ہمااصلاح معاشرہ(ناصرہ الیاس شفاہما)

291

 اصلاح معاشرہ کی سب سے پہلی سیڑھی خود اپنی ذات ہے، کیوں کہ جب تک ہم خود صحیح نہیں ہوں گے امربالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام نہیں دے سکتے۔ اس کے بعد ہمارا اپنا گھر، بچے اور خاندان کا نمبر ہے۔ ہم چوں کہ ایک پُرفتن دور سے گزر رہے ہیں، لہٰذا ہمیں سوچنا ہوگا کہ نوجوان نسل خاص طور پر معصوم ذہنوں کو اس بگاڑ سے کس طرح محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ چھوٹے بچوں کو ابتدا ہی سے اسلامی تعلیمات سے آگہی دی جائے تاکہ ان کا ذہن بُرائی کی طرف متوجہ نہ ہو۔ اس سلسلے میں والدین کا کردار زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
والدین اپنے بچوں کو بھرپور وقت دیں، کیوں کہ یہ الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے اور ہر بچہ موبائل، انٹرنیٹ وغیرہ سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماں کی گود ہی بچے کی پہلی درس گاہ ہے، یہی وجہ ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں کی تربیت اور ان کی حفاظت کا ذمّے دار ماں کو ٹھہراتے ہوئے فرمایا ہے: ’’عورت اپنے شوہر کے گھر اور اولاد کی نگرانِ کار ہے۔‘‘ (بخاری)
عورتیں یہ ذمے داری اسی وقت نبھا سکتی ہے، جب وہ خود بھی اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہوں اور انہیں معلوم ہو کہ دل کا سکون اسلامی تہذیب اپنانے میں ہے نہ کہ غیر اسلامی رسومات میں۔ والدین کے ساتھ گزارا ہوا ہر لمحہ بچوں کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ ان اوقات میں بچوں کو الیکٹرانک میڈیا کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں آگاہی دیں۔ وقت کی پابندی کا احساس دلاتے رہیں۔ اس کے لیے بچوں کو 7 برس کی عمر سے نماز کا عادی بنائیں تاکہ پانچ اوقات کی نماز ادا کرنے سے ان میں وقت کی پابندی کا احساس پیدا ہو۔ بچوں کے دل میں والدین اور بڑوں کے احترام کا جذبہ اُبھاریں۔ اس کے علاوہ عقیدۂ توحید، بندگی رب اورفکرِ آخرت کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کی تربیت میں کوئی کمی واقع ہو۔ تربیت یافتہ نسل بچپن ہی سے چھوٹی بڑی برائیوں سے دور ہوگی تو ملک میں پھیلی بے امنی، انتشار، فرقہ بندی، قانون شکنی، قتل و غارت گری، چوری چکاری اور کرپشن کے خلاف بھی آواز اٹھائے گی۔ غرضیکہ، ایک اچھا انسان اور معاشرے کا اچھا شہری بنانے میں والدین بہت اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس طرح، ہر گھر سکون و اطمینان کا گہوارہ ہوگا اور بچے اور نوجوان نسل معاشرے میں بگاڑ کا سبب نہیں بنیں گے۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ باپ اپنی اولاد جو کچھ دیتا ہے، اس میں سب سے بہتر چیز اچھی تعلیم و تربیت ہے۔
دنیا دیکھے گی
خزاں کی اوٹ سے بہار کو نکلتے ہوئے دنیا دیکھے گی
اندھیرے کے عقب سے روشنی کو پُھوٹتے ہوئے دنیا دیکھے گی
وہ لوگ جو غموں کو بانٹتے ہیں دنیا میں
انہیں خوشیوں کے سامنے بِکھرتے ہوئے دنیا دیکھے گی
وہ سحر جو شب کی تاریکی میں کہیں گُم ہوگئی ہے
اس شب گزیدہ سحر کو روشن سویرے میں بدلتے ہوئے دنیا دیکھے گی
وہ صحرا جو جہنم کی مانند دہک رہا ہے
اس صحرا کو بارش میں نہاتے ہوئے دنیا دیکھے گی
وہ پرندے جو موت کا رقص دیکھ کر سہم گئے ہیں
انہیں پرندوں کو سُریلے گیت گاتے ہوئے دنیا دیکھے گی
وہ گلاب جس کی خوشبو اس سے جُدا ہو گئی ہے
اسی گلاب کو خوشبوؤں سے مہکتے ہوئے دنیا دیکھے گی
وہ زمیں جو گناہوں کے بوجھ سے وزنی ہو گئی ہے
اس زمیں کو نیکیوں کی بارش میں نہاتے ہوئے دنیا دیکھے گی
بس ذرا خالق سے ٹوٹے ہوئے تعلق کو جوڑ لو ہماؔ
پھر اسلام کو اقوامِ عالم پر چھاتے ہوئے دنیا دیکھے گی

حصہ