(امام کعبہ صالح بن ابراہیم کی خصوصی شرکت(عالمگیر آفریدی

297

جمعیت العلماء اسلام (ف) کا تین روزہ اجتماع اس تجدیدِ عہد اور عزم کے ساتھ اختتام پذیر ہوا کہ جنگ و جدل کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، پاکستان کا مستقبل جمہوریت اور جمہوری جدوجہد سے وابستہ ہے۔ شریعت تنگ دلی اور نفرت کا نام نہیں ہے بلکہ یہ کشادہ دلی، امن اور سلامتی سے ماخوذ ہے۔
تین دن تک جاری رہنے والا یہ اجتماع کئی حوالوں سے انفرادیت اور خصوصیت کا حامل تھا۔ اجتماع کے انتظامات اور اس میں لاکھوں افراد کی شرکت اور نظم وضبط سے لے کر امامِ کعبہ الشیخ صالح بن ابراہیم آلِ طالب کی شرکت اور نمازِ جمعہ کا خطبہ اور امامت کے علاوہ ملک بھر کے چوٹی کے سیاسی راہنماؤں کی شرکت نے اس اجتماع کو یقیناًایک تاریخی اجتماع بنادیا ہے۔ خطبۂ جمعۃ المبارک میں امام کعبہ نے جس دردِ دل کے ساتھ مسلمانوں کی حالتِ زار اور امتِ مسلمہ کو درپیش مسائل پر کھل کر گفتگو کی اور مسلمانوں کی زبوں حالی پر جس پریشانی کا اظہار کیا وہ نہ صرف شرکاء اجتماع کے جذبات کی ترجمانی تھی بلکہ یہ پوری امت کے احساسات کا اظہار بھی تھا۔ امام کعبہ کا خطبہ جمعۃ المبارک سننے اور اُن کی اقتداء میں نماز جمعہ پڑھنے کے شوق اور جستجو میں صوبے کے طول وعرض سے لوگ سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر جس والہانہ انداز میں اجتماع گاہ پہنچے وہ منظر یقیناًدیدنی تھا۔ اس جذباتی منظر نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کردی کہ پاکستان کے لوگ بالعموم اور خیبر پختون خوا کے رہنے والے بالخصوص اسلام، مقدس اور نیک ہستیوں سے جو عقیدت اور محبت رکھتے ہیں وہ ساری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ شاید اس عقیدت اور جذبات کا اظہار ہی تھا کہ امام کعبہ الشیخ صالح بن ابراہیم آلِ طالب کو یہ محبت اجتماع کے پہلے روز کے ساتھ آخری دن اختتامی دعا اور نمازِ ظہر میں دوبارہ شرکت کے لیے بھی کھینچ لائی، بلکہ ان سے دیگر مذہبی جماعتوں کے قائدین نے بھی خصوصی ملاقاتیں کیں جن میں جمعیت اہلحدیث اور جماعت اسلامی کے راہنما بھی شامل تھے۔ امام کعبہ نے جماعت اسلامی کی دعوت پر جامع مسجد منصورہ میں نمازِ فجر کی امامت بھی کرائی جس میں جماعت کے مرکزی امیر سراج الحق کے علاوہ جماعت کے کارکنان نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اپنے ساتھ اہلِ پاکستان کی محبت دیکھ کر اُن کا یہ کہنا بے جا نہیں تھا کہ وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں اور انہیں یہاں جو پذیرائی اور محبت ملی ہے اُس پر وہ اہلِ پاکستان کے دل سے مشکور ہیں۔
مولانا فضل الرحمن جن کا اپنی منفرد شخصیت اور سیاسی اپروچ کے باعث پاکستان کے چند سرکردہ سیاست دانوں میں شمار ہوتا ہے، کی یہ خوبی ہے کہ وہ ہر طرح کے حالات سے سمجھوتا کرنے کی نہ صرف صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ اپنے کسی بھی بظاہر غیر مقبول فیصلوں کے حق میں مضبوط دلائل اور دوسروں کو قائل کرنے کا خداداد ملکہ بھی حاصل ہے۔ اس اجتماع کے ذریعے انھوں نے امت کی یکجائی اور نفرتوں کے خاتمے کا جو واضح پیغام دیا ہے وہ یقیناًان ہی کا خاصہ ہے۔ امام کعبہ کے علاوہ مذہبی جماعتوں اور دوسرے مسالک کے علماء اور راہنماؤں کی شرکت کے ذریعے انھوں نے اتحادِ امت اور فرقہ واریت کے خلاف جمعیت (ف) کے پلیٹ فارم سے قوم اور عالم اسلام کو جو پیغام دیاہے، اس سے امتِ مسلمہ میں پائی جانے والی فرقہ وارانہ تفریق کے سدباب کے ساتھ ساتھ پُرامن جمہوری جدوجہد کی سوچ کو بھی تقویت ملے گی۔ اسی طرح اس اجتماع میں بشپ آف پاکستان کی شرکت اور خطاب کے علاوہ پیپلزپارٹی اور پختون خوا ملّی عوامی پارٹی جیسی سیکولر اور لبرل جمعیت(ف) کی سیاسی مخالف جماعتوں کے قائدین کو نہ صرف شرکت کی دعوت دی گئی بلکہ غیر روایتی طور پر ان کو اجتماع سے خطاب کا موقع بھی دیا گیا جو بجائے خود ایک طرف اس اجتماع کو حقیقی معنوں میں ایک قومی نوعیت کا پروگرام بنانے کا باعث بنا، تو دوسری طرف اس سے جمعیت (ف) اور بالخصوص مولانا فضل الرحمن کی لچک اور سیاسی لحاظ سے ان کی سوچ میں پائی جانے والی پختگی اور کشادہ دلی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی سیاست کے بعض پہلوؤں سے اختلاف کی بحث سے قطع نظر انھوں نے ماضی میں پیپلزپارٹی، سابق حکمران جنرل پرویزمشروف اور ان دونوں کی سیاسی مخالف مسلم لیگ (ن)کے ساتھ پچھلے چار سالوں سے جو کامیاب اتحاد قائم کررکھا ہے اس کا کریڈٹ یقیناًمولانا فضل الرحمن کو جاتا ہے۔ یہ مولانا کی اسی سوچ کا مظہر ہے کہ اضاخیل کے اجتماع میں اسٹیج پر ہمیں پیپلز پارٹی کے راہنما اور سینیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی، قومی اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ، مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین اور سینیٹ میں قائدِ ایوان راجا ظفرالحق اور پختون خوا ملّی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی ایک ساتھ بیٹھے نظر آئے۔ اجتماع میں اہلِ تشیع کے علامہ عارف حسین واحدی کے علاوہ اسلامی جمہوری ایران کے وفد کی شرکت کے ذریعے جمعیت (ف) کے پلیٹ فارم سے امتِ مسلمہ کے اتحاد اور یگانگت کا جو پیغام دیا گیا وہ بجائے خود ایک مثبت پیش رفت ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے اپنے کلیدی خطاب میں تمام فرقوں اور مسالک میں ہم آہنگی اور جمعیت(ف) کے دروازے تمام مکاتبِ فکر کے لیے کھولنے کا اعلان کرکے اِن دنوں عالم اسلام کو درپیش سب سے بڑے چیلنج سے عہدہ برا ہونے کا جو واضح وژن دیا ہے اس سے آنے والے دنوں میں پاکستان کے ساتھ ساتھ اس پورے خطے کے حالات پر یقیناًانتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ مولانا فضل الرحمن نے اس اجتماع میں بھارت، بنگلا دیش اور ایران سے مندوبین کی شرکت کے ذریعے پاکستان کے پڑوسی ممالک اور بالخصوص اجتماع سے قبل چین، امریکہ اور یورپی ممالک کے سفراء کے ساتھ ملاقات اور انہیں اجتماع میں شرکت کی دعوت کے ذریعے جمعیت (ف) کا جو سافٹ امیج دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس سے عالم اسلام کو شناخت کے اس بحرانی دور میں اسلام کا ایک مثبت رخ پیش کرنے میں یقیناًمدد ملے گی۔ مولانا نے بندوق اور طاقت کے بجائے افہام و تفہیم، ڈائیلاگ اور پُرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے اسلام کے نفاذ کا جو ایجنڈا پوری امت اور دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس سے اگر ایک جانب اسلام مخالف پروپیگنڈے اور متعصبانہ جذبات کے ازالے میں مدد ملے گی تو دوسری جانب امتِ مسلمہ میں پائی جانے
(باقی صفحہ 45)
والی مایوسی اور انتشار کے سدباب کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ مولانا اگر تھوڑی سی مزید لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمران خان یا وزیراعلیٰ پرویزخٹک کو بھی اجتماع میں شرکت کی دعوت دے دیتے تو اس سے ان کے قد کاٹھ میں یقیناًاضافہ ہوتا۔ البتہ اب جمعیت(ف) کی قیادت کے سامنے ایک اہم سوال یہ ہوگا کہ اس اجتماع کے ذریعے جمعیت(ف) اور اس کے پیغام کو جو پذیرائی ملی ہے اسے آنے والے عام انتخابات میں جمعیت (ف) کی بڑی انتخابی کامیابی کے لیے کیسے بروئے کار لایا جائے۔ کیونکہ بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں جمعیت(ف) کی بہتر پوزیشن کے باوجود اسے جب تک پنجاب اور سندھ میں بڑے پیمانے پر بریک تھرو حاصل نہیں ہوگا تب تک اس کے لیے ملکی سطح پر کوئی بڑا انتخابی معرکہ سرکرنا ممکن نہیں ہوگا۔

حصہ