کے الیکٹرک کے خلاف جماعت اسلامی کا احتجاج

304

کراچی کے تین کروڑ شہریوں کا کے الیکٹرک نے جینا دوبھر کیا ہوا ہے ۔ زائد بلنگ، تسلسل کے ساتھ بلوں کی ادائیگی کے باوجود لوڈ شیڈنگ اور بغیر اعلان کے بجلی کی بندش نے شہریوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے ۔ شہریوں کی مشکلات پر جماعت اسلامی ہی ایک واحد جماعت ہے جو لوگوں کی تکالیف کا احساس کرکے حکومت اور کے الیکٹرک کے خلاف پرامن احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر آتی ہے تاکہ حکمراں لوگوں کو درپیش مسائل کے لیے عملی اقدامات کرے۔
گزشتہ جمعہ کو جب جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان اور دیگر رہنماء کے الیکٹرک کے خلاف احتجاجاََ دھرنا دینے کے لیے شاہراہ فیصل کی طرف جانے کی تیاری کررہے تھے کہ ادارہ نورحق سے برگیڈ پولیس نے جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کو حراست میں لیکر تھانے پہنچ گئی ۔کے الیکٹرک کی جانب سے پیدا کردہ مسائل کے حل کے لیے عملی کوششیں کرنے والے اپنے رہنماؤں کی گرفتاری کے باوجود جماعت کے کارکنوں کی بڑی تعداد جب شاہراہ فیصل پہنچی تو پولیس انہیں منتشر کرنے کے لیے لاٹھی اور شیلنگ کا استعمال کیا۔ جس کی وجہ سے شہر کی اہم ترین اور ائیرپورٹ کی جانب جانے والی شاہراہ فیصل پر ٹریفک معطل ہوگیا تھا۔
اس طرح حکومت اور کمشنر کراچی کی ہدایت پر جماعت اسلامی کے پرامن احتجاج کو پولیس نے روایتی کارروائی کرکے خود ہی تہس نہس کردیا۔ سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومت کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج کو روک کر عوام کو کیا پیغام دیا تھا ؟ کیا پولیس کی جانب سے احتجاج کو روک کے الیکٹرک کو اس کی لوٹ مار پرحوصلہ افزائی کے مترادف نہیں تھا ۔؟احتجاج کو روکنے کے نتیجے میں جو کچھ شاہراہ فیصل پر ہوا اس کی ذمے دار پولیس ، کمشنر اور حکومت نہیں تو اور کون ہے ۔؟
ماضی کے نان ایشوز پر ایم کیو ایم کے احتجاج اور پیپلز پارٹی کا رؤیہ!
ماضی میں کراچی میں ایم کیو ایم کی جانب سے نان ایشو پر احتجاج کرکے تین تین دن تک شہر بن کردیا جاتا تھا مگر یہی پیپلز پارٹی کی حکومت اور شہری انتظامیہ آنکھیں بند کرکے ہر طرح کا کاروبار بند کرنے کی اجازت دیدیا کرتی تھی ۔کیوں ؟ اس لیے کہ وہ اسلحہ کی طاقت کے ساتھ بلاوجہ احتجاج کیا کرتے تھے ؟2009تا 2013تک اس شہر میں اپنے آپ کو طاقت ور جماعت کہنے والی ایم کیو ایم نے ہر کچھ دن بعد احتجاج کے نام پر شہر میں خوف پھیلاتے رہے مگر انہیں کسی نے بھی نہیں روکا ۔ جبکہ اس ایم کیو ایم نے کراچی کے شہریوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والی کے الیکٹرک کی لوٹ مار پر اس طرح خاموش رہی جیسے وہ کے الیکٹرک کی حصہ دار ہو۔#
پولیس نے پر امن احتجاج کو منصوبے کے تحت جنگ میں
کیوں تبدیل کیا؟
گلشن اقبال کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) فہد احمد کا کہنا تھا کہ شارع فیصل پر غیر قانونی طور پر کیمپ لگایا گیا تھا، جس کو ختم کرکے 3 افراد کو حراست میں لیا گیا۔بعد ازاں پولیس نے کراچی میں جماعت اسلامی کے مرکزی دفتر ادارہ نور حق کو بھی گھیرے میں لے لیا، اس دوران کسی کو بھی دفتر میں داخل ہونے اور نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ایسا کیوں کیا گیا اس کا جواب اب تک پولیس اور حکام کی طرف سے نہیں دیا گیا۔#
پر امن احتجاج پر حافظ نعیم الرحمان کا مؤقف !
احتجاج کے حوالے سے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کا کہنا تھا کہ احتجاج کا مقصد کے الیکٹرک کی غنڈہ گردی کا خاتمہ ہے،
ہم بجلی کے اضافی بلز پر احتجاج کرنے کے لیے جمع ہورہے تھے لیکن پولیس اس پرامن احتجاج کو ایک سازش کے تحت خراب کیا ۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جماعت اسلامی نے رابطہ عوام مہم شروع کر دی ہے جو رکنے والی نہیں ہے، دفعہ 144 کا نفاذ جمہوری عمل نہیں، اگر احتجاج کو ایسے ہی روکا گیا تو جگہ جگہ دھرنا دیں گے۔
کے الیکٹرک کی لوٹ مار پر جماعت اسلامی کے احتجاج پر دیگر سیاسی جماعتوں کی لاتعلقی، سوالیہ بن گئی۔
کے الیکٹرک جس طرح گزشتہ آٹھ دس سالوں سے شہریوں سے اووربلنگ وغیرہ کرکے لوگوں کو پریشان کررہی ہے ۔ اس کے نتیجے میں خیال تھا کہ جماعت کی جانب سے مسلسل آواز اٹھانے پر کراچی کو اپنا شہر کہنے والی ایم کیو ایم ، پاک سر زمین پارٹی اور دیگر جماعتیں بھی جماعت کا ساتھ دیکر اس بات کا اظہار کریں گی کہ وہ بھی کے الیکٹرک کی جانب سے زیادتیوں پر جماعت اسلامی کے مؤقف کے ساتھ ہیں مگر لوگوں کو یہ دیکھ کر حیرت ہورہی تھی کہ یہ جماعتیں پرسرار طور پر خاموش بلکہ کے الیکٹرک کی جانب سے ہونے والی لوٹ مار سے بھی لاتعلق بنی ہوئی ہیں۔#
جماعت کے رہنماؤں کی گرفتاری کے باوجود کارکنوں کے
بلند حوصلے!
جماعت اسلامی کے احتجاج کے دوران جماعت اسلامی کے امیر کراچی حافظ نعیم الرحمان اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کے ساتھ مظاہرین پرپولیس کی شیلنگ اور فائرنگ کے باوجود کارکنوں کے حوصلے بلند رہے ۔ اور وہ اس بات پر ڈٹے رہے کہ وہ پرامن احتجاج کرتے رہیں گے انہیں اس احتجاج سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ فائرنگ ، شیلنگ اورگرفتاریاں عوام کے مسائل کے حل کے لیے جاری جماعت اسلامی کی جدوجہد کو نہیں روکا جاسکتا ۔#
جماعت اسلامی کی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد!
جماعت اسلامی صرف کے الیکٹرک کی زیادتیوں کے خلاف احتجاج نہیں کرتی بلکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی ہی ملک کی وہ واحد جماعت ہے ، جو لوگوں کو درپیش ہر طرح کے مسائل کے حل کے لیے کوژان نظر آتی ہے ۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم نے شہری مسائل کے لیے عدالتوں سے بھی رجوع کیا ہے ۔ چند ماہ قبل بلدیہ عظمیٰ کے المرکز اسلامی کو سینما میں تبدیل کرنے پر بھی صرف جماعت اسلامی نے ہی عدالت سے رجوع کیا تھا تاکہ اس مرکز سے سینما ختم کیا جائے ۔کے الیکٹرک کا چونکہ شہر کے تمام لوگوں سے تعلق ہے اس لیے جماعت اسلامی کے الیکٹرک کے ٹیرف میں اضافے اور اووربلنگ پر نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) میں درخواستیں دی اور شہریوں کا کیس لڑتی رہی اور آج بھی لڑرہی ہے ۔جماعت اسلامی ایسا کرکے یہ ثابت کررہی ہے کہ وہی واحد جماعت ہے جو لوگوں کے مسائل کا سبدباب کرنے کے لیے عملی محنت اور جدوجہد کرتی ہے۔#
حاٖفظ نعیم اور دیگر رہنماؤں کی رہائی !
قارئین جب یہ پڑھ رہے ہوں ممکن ہے کہ اس وقت حالات بدل چکے ہوں ، حافظ نعیم الرحمان اور دیگر گرفتارشدگان کو رہا کردیا جائے ، تاہم آخری سطریں لکھنے تک کسی گرفتار لیڈر اور کارکن کو رہا نہیں کیا گیا تھا۔ رہا نہیں کیا جاتا تو اس کا مطلب ہے کہ حکومت نے جماعت کے پرامن کارکنوں کوخود ہی احتجاج کو جاری رکھنے پر مجبور کررہی ہے۔#

حصہ