برازیل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے دو مذہب ہیں۔ ایک عیسائیت، دوسرا فٹبال۔ پاکستان کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ پاکستان کے دو مذہب ہیں، اسلام اور کرکٹ۔ مگر پاکستان کے وزیراعظم میاں نوازشریف، ذرائع ابلاغ اور قومی رہنماؤں نے یہ بات کہے بغیر کرکٹ کو پاکستان کا دوسرا مذہب بنادیا ہے۔ اس سلسلے میں میاں نوازشریف کا ایک بیان انتہائی اہم اور زیربحث موضوع کے حوالے سے اُن کے خلاف سب سے بڑی شہادت ہے۔ مگر اس بیان میں میاں نوازشریف نے کہا کیا ہے؟
بیان کے مطابق میاں صاحب نے فرمایا کہ
’’گزشتہ چار سال کے دوران کرکٹ سے ہم مزید مضبوط، مستحکم اور متحد ہوئے۔‘‘
(روزنامہ ’’جنگ‘‘ کراچی۔ 6 مارچ 2017ء۔ صفحہ اول)
میاں صاحب جب سے تیسری بار اقتدار میں آئے ہیں، روزنامہ جنگ اُن کے ترجمان اور صحافتی محافظ کا کردار ادا کررہا ہے۔ ورنہ کوئی دوسرا اخبار ہوتا تو مذکورہ بالا بیان کے حوالے سے کہا جاسکتا تھا کہ اس نے اپنی زبان میاں صاحب کے منہ میں ڈال دی ہے۔ لیکن میاں صاحب نے جو کچھ کہا ہے اس کا مفہوم کیا ہے؟ اقبال نے کہا ہے:
بازو ترا اسلام کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تُو مصطفوی ہے
۔۔۔۔۔۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
۔۔۔۔۔۔
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
۔۔۔۔۔۔
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے
اقبال کے ان شعروں کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمانوں کی اصل طاقت ان کا دین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ان کی محبت ہے۔ یہی چیزیں مسلمانوں کو مضبوط کرتی ہیں۔ یہی چیزیں مسلمانوں کو مستحکم بناتی ہیں۔ یہی چیزیں مسلمانوں کو متحد کرتی ہیں۔ چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ پاکستان اور پاکستان کی قوم کی اصل طاقت بھی اسلام ہی ہے۔ اسلام نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ لیکن میاں صاحب نے فرمایا ہے کہ گزشتہ چار سال کے دوران ہمیں ہمارے دین اور عشقِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کرکٹ نے مضبوط، مستحکم اور متحد کیا ہے۔ یہ اعلان کے بغیر کھیل کو مذہب بنانے کی کوشش نہیں تو اور کیا ہے؟
یہاں سوال یہ ہے کہ میاں نوازشریف نے گزشتہ چار سال میں کتنی بار یہ فرمایا کہ ہمارا مذہب اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مضبوط، مستحکم اور متحد کررہا ہے؟ اس سوال کا جواب واضح ہے۔ میاں صاحب نے گزشتہ چار سال میں ایک بار بھی ایسا بیان دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کی ہوتی تو ان کا کوئی نہ کوئی بیان ریکارڈ پر موجود ہوتا۔ لیکن میاں صاحب نے پی ایس ایل کے فائنل کے بعد کرکٹ کو یہ ’’اعزاز‘‘ عطا کردیا ہے کہ وہ ہمیں مضبوط و مستحکم بنارہا ہے، اور نہ صرف یہ، بلکہ وہ ہمیں متحد بھی کررہا ہے۔ فرض کیجیے میاں صاحب کی بات سو فیصد درست ہے ۔ یعنی کرکٹ کا کھیل ہمیں واقعی مضبوط و مستحکم اور متحد کررہا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ بجائے خود ایک افسوسناک بات ہوگی۔ اس لیے کہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارے حکمران قوم کو مضبوط و مستحکم اور متحد کرنے کے سلسلے میں اسلام کی قوت اور امکانات کو تو بروئے کار نہیں لارہے لیکن ان کے لیے کرکٹ کا کھیل اتنا ’’مقدس‘‘ ہے کہ اس کی قوت اور امکانات کو قوم کے اتحاد اور مضبوطی کے لیے بروئے کار لایا جارہا ہے۔ یہ کسی اعلان کے بغیر مذہب کی توہین اور کرکٹ کی انتہائی توقیر کی انتہا ہے، اور بلاشبہ یہ ایک سیکولر رویہ ہے۔ لیکن یہاں مسئلہ صرف نوازشریف کا نہیں ہے۔ پاکستان کے تمام ذرائع ابلاغ کھیل کو مذہب بنانے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض سیاسی رہنما بھی بیگانی شادی میں ’’عبداللہ دیوانہ‘‘ کا کردار ادا کرتے نظر آئے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کھیل کو مذہب بنانے کا عمل تو واضح ہوچکا، لیکن مذہب کو کھیل بنانے کے عمل کا کیا مفہوم ہے؟
پاکستان آئینی اعتبار سے اسلامی جمہوریہ ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان کی ہر چیز کو اسلامی ہونا چاہیے۔ لیکن ہمارے قوانین غیر اسلامی ہیں، ہماری تعلیم غیر اسلامی ہے، ہماری معیشت غیر اسلامی ہے، ہمارا عدالتی نظام غیر اسلامی ہے، ہمارے ذرائع ابلاغ پر اسلام ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا، ہماری سیاست پر پیسے اور طاقت کی نفسیات اور اقدار کا غلبہ ہے۔ آئین کی دفعہ 62 اور 63 کہتی ہیں کہ ہمارے منتخب نمائندوں کو صادق اور امین ہونا چاہیے، لیکن ہمارے منتخب نمائندوں کی عظیم اکثریت بدعنوانی اور لوٹ مار کی علامت ہے۔ ان حقائق کا مفہوم عیاں ہے۔ پاکستان کی فوجی اور سول اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کے آئین کو اسلام کا قید خانہ بنادیا ہے۔ یعنی ہمارا حکمران طبقہ اسلام کو آئین سے نکال کر قومی زندگی پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔ اس صورتِ حال نے ہمارے آئین کو سیاسی رہنماؤں اور عوام کے لیے ’’اسلامی جھنجھنا‘‘ بنادیا ہے، جسے بجا کر وہ عرصے سے خوش ہورہے ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ نے 23 دسمبر 1999ء کو سود کے خلاف مقدمے میں تاریخ ساز فیصلہ دیا تھا۔ عدالت نے فیصلے میں سود کو حرام قرار دیتے ہوئے کہا تھاکہ ملک کے بینکاری نظام کو سود سے پاک کیا جائے اور وطنِ عزیز میں غیر سودی بینکاری اور غیر سودی معیشت کی راہ ہموار کی جائے۔ لیکن اس فیصلے کو 18 سال ہوگئے اور ہمارا بینکاری کا نظام کیا پوری معیشت سود پر چل رہی ہے۔ یہ تو کل ہی کی بات ہے کہ سوشل میڈیا پر توہینِ رسالت کی بڑی بڑی وارداتیں ہورہی تھیں، لیکن نہ جنرل باجوہ کو ان کی اطلاع ہوسکی، نہ میاں نوازشریف ان سے مطلع ہوسکے، نہ ہماری ایجنسیوں نے اس سلسلے میں کچھ کیا، نہ چیف جسٹس آف پاکستان کو اس سلسلے میں ازخود کارروائی کا خیال آیا۔ پاکستان میں بیٹھ کر ذرا کوئی سوشل میڈیا پر جنرل باجوہ، میاں نوازشریف یا چیف جسٹس آف پاکستان کی توہین کرکے دیکھے۔ ڈیڑھ دو دن میں یا تو وہ لاپتا ہوجائے گا یا دھر لیا جائے گا۔ لیکن توہینِ رسالت تو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ نہ جانے کیسے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو توہینِ رسالت کی وارداتوں کا خیال آیا تو انہوں نے اسے مقدمے کی صورت دی۔ اور اب اچانک میاں نوازشریف بھی متحرک ہوگئے ہیں اور وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار بھی فرما رہے ہیں کہ اگر توہینِ رسالت پر پورا سوشل میڈیا بند کرنا پڑے تو بند کردیں گے۔ یہاں عرض کرنے کی اصل بات یہ ہے کہ اس کو کہتے ہیں مذہب کو کھیل بنانا۔۔۔ اور ہمارا حکمران طبقہ برسوں سے پاکستان میں اسلام کے ساتھ کھیل کھیلے چلا جارہا ہے، اور یہ کرتے ہوئے وہ مذہب کو بھی کھیل میں تبدیل کررہا ہے۔ اس کھیل کا ایک پہلو یہ ہے کہ امریکہ کہے تو ہمارے جرنیلوں اور سول حکمرانوں کے لیے جہاد حلال اور جہادی مطلوب و مقصود ہوجاتے ہیں۔ امریکہ کا مفاد اور اُس کی رائے بدلتی ہے تو جہاد ’’حرام‘‘ اور جہادی مردود ہوجاتے ہیں۔ حکمران اور ان کے زیراثر لوگ کہتے ہیں کہ جہاد کا اعلان کرنا ریاست کی صوابدید ہے، اور یہ بات بالکل درست ہے۔ لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے بھارت کے ساتھ چار جنگیں لڑی ہیں، مگر انہوں نے ایک بار بھی بھارت کے خلاف جہاد کا اعلان نہیں کیا۔ اسرائیل اور عربوں کے درمیان پانچ چھے جنگیں ہوچکی ہیں، مگر کسی عرب حکمران نے کسی جنگ میں بھی اسرائیل کے خلاف جہاد کے اعلان کی زحمت نہیں کی۔ مسلم دنیا کے حکمران جہاد کے حکم پر عمل کررہے ہوتے تو کسی نام نہاد ’’پرائیویٹ جہاد‘‘ کی نوبت ہی نہ آتی۔ لیکن یہاں بھی کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے لیے مذہبی احکامات بھی اہم اور مقدس نہیں، اور وہ ان کے سلسلے میں بھی کھیل کی نفسیات سے بلند نہیں ہوپاتے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا اسلام میں کھیل کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کھیل تفریح ہے، اور زندگی میں تفریح کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے کہ تفریح ذہن، جذبات، احساسات اور ماحول کی یکسانیت اور تکرار کو توڑتی ہے اور انسان کے لیے فرحت کا سامان مہیا کرتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ کھیل زندگی کا حصہ ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں اور ذرائع ابلاغ کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے زندگی کو کھیل کا حصہ بنادیا ہے۔ یعنی انہوں نے پوری زندگی کو کھیل اور تفریح میں ڈھال دیا ہے۔ کھیل اور تفریح کا یہ تصور نہ مذہب کے لیے قابلِ قبول ہے اور نہ یہ ہماری تہذیب اور تاریخ کا تجربہ ہے۔ یہاں تک کہ سیکولر مغرب نے جو ’’مادی ترقی‘‘ کی وہ بھی علم، ذہانت اور محنت کا حاصل ہے۔ کھیل اور تفریح کا حاصل نہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو ہماری قومی زندگی پہلے ہی کھیل اور تفریح کی فراوانی کا شکار ہے۔ ہمارے یہاں لوگ روزانہ تین سے چار گھنٹے ٹی وی دیکھتے ہیں۔ ٹی وی پر وہ ڈرامے دیکھتے ہیں، فلمیں ملاحظہ کرتے ہیں، موسیقی سنتے ہیں، اسپورٹس چینلز پر کرکٹ، ہاکی، فٹبال اور ٹینس کے مقابلوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پاکستان کے لوگ انٹرنیٹ کو بڑے پیمانے پر استعمال کرتے ہیں۔ یہاں بھی بیشتر لوگ ’’تفریح‘‘ ہی ’’تلاش‘‘ کرتے ہیں۔ تفریح کے اس طوفان میں ہمارے حکمران اور ذرائع ابلاغ پی ایس ایل یا اس جیسی تفریح کو قوم پر مسلط کریں گے تو قوم کا ’’نظریۂ حیات‘‘ ہی کھیل اور تفریح بن جائے گا۔ کیا ہمارے حکمران، ذرائع ابلاغ اور سیاسی رہنما یہی چاہتے ہیں؟ لیکن یہاں ایک سوال اور بھی ہے، اور وہ یہ کہ ہمارے یہاں کھیل، تفریح سے جنون اور جنون سے مذہب کیسے بن جاتا ہے؟
اس کا ایک سبب یہ ہے کہ ہماری قومی زندگی میں کوئی بڑا مقصد ہی نہیں۔ روحانی اور علمی مقصد تو بڑی چیز ہے، کوئی بڑا مادی مقصد بھی ہمارے اجتماعی شعور پر سایہ فگن نہیں ہے۔ ہماری اجتماعی زندگی ایک بڑے خلا سے دوچار ہے۔ اس خلا کو ہم کرکٹ اور ہاکی جیسے کھیل میں چھوٹی موٹی کامیابی حاصل کرکے پُر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اب ہم کرکٹ میں بھی بڑی اہلیت اور بڑی صلاحیت پیدا کرنے سے قاصر ہوتے جارہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اب اگر ہم پی ایس ایل جیسی سرگرمی بھی منظم کرلیتے ہیں تو ہم پر ’’وجد‘‘ کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ہمارا ایک بڑا مسئلہ بڑے کرداری نمونوں یا حقیقی ہیروز سے محرومی ہے۔ ہماری تہذیب اور تاریخ نے اتنے بڑے انسان پیدا کیے ہیں کہ دنیا کی کوئی اور ملت اور امت اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی۔ مگر ہم اب ایسے انسانوں سے زندہ تعلق محسوس نہیں کرتے۔ نتیجہ یہ کہ فلمی اداکار اور کھلاڑی ہی اب ہمارے حقیقی ہیروز بن گئے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم حقیقی اور مستقل ہیروز اور وقتی و عارضی ہیروز کے درمیان فرق کو بھی فراموش کرچکے ہیں۔ اس سلسلے میں قدیم یونان کا ایک واقعہ چشم کشا ہے۔ قدیم یونان میں ایتھنز اور اسپارٹا کے دو پہلوانوں کے درمیان مقابلہ تھا۔ ہزاروں لوگ اکھاڑے کے گرد جمع تھے۔ مقابلے میں ایتھنز کے پہلوان بولو نے فتح حاصل کرلی۔ پورا علاقہ بولو کی جے جے کار سے گونجنے لگا۔ لوگ نعرے لگانے لگے ’’بولو ہمارا ہیرو ہے‘‘۔ یہ سلسلہ کچھ دیر جاری رہا تو ایک بوڑھا اکھاڑے میں داخل ہوا اور لوگوں سے مخاطب ہوا:
’’اے لوگو بے شک بولو ایک عظیم پہلوان ہے۔ مگر بولو صرف آج کا ہیرو ہے۔۔۔ آج کا ہیرو۔ یونان کا مستقل ہیرو تو سقراط ہی ہوسکتا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی ہجوم پر سکتہ طاری ہوگیا۔ چند لمحوں میں ہجوم کو بوڑھے کی بات سمجھ میں آئی تو وہ نعرے لگانے لگا ’’بولو ہمارا ’’آج‘‘ کا ہیرو ہے۔۔۔ آج کا ہیرو ہے‘‘۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عوام، ذرائع ابلاغ اور سیاسی رہنماؤں کے ہجوم کو یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ ہمارے کرکٹرز میں اب کوئی عمران خان، میانداد اور ظہیر عباس تک نہیں، چنانچہ ہمارے کرکٹر بمشکل ہی آج کے ہیرو کہلاسکتے ہیں۔ رہا پاکستان کے مستقل ہیروز کا سوال، تو پاکستان کا حقیقی ہیرو توکوئی اقبال، کوئی محمد علی جناح اور کوئی مولانا مودودی ہی ہوسکتا ہے۔ کالم یہاں تک لکھا جاچکا تھا کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور پشاور زلمی کی ٹیم کے درمیان ملاقات کی اطلاع آگئی۔ خبر کے مطابق جنرل باجوہ نے پشاور زلمی کو پی ایس ایل جیتنے پر مبارکباد دی۔ میاں نوازشریف کی طرح انہوں نے بھی فرمایا کہ کرکٹ قوم کو متحد کرنے والا کھیل ہے۔
واہ! اس کو کہتے ہیں
میاں نوازشریف اور جنرل باجوہ بھائی بھائی
nn