(شہباز شریف کی اشرافیہ پر فرد جرم (سید تاثیر مصطفی

276

وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے یہ کہہ کر کہ وزیراعظم، ججز، جنرلز، وزرائے اعلیٰ، وزراء، تاجر اور سیاستدان سب احتساب کے شفاف نظام کو اپنے اوپر لاگو کریں، سب کو حیرت میں ڈال لیا ہے اور صحافتی اور دانشور حلقوں میں یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ یہ وزیراعلیٰ پنجاب کا مشورہ ہے، مطالبہ ہے یا محض بھاشن۔۔۔! ساتھ ہی یہ بات بھی کی جارہی ہے کہ انہوں نے یہ باتیں محض مجمع کو دیکھ کر جذباتی انداز میں کہہ دی ہیں تاکہ ان کی واہ واہ ہوسکے، یا سوچ سمجھ کر سنجیدگی سے یہ باتیں کی ہیں؟ اور کیا پارٹی قیادت خصوصاً میاں نوازشریف سے مشورے کے بعد یہ بھاشن دیا ہے یا ازخود ایسا کرلیا ہے؟ کیونکہ ایک طرف وزیراعظم نوازشریف اور اُن کا خاندان سپریم کورٹ میں بھی اپنے اثاثے پیش نہیں کررہا اور نہ منی ٹریل دکھا رہا ہے، اور دوسری طرف ان کے چھوٹے بھائی اپنے اوپر احتساب کا شفاف نظام لاگو کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔
لاہور کے ایوانِ اقبال میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب نے اس موضوع پر تفصیلی گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 70 سالوں میں اس ملک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا گیا۔ غریبوں، یتیموں، مسکینوں کا حق مارنے والوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں، شفاف احتساب کے بغیر کوئی قوم آگے نہیں بڑھ سکتی۔
وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ قوم کے بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، آج اگر ہزاروں پاکستانی بچے، بچیاں ڈاکٹر، انجینئر بننے سے محروم رہ گئے تو اس کی ذمہ دار اس ملک کی اشرافیہ ہے۔ سیاست دانوں، اشرافیہ، افسر شاہی اور بااختیار طبقے نے ملک کی تقدیر کو بدلنے نہیں دیا، اور وسائل کی لوٹ مار کے باعث لاکھوں بچے، بچیاں اپنا مستقبل نہیں سنوار سکے، جس کی واحد مجرم ملک کی اشرافیہ ہے اور میں بھی اس میں شامل ہوں۔
وزیراعلیٰ نے دعوت دی کہ آئیں وزیراعظم، مَیں، عمران خان، تمام سیاست دان، تاجر، جج اور جنرلز اپنے آپ کو پابند کریں کہ جس طرح وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں اسی طرح قوم کے دیگر بچے بچیوں کو تعلیم دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ یہی پاکستان کو آگے لے جانے کا واحد راستہ ہے۔
وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ کاروں، کوٹھیوں اور فیکٹریوں کے مالکان نے اس غریب قوم کے اربوں کھربوں روپے کے قرضے ہڑپ کیے۔ انہوں نے غریبوں کا حق مارا، مگر انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں، بلکہ اب یہی لوگ ایمان داری اور دیانت داری کا درس دیتے ہیں، کرپشن کے خلاف لیکچر اور بھاشن دیتے ہیں۔
وزیراعلیٰ کا بھاشن تو زبردست ہے، جس پر انہیں 100 میں سے 100 نمبر دیے جاسکتے ہیں، لیکن اسی بھاشن کو اُن کے عمل کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو اُن کو کتنے نمبر ملیں گے، اس کا خود انہیں بھی اندازہ ہے اور قوم بھی جانتی ہے کہ شاید اس امتحان میں وہ پاسنگ مارکس بھی حاصل نہیں کرسکیں گے۔
وزیراعلیٰ نے کہنے کی حد تک جو کچھ کہا ہے وہ درست بھی ہے اور حالات کی سنگینی کا احساس بھی دلا رہا ہے، لیکن حقیقت میں جو کچھ انہوں نے کہا، حالات اُس سے زیادہ سنگین اور پریشان کن ہیں۔ شاید وزیراعلیٰ نے یہ سب کچھ کہہ کر اپنا کیتھارسس کرلیا ہو، یا اپنے ضمیر کو اس حد تک مطمئن کرلیا ہو کہ انہوں نے کم از کم زبان سے تو اس کا اظہار اور اعتراف کرلیا ہے۔ لیکن وزیراعلیٰ کا عہدہ اظہارکے لیے نہیں عمل کے لیے ہوتا ہے۔ حالات کی سنگینی کا اظہار تو اہلِ قلم، دانشور، صحافی، اساتذہ اور سیاست دان کرتے ہی رہتے ہیں، کہ ان کے پاس اس پر عمل کا کوئی طریقہ اور اختیار نہیں ہوتا۔ وہ صرف توجہ دلاسکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ کا عہدہ کسی کو توجہ دلانے کے لیے نہیں ہوتا، وزیراعلیٰ کو تو عمل کرنا ہوتا ہے، کچھ کرکے دکھانا ہوتا ہے۔ خصوصاً جن امور پر وہ خود متفق ہوں، جن خرابیوں کا وہ خود اعتراف کررہے ہوں تو پھر رکاوٹ کیا ہے؟ عمل انہیں ہی کرنا اور کرانا ہے۔ وہ بھاشن نہ دیں، عمل کریں اور خود کو ذہنی اذیت اور قوم کو عملی مشکلات سے نجات دلائیں، کہ یہ ان کی ذمہ داری بھی ہے اور ان کے منصب کا تقاضا بھی۔ اس بارے میں تو بعض دانشوروں کا نقطہ نظر بہت سخت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ، چیف جسٹس، صدر اور گورنروں کو تقریریں کرنا ہی نہیں چاہئیں۔ وہ علامتی تقریبات میں ضرور جائیں اور وہاں تقریب کی مناسبت سے تقریر کریں، مثلاً قومی تہواروں اور اہم مواقع پر۔ باقی عوامی تقریبات سے انہیں گریز کرنا چاہیے، کیونکہ کوئی عہدہ سنبھالنے کے بعد وہ عوامی سے زیادہ قومی اور سرکاری شخصیت بن جاتے ہیں۔ وہ قوم کے مختلف طبقات، منتخب نمائندوں، دانشوروں کی آرا سنیں۔ ماہرین سے ان پر مشاورت کریں اور عمل اور عملدرآمد کی پٹری پر چل کھڑے ہوں۔ لوگوں کی آرا اور ماہرین کے مشورے پر جو فیصلہ کریں اُس پر عملدرآمد ان کی ذمے داری ہے۔ وہ یہ ذمہ داری ادا کریں، تقریروں کا میدان اپنے پارٹی لیڈروں کے لیے چھوڑ دیں، اس سے حکومتیں بھی مضبوط ہوں گی اور پارٹیاں بھی۔ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو تقریبات اور تقریروں کا وقت بچا کر فیصلہ کرنے اور عملدرآمد کی پیش رفت کا جائزہ لینا چاہیے۔
وزیراعلیٰ نے اس تقریر میں مشورہ دیا ہے کہ وزیراعظم، ججز، جنرلز، وزرائے اعلیٰ، وزراء، تاجر اور سیاستدان سب احساب کے شفاف نظام کو اپنے اوپر لاگو کریں۔ بظاہر تو یہ بہت سادہ اور دردمندانہ مشورہ لگتا ہے، لیکن شہبازشریف نے اس مشورے میں ترپ کی ایک بڑی چال چلی ہے۔ یہ مشورہ اتنا سادہ نہیں بلکہ بہت پُرپیچ اور دوررس نتائج کا حامل ہے۔ اس میں پہلی چال تو یہ ہے کہ ہم لوگوں کے لیے احتساب کے کسی ادارے کی ضرورت نہیں۔ ہم اپنے اوپر ازخود احتساب کا ایک نظام لاگو کرلیتے ہیں، اور جسے ہم اپنے اوپر لاگو کریں گے اُس سے زیادہ شفاف نظام کون سا ہوسکتا ہے! حقیقت میں یہ احتساب سے بچنے اور احتساب کے اداروں کو اپنے آپ سے دور رکھنے کی ایک شعوری کوشش ہے۔ اگر خود احتسابی کا یہ نظام ان اعلیٰ عہدیداروں کو خود طے کرنا ہے تو اس کا انجام جو ہوگا وہ سب کو معلوم ہے، کہ جس طرح اب کام چل رہا ہے اسی طرح چلتا رہے گا۔ اور اگر یہ نظام کوئی ادارہ مثلاً پارلیمنٹ بھی بنادے تو یہ ایک امتیازی نظام ہوگا اور قابلِ عمل نہیں ہوگا۔ اگر خود احتسابی کا بظاہر شفاف نظام اپنے اوپر لاگو کرنے کا اختیار وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں کو دیا جاسکتا ہے تو یہ اختیار مجھ جیسے ایک عام آدمی کو بھی حاصل ہونا چاہیے۔ اعلیٰ عہدیداروں کے لیے کوئی اور نظام، اور عام شہریوں کے لیے جبری نظام امتیازی نظام ہوگا جسے کوئی قبول نہیں کرے گا، اور اگر یہ اختیار ہر شہری کو دے دیا جائے تو تمام احتسابی ادارے بند کرنا پڑیں گے اور خود احتسابی کے نام پر ایسی ’’بے احتسابی‘‘ شروع ہوجائے گی جس سے پورا معاشرہ ہی افراتفری کا شکار ہوجائے گا۔
وزیراعلیٰ نے اس تقریر میں عمران خان کا نام لے کر اور باقی سیاست دانوں کا تذکرہ کرکے انہیں دانہ ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ آؤ ہم لڑائی جھگڑے بند کرکے اپنے اوپر ایک نام نہاد شفاف نظام لاگو کرلیتے ہیں، اپنا ایک کلب بنا لیتے ہیں، کوئی اور ہم سے کوئی سوال پوچھے نہ جواب طلب کرے۔ ہم بالاتر اشرافیہ ہیں، یہ چھوٹے چھوٹے ادارے ہم سے پوچھنے والے کون ہوتے ہیں! ان کا رخ غریب عوام کی جانب ہونا چاہیے۔ وزیراعلیٰ کی اس تجویز میں عمران خان کو یہ دبی ہوئی پیشکش بھی موجود ہے کہ چھوڑو پاناما، احتساب اور تلاشی کی باتیں۔ ہم اپنا اپنا احتساب خود ہی کرلیں گے۔ ہماری فائلیں کھلیں گی تو تمہاری بھی کھل جائیں گی۔ اپنی فائلیں بند رکھتے ہیں اور خود احتسابی کے نام پر قوم کو ایک اور لولی پاپ دے دیتے ہیں۔
وزیراعلیٰ نے بظاہر بڑی دردمندی سے کہا ہے کہ غریبوں اور یتیموں کا حق مارنے والوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ وزیراعلیٰ کا یہ تیر تو براہِ راست اُن کی اپنی اور شریف خاندان کی پشت میں جا کر لگتا ہے۔ وزیراعلیٰ پوری تفصیل سے جانتے ہیں کہ اس ملک میں غریبوں، مسکینوں کا حق مارنے والے کون ہیں۔ جن کے بارے میں وہ نہیں جانتے اُن کے بارے میں تھوڑا سا تردد کرکے جان سکتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کی فائلیں کھلی مگر عملاً دبی ہوئی ہیں۔ بہت سوں کے خلاف متاثرین کی شکایتیں ریکارڈ پر ہیں، اور بہت سوں کے خلاف خلقِ خدا برسوں سے دہائیاں دے رہی ہے۔ وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ جنابِ والا انہیں آپ کو پوچھنا تھا، مگر آپ نے نہیں پوچھا۔ ان لوگوں کو کوئی چھوٹا موٹا افسر نہیں پوچھ سکتا کہ یہ بااثر لوگ ہیں۔ آپ کی ذمہ داری تھی کہ انہیں پوچھتے، ان سے حساب لیتے، اور غریبوں، مسکینوں کا حق ان سے چھین کر اصل حق داروں تک پہنچاتے۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا، کہ ان میں سے بہت سے لوگ آپ کے اردگرد ہیں۔ ان میں سے کئی آپ کی پارٹی کے عہدیدار ہیں۔ انہیں آپ نہیں پوچھتے تو کوئی اور کیسے پوچھے گا! آپ اور آپ کا خاندان تقریباً ربع صدی سے برسراقتدار ہے۔ بہت سے پوشیدہ راز بھی آپ کے علم میں ہیں، مگر آپ ان مردودوں کو پوچھتے نہیں۔ آپ صدر زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹ کر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کا بھاشن تو دیتے ہیں مگر کرتے کچھ نہیں، بلکہ انہیں اپنے گھر جاتی امراء بلا کر عزت دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی اس معاملے میں مجرم ہے کہ اتنے ہی عرصے اقتدار میں رہ کر اس نے بھی کسی کو نہیں پوچھا۔ جسے پوچھا وہ عملاً انتقام تھا۔ ذرا غور کریں کہ آپ اس معاملے میں خدا کو کیا جواب دیں گے؟ اسے وہاں تو جواب دینا ہوگا، کوئی چال نہیں چلی جاسکے گی۔
وزیراعلیٰ نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ لاکھوں بچوں کو تعلیم نہ دیے جانے کی ذمہ دار اشرافیہ ہے، جس میں وہ خود بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج جس طرح ہم (اشرافیہ) اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں اسی طرح قوم کے دیگر بچے بچیوں کو تعلیم دلانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ وزیراعلیٰ جانتے ہیں کہ وہ اور ان کی اشرافیہ خود یہ بندوبست کررہی ہے کہ ان کے بچے قوم کے دوسرے بچوں سے مختلف تعلیم حاصل کریں۔ ان کے تعلیمی ادارے اور ہیں، ان کا نصاب اور ہے، ان کا ذریعہ تعلیم اور ہے، ان کی تربیت اور انداز میں کی جارہی ہے، اور باقی قوم کے بچوں کو اس طرح کے تعلیمی اداروں، نصاب اور ذریعہ تعلیم سے دور رکھا جارہا ہے، اور یہ سب کچھ سوچ سمجھ کر کیا جارہا ہے کہ کہیں عام آدمی کا بچہ آپ کے بچے کے برابر نہ آجائے۔ اگر آپ آج ملک میں یکساں نظام تعلیم نافذ کردیں، ایک ہی طرح کے تعلیمی ادارے بنادیں، یکساں نصاب لاگو کردیں، ایک ہی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنادیں، زیادہ بہتر ہوگا کہ ذریعۂ تعلیم قومی زبان ہو، تو آپ کی سیٹوں پر غریبوں کے بچے بیٹھے ہوں گے۔ آپ اگر کچھ اور نہیں کرنا چاہتے تو اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں ڈال دیں، نصف مسئلہ حل ہوجائے گا۔ اور اگر بیرون ملک تعلیم کے لیے صرف میرٹ پر آنے والے بچے بھیجے جائیں، کسی کو اپنے اخراجات پر بیرون ملک تعلیم کی اجازت نہ ہو۔ ایسا کرلیں تو آپ اور آپ کی اشرافیہ کے بچے رائے ونڈ کے ٹاٹ اسکولوں سے آگے نہ بڑھ سکیں گے، اور عام مزدور، کاشتکار، تندورچی اور خاکروب کے بچے بیرون ملک تعلیم کے لیے جائیں گے۔ پاکستان کو آگے لے جانے کا یہی راستہ ہے۔
وزیراعلیٰ کہتے ہیں قرضے ہڑپ کرنے والوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ جناب انہیں آپ نے پوچھنا ہے، ان سے قرضے واپس لینے ہیں، انہیں سڑکوں پر گھیسٹ کر لوٹی ہوئی دولت آپ کو واپس لانی ہے۔ مگر آپ یہ سب کچھ کرنے کو تیار نہیں۔
اس لیے آپ کا بھاشن تو بہت اچھا ہے مگر عمل کے میدان میں اس کے نمبر صفر ہیں، یعنی انڈا۔ آپ بھی اُن لوگوں کے ساتھی ہیں جو غریبوں کا حق مار کر کرپشن کے خلاف بھاشن دیتے ہیں۔ ان کی زبانیں بند کرنا آپ کی ذمہ داری ہے، لیکن آپ اپنی یہ ذمہ داری اد اکرنے کے بجائے صرف بھاشن دے رہے ہیں جس کی اس قوم کو کوئی ضرورت نہیں ہے۔ nn

حصہ