’’یہ تم نے کیا کیا؟ ساری سیاہی اوراق پر اُنڈیل دی۔ اتنی مشکلوں سے سوچ سوچ کر میں نے پھولوں کی دُنیا کے لیے کہانی لکھی تھی۔ تم نے سب کچھ ستیاناس کردیا!‘‘
حدیقہ اپنی شریر بلّی ’’لِلی‘‘ پر برس پڑی۔
للّی نے حدیقہ کو کبھی اتنے غصّے میں نہ دیکھا تھا۔ اس کی چیخ و پکار پر سہم کر ایک کونے میں دُبک گئی۔
’’چھپ کہاں رہی ہو، نکلو میرے کمرے سے۔۔۔‘‘
حدیقہ نے چلّاکر کہا اور خوف زدہ لِلی بھاگ کر پہلے ڈرائنگ روم میں گئی، کچھ دیر صوفے کے پیچھے چھپی رہی، پھر حدیقہ کا تند و تیز لہجہ یاد آیا تو تھکے تھکے انداز میں باغیچے میں چلی گئی۔
باغیچے میں بڑا اچھا موسم ہورہا تھا۔ ٹھنڈی ہوا دائیں سے بائیں چل رہی تھی۔ درختوں کے پتّے تالیاں بجا رہے تھے، پرندے چہچہا رہے تھے، فوارہ پانی بلندی پر پھینک رہا تھا، اور اس کے چھینٹے پھولوں، پودوں کی کیاریوں کو بِھگو رہے تھے۔ تتلیاں خوشبو سے مہکتے پھولوں پر اُڑتے ہوئے مسرور تھیں، بس ایک للّی ہی خوشی سے دور تھی۔ باغ میں اس کا دل نہ لگا تو وہ ’’کیٹ گارڈن‘‘ چلی آئی، جہاں اکثر آیا کرتی تھی۔
کیٹ گارڈن ایک بڑا سا باغ تھا، جس میں طرح طرح کے درخت تھے۔ یہ درخت عام درختوں سے الگ تھے۔ ہر درخت کو مختلف جانوروں کے روپ میں تراشا گیا تھا۔ باغ میں سب سے زیادہ درخت بلیوں کی شکلوں والے تھے، جو ہر ایک، خاص طور پر ننھے بچوں کو اپنی طرف کھینچتے تھے۔
للی باغ کی دیوار پر بیٹھ کر اپنا غم غلط کرنے لگی، جو اسے حدیقہ سے لگا تھا۔ اس نے دیکھا، باغ میں بہت سے بچے اپنے والدین کے ساتھ آئے ہوئے تھے اور جانوروں کی شکلوں والے درختوں کو حیرت سے تک رہے تھے۔ دو درخت، جنہیں ملاکر ایک بڑی بلّی کی شکل دی گئی تھی، وہاں بچوں، ان کے والدین اور آس پاس کے گھروں کے بِلّوں، بِلّیوں کا رش تھا۔ للی نے دیکھا، درخت کی سب سے اونچی شاخ پر دو بلّیاں اُداس بیٹھی تھیں۔ وہ سمجھ گئی کہ انہیں بھی ڈانٹ پڑی ہے۔ مجھے انہیں حوصلہ دینا چاہیے، یہ سوچ کر للی اس درخت پر چڑھ گئی اور ان کے قریب جاپہنچی۔ اس نے جو اندازہ لگایا تھا، وہ غلط نکلا۔ وہ بلیاں کھانا کھانے کے بعد ’’قیلولہ‘‘ کررہی تھیں۔
للی خاموشی سے ان سے کچھ فاصلے پر جابیٹھی۔
اِدھر للی کے جانے کے بعد حدیقہ کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ وہ ڈرائنگ روم میں گئی، پھر امی ابو کے کمرے میں، اور پھر اپنے بھائیوں عمار، حسان کے کمرے میں لِلی کو ڈھونڈا، لیکن وہ تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب تھی۔ آخر میں اس نے گھر کے کونوں کھدروں میں للی کو تلاش کیا، لیکن وہ وہاں بھی نہ ملی۔
حدیقہ رونے لگی: ’’ہائے میری پیاری للی، تم ناراض ہوکر کہاں چلی گئیں۔ واپس آجاؤ، اب میں تمہیں کبھی نہ ڈانٹوں گی۔‘‘
اس کا رونا دھونا اس کے بھائیوں سے دیکھا نہ گیا۔ انہوں نے حدیقہ کو تسلی دی اور کہا: ہمیں اندازہ ہے، للی کہاں جاسکتی ہے! وہ حدیقہ کو لے کر سیدھا کیٹ گارڈن گئے، جہاں انہیں سب سے بڑے درخت پر للی نظر آگئی۔
’’للی۔۔۔ للی ۔۔۔!!‘‘ حدیقہ نے آواز لگائی اور للی نے محسوس کرلیا کہ اب اس کی ننھی مالکہ ناراض نہیں ہے۔ وہ خوشی سے گرتی پڑتی نیچے اُتر آئی اور حدیقہ کے پیروں میں لوٹنے لگی۔ حدیقہ نے خوشی سے اسے گود میں بھرلیا۔
’’مجھے معاف کردینا للی، اب میں تمہارے ساتھ بُرے رویّے سے پیش نہ آؤں گی۔۔۔ تم اب تو مجھ سے ناراض نہیں ہوناں!‘‘
للی نے دائیں بائیں گردن ہلائی، جس کا مطلب تھا، وہ ناراض نہیں ہے۔
حدیقہ نے للی کے جسم پر شفقت سے ہاتھ پھیرا تو وہ خوشی سے خُر خُر کرنے لگی!!
nn