(بوٹیر(وبینہ شریف

294

مالی دا کم پانی دینا بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پُھل لانا لاوے یا نہ لاوے
بوٹے دو طرح کے ہوتے ہیں: باغی بوٹے (باغ میں لگنے والے پودے باغی بوٹے کہلاتے ہیں) اور جنگلی بوٹے۔ باغی بوٹے تو وہ ہوتے ہیں کہ جب مالک ان کو زمین میں لگاتا ہے تو مالی کے ذمے ان کی دیکھ ریکھ ہوتی ہے۔ اس کا کام بوٹے کو وقت پر پانی دینا، اس کے لیے ہوا اور روشنی کا مناسب بندوبست کرنا، وقتاً فوقتاً گوڈی اور نلائی کرنا، کیاری کی صفائی کرنا، زاید بڑھنے والی جڑوں کی روک تھام کرنا، اس بات کا پورا خیال رکھنا کہ تنے کے عین نیچے جڑیں مضبوط ہوں اور ان کو کیڑا نہ لگ جائے، کیوں کہ اگر جڑیں مضبوط نہ ہوں تو بوٹا کبھی تناور درخت نہیں بن سکتا۔ بوٹا تو دراصل موسموں کی سختی کو ان جڑوں کی مضبوطی کی بنا پر ہی سہتا ہے۔ بوٹے کی زاید اور بے ڈھنگی بڑھی ہوئی شاخوں کی کانٹ چھانٹ کرتے رہنا، مُردہ اور پیلے پتّے احتیاط سے نکالتے رہنا تاکہ بوٹے کی خوب صورتی متاثر نہ ہو، جب اس پر پھول آئیں اور پھل لگیں تو ماحول کو مہکا دیں۔ سایہ ایسا گھنا ہو کہ ہر کوئی سَستانا چاہے۔ راہ گیر کی توجہ اپنی طرف کھینچے۔ خوب صورت ایسا کہ ہر گزرنے والے کو مسحور کردے۔ پھول ایسے خوش رنگ کہ ہر ایک کی توجہ کا مرکز بنیں اور پھل ایسا ذائقہ دار کہ ہر کوئی کھانا چاہے۔
اگر مالی سمجھ دار ہو تو اس کی شبانہ روز محنت کی وجہ سے یقیناًیہ بوٹا موسموں کی سختی، گرمی سہتا ہوا ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرلے گا۔ دوسری طرف وہ بوٹا جو پرورش تو باغ میں ہی پائے، لیکن جب مالک نے اس کو لگایا تو مالی کے ذمے وہی سارے فرائض تھے۔ مالی نے اس بوٹے کو پانی تو دیا، لیکن جب جی چاہا، کبھی گرم دوپہر میں اور کبھی کڑاکے کے جاڑے کی صبح میں۔ کبھی گوڈی کردی اور کبھی مہینوں اس کا خیال نہ آیا، اور جڑوں کی مناسب دیکھ ریکھ نہ ہونے کی وجہ سے جڑیں مضبوط نہ ہوسکیں۔ ان کو کیڑا لگ گیا اور ان بے طرح پھیلتی ہوئی جڑوں نے کئی جگہوں سے نکالنے شروع کردیے۔ ایک بے ڈھنگے جھاڑ جھنکار کی طرح بوٹا پروان چڑھنے لگا۔ اگرچہ ہوا اور روشنی کا انتظام موجود تھا، لیکن پودے میں اتنی طاقت نہ رہی کہ وہ موسموں کی گرمی سختی سہہ سکے۔ تنے کو سیدھا رکھنے کی کوشش نہ کی گئی۔ ٹیڑھا میڑھا تنا، بے طرح بڑھی ہوئی دائیں بائیں شاخیں، پیلے اور مُردہ پتوں کی بہتات، سایہ نام کو نہیں۔ کانٹ چھانٹ نہ ہونے کی وجہ سے شاخوں نے کانٹے دار جھاڑ جھنکار کی صورت اختیار کرلی۔ ہر گزرنے والے کے دامن سے الجھے۔ دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث۔ ہر کوئی اس سے دور ہوکر گزرے۔ اگر پھول لگیں تو وہ بھی بے رنگ۔ اگر پھل لگے تو وہ بھی کانا، کبھی کڑوا، کبھی سارا بُور ہی جھڑ جائے۔ دیکھنے والوں کے لیے بے زاری کا باعث۔ ماحول میں ناگواری کی شکنیں ڈالنے والا۔ جب کہ مالی کے ذمے تو اس کی سمجھ داری کے ساتھ دیکھ ریکھ تھی۔ اس نے فرض تو نبھایا لیکن اچھے طریقے سے نہیں، محنت اور محبت سے نہیں۔۔۔ بے زاری اور ناگواری کے ساتھ۔ سمجھ داری کے ساتھ نہیں، نا سمجھی کے ساتھ۔
پانی تو دیا لیکن اس کی جڑوں کی مضبوطی کا خیال نہ رکھا۔ ہوا اور روشنی کا بندوبست تو کیا، لیکن بوٹے کی مناسب کانٹ چھانٹ نہ کی۔ یوں وہ ایک باغی بوٹا ہونے کے باوجود جنگلی بوٹے کی طرح پروان چڑھا۔ اگر اس طرح کے جنگلی بوٹے باغ میں پرورش پا جائیں تو باغ بھی جنگل ہی لگتے ہیں۔ اگر باغوں میں باغی بوٹے پرورش پائیں تو امن کی فاختائیں آن بسیرا کرتی ہیں، اور اگر باغوں میں جنگلی بوٹوں کی بہتات ہوجائے تو جنگلی درندے جنگل سمجھ کر باغوں میں آن دھمکتے ہیں اور امن کی فاختائیں وہاں سے رخصت ہوجاتی ہیں۔
آج اگر ہم معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں باغی بوٹے شاذ ہی نظر آئیں گے۔ ہر طرف جنگلی بوٹے ہیں، جنہوں نے پورے ماحول کو خراب کردیا ہے، اور ان کو دیکھ کر جنگلی درندے بھی سینے چوڑے کرتے ہوئے آن دھمکتے ہیں اور باغ چیر پھاڑ کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ ایسے میں کیا مالی سے اس کے فرائض اور ذمّے داری کا نہ سوال کیا جائے گا؟

حصہ