’’میں سمجھ گیا سر، میں اس کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی شروع کرتا ہوں۔‘‘
’’ایک بات کا خیال رہے، اس ملک میں بہت سے ایسے لوگ ہیں، جو اشریکا کو پسند نہیں کرتے اور اس کی چالوں کو سمجھتے ہیں، لہٰذا ان کا ذہن فوراً اشریکا کی طرف جائے گا۔ منصوبہ ایسا ہو کہ صدر اور اس کے ساتھی بھی ختم ہوجائیں اور کوئی اشریکا پر شک بھی نہ کرے۔‘‘
’’سر، کیا اس مقصد کے لیے اشریکا کے ایک دو آدمی قربان کیے جاسکتے ہیں؟‘‘ نمبر نو نے پوچھا۔
’’ہمارا منصوبہ اتنا عظیم ہے کہ ہم اس کے لیے اشریکا کے صدر کو بھی قربان کرسکتے ہیں۔ ساری دنیا اشریکا کو سُپرپاور سمجھتی ہے۔ انہیں کیا معلوم کہ اصل سُپرپاور گبرائیل ہے، جس کے حکم پر اشریکا کا صدر بھی چلتا ہے۔ ایک دن آئے گا، جب ساری دنیا پر ہماری کھلم کھلا حکومت ہوگی۔‘‘
***
’’مبارک ہو سر، بالآخر لاس نے اپنی فوجیں افغان پور سے نکالنا شروع کردی ہیں‘‘۔ خرم مراد بولے۔
’’ہاں یہ معرکہ تو ہم نے مارلیا، مگر افسوس کہ ہم افغان پور کے مجاہدین کو متحد نہ کرسکے اور پھر لاس کے ساتھ معاہدہ بھی میری مرضی کے خلاف ہوگیا‘‘۔ صدرِ پاک افسوس سے بولے۔
’’اب ہم اور کیا کرسکتے ہیں؟ آپ نے حکومت تو برخواست کرہی دی ہے‘‘۔ خرم مراد بولے۔
’’ہاں اب کیا ہوسکتا ہے! مگر میں چاہتا ہوں کہ آپ ایک بار پھر افغان پور والوں سے بات چیت کریں اور انہیں ایک متفقہ حکومت بنانے پر رضامند کریں، ورنہ وہاں خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔‘‘ صدر بولے۔
’’میں اپنی سی پوری کوشش کروں گا۔ ہاں آج اشریکا کے سفیر کا فون بھی آیا تھا‘‘۔ خرم مراد بولے۔
’’وہ کس لیے؟‘‘ صدر چونکے۔
’’وہ شاید آپ کے ساتھ اسلحہ کے معائنے کے لیے جانا چاہ رہا ہے۔‘‘ خرم مراد بولے۔
’’ہاں، مجھے تین دن بعد اسلحہ کا معائنہ کرنے دوسرے شہر جانا ہے۔ اشریکا کے سفیر کی خواہش ہے کہ وہ بھی میرے ساتھ جائے‘‘۔ صدر بولے۔
’’اب اس نے فون کرکے کہا ہے کہ میں بھی اس کے ساتھ چلوں‘‘۔ خرم مراد نے کہا۔
’’یہ کیا چکر ہے، وہ آپ کو کیوں ساتھ لے جانا چاہتا ہے؟‘‘ صدر کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’اللہ ہی بہتر جانتا ہے، نہ جانے وہ کس چکر میں ہے۔ مجھے تو اشریکا پر کبھی بھی اعتبار نہیں رہا‘‘۔ خرم مراد بولے۔
’’خیر دیکھا جائے گا، آپ بھی ساتھ چلیں، دیکھتے ہیں ان کے ذہن میں کیا چل رہا ہے؟‘ُ صدر نے کہا۔
***
ملک پاک پر ایک سوگ طاری تھا۔ پورے ملک میں ہائی الرٹ تھا، کیوں کہ جس طیارے میں صدرِ پاک اسلحہ کے معائنے کے لیے جارہے تھے، وہ راستے ہی میں گرکر تباہ ہوگیا تھا۔ طیارے میں ان کے ساتھ خرم مراد، اشریکا کا سفیر اور دوسرے فوجی افسران بھی تھے۔ جس جگہ طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا، اس جگہ کو فوج نے گھیرے میں لے لیا تھا۔ خفیہ پولیس کے چیف امیر علی کی جیپ اُس وقت جائے حادثہ کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ان کے ساتھ ان کا اسسٹنٹ ریاض ملک بھی تھا۔ حادثے سے خاصی دور ہی فوجیوں نے انہیں رکنے کا اشارہ کردیا۔
’’آپ آگے نہیں جاسکتے‘‘۔ ایک فوجی بولا۔
’’میرا نام امیر علی ہے، چیف خفیہ پولیس‘‘۔ امیر علی نے اپنا کارڈ دکھایا۔ ’’میں اس حادثے کی تحقیقات پر مامور کیا گیا ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا۔
’’کسی کو بھی تحقیق کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہمیں کہا گیا ہے کہ اس مقصد کے لیے اشریکا سے ایک ٹیم آرہی ہے، پہلے وہ تحقیق کرے گی۔ اُس وقت تک کوئی پیش رفت نہیں ہوگی‘‘۔ فوجی نے کہا۔
’’اشریکا کی ٹیم۔۔۔!‘‘ امیر علی کی پیشانی پر بل پڑگئے۔ ’’حادثہ ہمارے ملک میں ہوا ہے اور تحقیق اشریکا کی ٹیم کرے گی۔۔۔یہ کیا مذاق ہے؟‘‘ وہ بھنّا کر بولے۔
’’میں کچھ نہیں جانتا،آرڈر از آرڈر۔۔۔آپ جا سکتے ہیں‘‘۔ فوجی کا لہجہ نہایت روکھا پھیکا تھا۔
’’تم نے دیکھا ریاض ملک، یہ کیسا اندھیر ہے، ہمیں ہمارے ہی ملک میں اتنے بڑے حادثے کی تحقیق کرنے سے روکا جا رہا ہے۔۔۔ اور تحقیق کرے گی اشریکا کی ٹیم۔۔۔ اشریکا تو خود اس حادثے کا ذمے دار ہے‘‘۔ امیر علی کے لہجے میں سخت غصہ تھا۔
(جاری ہے)