دبستان کراچی کا نعتیہ منظر نامہ (صبیح رحمانی)

968

ہر اُمتی کے ساتھ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکا تعلق اجتماعی ہونے کے ساتھ ساتھ حد درجہ انفرادی بھی ہے۔ ہر ایک کی ذاتی خصوصیات، ان کی نسبت سے راستہ بھی پاتی ہیں اور مضبوط بھی ہوتی ہیں۔ یہی گوناگونی دبستانِ کراچی کی نعت گوئی میں بھی نظر آتی ہے۔ کہیں نعت اپنی ذات کی سا لمیت کا اظہا ر ہے، کہیں ملت کا استغاثہ ہے، کہیں فکر کا اشاریہ ہے اور کہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اور اپنے آپ سے گفتگو کا وسیلہ ہے۔ لیکن بیشتر شاعروں کے ہاں یہ رنگ ایک ساتھ نظر آتا ہے جس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ نعت گوئی سے شاعروں کی شخصیت میں بھی توسیع ہوئی ہے۔
سطورِ بالا میں دبستانِ کراچی کی نعت گوئی کا ایک مختصر منظرنامہ پیش کیا گیا اور اس ضمن میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان کا مقصد تفاخر نہیں بلکہ تعارف ہے اور وہ بھی بہت اجمالی۔ چلتے چلتے کراچی میں نعت کے نقد و نظر کے اور تحقیق و تجسس کے منظرنامے پر بھی ایک اُچٹتی سی نظر ڈالنا اس منظرنامے کو مکمل کرنے کے مترادف ہوگا۔
نعتیہ صحافت
کراچی کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ پاکستان میں باقاعدہ نعتیہ صحافت کا آغاز یہیں سے ہوا۔ 1984ء میں ادیب رائے پوری کی ادارت میں اوّلین ماہنامہ رسالہ ’’نوائے نعت‘‘ اشاعت پذیر ہوا جو 8 سال تک جاری رہا۔ بعدازاں شہزادؔ احمد کی ادارت میں ماہنامہ ’’حمد ونعت‘‘ کا اجراء 1990ء میں ہوا، یہ رسالہ 1996ء تک ہی اپنا سفر جاری رکھ سکا۔ 1995ء میں مجلہ ’’نعت رنگ‘‘ نے اپنے اشاعتی سفر کا آغاز کیاجو بحمداللہ اب تک جاری و ساری ہے۔ 1998ء میں مجلہ ’’جہانِ حمد‘‘ کی اشاعت شروع ہوئی۔ طاہر سلطانی کی ادارت میں شائع ہونے والے اس کتابی سلسلے نے حمدیہ ادب کے فروغ کے لیے کام کیا۔ 2001ء میں کتابی سلسلہ ’’سفیرِ نعت‘‘ کراچی کے نعتیہ ادب کے منظرنامے پر طلوع ہوا جس کے مدیر آفتاب کریمی تھے۔ اس کتابی سلسلے کے پانچ شمارے زیورِ طبع سے آراستہ ہوئے جس میں دو خاص نمبر تھے۔ ان میں محسن کاکوروی نمبر کو بہت اہمیت حاصل ہوئی۔ سفیر نعت کا اشاعتی سفر 2005ء میں اختتام پذیر ہوا۔ نوجوان نعت گو شاعر عزیزالدین خاکی کی ادارت میں مجلہ ’’دنیائے نعت‘‘ نے 2001ء میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اس مجلے کے تین ہی شمارے شائع ہو سکے اور یوں دنیائے نعت 2002ء تک اپنا یہ سفر جاری رکھ سکا۔
2004ء میں طاہر سلطانی کی زیر ادارت ایک ماہنامے کا اجرا ہوا جس کا نام ماہنامہ ’’ارمغانِ حمد‘‘ کراچی تھا۔ اس رسالے نے حمد و نعت کے فروغ میں ایک مثبت کردار ادا کیا اور اپنے اشاعتی سفر کو بھی مستحکم رکھا۔ 2011ء تک اس کے 85 شمارے شایع ہو چکے تھے۔ اب سنا ہے کہ اسے بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اور اس کا 100 واں شمارہ اس کا آخری شمارہ قرار دیا جارہا ہے جو نومبر 2016ء تک منظرعام پر نہیں آسکا۔2006ء میں نوجوان اور پُرعزم ثنا خواں محمدزکریا شیخ الاشرفی نے کتابی سلسلے ’’نعت نیوز‘‘ کا اجرا کیا۔ یہ مجلہ بنیادی طور پر نعت خوانی کے آداب اور سرگرمیوں سے متعلق رہا مگر اس میں نعتیہ ادب کے حوالے سے بھی کئی اہم چیزیں شامل ہوئیں۔ 2010ء تک اس کے پانچ شمارے شائع ہوئے بعدازاں اس کو سہ ماہی کردیا گیا مگر یہ رسالہ بوجوہ اپنا سفر جاری نہ رکھ سکا۔
اس مختصر جائزے سے کراچی میں نعتیہ ادب کے فروغ کے لیے کی جانے والی مساعئ جمیلہ کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پوری دنیا میں کسی اور شہر کو یہ اعزاز حاصل نہیں جہاں سے اتنی بڑی تعداد میں حمد و نعت کے حوالے سے جرائد نے اپنا اشاعتی سفر شروع کیا ہو ۔ان رسائل و جرائد کے اثرات کو نعت کے فروغ و ارتقا کی تاریخ میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
نعتیہ تدکرہ نگاری
کراچی میں نعتیہ ادب کے فروغ کے لیے ہر ممکن اقدام کو بروئے کار لانے کا جذبہ دکھائی دیتا ہے۔ نعتیہ تذکرہ نگاری کے ذیل میں بھی یہاں کئی قابل قدر کام کیے گئے اور بعض لوگوں نے اس میں دل جمعی سے کام کیا۔ ایسے لوگوں میں ہمارے سامنے حمایت علی شاعر، نور احمد میرٹھی، ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہانپوری، سیّد محمد قاسم، ڈاکٹر نعیم تقوی، ڈاکٹر شہزاد احمد، غوث میاں، منظرعارفی اور طاہر سلطانی کے نام ہیں جنھوں نے ملکی اور علاقائی سطح پر نعت گو شعرا کے کئی تذکرے مرتب کرکے نعتیہ تاریخ کے نقوش کو محفوظ کرنے اور اس کے فروغ کے خدوخال کو اجاگر کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
تنقید و تحقیق نعت
نعتیہ ادب کی پرکھ اور تحقیقی زاویوں سے بھی شہر کراچی کے متعدد اہلِ علم نے کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں۔ صرف جامعاتی سطح پر تحقیقی مقالات لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے محققین پر ایک نظر ڈالیے۔
ڈاکٹر عزیز احسن
(اُردو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تحقیقی مطالعہ)
ڈاکٹر شاہ محمد تبریزی
(عہد نبوی کی نعتیہ شاعری)
ڈاکٹر محمد طاہر قریشی
(ہماری ملی شاعری میں نعتیہ عناصر)
ڈاکٹر تنظیم الفردوس
(اُردو کی نعتیہ شاعری میں مولانا احمد رضا خاںؒ کی انفرادیت و اہمیت)
ڈاکٹر جہاں آرا لطیفی
(بیسویں صدی میں اُردو نعتیہ شاعری پر عربی زبان کے اثرات)
ڈاکٹر شہزاد احمد
(اُردو نعت پاکستان میں)
ان حضرات کے علاوہ ابھی کئی دوسرے لوگ بھی اس وقت جامعاتی سطح پر نعت کے مختلف پہلوؤں پر تحقیقی مقالات لکھنے میں مصروف ہیں جو جلد منظر عام پر آجائیں گے۔
نعت پر تنقیدی زاویوں سے لکھی جانے والی کتب اور ان کے مصنّفین میں سے بیشتر کا تعلق بھی شہرِ کراچی ہی سے ہے۔ یہ تعلق خود اس بات کی زندہ گواہی ہے کہ کراچی کی ادبی فضا میں نعت کو کس درجہ اہمیت حاصل ہے۔ سب سے پہلے ان دو انتخاب کا ذکر ضروری ہے ، جن میں پیش لفظ کے طور پر لکھے گئے مضامین نے بنیادی طور پر نعت کے تحقیقی و تنقیدی زایوں کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان میں ممتاز حسن کا انتخاب نعت ’’خیرالبشر کے حضور میں‘‘ جس کا دیباچہ ادبی پہلوؤں پر گفتگو کی وجہ سے خاص اہمیت کا حامل رہا۔ یہ دیباچہ ممتاز حسن کا وہ خطبہ ہے جو انھوں نے 1966ء میں بزم نعت و مناقب کے زیر اہتمام منعقدہ کل پاکستان محفل نعت کے موقع پر دیا تھا۔ بعدازاں اسے ’’خیبرالبشر کے حضور میں‘‘ شامل کیا گیا۔ دوم ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا انتخاب ’’اُردو کی نعتیہ شاعری ‘‘جس میں اردو کی نعتیہ شاعری پر ایک مبصرانہ مگر اہم مضمون بھی شامل ہے۔ یہ دونوں انتخاب اپنی اہمیت و افادیت میں نعتیہ ادب کے لیے ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب نعت پر ابھی تنقیدی زاویوں سے گفتگو کو فروغ حاصل نہیں ہوا تھا۔ اس لیے ان کتابوں نے نعتیہ ذوق کوپروان چڑھانے اور ادبی دنیا کو نعت سے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
آیئے اب کراچی سے تعلق رکھنے والے ان افراد کی تحقیقی و تنقیدی کاوشوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں جنھوں نے تنقیدی و تحقیقی زاویوں سے نعتیہ ادب کو سنجیدہ مطالعات سے قریب تر کیا۔اس میں شک نہیں کہ نعتیہ ادب میں تنقیدی سرگرمیوں کا آغاز باقاعدہ طور پر کراچی ہی سے ’’نعت رنگ‘‘ کی اشاعت کے ساتھ ہوا او ر اس نے ایک تحریک کی صورت اختیار کرلی۔سو ہم دیکھتے ہیں کہ اس تحریک سے وابستہ قلم کاروں نے جم کر نعت کے تنقیدی رجحانات اور ادبی پہلوؤں پر اپنی کتابوں میں گہرے مطالعات پیش کیے۔ جس نے معاصر ادبی فضا میں تیزی سے اپنی جگہ بنائی۔
سید افضال حسین فضل فتح پوری/اُردو نعت تاریخ و ارتقا،ڈاکٹر سیّد ابوالخیر کشفی/نعت اور تنقید نعت،نعت شناسی،ڈاکٹر عزیز احسن/اُردو نعت اور جدید اسالیب،نعت کی تخلیقی سچائیاں،ہنر نازک ہے،نعت کے تنقیدی آفاق،نعتیہ ادب کے تنقیدی زاویے،اُردو نعت کا ادبی سفر پاکستان میں،ادیب رائے پوری/مشکوٰۃ النعت،مدارج النعت،نعتیہ ادب میں تنقید و مشکلات تنقید،پروفیسر شفقت رضوی/اُردو میں حمد گوئی،پروفیسر شفقت رضوی/اُردومیں نعت گوئی،نعت رنگ کا تجزیاتی و تنقیدی مطالعہ،پروفیسر ہارون الرشید/اُردو نعت گوئی کا تنقیدی جائزہ (قرآن کی روشنی میں)،ابوالامتیاز ع س مسلم/سرودِ نعت،ڈاکٹر شہزاد احمد/اُردو میں نعتیہ صحافت،اساس نعت گوئی،رشید وارثی/اُردو نعت کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ (شریعت اسلامیہ کی روشنی میں)،طاہر سلطانی /اُردو حمد کا ارتقا،اُردو نعت کی شعری روایت،اُردو نعت میں تجلیات سیرت، صبیح رحمانی/نعت نگر کا باسی،غالب اور ثنائے خواجہ، صبیح رحمانی/ڈاکٹر عزیز احسن اور مطالعات حمد و نعت،ڈاکٹر فرمان فتح پوری/چند نعت گویانِ اُردو،علامہ شمس بریلوی/کلام رضا کا تحقیقی و ادبی جائزہ،مولانا کوکب نورانی اوکاڑوی/نعت اور آدابِ نعت،کلام اعلیٰ حضرت ترجمان حقیقت،جاذب قریشی/نعت کے جدید رنگ،
ان تنقیدی کتب کے علاوہ کراچی سے بعض اہم حمدیہ و نعتیہ منتخبات بھی شائع ہوئے جو مجموعی طور پر حمد و نعت کے فروغ میں اضافے کا سبب بنے ، ایسے منتخبات میں:
ڈاکٹر سیّد محمد ابوالخیر کشفی /نقش سعادت،سفینہ نعت،غلام نبی/بستانِ نبی،ڈاکٹر عزیز احسن/جواہر النعت،میر واصف علی/اذکار و افکار،غوث میاں/صلِّ علیٰ محمدؐ،مہرؔ پیلی بھیتی/انتخابِ حمد،غوث میاں/خواتین کی حمدیہ شاعری،غوث میاں/خواتین کی نعتیہ شاعری،طاہر سلطانی/نعت رحمت،طاہر سلطانی/خزینہ حمد،طاہر سلطانی/اذانِ دیر،رئیس احمد/حریم نعت،صدیق اسمٰعیل/انوار حرمین،صدیق اسمٰعیل/رنگ رضا،شفیق بریلوی/ارمغان نعت،شبیر احمد انصاری/شبستانِ حرا،ظہور خاں پارس/نعت انسائیکلوپیڈیا،نور احمد میرٹھی/نور سخن/راغب مراد آبادی،محمد ،محمد اکرم/ابر کرم،شہزاد احمد/انوارِ عقیدت،سعید ہاشمی/بلبل بستانِ مصطفی،صبیح رحمانی/ایوانِ نعت،صبیح رحمانی/مدحت نامہ،خورشید احمد/یہ سب تمہارا کرم ہے آقا،عزیز الدین خاکی/حبیبی یا رسول اللہ، محمدیامین وارثی/نعت مصطفی،محمدیامین وارثی/عظمت مصطفی،محمدیامین وارثی/تنویر مصطفی،محمدیامین وارثی/قربت مصطفی،محمدیامین وارثی/نور مصطفی،محمدیامین وارثی/الفت مصطفی،محمدیامین وارثی/شانِ مصطفی
ان انتخاب ہائے نعت میں بعض مرتبین نے مقدمے بھی ایسے لکھے ہیں جو نعتیہ ادب کے انتقادی سرمائے کا تاب ناک حصہ بننے ہیں جیسے ’’جواہرالنعت‘‘ میں ڈاکٹر عزیز احسن کا مقدمہ جو بعد میں متعدد رسائل و جرائد اور اخبارات کی زینت بنا۔ یا ڈاکٹر ابوالخیر کشفی کا سفینہء نعت پر وہ مقدمہ جو انھوں نے مسرور کیفی کے فکر و فن پر تفصیل سے لکھا۔
ان منتخبات حمد و نعت کے علاوہ مجلس احبابِ ملت کے نعتیہ مشاعروں میں پڑھے جانے والے کلاموں کے انتخاب کی متعدد جلدیں جو ’’انوارِ حرم‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ بستانِ وارثیہ کے حمدیہ نعتیہ مشاعروں کے سالانہ انتخاب جوہر بار مختلف ناموں سے شائع ہوئے اور اب تک مجموعی طور پر حمد کے 4 اور نعت کے 22، انتخاب شائع ہو چکے ہیں جو معاصر نعت گوئی کے منظر نامے کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ ردیفوں کی طرفگی کے اظہار کی دستاویز بھی ہیں۔
مجھے اُمید ہے کہ دبستانِ کراچی میں نعت گوئی اور اس کے فروغ کے مختلف ادوار کا ایک سرسری سا جائزہ اور منظرنامہ آپ کے سامنے واضح ہو گیا ہوگا۔امید ہے کہ آئندہ جامعاتی سطح پر کوئی تحقیقی مقالہ اس موضوع کے مزیدپہلو روشن کرے گا۔
nn

حصہ