مرددرویش‘احسان اللہ بٹ مرحوم

311

برادرِ عزیز گرامی قدر احسان اللہ بٹ جماعت اسلامی کے انتہائی مخلص، بے لوث اور انتھک ساتھیوںمیں سے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ وہ اچانک 9اگست 2017ء کو داغِ مفارقت دے گئے۔
یہ اندوہناک خبر سن کر ابھی گھر میں داخل ہوہی رہا تھا کہ ایک اور چونکا دینے والی خبر موصول ہوئی۔ لالہ موسیٰ میں جماعت اسلامی کے انتہائی قیمتی ساتھی اور رہنما، سابق امیر ضلع گجرات وضلع جہلم اور رکن مرکزی وصوبائی مجلس شوریٰ جناب احسان اللہ بٹ صاحب بھی داغِ مفارقت دے گئے ہیں۔ امیر ضلع گجرات ڈاکٹر طارق سلیم صاحب نے بتایا کہ مرحوم کی نماز جنازہ رات دس بجے لالہ موسیٰ میں ادا کی جانی ہے۔ میں اس میں شرکت سے قاصر رہا۔ حق تعالیٰ مغفرت فرمائے، بٹ صاحب اس دور کے عظیم اہلِ ایمان میں سے ایک درخشندہ ستارہ تھے۔ ان دونوں ساتھیوں کی خدمات بے انتہا وبے شمار ہیں۔
جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے احسان اللہ بٹ صاحب کا جنازہ بھی بعد نماز عشاء لالہ موسیٰ میں تھا اور میجر صاحب کا بھی گارڈن ٹاؤن لاہور میں اسی وقت۔ میں خواہش کے باوجود مردِ درویش بٹ صاحب مرحوم کے جنازے میں شرکت سے محروم رہا۔ اس غیرحاضری کی تلافی تو ممکن نہ تھی، مگر اپنے بس میں یہی تھا کہ مرحوم کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت ورحمت اور بلندیٔ درجات کی دعا کی جائے۔ سو اس کا اہتمام انفرادی واجتماعی طور پر کیا گیا۔
احسان اللہ بٹ صاحب 1951ء میں ایک مردِ درویش اور مرنجاں مرنج بندۂ مومن جناب فضل کریم بٹ صاحب کے ہاں پیدا ہوئے۔ احسان اللہ بٹ صاحب کی طرح ان کے والدین بھی انتہائی شریف النفس اور صاحبِ کردار تھے۔ البتہ وہ بٹ صاحب کے علی الرغم کم گو مگر بٹ صاحب کی طرح شیریں مقال تھے۔ احسان اللہ صاحب پانچ بھائی تھے اور چار بہنیں۔ فضل کریم صاحب اتنے بڑے کنبے کو محنت مزدوری سے پالتے رہے، مگر انھوں نے اس بات کا ہمیشہ اہتمام کیا کہ ان کے رزق میں کوئی پائی دھیلا حرام کمائی کا داخل نہ ہوجائے۔ وہ قناعت پسند بھی تھے اور محنتی بھی۔ اپنی جوانی کے دور میں بلوچستان کے علاقہ مچھ میں لوہے کے صندوق، پیٹیاں اور سوٹ کیس وغیرہ بنایا کرتے تھے۔ ان کا کاروبار بہت اچھا چلتا رہا۔ بعد میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ اپنے علاقے میں منتقل ہوجائیں۔ غالباً ایوب خان کا مارشل لا لگنے کے بعد کا دور تھا کہ مرحوم اپنا کاروبار سمیٹ کر لالہ موسیٰ میں آگئے۔ رشتہ داروں، جماعتی احباب اور دوستوں کے مشورے سے نئے سرے سے تجارت کے میدان میں اترنے کا فیصلہ کرکے الیکٹرانک کا شعبہ منتخب کیا۔ لالہ موسیٰ مین بازار میں اچھی جگہ پر دکان حاصل کی اور واشنگ مشینوں اور متعلقہ دیگر برقی آلات کی تجارت کرنے لگے۔
فضل کریم صاحب کے بیٹے احسان اللہ، ضیاء اللہ، عظمت اللہ، زبیربٹ اور اجمل ندیم مختلف کلاسوں میں سکول اور کالج میں زیرتعلیم تھے۔ وہ ان سب کو نیکی اور سچائی کی تعلیم بھی دیتے اور پڑھائی میں توجہ سے مصروف رہنے کی تلقین بھی فرماتے۔ احسان اللہ بٹ صاحب مرحوم کے بقول ان کے والد اتنے حلیم الطبع تھے کہ سخت سے سخت بات بھی نہایت نرم لہجے میں فرمایا کرتے تھے۔ راقم الحروف نے بھی مرحوم کو قریب سے دیکھا تو واقعتا وہ ایسی ہی پیاری شخصیت کے مالک تھے۔ مجھے ان کے جنازے میں شرکت کی سعادت ملی تو اس موقع پر بھی میں نے ان کی ان صفات کا تذکرہ کیا۔ شیخاں والے قبرستان لالہ موسیٰ میں یہ بہت بڑا جنازہ تھا۔ جنازے کے بعد کئی لوگوں نے مجھ سے مرحوم کے بارے میں ان کی مزید خوبیوں کا تذکرہ کیا۔ وہ جماعت کے پروگراموں میں تشریف لاتے تھے۔ خاموشی سے پروگرام سنتے اور پروگرام کے آخر میں سب سے مصافحہ کرکے اپنے گھر کو روانہ ہو جاتے۔ کم گو اور حلیم الطبع بزرگ تھے۔ جماعت کے زیرانتظام جامع مسجد تھڑے والی میں نمازِ جمعہ میں وہ سب سے پہلے آنے والے نمازیوں میں سے ہوتے تھے۔
احسان اللہ بٹ صاحب نے بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ اسی طرح ان کے دیگر بھائیوں نے بھی اپنی اپنی استطاعت اور ذوق کے مطابق تعلیم کے مرحلے مکمل کیے۔ اپنے دورِ طالب علمی میں احسان اللہ مرحوم نے اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ بطور رکن اور مقامی وضلعی ناظم بہت سرگرمی سے تمام اہم تعلیمی اداروں میں جمعیت کا نظم قائم کرنے کی کوشش کی۔ وہ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد بھی اسلامی جمعیت طلبہ کی تنظیم اور ارکان وکارکنان کے ساتھ قلبی تعلق رکھتے تھے۔ مرحوم اسلامی جمعیت طلبہ کے پروگراموں میں بعد کے دور میں بھی جب جماعتی ذمہ داریاں ان پر آ پڑی تھیں، شرکت کرتے اور درس قرآن یا دیگر موضوعات پر نوجوانوں کی تربیت کا اہتمام کرتے۔ احسان اللہ بٹ صاحب کے چوتھے نمبر پر چھوٹے بھائی زبیر بٹ جہاد کشمیر میں شہید ہوئے تھے۔ ان کی شہادت پر پورے خاندان کا صبر دیدنی تھا۔ کشمیر سے ان لوگوں کا خاندانی تعلق بھی ہے اور اخوت اسلامی سے بھی یہ پورا خاندان مالامال ہے۔ احسان اللہ صاحب کے دوسرے نمبر پر بھائی ضیاء اللہ بٹ گوجرانوالہ میں مقیم ہیں جبکہ عظمت اللہ اور اجمل ندیم لالہ موسیٰ میں مقیم ہیں اور اپنا کاروبار کرتے ہیں۔
1984ء کے آغاز میں جماعت اسلامی کی رکنیت کے لیے درخواست دی۔ رکنیت کی درخواست میں اپنا نام محمداحسان اللہ لکھا۔ اس کے ساتھ بٹ کا لاحقہ نہ تھا۔ وہ اپنی پہچان اپنی قوم قبیلے کی بجائے تحریک اسلامی کو بنانا چاہتے تھے۔ جب بھی کبھی تعارف کراتے تو محمداحسان اللہ کے بعد بٹ کم ہی استعمال کرتے تھے۔ چونکہ جماعتی قیادت میں آنے کے بعد ان کا نام اخبارات ورسائل میں بھی آنے لگا اور ایک وسیع حلقہ ان سے متعارف ہوا۔ ان کا نام لکھنے اور چھاپنے والے ضرور ساتھ بٹ لگاتے تھے۔ اس لیے کبھی مجبوراً کسی سے تعارف کراتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ بٹ استعمال کرلیتے تھے۔ ایک دور میں جماعت اسلامی کی ضلعی قیادت میں بہت سے بٹ برادران پر مختلف اضلاع میں امارت کی ذمہ داریاں ڈالی گئیں۔ لاہور میں حافظ سلمان بٹ، راولپنڈی میں محمدعباس بٹ، گوجرانوالہ میں بلال قدرت بٹ اور ان سے قبل امان اللہ بٹ، ضلع ناروال میں انوارالحق بٹ، گجرات میں احسان اللہ بٹ۔
کچھ دوستوں نے شوریٰ کے اجلاس کے دوران چائے کے وقفے میں ازراہِ مذاق کہا کہ اب تو جماعت پر بٹوٹ کا غلبہ ہوگیا ہے۔ اس پر سبھی شرکا بالخصوص بٹ حضرات بہت محظوظ ہوئے، مگر احسان اللہ بٹ صاحب نے کہا کہ میرے نام کے ساتھ جماعت کے ریکارڈ میں بٹ لکھا ہوا نہیں ہے۔ ان کی وفات پر جب ہم نے ریکارڈ چیک کیا تو ان کی درخواست رکنیت اور گوشوارے پر واقعی صرف محمداحسان اللہ لکھا ہوا تھا۔ احسان اللہ صاحب کے بعد آنے والے امرا میں سے گجرات کے ایک ضلعی امیر ڈاکٹر طارق سلیم صاحب ہیں۔ وہ بھی بٹ ہیں، مگر کمال ہے کہ ان کے بارے میں کسی کو علم ہی نہیں کہ وہ بٹ ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ قبیلہ برادری پہچان اور تعارف کے لیے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ البتہ یہ تفاخر کا ذریعہ نہیں ہونا چاہیے۔
؎ بندۂ عشق شدی ترکِ نسب کن جامی
کاندریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست
احسان اللہ صاحب 30جولائی 1984ء کو جماعت کے رکن بنے اور کچھ ہی عرصے کے بعد لالہ موسیٰ میں مقامی جماعت کی تنظیمی ذمہ داریاں بھی ان پر ڈال دی گئیں، جنھیں وہ بہت خوش اسلوبی سے ادا کرتے رہے۔ بٹ صاحب نے تلاش معاش کے لیے ایڈورٹائزنگ کا ایک ذاتی شعبہ قائم کیا۔ اس کے اہتمام سے مختلف اداروں کی مصنوعات اور دیگر سرگرمیوں کے حوالے سے ان سے اشتہار حاصل کرکے ’’اردو ڈائجسٹ‘‘ اور دیگر اخبارات ورسائل کو دیتے اور کمیشن حاصل کرکے گزر اوقات کرتے۔ اسی سلسلے میں وہ مختلف شہروں میں اسلام آباد سے کراچی تک اور پشاور سے کوئٹہ تک سفر بھی کیا کرتے تھے۔ کمال ہے کہ اس کے ساتھ جماعت کو بھی وقت دینا اور اپنے ذمے لگنے والی کسی ذمہ داری میں کوتاہی نہ پرتنا اس بندۂ مومن کا شیوہ تھا۔ کاروبار کے سلسلے میں جس شہر میں بھی جاتے، تحریکی ساتھیوں کا پتا چلاتے اور اپنے ذاتی کاروبار کے ساتھ جماعت اور تحریک کے کاموں کی بھی تفصیلات معلوم کرتے۔ اسی وجہ سے ان کے دیگر صوبوں میں بھی تحریکی ساتھیوں کے ساتھ قریبی روابط تھے۔ ایسا ذوق اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو عطا فرمائے وہ اپنی جماعتوں اور تحریکوں کے لیے انمول سرمایہ ہوتے ہیں۔
احسان اللہ صاحب نے جماعت اسلامی گجرات کے ضلعی نظم میں بطور نائب قیم، قیم اور پھر کئی سالوں تک امیر ضلع کی حیثیت سے مثالی کام کیا۔ ضلع گجرات کا کوئی دور دراز گاؤں ایسا نہیں ہوگا جہاں مرحوم نے کوئی نہ کوئی پروگرام پیش نہ کیا ہو۔ وہ بہترین مدرس قرآن اور مربی تھے۔ مرکزی شوریٰ کی قائم کردہ تربیتی کمیٹی کی سربراہی کئی سالوں تک میرے سپرد رہی۔ اس عرصے میں بعض میقاتوں میں بٹ صاحب کمیٹی کے باقاعدہ رکن رہے اور بہت ہی مفید مشوروں سے ارکانِ کمیٹی کو نوازتے رہے۔ جب انھیں شوریٰ میں کمیٹی کی رکنیت کے لیے نامزد نہ کیا گیا تو بھی ہم ان سے استفادے کے لیے کمیٹی کے اجلاسوں میں خصوصی دعوت پر شرکت کے لیے انھیں بلالیتے۔ تربیت ان کا من پسند موضوع تھا۔ اس کے لیے انھوں نے کئی پیپرز بھی تیار کررکھے تھے۔ گجرات کے ارد گرد مختلف اضلاع میں جماعت اور جمعیت کی تربیت گاہوں میں اکثر انھیں مربی کے طور پر دعوت دی جاتی اور وہ اپنی کمزور صحت اور مصروفیات کے باوجود ہر جگہ پہنچتے۔
بٹ صاحب جماعت اسلامی ضلع گجرات کے امیر مقرر ہوئے تو مرکزی شوریٰ میں بھی منتخب ہوئے۔ بعد میں وہ اگرچہ امیرضلع نہیں رہے مگر کئی مرتبہ مرکزی اور صوبائی شوریٰ کے انتخابات میں ان کے حلقے کے ارکان انھیں منتخب کرتے رہے۔ شوریٰ کے اجلاسوں میں چند ہی ارکان اپنی نوٹ بک صحیح معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ بٹ صاحب کا مستقل وطیرہ تھا کہ وہ امیر جماعت سے لے کر دیگر ارکان شوریٰ تک سب کے خطابات پوری توجہ سے سنتے اور اپنی نوٹ بک میں اہم نکات لکھتے چلے جاتے۔ جب کبھی شوریٰ میں خطاب کرتے تو اپنی ہر بات صاف پیرائے اور واضح دلائل کے ساتھ پیش کرتے۔ زندگی کے آخری لمحے تک وہ مرکزی اور پنجاب کی صوبائی شوریٰ کے رکن تھے۔
بٹ صاحب نے جماعت میں شامل ہونے کے بعد خود کو مکمل طور پر نظم جماعت کے سپرد کردیا تھا۔ جو ذمہ داری اور خدمت ان کے سپرد کی جاتی اس کا حق ادا کرنے کے لیے اپنے کام میں جت جاتے۔ جب امارتِ ضلع گجرات سے فارغ ہوئے تو صوبائی نظم نے ان کو ایک مشکل مگر اہم ذمہ داری گجرات سے باہر سونپ دی۔ گجرات کے ہمسایہ ضلع جہلم میں بطور امیر ضلع ان کا تقرر کیا گیا۔ اس زمانے میں ضلع جہلم میں کچھ عرصے سے باہمی اختلافات کی وجہ سے جماعتی کام خاصا متاثر ہوگیا تھا۔ کچھ ساتھیوں کے اخراج اور استعفے بھی عمل میں آئے۔ اس کے باوجود حالات میں زیادہ بہتری پیدا نہ ہوسکی۔ ضلع جہلم کے تمام ساتھیوں کو اعتماد میں لے کر صوبائی نظم نے مشاورت سے فیصلہ کیا کہ کچھ عرصے کے لیے احسان اللہ بٹ صاحب جہلم منتقل ہوجائیں، انھیں پہلے عارضی امیر ضلع مقرر کیا گیا۔ پھر استصواب کے بعد ارکان کی رائے کی روشنی میں مستقل امیر ضلع کی ذمہ داری ان پر ڈالی گئی۔
مرحوم نے ضلع جہلم کے ہر گاؤں، قصبے اور ڈھوک تک دورے کیے۔ جماعت کے غیر فعال ارکان وکارکنان سے ذاتی ملاقاتیں کیں اور کام میں بہتری کے لیے دن رات ایک کردیا۔ کئی سردیوں اور گرمیوں کی مشکل راتیں دور دراز دیہاتوں میں قیام کیا اور پوری توجہ اور دل جمعی کے ساتھ کارکنان وذمہ داران کو فعال کردار ادا کرنے کی ترغیب دی۔ وہ شہد کی مکھی کی طرح اپنی اپنے کام میں پوری لگن کے ساتھ لگ جاتے اور شہد کی مکھی ہی کی طرح دور دراز کے سفر کرکے اپنے چھتے میں شہد جمع کرتے۔ اسی عرصے میں بٹ صاحب کو ہیپاٹائٹس کا مرض لاحق ہوگیا۔ ان کا علاج معالجہ شروع تھا، مگر اس کے باوجود وہ اپنی استطاعت کے مطابق تحریکی سرگرمیوں میں شرکت فرماتے تھے۔ میرے بعد جب لیاقت بلوچ صاحب امیر صوبہ مقرر ہوئے تو نظم صوبہ نے احسان اللہ مرحوم کی ذمہ داری بطور نائب قیم صوبہ پنجاب میں لگا دی۔ اب ان کا قیام بھی صوبائی دفتر میں ہوتا تھا۔ لیاقت صاحب امیر صوبہ تھے اور وقاص انجم جعفری صاحب قیم صوبہ کی ذمہ داری پر فائز تھے۔ پورے صوبے کو تین انتظامی اکائیوں میں تقسیم کرکے ہر ایک علاقے کے لیے ایک نائب امیر صوبہ کا تقرر کیا گیا۔ اس عرصے میں بٹ صاحب کو نائب امیر صوبہ اظہراقبال حسن صاحب کے ساتھ بطور نائب قیم ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
بٹ صاحب اس دور میں علاج معالجے کی وجہ سے پرہیزی کھانا کھاتے تھے۔ اس عرصے میں جب منصورہ میں ہوتے تو دونوں وقت کھانا ہمارے ہاں آکر تناول فرماتے۔ میرے بیٹے داؤد ادریس کے ساتھ ویسے بھی بہت پرانا تعلق اور دوستی تھی اور صوبے میں بھی دونوں مختلف شعبوں میں ذمہ داریاں ادا کررہے تھے۔ داؤد میاں نے بٹ صاحب کو پابند کیا کہ وہ گھر پر آکر کھانا کھایا کریں کیونکہ مہمان خانے میں پرہیزی کھانے کا اہتمام ممکن نہیں۔ بٹ صاحب نے اس پیش کش کو خوش دلی سے قبول فرمایا اور اپنے قیام کے دوران کھانے کے لیے تشریف لاتے رہے۔ مرحوم ویسے بھی بہت محبت کرنے والے اور ہر ایک کے دل میں گھر کر لینے والے مخلص مومن تھے۔ اس آمدورفت کے نتیجے میں ہمارے گھر میں چھوٹے بچوں سے اتنے مانوس ہوگئے کہ سبھی ان کی آمدکا انتظار کرتے رہتے۔ خاص طور پر میرے نواسے محتشم لبیب سے بڑی گہری دوستی ہوگئی۔
محتشم اس وقت چار پانچ سال کا تھا۔ اب تک بٹ صاحب کی یادوں کو بھولا نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً انھیں تازہ کرتا رہتا ہے۔
بٹ صاحب کی بیماری علاج معالجے کے بعد کافی حد تک کنٹرول ہوگئی تھی اور وہ اپنے جماعتی اور ذاتی کاموں میں یکسوئی کے ساتھ مصروف تھے۔ آخری ایام میں طبیعت پھر کچھ مضمحل ہوئی۔ تکلیف کے باوجود گوجرانوالہ میں درس قرآن کے لیے جو وقت دیا ہوا تھا اس کے لیے روانہ ہوئے۔ درس کے دوران طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو اللہ کا یہ درویش بندہ اسی دوران اللہ کو پیارا ہوگیا۔ حق تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ ایسے بے لوث لوگ اس دور میں ناپید ہوتے جارہے ہیں۔
بٹ صاحب کی شادی ان کے خاندان میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے بٹ صاحب کو تین بیٹے عزیزانِ گرامی علی، سعد اور معاذ عطا فرمائے۔ سب کے نام عظیم صحابۂ رسولؐ کے اسمائے گرامی کے ناموں پر رکھے۔ وہ اپنے بچوں کو ان کے نام کے تناظر میں بچپن ہی سے ان عظیم شخصیات کے حالات وواقعات سناتے جن کے اسمائے گرامی پر انھوں نے یہ نام رکھے گئے۔ ماشاء اللہ ان کے سبھی بچے نیک اور شریف النفس ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بیٹوں کی طرح بٹ صاحب کو تین ہی بیٹیاں بھی عطا فرمائیں۔ تینوں بیٹے اور دو بیٹیاں شادی شدہ ہیں۔ چھوٹی بیٹی اسلام آباد یونی ورسٹی میں سافٹ ویئر کے شعبے میں زیر تعلیم تھی۔ بٹ صاحب کے آخری دنوں میں اس نے امتحان میں شان دار کامیابی حاصل کی اور اس کے کانووکیشن کی تاریخ بھی طے ہوگئی۔ بٹ صاحب کو بڑا اشتیاق تھا کہ بیٹی کے کانووکیشن میں شرکت کریں گے، مگر اللہ کو یہ منظور نہ تھا۔ بٹ صاحب مرحوم کے بارے میں ان کے تمام ساتھی بخوبی جانتے ہیں کہ وہ بااصول مرد مومن تھے۔ ایفائے عہد میں مثالی کردار رکھتے تھے۔ جہاں کبھی وقت دیا، جتنی بھی مشکلات حائل ہوئی ان کی پروا کیے بغیر وعدے کے مطابق پروگرام میں پہنچے۔ ان کے چھوٹے بیٹے عزیزم حافظ معاذ نے اپنے دورِ طالب علمی کا ایک واقعہ مرحوم کی وفات کے بعد بیان کیا۔ وہ کہتا ہے کہ میں جہلم کے ایک مدرسے میں حفظ قرآن کے لیے زیرتعلیم تھا۔ والد محترم ایک پروگرام میں شرکت کے لیے تشریف لائے۔ میں نے عرض کیا: ’’مجھے واپسی پر گھر لے جائیں۔ امی اور بہن بھائیوں سے اداس ہوں، والد صاحب نے وعدہ کیا کہ واپسی پر وہ ساتھ لے جائیں گے۔ میں رات ایک بجے تک انتظار کے بعد مایوس ہوا اور روتے روتے سوگیا کہ ابو جی نے میرے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے، لیکن رات ڈیڑھ بجے کے قریب مجھے کسی نے جھنجھوڑ کر جگایا۔ دیکھا تو والد محترم تھے۔ فرمانے لگے: بیٹا! پروگرام کے بعد میں آپ کو ساتھ لے جانا بھول گیا، جوں ہی لالہ موسیٰ گھر کے دروازے تک پہنچا تو معاً اپنا وعدہ یاد آگیا۔ اسی وقت گھر جانے کی بجائے بس پکڑی اور جہلم آیا تاکہ بیٹے سے وعدہ ایفا کرسکوں۔ گو ان کے لیے مشکل نہ تھا کہ دن بھر کے سفر اور رات گئے جاگنے کے بعد گھر میں جاکر سوجاتے، مگر ان کی تربیت اور اخلاق نے وعدہ خلافی کو برداشت نہ کیا۔‘‘
بٹ صاحب کے بیٹے رزق حلال کمانے کے لیے خوب محنت کرتے ہیں۔ وہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں کام کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنی ٹرانسپورٹ بنا رکھی ہے اور کراچی میں ان کا کاروبار ہے۔ لالہ موسیٰ میں بٹ صاحب کا اپنا گھر موجود ہے۔ ان کی اہلیہ لالہ موسیٰ ہی میں مقیم ہیں۔ اللہ ان کے جملہ اہل وعیال کو سلامت رکھے اور اپنے عظیم بزرگ کے نقشِ پا پہ چلنے کی توفیق بخشے۔
اس دنیا سے ہر ایک کو چلے جانا ہے۔ احسان اللہ مرحوم جیسے انسان اپنے پیچھے بہت نیکیاں چھوڑ جاتے ہیں جو ان کی وفات کے بعد بھی ان کے نامۂ اعمال میں اضافے اور خیر کا باعث بنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے شہید بھائی اور متقی والدین کے ساتھ جنت میں اعلیٰ درجات سے نوازے۔

حصہ