(پہلا سین)
آج یونیورسٹی کا پہلا دن تھا۔ ہادیہ صبح ہی سے بہت پُرجوش تھی۔ رات سے ہی تیاریاں شروع تھیں۔ صبح جلدی اٹھ کر نہانے چلی گئی اور پھر اس کی تیاریاں شروع ہوگئیں، جس کے لیے اس کو دو گھنٹے کا وقت تو چاہیے تھا۔ تیار ہوکر جب نیچے آئی تو ماں کی نظر اپنی بیٹی پر پڑی جو کہ مغربی طرز کے تنگ لباس میں ملبوس تھی۔
ماں: واہ، میری بیٹی تو بڑی اسٹائلش لگ رہی ہے۔ اللہ بری نظر سے بچائے۔
ہادیہ: اچھا میں چلتی ہوں۔
باپ: بیٹا سر پہ دوپٹہ لے کر باہر جایا کرو۔
باپ کی اس بات کو وہ نظرانداز کرتے ہوئے نکل گئی۔
(دوسرا سین)
یونیورسٹی پہنچتے ہی ہادیہ کو اردگرد اپنے ہی جیسے لوگ نظر آنے لگے جو اسی جیسے لباس پہنے ہوئے تھے۔ یونیورسٹی میں اپنا ڈپارٹمنٹ ڈھونڈنے کے لیے اس کو بہت تگ و دو کرنی پڑی۔ ایک ڈپارٹمنٹ میں پہنچ کر جب اس نے ایک لڑکی سے پوچھا کہ کیمسٹری کا ڈپارٹمنٹ کون سا ہے؟ تو اس نے اسے سلام کرکے کہا کہ آپ جس ڈپارٹمنٹ میں کھڑی ہیں وہ کیمسٹری کا ہی ہے۔
ہادیہ: اوہ گاڈ! شکر ہے ملا تو، ورنہ میں تو چل چل کر پاگل ہوجاتی۔ ویسے آپ کا نام کیا ہے؟
’’میرا نام حیا ہے۔ اور آپ کا کیا نام ہے؟‘‘
’’مجھے ہادیہ کہتے ہیں۔‘‘
حیا: آپ کا آج فرسٹ ڈے ہے ناں؟
ہادیہ: ہاں، ویسے آپ کون سے ائیر میں ہیں؟
حیا: میرا بھی فرسٹ ڈے ہے اور میرا بھی فرسٹ ایئر ہے۔
ہادیہ: اچھا میں چلتی ہوں، ذرا ٹائم ٹیبل دیکھ لوں۔
ہادیہ وہاں سے نکل آئی کیونکہ اس کو ویسے بھی پردے والی لڑکیوں اور عورتوں سے ڈر ہی لگتا تھا۔کیونکہ اس نے زیادہ تر سنا تھا کہ کسی کے گھر چوری ہوئی تو وہ بھی عورت تھی جو کہ پردے میں تھی۔
(تیسرا سین)
ہادیہ گھر پہنچی تو بہت تھکی ہوئی تھی، لیکن پھر یاد آیا کہ ابھی نماز بھی پڑھنی ہے۔ بے دلی سے اٹھی اور وضو کرکے دو منٹ کی نماز پڑھ کر دوبارہ بستر پر لیٹ گئی۔ آنکھ کھلی تو اس وقت شام کے سات بج رہے تھے۔ اٹھ کر جلدی سے نیچے آگئی۔ بھوک بہت ستا رہی تھی۔ نیچے آئی تو ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگا ہوا تھا۔
امی: آجاؤ ہادیہ بیٹا، کھانا کھا لو، صبح کا ناشتا ہی تو کیا تھا۔
ہادیہ: جی امی مجھے بہت بھوک لگ رہی تھی۔
ابو: اور ہادیہ بیٹا کیسا رہا یونیورسٹی میں پہلا دن؟
ہادیہ: ایکسیلنٹ پاپا، مزا آیا، میرا تو گروپ بھی بن گیا۔
ابو: ارے یہ تو اچھی بات ہے۔ کتنے لوگوں کاگروپ ہے بیٹا؟
ہادیہ: پاپا میرے گروپ میں تین لڑکیاں اور دو لڑکے ہیں۔
ابو: ویسے بیٹا آپ نے صرف لڑکیوں کا گروپ کیوں نہیں بنایا؟
امی: کیا ہے، آپ اس کو ہر وقت کیوں ٹوکتے رہتے ہیں! آج کل کے زمانے میں لڑکوں سے بھی دوستی ہونی چاہیے۔ ان لڑکوں کے بہت sources ہوتے ہیں۔
ابو: زمانہ کچھ بھی ہو جو حدود اللہ نے بتائی ہیں وہ ہمیشہ یاد رکھنی چاہئیں۔
ہادیہ: جی پاپا، ہم لوگوں میں تو بس تھوڑی بہت بات چیت ہے ورنہ تو میرا، سارہ اور مریم کاہی گروپ ہے۔ ہادیہ نے باپ کو چپ کرانے کے لیے جھوٹ بولا۔
(چوتھا سین)
آج کا دن کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کے طلبہ و طالبات کے لیے بہت خوشی کا تھا، کیونکہ آج یہ ڈپارٹمنٹ سیر و تفریح کے لیے ساحلِ سمندر پر جا رہا تھا۔ حیا، ایمان اور دعا تینوں ہی عبایا اور حجاب میں تھیں۔ ہادیہ کا گروپ بار بار ان کو استہزائیہ نظروں سے دیکھتا اور پھر اپنی باتوں میں مشغول ہوجاتا، جبکہ اُن تینوں میں سے کوئی بھی اِن کی طرف توجہ نہیں دے رہا تھا۔
دس بجے کے قریب بس ساحلِ سمندر پر رکی، جس کے بعد طالب علموں کے تو جیسے مزے ہی آگئے۔ ہادیہ بھی اپنے گروپ کے ساتھ پانی میں چلی گئی۔ ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی ہادیہ کو محسوس ہوا کہ اس کے گروپ کے دونوں لڑکے ان سے بے تکلف ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہادیہ فوراً بھوک لگنے کا بہانہ کرکے باہر آگئی۔
وہ چپس کھاتے ہوئے ساحلِ کے قریب جاکھڑی ہوئی۔ جب اس نے اپنے اردگرد کے ماحول پہ نظرڈالی تو اسے اندازہ ہوا کہ جن حدود کے بارے میں اس کے باپ نے بات کی تھی وہ تو کہیں تھیں ہی نہیں۔ ہر طرف بے حیائی پھیلی ہوئی تھی۔ لڑکے اور لڑکیوں میں کوئی حدود نہیں تھیں۔ کوئی لڑکا کسی لڑکی کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہے تو کچھ لڑکے لڑکیاں ایسے کھیل کھیل رہے تھے جن میں ان کے درمیان بہت فاصلے تھے۔
ہادیہ کا دل اچاٹ سا ہوگیا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ گھر چلی جائے، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتی تھی۔ بے شک ہادیہ کی تربیت بہت کھلے ماحول میں ہوئی تھی لیکن اس کے باپ نے اسے ہمیشہ سکھایا تھا کہ شرم و حیا ہی عورت کا زیور ہے۔ کھلے ماحول میں تربیت ہونے کے باوجود بھی اس کے خاندان میں لڑکے لڑکیوں کے درمیان کچھ حدود تھیں جن پر سب ہی عمل پیرا تھے۔
ہادیہ نے اپنے دماغ کو جھٹکا کہ پہلے تو کبھی اس نے اپنے باپ کی باتوں کے بارے میں نہیں سوچا، پھر آج کیسے اور کیوں اتنے سوالات اس کے دماغ میں آرہے ہیں!
سارہ: ہادیہ کیا ہوا، یہاں کیوں کھڑی ہو؟ آؤ ہمارے ساتھ پانی میں، ہم تو بہت مزے کررہے ہیں۔
ہادیہ: نہیں سارہ میرے سر میں درد ہو رہا ہے، تم جاؤ۔
سارہ: Really؟۔۔۔ Are you ok?
ہادیہ: ہاں میں ٹھیک ہوں تم جاؤ مزے کرو۔
)پانچواں سین(
آج ہادیہ کا دل صبح سے ہی بہت بے چین تھا- یونیورسٹی پہنچی تو سامنے ہی سارہ نظر آگئی۔
ہادیہ: السلام، علیکم کیسی ہو؟
سارہ: ٹھیک ہوں، تم کیسی ہو؟
ہادیہ: میں بھی ٹھیک ہوں۔
سارہ: مریم نہیں آئی ابھی تک؟
ہادیہ: ہاں وہ تو لیٹ ہی آتی ہے۔ آؤ کلاس میں چلتے ہیں۔
ہادیہ اور سارہ کلاس میں آگئیں۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ مریم بھی آگئی۔ کلاس ختم ہونے کے بعد وہ لوگ کینٹین میں بیٹھ گئیں۔
سارہ: ارے وہ دیکھو طالبان آرہی ہیں۔
ہادیہ نے سامنے دیکھا تو حیا اور دعا آرہی تھیں۔
ہادیہ: اب یہ کیوں آرہی ہیں؟
سارہ: ہوسکتا ہے ہم لوگوں کو حدیث سنانے آرہی ہوں۔
سارہ نے یہ کہہ کر ایک قہقہہ لگایا۔
حیا: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ، کیسی ہیں آپ تینوں؟
مریم: ٹھیک ہیں ہم لوگ۔
حیا: اصل میں ہم لوگ اپنی یونیورسٹی میں ایک ورک شاپ منعقد کروا رہے ہیں جو کہ تین کلاسوں پر مشتمل ہے، اس کا عنوان ہے
’’حجاب وقت کی ضرورت‘‘۔ یہ روم نمبر اٹھارہ میں ہر پیر کو دو بجے سے تین بجے تک ہوگی، آپ لوگ ضرور آئیے گا۔
سارہ: دیکھیے یہ یونیورسٹی ہے، اس کو یونیورسٹی ہی رہنے دیں مدرسہ نہ بنائیں، سمجھ میں آئی؟
دعا نے سارہ کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے ہادیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: آپ لوگ آنے کی ضرور کوشش کیجیے گا، بہت مزہ آئے گا۔
اور یہ کہتے ہوئے دوسری طرف چل دیں۔
سارہ: کوئی نہیں جارہا ہم لوگوں میں سے، پاگل سمجھا ہے کیا! زیادہ ہی اسلامی بنتی ہیں، ہمیں بھی پتا ہے اسلام کا۔
ہادیہ: اچھا سارہ بس کرو، غصہ کم کرو۔ آؤ کینٹین سے میں تمہیں ٹھنڈا جوس پلاتی ہوں۔
(چھٹا سین)
ہادیہ اپنی کل والی کیفیت سے نکل نہیں پائی تھی۔ اسے لگ رہا تھا جیسے ہر جگہ بے سکونی ہوگئی ہو۔ اس کا دل بہت بے چین سا تھا۔ ہادیہ نے گھڑی میں ٹائم دیکھا، 2.10 ہورہے تھے۔ ہادیہ کو حیا کی کل والی دعوت کے بارے میں یاد آیا۔ ہادیہ کی دونوں دوستیں بھی آج نہیں آئی تھیں۔ ہادیہ کے دل میں خیال آیاکہ کیوں ناں چل کر دیکھا جائے کہ آخر ہوتا کیا ہے ایسی ورک شاپ میں۔ ہادیہ اپنی کرسی سے اٹھ کر روم نمبر 18 کی طرف چل دی۔ جب وہ کمرے کے قریب پہنچی تو اس کے کانوں میں بڑی ہی پیاری آواز سنائی دی جو کہ قرآن کی تلاوت کی تھی۔
’’یہ سورہ النور کی آیات30 اور31 تھیں، جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کیں۔ جیسا کہ آپ سب جانتی ہیں، آج ہماری ورک شاپ کی پہلی کلاس ہے۔ ہماری اس ورک شاپ کا موضوع ہے ’’حجاب وقت کی ضرورت‘‘۔ سورۃ النور کی ان آیات کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے۔
ترجمہ: ’’اے نبیؐ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتاہے۔ اور اے نبیؐ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں بجز اُس کے جو خود ظاہر ہوجائے، اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔ وہ اپنا بناؤ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر ان لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، اپنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہو اس کا لوگوں کو علم ہو جائے۔ اے مومنو، تم سب مل کر اللہ سے توبہ کرو، توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے۔‘‘
حجاب کیا ہے؟ مسلمان عورت کی پہچان۔ جب بھی کسی مسلم عورت کو پہچاننا ہو تو یہی کہا جاتا ہے کہ وہ حجاب میں ہوگی۔ لیکن آج ہم پاکستان میں دیکھتے ہیں کہ ہمیں حجاب میں بہت کم ہی خواتین نظر آتی ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ صرف یہ ہے کہ خواتین نے خود اپنے ہاتھوں اپنی اہمیت اور قدر و قیمت کو کم کردیا ہے۔ جب کوئی عورت اپنے گھر سے بغیر عبائے اور حجاب کے نکلتی ہے تو وہ خود ہی شہ دیتی ہے کہ دوسرے نامحرم مرد اس کو دیکھیں۔ اس کے بعد وہ کسی پر پابندی نہیں لگا سکتی کہ آپ نے مجھے ان نظروں سے کیوں دیکھا؟ اگر ہم اپنے دین اسلام میں دیکھیں تو اللہ نے یہ کتنا پیارا نظام بنایا کہ جب ایک عورت گھر سے نکلے تو حجاب میں نکلے تاکہ وہ عورت پہچان لی جائے اور پھر ستائی نہ جائے۔
اگر آج کل کے لحاظ سے بات کی جائے تو لڑکیاں اس حجاب کو ایک پابندی اور ظلم سمجھتی ہیں، لیکن اگر ہم ایک ہیرا جس کو سب ہی بہت خاص سمجھتے ہیں اور اسے ململ کے بڑے ہی نرم کپڑے میں رکھتے ہیں، ایسے ہی پھینک دیں تو وہ ہیرا کتنے عرصہ اپنی اصل حالت میں رہ پائے گا؟ کچھ دن یا کچھ ہفتے۔ تو کیا یہ اس ہیرے کے ساتھ ظلم ہے کہ اس کو ململ کے کپڑے میں رکھا گیا؟ نہیں بالکل بھی نہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہم لوگوں کو اس ہیرے کی طرح خاص اور قیمتی بنایا کہ جب ہم گھروں سے نکلیں تو اپنے آپ کو ڈھک کر نکلیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم عورتوں پر کتنا بڑا احسان اور اس ربِ رحمان کی محبت ہے کہ اس نے ہمیں ایک محفوظ حصار عطا کیا۔
حضرت ابنِ عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو شرم و حیا کرنے کے بارے میں نصیحت کررہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا: اس کو چھوڑ دے، شرم و حیا کرنا تو ایمان کا حصہ ہے۔ ہم اللہ پر ایمان کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن ہم اسی اللہ کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل نہیں کرتے۔‘‘
ہادیہ کو لگ رہا تھا جیسے یہ سب اسی کے لیے کہا جارہا ہے اور وہ خاتون صرف اسی سے مخاطب ہیں۔
’’آیئے ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمیں دین میں پورا پورا داخل کردے اور ہمیں اس کے ایک ایک حکم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)‘‘
وہ خاتون اپنی بات ختم کرچکی تھیں لیکن ہادیہ ابھی تک اپنی جگہ پر بیٹھی اُن کی باتوں میں گم تھی۔
حیا: السلام علیکم ہادیہ، کیسی ہیں آپ؟
ہادیہ: وعلیکم السلام، میں ٹھیک ہوں۔
حیا: ہمیں بہت خوشی ہورہی ہے کہ آپ آئیں۔
ہادیہ: جی (ہادیہ یہ کہہ کر مسکرا دی)، وہ اس سے آگے کچھ بھی بول نہ پائی کیونکہ اس کے دماغ میں تو ابھی تک ان خاتون کی آواز گونج رہی تھی۔ ہادیہ کا ہاتھ بے اختیار اپنے دوپٹے پر گیا، اس نے اپنے پٹّہ نما دوپٹے سے سر کو ڈھانپنے کی کوشش کی۔
(ساتواں سین)
ہادیہ لاؤنج میں داخل ہوئی تو سامنے ہی امی اور ابو کو بیٹھے پایا۔
امی: آجاؤ بیٹا، کبھی ہمارے ساتھ بھی بیٹھا کرو۔
ہادیہ: جی امی جان۔
ابو: کیا ہوا ہادیہ آج تم بہت خاموش ہو؟
ہادیہ: نہیں ابو۔۔۔ آپ سے ایک سوال پوچھوں؟
ابو: جی پوچھو بیٹی۔
ہادیہ: میرے نام کے معنی کیا ہیں؟
ابو: بیٹا ہادیہ کے معنی ہوتے ہیں ہدایت دینے والی۔
ہادیہ: اچھا ابو ہدایت کیا ہوتی ہے؟
ابو: بیٹا ہدایت کا مطلب ہے سیدھے راستے کی طرف آنا۔ اور سیدھا راستہ تو وہ ہے جس کا ہمارے رحمان و رحیم پروردگار نے ہمیں بتایا ہے۔
امی: کیا ہوگیا ہے، ہادیہ تم ایسے سوالات کیوں پوچھ رہی ہو بھئی؟
ہادیہ: بس ایسے ہی۔ اچھا میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں، میرے سر میں درد ہورہا ہے۔
امی: ٹھیک ہے بیٹا، جاؤ آرام کرو۔
ہادیہ جب یونیورسٹی جانے کے لیے نیچے آئی تو اس کے ابو کی نظر اس پر پڑی۔
ابو: ارے واہ بھئی، میری بیٹی تو اس حجاب اور عبائے میں بہت باحیا لگ رہی ہے۔
ہادیہ: تھینکس ابو۔ ویسے آپ تو مجھے ہمیشہ ہی کہتے تھے کہ سر ڈھک کر جایا کرو، لیکن میں ہی گمراہ تھی شاید۔ ابو میرے اللہ نے مجھے اپنی طرف بلایا ہے، میرے اللہ نے مجھے سیدھا راستہ دکھایا ہے۔ میرے اللہ نے مجھے اپنا راستہ دکھایا ہے تو کیا اب بھی میں اس کے راستے پہ نہ چلوں؟
ہادیہ یہ کہہ رہی تھی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔