بجائے خود اور بذاتِ خود

685

پچھلے شمارے میں ہم نے ماہرینِ لسانیات کے لیے ایک سوال چھوڑا تھا کہ ’’خاکساری ہوسکتا ہے تو انکساری کیوں نہیں؟‘‘ اس پر سب سے پہلے تو میرپور آزاد کشمیر کے اہلِ علم پروفیسر غازی علم الدین کا ٹیلی فون آیا اور انہوں نے بڑی وضاحت سے بتایا کہ انکساری کیوں غلط ہے۔ ان کی پوری گفتگو علمی تھی، اور علمی باتیں ہمیں یاد رہ جاتیں تو آج ہم خود پروفیسر علم الدین ہوتے۔ چنانچہ ان سے گزارش کی کہ یہ باتیں لکھ بھیجیں تو ان کی اشاعت سے دوسروں کا بھی بھلا ہوگا۔ اگلے ہی دن دبئی کے عبدالمتین منیری کی ’’گزرگاہِ خیال‘‘ سے گزرتا ہوا امریکہ سے جناب سید محسن نقوی کا جامع اور مختصر تبصرہ آگیا۔ وہ لکھتے ہیں ’’جو بات آپ لفظ انکساری سے ادا کرنا چاہ رہے ہیں وہ مطلب لفظ انکسار سے ادا ہوا جارہا ہے، لہٰذا وہاں یاے نسبتی سے مطلب میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔ یہ ہے اس سوال کا جواب۔ دوسرے یہ کہ خاکساری کی یاے نسبتی کا اضافہ گرامر کے اعتبار سے بالکل درست ہے کیونکہ خاکسار اسم صفت ہے۔ اس سے اسم معنوی بنایا گیا تو اس میں یاے نسبتی کا اضافہ ہوا۔ لفظ انکسار خود اسم معنوی ہے۔ اصل میں تو انکسار مصدر ہے۔ (کیا اس کا مصدر کسر نہیں ہے؟) تیسرے یہ کہ خاکسار فارسی ہے اور انکسار عربی۔ یوں عربی اور فارسی کی گرامر کو ملغوبہ نہیں بنایا جاسکتا۔‘‘
سید محسن نقوی کا شکریہ۔ خوشی اس بات کی ہے کہ امریکہ میں بھی ماہرینِ لسانیات موجود ہیں۔ یاے نسبتی پر خیال آیا کہ ہم لوگوں نے ’’چشم‘‘ کی مونث بھی بنالی ہے، اور اگر لڑکی کا ذکر ہو تو بڑے اہتمام سے ’’نورِچشمی‘‘ کہا اور لکھا جاتا ہے، حالانکہ نورِ چشم فرزند و دختر دونوں کے لیے استعمال کرنا چاہیے، مگر ہم نے ’’چشمی‘‘ بنالیا۔ اس میں بھی ’نور‘ عربی اور ’چشم‘ فارسی کا ہے۔ عربی میں نورالعین یعنی آنکھ کا نور کہا جاتا ہے۔ عربی میں اگر ’’عینی‘‘ کہیں تو اس کا مطلب ہے میری آنکھ۔ عربی میں ’ی‘ لگا کر چیزیں اپنالی جاتی ہیں جیسے کتابی، قلمی، عزیزی، ولدی وغیرہ۔ یہ ترکیب چشمی میں نہیں چلے گی۔ برسبیلِ تذکرہ عربی میں عین نہر کو بھی کہتے ہیں۔ ملکہ زبیدہ کی بنوائی ہوئی نہر اب بھی ’’عین زبیدہ‘‘ کہلاتی ہے اور اس کے کچھ آثار باقی ہیں۔ اتفاق ہے کہ اگر عربی میں نہر کے لیے عین ہے تو فارسی میں چشمہ ہے۔
پروفیسر غازی علم الدین نے اثنائے گفتگو توجہ دلائی کہ عُمرانیات اور معاہدہ عُمرانی میں ’ع‘ پر پیش ہے، یعنی عُمرانیات۔۔۔ عِمران (’ع‘ بالکسر) ایک الگ لفظ ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عِمران تھا، اور آج کل عمران خان دھوم مچارہے ہیں، بغیر عصا کے۔ پروفیسر غازی علم الدین نے بتایاکہ مقدمہ تاریخ ابن خلدون میں بار بار عُمرانیات اور معاہدہ عُمرانی کا ذکر ہے۔ ابن خلدون کو فنِ عمرانیات کا بانی کہا جاتا ہے۔ غازی علم الدین کے مطابق ابن خلدون نے عمرانیات پر بہت واضح طور پر پیش لگایا ہے۔ لیکن ہمارے پاس جو نسخہ ہے وہ نفیس اکیڈمی، کراچی کا شائع کردہ ہے، ترجمہ مولانا راغب رحمانی دہلوی کا ہے اور اس پر تقریظ شعبۂ عمرانیات کے پروفیسر ڈاکٹر بشارت علی نے لکھی ہے۔ لیکن اس نسخے میں کہیں بھی عمرانیات یا معاہدہ عمرانی کی ’ع‘ پر پیش لگانے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ غازی علم الدین کے، توجہ دلانے پر، دستیاب لغات میں بھی دیکھا۔ فرہنگِ آصفیہ میں تو یہ لفظ ہی نہیں ہے، اور جہاں ہے وہاں ’ع‘ پر پیش لگانے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔ چنانچہ بابائے اردو کی انگریزی اردو لغت دیکھی۔
خدا بھلا کرے وہاں بابا جی نے یہ اہتمام کیا ہے اور سوشل کانٹریکٹ اور SOCIALITY کے ترجمے میں معاہدہ عُمرانی اور عُمرانیات میں ’ع‘ بالضم کا اہتمام ہے۔ ہمیں علم کے غازی جناب علم الدین کی بات پر اعتبار تھا اور اس جستجو کا مطلب بے اعتباری نہیں بلکہ اس بہانے ایک بار پھر مقدمہ ابن خلدون ہاتھ میں آگیا۔ غازی صاحب سے ایک بار پھر گزارش ہے کہ وہ اپنے علم کے کچھ قطروں سے ہمارے قارئین کو بھی فیض یاب کردیں۔ پروفیسر صاحب کی اپنی تصنیف ’’میثاقِ عُمرانی‘‘ پر ’ع‘ پر پیش ہے تاکہ لوگ تصحیح کرلیں۔
علاوالدین لکھنے پر ہم دوسروں کو ٹوکتے رہے کہ اس میں ’و‘ نہیں آتا، لیکن جسارت کی7 اپریل کی اشاعت میں صنعت و تجارت کے صفحے پر چارکالمی سرخی میں یہ ’’والدین‘‘ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک مضمون میں دلچسپ ترکیب نظر سے گزری ’’آبدیدہ آنکھیں‘‘۔ فاضل مضمون نگار کو غالباً دیدہ کا مطلب معلوم نہیں اور وہ آبدیدہ کو ایک ہی لفظ سمجھ بیٹھے۔ اخبارات میں ایک غلطی بہت عام ہے مثلاً ’’شاگردوں کی بڑی تعداد کام کرتے ہیں‘‘۔ جب تعداد کا لفظ آگیا تو آخری حصہ اسی نسبت سے آئے گا یعنی ’’کام کرتی ہے‘‘۔ یہ ایسی غلطیاں ہیں جن پر ہمارے صحافی بھائی ذرا سی توجہ دے کر بچ سکتے ہیں، لیکن بچنا کون چاہتا ہے۔ اب تو ’’بالکل‘‘ بھی جس طرح بولا جاتا ہے اسی طرح یعنی بلکل لکھا بھی جانے لگا ہے۔ اخبارات میں ’’ناجائز تجاوزات‘‘ بھی عام ہے۔ ارے بھائی‘ تجاوزات تو ناجائز ہی ہوں گی، ورنہ جائز ’’تجاوزات‘‘ بھی ہونی چاہئیں۔ ایک کثیر الاشتہار اخبار میں منگل کی اشاعت میں ’’پیشہ وارانہ‘‘ نظر سے گزرا۔ یہ غلطی صرف ایک اخبار تک محدود نہیں، جسارت میں بھی ہوتی ہے اور اس کا آغاز اردو نیوز ایجنسی سے ہوتا ہے۔ ڈیسک پر بیٹھے ہوئے سب ایڈیٹرز تصحیح کیے بغیر خبر کو آگے بڑھادیتے ہیں۔ کئی بار پوچھا کہ میاں اگر پیشہ وارانہ درست ہے تو پیشہ وار بھی ہوگا۔
ایک اور چیز کتابوں میں بھی نظر آرہی ہے’’این دعا از من و از جملہ جہاں آمین آباد‘‘۔ یا خیر آباد کہہ دیا۔
ہمارے خیال میں دونوں جگہ آباد کی جگہ ’’باد‘‘ ہونا چاہیے۔ وقتِ رخصت خیرباد کہنا اردو کا محاورہ ہے۔ آباد کا مطلب معروف ہے یعنی معمور، بھرا ہوا، آبادی والا وغیرہ۔
ڈاکٹر رؤف پاریکھ اردو کے استاد ہیں اور ماہرینِ لسانیات میں ایک بڑا نام ہے۔ ہم بھی ان کے خوشہ چیں ہیں۔ ان کی 31 کتابیں تو شائع ہوچکی ہیں اور بعید نہیں کہ اتنی ہی پال میں لگی ہوئی ہوں۔ ان کی کتاب ’’علم لغت، اصولِ لغت اور لغات‘‘ اپنے موضوع پر ایسی کتاب ہے جس سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں ’’یہ بذاتِ خود ایک مفصل مقالے کا موضوع ہے۔‘‘ (صفحہ 81) ان جیسے ہی کسی استاد نے بتایا تھا کہ اگر کسی بے جان چیز کا ذکر ہو تو اس کے لیے بہتر ہے کہ بذاتِ خود کی جگہ ’بجائے خود‘ استعمال کیا جائے، مثلاً ’’میں بذاتِ خود اس بات کا قائل ہوں کہ علم بجائے خود بیش بہا دولت ہے۔‘‘ ہمارا خیال ہے کہ کمی کی جمع ’کمیوں‘ درست تو ہے لیکن فصاحت کے مطابق نہیں۔ پنجاب میں تشدید کے ساتھ کمّی اور کمّیوں نچلے درجے کا کام کرنے والوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور عموماً کمی، کمین کہا جاتا ہے۔ کچھ مقامات پر کمیوں کی جگہ واحد کمی استعمال کرنے میں مضائقہ نہیں۔ واللہ اعلم۔
nn

حصہ