عورت کی زندگی میں اس کا سب سے گہرا اور قریبی رشتہ اس کے اپنے گھر سے ہوتا ہے۔عورت جتنی باہری دنیا میں غیر محفوظ ہے اس سے کہیں زیادہ وہ خود کو چار دیواری میں محفوظ سمجھتی ہے۔ اگر وہ محفوظ ترین پناہ گاہ اس کے لیے غیر محفوظ ہوجائے تو یقیناًیہ ایک غیر فطری عمل ہوگا۔ جس گھر کو وہ اپنے لیے محفوظ گاہ سمجھتی ہے وہی گھر اس کے لیے اذیت اور ظلم کا مقام بنتا جارہا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے۔ معمولی سی خطا پر اسے لاتوں اور گھوسوں سے مارا جاتا ہے۔ تڑپایا جاتا ہے اور سارا سارا دن بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے۔
ان تمام وجوہ کو جاننے کے لیے عورت کو سب سے پہلے اپنی ذات کے مفہوم کو سمجھنا ہوگا۔ اگر عورت کی معاشی حالت اچھی نہیں ہے تو وہ اپنے گھر کی چار دیواری سے باہر نکل سکتی ہے تاکہ دو وقت کی روٹی حاصل کرنے کے لیے دوسروں کا منہ نہ تکنا پڑے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ عورت چاہے کتنی ہی آزاد کیوں نہ ہو جائے وہ اپنی ذمہ داریوں سے اور اپنے فرائض سے ہر گز منہ نہیں موڑ سکتی۔ جو قدرت کی طرف سے اس پر عائد کی گئی ہیں۔ یہاں پرمسئلہ یہ ہے کہ گھر سے نکلنے والی اس خاتون کو باہر کا معاشرہ گھر سے باہر نکلنے ہی نہیں دیتا۔ اگر وہ کہیں کام کرتی ہیں تو انہیں وہاں پر حراساں کیا جاتا ہے۔ آئے روز ایسی خواتین کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں کہ کبھی اغوا کرلیا جاتا ہے ۔ کبھی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
شرمین عبید چنائے شوبز کی دنیا میں بہت بڑا نام ہے۔ شرمین عبید چنائے جنسی تشدد پر ڈاکومینٹری پر آسکرا ایورڈ بھی لے چکی ہیں تاہم کیا وہ ایوارڈ یا یہ سب کچھ آج کی خواتین کو جنسی حراساں کرنے سے بچاسکتا ہے۔ یا صرف اپنی تشہیر اور پاکستان کی بدنامی کے لیے تھا۔ پنجاب اسمبلی میں اس سے متعلق ایک بل بھی پاس ہوا۔ اس بل کے ذریعے اگرچے سزائیں بھی دی گئیں تاہم بہت سے ایسی خواتین ہیں جنہیں ڈرا دھمکا کر چپ کرادیا جاتا ہے۔ مسئلے کا حل سزائیں ہیں مگر با اختیار افراد پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا اور وہ جس طرح چاہیں کرتے پھرتے ہیں۔ اس لیے مسئلے کے حل کے لیے بلا امتیاز سزائیں دینی چاہئیں۔
اس کے علاوہ کچھ ذمہ داریوں ہمارے معاشرے کے مردوں پر بھی عائد ہوتی ہیں۔ اپنی نظروں کو نیچے رکھ کر چلیں۔ دوسروں کی بہن بیٹی کی عزت کریں گے تو دوسرے ان کی بہن بیٹی کو بری نظر سے نہیں دیکھیں گے۔ ایک سوال یہ بھی ذہن میں ابھرتا ہے۔وہ خواتین جو شادی کے بعد سسرال اور شوہر کی خدمت کرتے ہوے ظلم و ستم کا شکار ہوتی ہیںآخر کو وہ بھی تو کسی گھر کی عزت ہوتی ہیں۔
ہم لوگ بیٹیوں کو رخصت کرتے ہوے یہی سوچتے ہیں اور دعا دیتے ہیں کہ جس گھر میں جائے وہاں راج کرے۔ لیکن ہم میں سے کوئی اس بات کو نہیں مانتا کہ بہو بھی تو کسی گھر کی عزت ہے۔ اگر آج ہم لوگ اس کے ساتھ نازیبا رویہ اپنائیں گے اسے ماریں گے یا تشدد کا نشانہ بنائیں گے تو ہو سکتا ہے وہاں دوسرے گھر میں ہماری بیٹی کے ساتھ بھی ایسا کھیل کھیلا جا رہا ہو۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ دوسرے کی بیٹی کو بھی اپنی بیٹی سمجھنا چاہیے۔ اگر یہ نکتہ ہمارے معاشرے کے لوگوں کو سمجھ آ جائے تو کافی حد تک معاشرہ مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔
مردوں کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ عورت کمزور ہے۔ وہ بائیں پسلی سے پیدا ہوئی ہے اور ٹیڑھی ہے اسے سیدھی کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ ٹوٹ جائے گی لیکن سیدھی نہیں ہو گی۔ ہم ایک مہذب اور مسلم معاشرے میں رہتے ہیں ہمیں عورت کی عزت و احترام کرنا سیکھایا گیا ہے۔ عورت کو کچھ نہیں چاہے صرف دو بول پیار کے اور وہ آپ کے لیے اپنی زندگی بھر قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ اس نازک کلی کی عزت کریں کیوں کہ یہ ایک عورت کئی خاندانوں کی ضامن ہوتی ہے۔ آج آپ کے خلوص اور پیار سے اس کی تربیت ہوگی آنے والے دنوں میں یہ آپ کو بہتر سے بہتر معاشرہ اور تربیت یافتہ معاشرہ مہیا کرے گی۔ کچھ مت کریں بس اسے پیارسے بدلنے کی تھوڑی سی کوشش تو کریں آپ کو اپنی بیوی، بچی اور بہن میں واضح فرق محسوس ہوگا۔