث ہی سے ملتی ہے۔ دین کے یہ ماخذ بہت سے مقامات پر ان معاملات کو بہت کھول کر بیان کرتے ہیں۔ اگر دس سال کے بچے کو قرآن ترجمے اور تفسیر کے ساتھ پڑھایا جائے جو کہ مسلمان گھرانوں میں پڑھایا جانا چاہیے تو اس میں Sex Education سے متعلق بہت سی چیزیں ازخود آجاتی ہیں، مگر عام طور سے مسلم معاشرے اور مملکتِ اغیار میں مقیم مسلم کمیونٹیز بچوں کو یہ تعلیم اور تربیت دینے کی ضرورت سرے سے محسوس نہیں کرتیں۔
جنسی تعلیم سے مراد عمر کے ساتھ ساتھ بچوں میں جو جسمانی اور ذہنی تبدیلیاں آتی ہیں ان سے متعلق مسائل سے آگاہی اور ان نئے چینلجز کا مقابلہ کرنے کے لیے دینی اور سائنسی معلومات فراہم کرنا ہے۔ والدین کے لیے یہ تربیت تب ہی ممکن ہے جب وہ اس کی ضرورت محسوس کریں اور انہیں خود ان مسائل سے آگاہی ہو، اور اولاد ایک دوست کی مانند ان کے اس طرح قریب ہو کہ ان سے ہر موضوع پر بات کی جاسکے۔
ان موضوعات میں سب سے اہم بچوں کو ان کے جسم کے پرائیویٹ حصوں کا شعور دینا کہ انہیں کوئی دوسرا ہاتھ نہیں لگا سکتا، Pleasant اور Unpleasant touch کی آگاہیی دینا، کسی دست درازی کی صورت میں بچے کو اس سے نمٹنے کے طریقے بتانا، ان میں بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ذہن میں پیدا ہونے والی خواہشات اور ان کو لگام دینے کے طریقے بھی ہوسکتے ہیں اور ان کے نقصانات بھی۔ ایام اور احتلام کے بعد غسل، حمل، مرد عورت کے درمیان ازدواجی تعلقات، اور زنا کے دینی اور دنیوی نقصانات بھی مناسب عمر میں زیر بحث آسکتے ہیں۔ درحقیقت یہی جنسی تعلیم ہے۔
ہوسکتا ہے بعض والدین انہیں نامناسب یا غیر ضروری تصور کریں، مگر یہ یاد رکھیں کہ آج انٹرنیٹ کے دور میں اگر آپ کا بچہ فلموں، پاپ کلچر، لٹریچر سے بچا ہوا بھی ہے تو اسے یہ سب کسی دوسرے ذریعے سے معلوم ہوگا، اور مناسب یہ ہے کہ اس سے پہلے آپ خود اس کی رہنمائی کرنے والے ہوں۔ یہ چیز بچے کو آپ پر اعتماد بھی دے گی اور کسی ناگوار صورت حال سے نمٹنے کا شعور بھی۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس ضرورت کا احساس ہو بھی جائے تو والدین خود کہاں سے رہنمائی لیں؟ اس کے لیے باقاعدہ نصاب کے ذریعے اہلِ علم کی رہنمائی کی ضرورت ہے، جس کے لیے دینی طبقوں ہی کو آگے آنا ہوگا۔ ہمارا عمومی رویہ یہ ہے کہ اگر کوئی سیکولر فرد یا ادارہ کینیڈا یا امریکا کے تعاون سے کوئی ڈاکومنٹری، ٹی وی سیریل یا نصاب تیار کرلے تو ہمیں اعتراض ہوگا، لیکن خود اس معاملے میں پیش رفت کی ضرورت مشکل ہی سے محسوس کریں گے۔
ہم سب جانتے ہیںکہ بچہ اپنی عمرکے مختلف مراحل میں مختلف جسمانی اور ذہنی تبدیلیوں سے گزرتا ہے۔ لڑکوں کو لڑکیاں اچھی لگتی ہیں، یہ فطری تقاضا ہے مگر انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ انہیں گھورنا اخلاقی اور دینی تقاضوں کے خلاف ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مغرب کے آزاد منش معاشرے میں کسی بھی فرد کو گھورنا یا اشارہ کرنا انتہائی بدتہذیبی سمجھتی جاتی ہے، فقرے کسنے کو جنسی طور پر ہراساں کرنا اور بغیر مرضی ہاتھ لگانے کو جنسی حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن مسلمان معاشروں میں جنہیں چودہ سو سال قبل غضِ بصر کا حکم دیا گیا تھا گلی، محلے، اسکولوں، یہاں تک کہ یونیورسٹی میں بھی آتی جاتی لڑکیوں کو گھورنا اور اس سے آگے اُن پر فقرے کسنا اپنا حق سمجھا جاتا ہے، شاید ہماری کچھ بہنوں کو میرے اس تجزیے پر اعتراض ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ ہم میں سے بہت کم لوگ اپنے لڑکوں کو اس معاملے میں کوئی ہدایت دینے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، نصابِ تعلیم میں اسے زیر بحث لانا تو بہت دور کی بات ہے۔ اپنی لڑکیوں کے سر ڈھکنے اور پردہ کرنے کو تو ہم سب ضروری خیال کرتے ہیں مگر کتنے مسلمان گھرانے ہیں جہاں اپنے جوان ہوتے لڑکوں کی فطری خواہشات کو لگام دینے کی فکر ہوتی ہے! اور کیا اس کے لیے باقاعدہ تعلیم اور تربیت کی ضرورت نہیں؟ خود لڑکیاں خدا کی عطا کردہ فطری جسمانی تبدیلیوں کو باعثِ شرم محسوس کرتی ہیں جو کہ ایک غلط احساس ہے۔ انہیں مناسب انداز میں بااعتماد طریقے سے ان تبدیلیوں کے ساتھ نمٹنے اور گھر اور گھر سے باہر نکلنے کے آداب سکھانا بھی ضروری ہے۔ اور یہ سب بھی مذکورہ تعلیم کا ہی حصہ ہونا چاہیے۔ اور اس سے بہت پہلے چھوٹی عمر سے ہی گھروں میں یا گھروں سے باہر پڑوس، اسکول، ٹیوشن سینٹر اور رشتے داروں کے ہاں کسی نازیبا جسمانی پیش رفت کی صورت میں والدین یا بڑوں کو مطلع کرنے کی تربیت دینا بھی ضروری ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے ہم شاید بحیثیت قوم اغماض برتتے رہے ہیں، جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ہمارے اردگرد ہورہا ہے۔ خصوصاً جوائنٹ فیملی سسٹم میں رشتے داروں پر اعتماد کیا جاتا ہے۔
میری ایک بہت اچھی جاننے والی پڑھی لکھی خاتون نے مجھے بتایا کہ ان کی ایک بہن جو ایک سخت گیر کرنل کی زوجہ ہیں، جوائنٹ فیملی سسٹم میں اپنی کم عمر بیٹی کو اکیلے گھر پر نہیں چھوڑ سکتیں، لیکن اس کی وجوہات کو اپنے غصیلے شوہر کے سامنے بیان کرنے سے بھی قاصر ہیں جو اپنے بھائی کے بارے میں کوئی بات سننے کے بجائے بیوی اور بیٹی ہی کو گھر سے نکال دیں گے۔ مرد ویسے بھی صنفی لحاظ سے بہت مضبوط ہوتا ہے۔ اس کا عمل کتنا ہی غلط کیوں نہ ہو، اس کا خمیازہ عام طور سے صنفِ نازک کو ہی بھگتنا پڑتا ہے چاہے وہ بچی ہی کیوں نہ ہو۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ان مسائل سے متعلق بہت سی تعلیمات ٹکڑوں کی صورت میں اپنی اپنی سمجھ کے مطابق مسلمان والدین نئی نسل میں منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن زندگی کے اس اہم ترین پہلو کی اہمیت کے پیش نظر والدین اور ٹیچرز کے لیے ایک نصاب تیار کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے مذہب کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہو۔
٭٭٭