(اپنی تلاش میں نکلا ہوا کولمبس (محمود واجد

306

کہاجاتا ہے کہ کولمبس نے امریکا کو دریافت کیا لیکن اسی بات کو اگر یوں کہا جائے کہ امریکہ نے کولمبس کو دریافت کیا تو مفاہیم کے بعض نئے گوشے ابھرتے نظر آئیں گے ۔ ہماری بے بسی یہ ہے کہ کسی بھی صورت میں ہم کولمبس سے سفر کا استعارہ نہیں چھین سکتے ۔ سفر کے ساتھ بامعنی اور بامقصد قسم کی جتنی بھی صفات از روئے مترادفات شامل کرلیں ‘ خوف و خطر کو منہا نہیں کرسکتے اور اگر یہ سفر باطن کی طرف ہو تو ہماری مشکلیں بے حد و بے حساب کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہیں ، یوں اپنی تلاش میں نکلے فورسٹر اور ایلیٹ قطبین پر کھڑے ہوئے بھی نظر آسکتے ہیں۔
فورسٹر کہتے ہیں مجھے عقیدے پر یقین نہیں لیکن یہ عہد یقین کا عہد ہے ،ا س لیے ہمیں اپنا مسلک بناناہو گا ۔ رواداری، اچھی خصلت اور ہمدردی اس دنیا کے لیے ناکافی ہیں جہاں مذہبی اور نسلی تعذیب ہورہی ہو لیکن ہمیں انہی کی ضرورت ہے تاکہ نسل انسانی تادیر قائم رہے ۔فورسٹر پریشان ہیں کہ بات کہاں سے شروع کی جائے ۔ شخصی تعلقات سے ۔ سو شخص کا حال یہ ہے کہ نفسیات کے ہاتھوں اس کا تیا پانچہ ہوچکا پھر بھی زندہ رہنے کے لیے یقین کرنا پڑتا ہے کہ شخصیت ایک ٹھوس شے ہے اور ’’خود ‘‘ کا اپنا وجود ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کا جواز ڈھونڈا جاسکتا ہے کہ شخصی تعلقات ایک یقین کرنے والی شے ہے اگر اس مسئلے سے شخصیت پسندی کا تعلق بھی جڑا ہو ا ہے اور اسی بنا پر بعض خطرناک اعترافات بھی کیے جاسکتے ہیں، لیکن یہ بات معاشرے سے متصادم بھی ہے اسی بنا پر دانتے ، بروٹس اور کیشس کو جہنم کے آخری دائرے میں رکھتا ہے چونکہ اس نے جولیس سیزر سے غداری کی تھی ، اپنے ملک روما سے نہیں، یہاں پر ریاست کا تصور بھی زیر بحث آسکتا ہے اور بہت ساری حماقتوں کے باوجود جمہوریت کو ایک پسندیدہ نظام کہا جاسکتا ہے چونکہ اس میں تنوع کی گنجائش ہے اور یہ تنقید کی اجازت دیتا ہے ، گویا فرد کے لیے جو صورت حال مقابلتاً سکون کاسامان فراہم کرسکتی ہے وہ شاعر وادیب کی بنیادی ضرورت ہے ۔ اس کی توسیع اقوام عالم کے اداروں تک پہنچ سکتی ہے ۔ اس طرح ایک بات بہر حال ثابت ہوتی ہے اور وہ یہ کہ آج کا فرد ایک پناہ کی تلاش میں ہے ۔ انفرادیت کو کچلا جارہا ہے لیکن دنیا بھر کی طاقت مل کر افراد کو ایک شخص میں منتقل نہیں کرسکتی ،پیدائش کی یاد اور موت کی توقع ہمارے اندر ہے، جو ہمیں دوسروں سے مختلف بناتی ہے ۔ یہ کرب داخل سے خارج کی طرف زیادہ مائل ہے۔
ایلیٹ کا مسئلہ دوسرا ہے ۔ ان کے شعر و ادب کی بساط تین بنیادوں پر بچھی ہے۔
۱۔ اپنے عہد کا ان کا اپنا احساس۔
۲۔ ان کا خیال کہ شاعری ایک وسیلہ ہے جس کی ابتدا شاعرکے اپنے جذبات سے ہوتی ہے لیکن اس کی اپنی روایت غیر شخصی ہوتی ہے۔
۳۔ ان کا دوسرے فنکاروں کا استعمال شاعرانہ ترسیل کے لیے۔
پہلی بات کے حوالے میں شہری ماحول کی حسیت کو شہریانے اور صنعتیانے کے عمل سے پیدا شدہ صورت حال کالاحقہ زیادہ سنگین بناتا ہے اور جدید ذہن اور روح عصر کو سمجھنے میں معاون ہوتا ہے دوسری بات میں وہ بصیرت شامل ہے جو شاعری کی ترسیل کو نثری ترسیل سے مختلف بناتی ہے اور اس ضمن میں حاصل کی گئی آزادی کے مفہوم کا تعین کرتی ہے یہاں تک کہ خود شاعری میں مفہوم استعمال بتاتی ہے ۔ تیسری بات نظم یا تخلیق کے زندہ رہنے سے متعلق ہے نظم کی تفہیم نثریانے سے ممکن نہ ہو ۔ یہ اس کی ساحری کا کمال ہے اس میں تجربہ ، روم اور ایج سے جڑا ہوا ہوتا ہے جس کا انتخاب تھیم سے نہیں بلکہ دوسرے شاعروں کے استعمال کی باز گشت سے بھی متصف ہوتا ہے ۔ الغرض آج کی شاعری اپنی تلا ش کا ایک ایسا عمل ہے جو محض اپنی ذات کے آئینے میں نہیں دیکھا جاسکتا ۔
اپنی تلاش کے مندرجہ بالا حوالوں میں فوسٹر اس رو کا نمائندہ ہے ، جوبے مقصدیت کے تاریک جنگلوں میں مقصدیت کی روشنی کا منتظر ہے ۔ ایلیٹ دوسری رو کا نمائندہ ہے جو محض یقین کا نہیں، عقیدے کی موجودگی کا داعی ہے ، وہاں سے اس کے انہدام کے خطرے سے دو چار ہونے کا احساس بھی ہے۔
رئیس فروغ کا مسئلہ اتنی دور نہیں جاتا لیکن اس کا قبلہ درست ضرور ہے ، وہ یقین سے متصف ہی نہیں، عقیدے سے ہم آہنگ بھی ہے، یہ عقیدہ بلا شبہ اس کا اپنا ، اپنی آب و گل کا ، اپنی افتاد کا ہے یہ الگ بات ہے کہ اسے خود اپنا آپ بھی قابل یقین نظر نہ آئے ۔ا یک ایسا آئینہ جس میں اچھی بھلی شکل بھی بگڑی نظر آئے ۔ ایسی صورت حال میں اسے اپنے آپ کو چھپا لینا زیادہ محفوظ نظر آتا ہے
ہماری اپنی صورتیں دلوں کے درمیان ہیں
یا پھر یہ کہ :
وہی افسانہء مشہور سنانا لیکن
جان پر کھیل کے اک حرف سوا کہہ دینا
اسے احساس ہے کہ چھوٹے چالاکوں کے درمیان ایک بڑا سا پاگل کیا معنی رکھتا ہے ، یہاں پر میرا جی چاہتا ہے کہ لایعنی صورت حال (Absurd Sicuation)پر کچھ باتیں کرو لیکن پھر مجھے ترسیل کی ناکامی کے المیے سے دوچار ہونا پڑے گا جس کا خطرہ ایک نثر نگار مشکل ہی سے لیتا ہے کہ میرے ایک نقاد دوست نے کہا ہے کہ نثر جہاں اپنا کام ختم کردیتی ہے ، شاعری وہاں سے اپنے کام کی ابتدا کرتی ہے اور لایعنیت اگر سمجھ میں آجائے تو رئیس فروغ کی ’’صورت حال‘‘ ہمارے لیے گریہ کا باعث نہ ہو تو بھی آزردگی کا سبب ضرور بنے گی ’’ مسدس ‘‘ پررونے والی قوم سے ’’رات بہت ہوا چلی ‘‘ سے پیدا شدہ لافانی خوف (Enternal feare)کے احساس کی توقع فضول ہے اس لیے بہت ہی تیز عقل معاش رکھنے والے دانشور بھی اگر معانی کی کوکھ میں اتر نہ پائیں تو انہیں قابل معافی سمجھنا چاہیے کہ الفاظ کے جتنے نوالے انہوں نے اپنے حلق میں اتارے ان سے معنی کے خون کی کوئی بوند نہیں بنتی تو ان نوالوں کا کیا قصور، شاید انہیں دوسرے دستر خوانوں کا علم ہی نہیں ، چلیے ہم انہیں معاف کردیں۔
رئیس فروغ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بیحد شریف آدمی تھے کہنے والے کی نیت کا علم تو خود اسے ہوتا ہے ، لیکن اس سے شخص ممدوح کی بھلائی کی توقع زیادہ صورتوں میں ایک تلاش لا حاصل ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ اس سے نہ تو رئیس فروغ کا بھلا ہوتا اور نہ دوسروں کا ، ہماری تلاش فنکار کے روح کی تلاش ہے اور روح کے حوالے میں فن کی تلاش ہے ‘ آئیے صورت حال کو ایک نظر دیکھیں، نئے شہروں کی بنیاد وہی رکھتے ہیں
جو جنگل کے شیروں کو
جاروب کشی پر مامور کریں

ہم تو اپنے گھوڑوں کی گردن پر
باگ بھی نہیں چھوڑ سکتے
اور آگ چرانے والے ، دیودار کی شاخوں سے جھانک رہے تھے
ہمیں اس بانسری کی آرزو ہے
جو کسی رتھ بان کی سب سے
بڑی پہچان ہے
دوسروں سے محبت نہ کرنے والے لوگ شاید اپنے آپ سے بھی محبت نہیں کرتے مگر محبت کو اسم اعظم سمجھنے والے اپنے حصار سے بھی محب ہی کا اظہار کرتے ہیں ۔ رئیس فروغ اسی قسم کی محبت کے قائل نظر آتے ہیں
مجھے اپنے شہر سے پیار ہے
نہ سہی اگر مرے شہر میں
کوئی کوہ سربفلک نہیں
کہیں برف پوش بلندیوں کی جھلک نہیں

یہ عظیم بحر
جو میرے شہر
کے ساتھ ہے
مری ذات ہے
سمندر کو رات کا حوالہ سونپ کر رئیس فروغ نے جہاں معنی کو ایک کوزے میں بند کردیا ہے اسی طرح ’’لیاری پیاری‘‘ موج موج دھنک رنگ لہو کا منظر پیش کرتی ہے ۔ مشکل یہ ہے کہ نظموں کے طویل حوالے ممکن نہیں اس لیے اگر ’’ کالان‘‘ صدیو ں کی آنکھیں مانگنے والے شاعر رئیس فروغ کی روح کا آئینہ نہ دکھا سکے تو سے میرا عجز سمجھ لیجیے ‘ نقطۂ نہفتہ کا تعلق اگر ممکن نہ ہو تو زندہ لمحے کے رونے کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی اور نامعلوم کی پہاڑیوں سے صدا کا دائرہ بھی نہیں پھیل سکتا ہے نہ منڈیروں کے کبوتروں سے اور کیاریوں کے گلابوں سے بھرنے کی تمنا سمجھ میں آسکتی ہے اور نہ وراثت کی پختہ فصیلوں کے نہ ہونے کا نوحہ طوفانِ گریہ کاسبب بن سکتا ہے۔
رئیس فروغ کی غزلیں زبان و بیان ، لہجے اور خیال ، احساس اور جذبے کے اعتبار سے ہمارے عہد کی مرغِ باد نما ہیں آئیے چند اشعار دیکھیں:
مکاں میں رہ کے مکینوں سے مل نہیں سکتے
عجیب صورت حالات ہے تمہارے لیے
ابر کی اوٹ میں کہیں نرم سی دستکیں ہوئیں
ساتھ ہی کوئی در کھلا پھر مجھے نیند آگئی
ہم تو سمجھے تھے آج سولیں گے
در و دیوار کچھ نہ بولیں گے
تیرا سپنا دیکھ سکوں
پھر آنکھیں ویران سہی
جان میں اور بدن میں رہتی ہے
صبح تک ایک جنگ اعصابی
اپنی آنکھوں کو شب و روز فروغ
خواب ہی خواب دکھائے جاؤں
چہرے پہچان میں آتے ہی نہیں
شاہراہوں پہ دھواں ایسا ہے
جی ہاں پہچان نہ آنے والے اور تلاش کرتے بھی دریافت نہ کرپانے کا نوحہ رئیس کی شاعری کا منبع ہے ۔ وہ اپنی تلاش کے حوالے سے معاشرے کی تلاش کرتے ہیں اورمعاشرے کے حوالے سے کائنات تک پہنچتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلا کہ:
اپنا حال نہ جانے کیا ہے ویسے بات بنانے کو
دنیا پوچھے درد بتاؤں ‘ تو پوچھے آرام کہوں
اس درد کے آرام کی تلاش میں رئیس فروغ زخمی بھی ہوئے ہیں ۔ زبان وبیان کی سطح پر بھی ، اور جذب و اثر کی شاہراہوں میں بھی، بہر حال یہ ذکر میں کسی دوسری نشست کے لیے اٹھا کر رکھتا ہوں ، فی الحال انہیں معاف کرنے کا ایک جواز موجود ہے:
اسی چڑیا سے یہ پوچھو کہ ہوا کیسی تھی
جس کے بازو میں کئی دن سے دکھن ہے لوگو

حصہ