محبت فاتح عالم اُمِ فاطمہ

263

’’آہا، پھپھو جانی آئی ہیں؟ آج تو مما نے نہاری بنائی ہے، بہت مزا آئے گا، سب مل کر کھائیں گے؟‘‘
سیڑھیاں اُترتی حنا نے فائزہ کو دیکھ کر خوشی سے بھرپور لہجے میں کہا۔ اتنے میں اس کی نظر قریب ہی بیٹھی عائزہ پر پڑی۔ گویا غبارے میں سے ہوا نکل گئی۔ دھیمے سے بولی: ’’چھوٹی پھپھو کیسی ہیں آپ؟‘‘
’’ٹھیک ہوں‘‘۔۔۔ عائزہ نے تنک کر جواب دیا۔
وہ لہجے کی تبدیلی سمجھ چکی تھی۔
’’لاڈلی پھپھو تو بس وہی ہے‘‘۔۔۔ وہ بڑبڑائی۔
فائزہ اور عائزہ دونوں جڑواں بہنیں قریباً ساتھ ہی کالج کی پڑھائی سے فارغ ہوئیں تو والدین نے جلد ہی شادی کردی۔ سسرال بھی انہی جیسے، ماحول اور گھرانہ بھی انہی جیسا تھا۔ یوں دونوں بہنوں کو زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ فائزہ طبیعت کی نرم، خوش اخلاق، ملنسار، اطاعت شعار اور فرماں بردار لڑکی تھی۔ یوں میکہ اور سسرال دونوں جگہ ہاتھوں ہاتھ لی جاتی، جب کہ عائزہ فطرتاً ضدی اور اکھڑ مزاج تھی۔ کام کاج کرنا اپنی شان کے خلاف سمجھتی۔
گوکہ ماں باپ اور دادی نے جو ساتھ ہی رہتی تھیں، دونوں بہنوں کی تربیت ایک ہی نہج پر کی تھی، مگر فائزہ اپنے اچھے اخلاق اور کام میں پھرتی کی وجہ سے ہر دل عزیز تھی، جب کہ عائزہ کو ہر ایک سے شکوہ رہتا۔ بھابھیوں سے، بھتیجوں سے، ماں باپ سے۔۔۔ اس کا تکیہ کلام تھا کہ ہر ایک فائزہ کو زیادہ محبت دیتا ہے مجھے نہیں۔۔۔ لے دے کے ایک دادی کا وجود تھا جو اسے پیار سے اچھی بُری بات سمجھانے کی کوشش کرتیں۔
’’بیٹا، گھر کا کام کاج دھیان سے اور اچھی طرح کیا کرو‘‘۔ وہ پیار سے سمجھاتیں۔
کچن رات کو سمیٹنا، دونوں بہنوں کی باری باری ذمے داری تھی۔ ایک رات فائزہ اور ایک رات عائزہ صفائی کرتیں۔ مگر فائزہ کی باری والے دن کچن چمکتا دمکتا نظر آتا، ہر چیز صاف ستھری اور سلیقے سے ترتیب دی ہوئی۔۔۔ جب کہ عائزہ بس مارے باندھے کسی طرح سر سے بلا ٹالنے کے مصداق کچن کی صفائی کرتی۔ اس کا کام دیکھ کر ماں کا دل بہت جلتا، وہ اسے سمجھاتیں ’’اگلے گھر جاکر کیا کرو گی؟ کام پیارا ہوتا ہے، چام (یعنی چمڑی) نہیں۔ یعنی سسرال میں کام دیکھا جاتا ہے، خوب صورتی نہیں‘‘۔ مگر عائزہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اُڑا دیتی۔
’’امی بس مجھ سے اتنا ہی کام ہوتا ہے، کروانا ہے تو کروائیں ورنہ اپنی چہیتی سے کروائیں، میں کوئی ماسی تھوڑی ہوں جو ہر وقت کام ہی کرتی رہوں۔‘‘
ماں بے چاری پریشان ہوکر رہ جاتیں۔ ’’استغفراللہ، ایک تو کام ڈھنگ سے نہیں کرتی، دوسرے زبان بھی جیسے میرٹھ کی قینچی، لاحول ولاقوۃ الاباللہ۔۔۔‘‘
’’ارے امی، میرٹھ کے کباب پراٹھے بھی کبھی یاد کرلیا کریں‘‘۔ فائزہ بات ختم کرنے کے بہانے ڈھونڈتی، اور یوں ماحول خوش گوار ہوجاتا۔
بھابھی اور بھتیجوں سے بھی فائزہ دوستانہ اور محبت بھرا رویہ رکھتی۔ ان کے کام کاج میں ہاتھ بٹانا اور بچوں کی پڑھائی میں مدد دینا۔۔۔ جبھی بھتیجیاں بھی پھپھو جانی پھپھو جانی کہتے نہ تھکتیں اور ہر وقت اُس پر جاں نثار کیے رہتیں، جب کہ عائزہ کام چوری اور تنک مزاجی کی وجہ سے بڑوں اور بچوں کسی کے دل میں جگہ نہ بنا سکی تھی۔
شادی کے بعد بھی فائزہ نے سسرال میں محبت سے اور خدمت کرکے سب کا دل جیت لیا، جب کہ عائزہ اپنے شوہر کے سوا کسی سے کم ہی بات چیت کرتی۔ وہ بس یہ چاہتی کہ لوگ اس سے محبت کریں اور اس کا خیال رکھیں۔
عائزہ کی سسرال میں بس ایک چھوٹی نند اور ساس سسر تھے۔ شوہر جب گھر آتے تو عائزہ چاہتی کہ وہ دونوں کمرے میں رہیں اور دن بھر کی باتیں ایک دوسرے سے شیئر کریں، جب کہ اس دوران نند یا ساس کسی کام سے آتیں یا بات کرنا چاہتیں تو عائزہ کو بہت ناگوار گزرتا۔
آج بھی وہ جلی بھنی میکے آئی تھی۔ دادی اس کا موڈ بھانپ گئیں اور اُسے لے کر اپنے کمرے میں آگئیں:
’’کیا بات ہے چندا؟‘‘ انہوں نے پیار سے پوچھا۔
محبت کے دو بول سنتے ہی اس کا دل بھر آیا، رُندھی آواز میں بولی: ’’دادی وہاں کوئی بھی میرا خیال نہیں کرتا، ہر ایک کو اپنی پڑی ہوتی ہے۔ میں کوئی فالتو چیز ہوں جیسے۔‘‘
’’ارے نہیں میری چندا، ایسا نہیں ہے۔ اچھا بتاؤ، کیا ہوتا ہے تمہارے ساتھ؟‘‘
’’آج ہی کا واقعہ دیکھ لیں، جب حسن آفس سے گھر آئے تو چائے پینے کے بعد ہی ندا آگئی اور بولی: بھیا، مجھے اپنی دوست کے لیے گفٹ چاہیے، آپ لادیں گے؟ جب کہ مجھے آج امی کے ہاں آنا تھا، بس میرا موڈ خراب ہوگیا۔ ہر وقت دوسروں کا خیال کرتے ہیں حسن۔۔۔بھلا یہ کوئی زندگی ہے؟‘‘
’’ارے میری جان، یہی تو زندگی ہے۔ اچھا چلو، تم اپنا موڈ ٹھیک کرو اور کھانا کھاؤ، پھر رات میں بات کریں گے۔‘‘
رات کے کھانے کے بعد چائے کا دور چل رہا تھا، جب دادی عائزہ کو لے کر اپنے کمرے میں آگئیں۔
’’آج میں تمہیں ایک واقعہ سناتی ہوں۔ ایک استاد نے اپنے شاگرد کو ایک بکری دیتے ہوئے کہا: اس کی سب سے اچھی چیز پکا کر لانا۔ وہ شاگرد زبان اور دل خوب مزے کا پکاکر لایا۔ دوسرے دن ایک بکری دے کر کہا: اس کی سب سے بُری چیز بناکر لانا۔ شاگرد نے زبان اور دل نمک زیادہ ڈال کر بدمزا بنادیا۔ استاد کے پوچھنے پر بتایا کہ جسم کی سب سے بہترین چیز بھی دل اور زبان ہے، اور بدترین بھی یہی۔ جب تک یہ اچھے ہیں سب اچھا ہے، اور اگر یہ خراب ہوگئے تو سب برباد۔ میری جان! میٹھی زبان سے ہم دلوں کو جیت سکتے ہیں، تم نے سنا نہیں ’’زبان شیریں ملک گیری‘‘ یعنی میٹھی زبان اور اچھے اخلاق سے بادشاہت بھی ملتی ہے، اور بیٹا، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’اچھے اخلاق والا اللہ کی نظر میں بھی اچھا ہے‘‘۔ بس تم اپنے دل اور زبان دونوں کو میٹھا کرلو، ہر ایک سے نرمی اور محبت سے بولو، تم دیکھو گی کہ سب تمہارے گرویدہ ہوجائیں گے۔ سسرال میں ساس ماں کی طرح اور نند بہن کی طرح ہوتی ہے۔
پیارے رب کا فرمان ہے کہ بدی کو اعلیٰ درجے کی نیکی سے دفع کرو، تم دیکھو گے کہ تمہارا دشمن تمہارا جگری دوست بن جائے گا، اور یہ بات نصیب والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ سب کو محبت دو گی، عزت دو گی، خدمت کرو گی تو تمہیں بھی سب کچھ ملے گا، تم کرکے دیکھو، آج واپسی میں گھر جاتے ہوئے گفٹ لے جانا نہ بھولنا‘‘۔
عائزہ جو روز ہی ٹینشن کا شکار رہتی تھی، آخرکار اس ٹینشن کی وجہ جان گئی۔ اس نے تہیہ کرلیا کہ آج گھر جاتے وقت وہ ایک گفٹ نہیں بلکہ دو گفٹ لیتی ہوئی جائے گی۔ ایک اسے اپنی بہن جیسی نند کے لیے بھی تو لینا تھا۔ آج اسے دادی کی باتوں سے پتا چل گیا کہ محبت فاتح عالم ہوتی ہے۔

حصہ