(کراچی کے پانی کی کہانی(محمد انور

330

یہ بات ملک کے دیگر شہروں کے باشندوں کے لیے باعثِ حیرت ہوگی کہ تقریباً تین کروڑ آبادی والے سب سے بڑے شہر کراچی کے لوگوں کو ضرورت کے مطابق پانی دستیاب نہیں ہوتا، بلکہ یہاں کے لوگ موجود پانی کے مطابق اپنی ضروریات پوری کرتے ہیں۔ مکانات ہی نہیں بلکہ فلیٹوں میں رہنے والے افراد کی اکثریت کے روزمرہ کے کاموں میں پانی کی موجودگی کو اسٹور ٹینک میں چیک کرنا بھی ایک اہم کام ہوتا ہے۔کراچی کے لوگوں کو دریائے سندھ سے 500 اور حب ڈیم سے 80 ملین گیلن پانی یومیہ ملا کرتا ہے، جبکہ ان دنوں شہر کو پانی کی ضرورت 1242ملین گیلن یومیہ ہے۔ اس طرح ضرورت کے مقابلے میں روزانہ 652 ملین گیلن پانی کم ملا کرتا ہے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہری کس تکلیف میں گزر اوقات کرتے ہوں گے۔ یہ بات بھی سب کے لیے باعثِ حیرت ہوگی کہ پورے ملک کو چلانے والے کراچی کو کبھی بھی اس کی ضرورت کے مطابق پانی فراہم نہیں کیا گیا، جس کی وجوہات بہت ساری ہے لیکن سب سے اہم وجہ صوبائی حکومت کا متعصبانہ رویہ ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی کراچی کے امور میں عدم دلچسپی کی وجہ سے گزشتہ دس سال سے پانی کا کوئی نیا منصوبہ مکمل نہیں ہوا۔ آخری بار سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان کی دلچسپی کی وجہ سے کراچی آب رسانی منصوبہ سوئم جسے ’کے تھری‘ بھی کہا جاتا ہے، بنا اور اُن ہی کے دور میں مکمل ہوا، جس کی وجہ اُس وقت کی بلدیاتی قیادت کی شہری مسائل کے حل کے لیے بھرپور کوششیں تھی۔ اس طرح کے تھری پروجیکٹ 2005ء میں مکمل ہوگیا تھا لیکن اس منصوبے کا افتتاح نعمت اللہ خان کے دور میں نہیں ہوسکا، جس کی وجہ اُن کے دور کی مدت ختم ہوجانا اور کے تھری منصوبے کو حتمی شکل دینا تھی۔ گوکہ 2006ء کے شروع میں کے تھری کا مزید سو ملین گیلن پانی لوگوں کے لیے آخری پانی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شہر میں طلب کے مقابلے میں پانی کی کمی تقریباً652 ملین گیلن ڈیلی (ایم جی ڈی) تک پہنچ چکی ہے۔ شہریوں کی خوش قسمتی ہے کہ ان دنوں مزید 260 ملین گیلن نئے پانی کے حصول کے لیے ’’کے فور‘‘ منصوبے پر وزیراعظم میاں نوازشریف کی دلچسپی کے نتیجے میں کام جاری ہے۔ اس پانی کے لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے 2007ء میں تیاری مکمل کرلی تھی۔ منصوبہ بندی کے تحت اس کام کو 2011ء تک مکمل ہوجانا چاہیے تھا، مگر حکمرانوں کی عدم دلچسپی اور بلدیاتی قیادت کی سیاسی مصلحتوں کے باعث یہ منصوبہ وقت پر شروع نہیں ہوسکا۔ وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پہلے دور میں بنیادی ضرورت کے اس اہم منصوبے کو نظرانداز کیا۔ تاہم موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد اس منصوبے پر کام کا آغاز ہوا، لیکن عملی طور پر اس پر کام اگست 2016ء میں شروع ہوسکا۔ یہ منصوبہ شیڈول کے تحت جون 2018ء میں مکمل ہوسکے گا۔ اس حوالے سے منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر انجینئر سلیم صدیقی نے سنڈے میگزین کو بتایا کہ ان دنوں پروجیکٹ پر کام تیزی سے جاری ہے اور ان شاء اللہ یہ شیڈول سے پہلے مکمل ہوجائے گا۔ سلیم صدیقی کا کہنا ہے کہ ہماری کوشش ہے کہ اس بڑے منصوبے کو اس سال دسمبر یا جنوری 2018ء تک مکمل کرلیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ ’کے فور‘ دراصل تین مراحل کے تحت مجموعی طور پر یومیہ 780ملین گیلن پانی کی فراہمی کا عظیم پروجیکٹ ہے۔ اس لیے کوشش کی جارہی ہے کہ اس منصوبے کے فیز ٹو پر بھی کام کا آغاز کرادیا جائے۔ اس ضمن میں وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے اس سال مارچ میں فیز دوئم کے افتتاح کا وعدہ کیا ہوا ہے۔
پروجیکٹ ڈائریکٹر نے بتایا کہ ’کے فور‘ کے پہلے مرحلے کی لاگت 25 ارب روپے ہے، جس پر نصف فنڈ صوبائی حکومت اور نصف وفاقی حکومت برداشت کررہی ہے۔ سلیم صدیقی کا کہنا ہے کہ کسی بھی منصوبے کے لیے فنڈز کی دستیابی اہم نکتہ ہوتا ہے۔ الحمدللہ اس منصوبے کے لیے اب تک دونوں حکومتوں کی جانب سے بلا تعطل فنڈز کی فراہمی جاری ہے، جبکہ منصوبے کا ٹھیکہ پاک فوج کے ذیلی ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کو دیا گیا ہے تاکہ کوالٹی برقرار رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پروجیکٹ کے دیگر مراحل پر کام کا آغاز ہونے سے اس بات کا امکان ہے کہ آئندہ چند سالوں میں شہر کراچی کو ضرورت کے مطابق پانی ملنے لگے گا۔
nn

کراچی میں پانی کی قلت پر ماہرین کا مؤقف
ان دنوں کراچی کی کم از کم 2 کروڑ 30 لاکھ آبادی کو یومیہ 1242 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے، جبکہ شہر کو حب ڈیم سے یومیہ 80 اور دریائے سندھ سے زیادہ سے زیادہ 500 ملین گیلن پانی مل رہا ہے۔ پانی کی یہ مقدار عالمی معیار کے مطابق تقسیم و ترسیل کے نظام کے دوران ضائع ہونے والے پانی کے باوجود حاصل ہورہی ہے۔ انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کے مطابق دستیاب پانی کا 25 تا 30 فیصد ضائع ہوجاتا ہے۔ سنڈے میگزین کو ملنے والی معلومات کے مطابق اس طرح گزشتہ 10 سال سے شہر کو ملنے والے پانی کی مقدار 650 ایم جی ڈی میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکا جبکہ آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ پانچ سال قبل تک پانی کی کل طلب 1042 ایم جی ڈی تھی جو اب بڑھ کر 1242 ہوچکی ہے، جبکہ دس سال قبل بھی مزید سو ملین گیلن یومیہ پانی ’کے تھری‘ منصوبے کے تحت لایا گیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلسل کئی سال سے ضرورت کے مطابق پانی نہ ملنے کے باوجود کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ شہریوں کو پینے کے لیے پانی فراہم کرنے کے نظام کو کامیابی سے چلا رہا ہے جس کے لیے ایم ڈی مصباح الدین فرید اور دیگر متعلقہ انجینئر قابلِ تعریف ہیں۔ ان ماہرین نے بتایا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں ضرورت سے نصف مقدار میں پانی فراہم ہونے پر ہنگامے پھوٹ پڑتے ہیں لیکن خوش قسمتی سے کراچی میں ایسا شاذو نادر ہوتا ہے۔ اس وقت بھی شہر میں پانی کی کُل طلب 850 ایم جی ڈی تھی جبکہ دستیاب پانی 550 ایم جی ڈی تھا۔

پانی کی کمی کے بارے میں واٹر بورڈ کے
ایم ڈی مصباح الدین فرید کا مؤقف
کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے منیجنگ ڈائریکٹر مصباح الدین فرید نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پانی کی یومیہ 652 ایم جی ڈی کمی اور رواں سال جون میں بارشیں نہ ہونے سے حب ڈیم سے بھی 80 ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی بند ہوجائے گی، شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کا شدید بحران پیدا ہوجائے گا۔ انہوں نے عندیہ دیا ہے کہ اس سال جون میں جب ماہ رمضان المبارک شروع ہوگا، شہریوں کو پانی کی قلت کا سامنا رہے گا جس کو برداشت کرنے کے لیے لوگوں کو ذہنی طور پر تیار رہنا پڑے گا۔ انجینئر مصباح الدین فرید نے کہاکہ پانی کی کمی کی وجہ سے ہر دور میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے، مگر ہم لوگ اسے مینج کرتے ہیں۔ شہریوں کو جون میں رمضان المبارک شروع ہونے کی وجہ سے زیادہ صبر و شکر کرنا پڑے گا لیکن ہماری کوشش ہے کہ آر او پلانٹس کے ذریعے اور ڈملوٹی کنووں کے ذریعے پانی حاصل کیا جائے۔ اس ضمن میں مختلف تجاویز کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

کے فور کے دوسرے مرحلے کے آغاز میں تاخیر
اور پراجیکٹ ڈائریکٹر سلیم صدیقی کا مؤقف
کراچی کو پانی کی فراہمی کے منصوبے ’کے فور‘ کے دوسرے مرحلے پر کام کا آغاز تاخیر کا شکار ہونے کا خدشہ ہے۔کیونکہ اس حوالے سے تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ یاد رہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے شہر کو 260 ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کے منصوبے ’کے فور‘ کے تحت مزید اتنی ہی مقدار پانی کے دوسرے مرحلے پر بھی کام کا آغاز اس سال 23 مارچ تک کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سید مراد علی شاہ نے یہ اعلان گزشتہ سال 14اگست کو ’کے فور‘ منصوبے کے پہلے فیز کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا۔ حکومتی حلقوں میں کراچی کے معاملات پر دلچسپی رکھنے والے ذرائع نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ وزیراعلیٰ کی جانب سے واضح اعلان کے باوجود حکومتی مشینری نے اس فیز کو وقت پر شروع کرنے کے لیے تاحال کوئی اقدام نہیں کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بعض کراچی مخالف عناصر کی کوشش ہے کہ ’کے فور‘ کے فیز ون میں ہی ایسی نظر نہ آنے والی رکاوٹیں کھڑی کردی جائیں تاکہ بات دوسرے مرحلے تک نہ پہنچ سکے۔ تاہم ’کے فور‘ کے پروجیکٹ ڈائریکٹر سلیم صدیقی کا کہنا ہے کہ اس مرحلے کو آئندہ سال مارچ میں مکمل کرلیا جائے گا۔ سلیم صدیقی جو کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے نوجوان انجینئر ہیں، اس منصوبے کی وقت پر تکمیل کے لیے گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے منصوبے کے فیز دوئم کی تیاری بھی مکمل کرلی ہے، بس حکومت کی جانب سے اشارے کی ضرورت ہے جس کے بعد عملاً اس منصوبے پر بھی کام شروع کردیا جائے گا‘‘۔ تاہم سرکاری ذرائع کا مؤقف ہے کہ حکومت کی طرف سے وزیراعلیٰ کے اعلان کے باوجود دوسرے مرحلے کے لیے کاغذی کارروائی تک شروع نہ کیے جانے کی وجہ سے خدشہ ہے کہ اس پر کام کا آغاز رواں سال مارچ میں نہیں ہوپائے گا۔

پانی کی منصفانہ تقسیم کیسے ہوگی؟
صوبائی حکومت کو سندھ کے تمام شہروں کے لیے بھی آبادی کے لحاظ سے پانی کا کوٹہ مختص کرنا چاہیے۔ جبکہ بیوروکریسی کا بڑا قصور یہ بھی ہے کہ 1991ء کے بعد صوبوں کی پانی کی ضروریات کے حوالے سے دوبارہ اجلاس نہیں بلایا گیا اور وفاق کی توجہ اس جانب نہیں دلائی گئی۔ اس بارے میں یہ مؤقف اختیار کیا جاتا رہا کہ مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے پانی کی ضرورت کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے افسران نے کہا کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کو بھی اگر اس کی ضرورت کے مطابق پانی فراہم نہ کیا جائے تو یہ سراسر زیادتی ہے۔ صوبے کی جانب سے ان دنوں کراچی کو ملنے والا پانی’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ کے مترادف ہے۔ جبکہ شہر میں ان دنوں پانی کی کم ازکم طلب 1242 ملین گیلن ڈیلی (ایم جی ڈی) ہے۔

کراچی کے لیے پانی اور متعصب بیوروکریسی
کراچی کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں وافر مقدار میں پینے کے پانی کا ذخیرہ موجود ہونے کے باوجود کراچی کو مزید 260 ملین گیلن ڈیلی (ایم جی ڈی) پانی کی فراہمی کے جاری منصوبے ’کے فور‘ کے لیے بھی سندھ حکومت کی متعصب بیوروکریسی نے رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ اس ضمن میں نوکر شاہی کا مؤقف ہے کہ کراچی کو دینے کے لیے اضافی پانی موجود نہیں ہے۔ اس حوالے سے سنڈے میگزین کی تحقیقات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ سندھ حکومت کے محکمہ بلدیات اور پلاننگ سے متعلق افسران کا مؤقف یکسر غلط ہے، کیونکہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) سے ان دنوں بھی صوبے کو 36 ہزار 3 سو 70ملین گیلن یومیہ پانی ارسا کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت مل رہا ہے۔ جبکہ اس پانی میں سے کراچی کو صرف 550 ملین گیلن یومیہ پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 35ہزار 8 سو 10ملین گیلن یومیہ پانی صوبے کے کراچی سے باہر کے شہروں اور دیہاتوں کو دیا جارہا ہے۔

حصہ