کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن سے آپ کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا، آپ ان سے کبھی ملے بھی نہیں ہوتے لیکن آپ کو ان سے محبت ہوجاتی ہے۔ یہ محبت بھی بڑی ظالم شے ہے، انسان کو بدل کر رکھ دیتی ہے، کوئی انسان اپنی فطرت اور عادات میں جتنا چاہے کھردرا اور سخت ہو، محبت اسے موم بنا دیتی ہے، وہ زیر ہوجاتا ہے۔ بانو قدسیہ نے بھی محبت کی۔۔۔اور اپنی محبت کو پالیا۔یہ محبت ان کی تحریروں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔محبت کی یہی چاشنی ہے جو ان کی تحریروں میں رَس گھولتی ہے۔ پڑھنے والا پڑھتا ہے اور سر دھنتا ہے۔
بانو قدسیہ جیسے لوگوں کا ایک مسئلہ بھی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو اسلام سے محبت کرتے ہیں، اسلامی شعائر کا مذاق نہیں اُڑاتے اور یہی چیز لوگوں کو چبھتی ہے۔آج کا ادیب یہ سوچتا ہے کہ وہ خود کو اس وقت تک بڑا ادیب ثابت نہیں کرسکتا جب تک وہ اسلام کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کرنے والے سوالات کو نئے سرے سے نہ اُٹھائے، حالانکہ ان سوالوں کے جوابات کئی بار معقول انداز سے دیے جاچکے ہیں۔
اپنے ایک انٹرویو میں بانو قدسیہ ایک سوال کے جواب میں کہتی ہیں’’میں ’راجہ گدھ‘ کے متعلق آپ کو بتا سکتی ہوں۔ آج وہ سترہ‘ اٹھارہ سال سے سی ایس ایس کے امتحان میں لگا ہوا ہے۔ ڈاکٹر اجمل آپ کو یاد ہوگا، نفسیات دان تھے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل بھی رہے ہیں‘ اُنھوں نے اسے مقابلے کے اس امتحان میں لگایا تھا۔ میں یہاں پر بیٹھی تھی اور میرا کوئی ارداہ نہیں تھا کہ میں کوئی ایسا ناول لکھوں گی۔ ’راجہ گدھ‘ کی طرح کا، ان دنوں ہمارے گھر میں ایک امریکن لڑکا ٹھہرا ہوا تھا‘ وہ بہت کوشش کرتا تھا کہ امریکن تہذیب کے بارے میں یہ ثابت کرے کہ وہ ہم سے بہتر ہے۔۔۔ مسلمانوں سے بہتر ہے۔ تو ایک روز وہ میرے پاس آیا اور مجھ سے کہا: اچھا مجھے دو لفظوں میں، ایک جملے میں بتایئے، آپ صرف چھوٹی سی بات مجھ سے کیجیے کہ اسلام کا ایسنس (جوہر) کیا ہے؟ میں نے اس سے کہا کہ آپ یہ بتائیے کہ عیسائیت کا ایسنس کیا ہے؟ اس نے کہا: عیسائیت کا ایسنس ہے Love 150 Love thy neighbour as thyself یہ ایسنس ہے عیسائیت کا۔ میں نے کہا اسلام کا جو ایسنس ہے وہ اخوت ہے، برابری ہے، بھائی چارہ ہے۔ کہنے لگا چھوڑیے یہ کس مذہب نے نہیں بتایا کہ برابری ہونی چاہیے۔ یہ تو کوئی ایسنس نہیں ہے یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا۔ یقین کیجیے، یہاں پر پہلے ایک بہت بڑا درخت ہوتا تھا سندری کا درخت۔ سندری کا درخت وہ ہوتا ہے جس سے سارنگی بنتی ہے۔ اس کے بڑے بڑے پتے تھے اور وہ یہاں لان کے عین وسط میں لگا ہوا تھا۔ وہ ایک دَم سفید ہو گیا اور اس پر مجھے یوں لگا جیسے لکھا ہوا آیا ہو۔۔۔ اسلام کا ایسنس حرام و حلال ہے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اسے میں نے کیوں کہا۔ کیوں کہ اس ہر ایکشن (عمل) سے دو چیزیں پیدا ہوتی ہیں۔ جتنے کمانڈمنٹس ہیں یا تو وہ حرام ہیں یا حلال ہیں۔ حلال سے آپ کی فلاح پیدا ہوتی ہے اور حرام سے آپ کے بیچ میں تشنج پیدا ہوتا ہے۔ آپ میں ڈپریشن پیدا ہوتا ہے آپ میں بہت کچھ پیدا ہوتا ہے۔ میں نے اس امریکی لڑکے کو بلایا اور اسے کہا: یاد رکھنا اسلام حرام و حلال کی تمیز دیتا ہے اور یہی اس کا ایسنس ہے۔ اس کے بعد میں نے یہ کتاب لکھی اور میں آپ کو بتا نہیں سکتی کہ کس طرح اللہ نے میری رہنمائی کی اور میری مدد فرمائی اور مجھے یہ لگتا ہے کہ یہ کتاب میں نے نہیں لکھی مجھ سے کسی نے لکھوائی ہے۔ اس کے بعد آپ کو پتا ہے کہ میری بہت ساری کتابیں ہیں۔ پچیس کے قریب کتابیں میری ہو چکی ہیں۔ اور جتنا بھی اس پر کام ہوا ہے میں آپ کو بتا ہی نہیں سکتی کہ کس طرح ہوا ہے۔‘‘
یہ وہ لوگ تھے ، جو اسلام کو ، اپنی معاشرت اور ثقافت کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ اُنھیں معلوم تھا کہ یہ ملک اُنھوں نے کیسے حاصل کیا ہے۔
پاکستان بننے سے متعلق کہتی ہیں:
’’جس سال پاکستان بنا اُسی سال میں نے بی اے کیا۔ آپ یقین کریں جو تجربات ہمیں پاکستان کے قیام کے وقت ہوئے ہیں، وہ آپ لوگوں کو سمجھ میں بھی نہیں آ سکتے۔ آپ لوگ چھوٹے ہیں۔ آپ لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان کیا چیز تھی اور کیا بنا ہے۔ جب کالج میں ہم امتحان دے رہے تھے تو یک دم آگ لگ گئی۔ پھر کنیرڈ کالج سے لڑکیوں کو بس میں ڈالا گیا اور ایف سی کالج لے گئے‘ ہم نے وہاں امتحان دیا۔ راستے میں بھی اندیشہ تھا کہ لڑکیاں اِغوا نہ کر لی جائیں۔ اتنا اندیشہ تھا تو ان حالات میں ہم نے امتحان دیا۔ پھر پاکستان بنا۔ پھر آپ جانتے نہیں جیسے اشفاق صاحب ہمیشہ کہتے رہتے تھے، کہتے چلے گئے ہیں: پاکستان جو ہے یاد رکھیے، یاد رکھیے، پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو عزتِ نفس حاصل ہو۔ پاکستان کا سلوگن ’’روٹی‘ کپڑا اور مکان‘‘ نہیں ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان جو ہے وہ تو اوپر والا دیتا ہے۔ آپ یقین کریں روٹی کپڑا اور مکان انسان کسی کو نہیں دے سکتا۔آپ دعویٰ کر لیجیے، دے کر دکھائیے کسی کو، اگر آپ کو اپنے بچوں کو بھی روٹی کپڑا اور مکان دینا پڑے تو آپ دے نہیں سکیں گے۔ مجبوریاں درپیش ہو جائیں گی، کوئی وجہ ہو جائے گی، نوکری چھوٹ جائے گی، کچھ ہو جائے گا۔ لیکن عزت نفس، شیریں کلامی، کسی کے ساتھ اچھا سخن کرنا، یہی ہم کسی کو دے سکتے ہیں۔‘‘
بانو قدسیہ کون تھی؟ جنھوں نے کبھی بانو قدسیہ کو نہیں پڑھا یہ سوال یقیناًان کے ذہن میں وارد ہوا ہوگا۔ بانو قدسیہ کا مختصر تعارف یہ ہے۔
بانو قدسیہ 28 نومبر 1928 کو مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئیں اور تقسیم ہند کے بعد لاہور آگئیں۔ ان کے والد بدرالزماں گورنمنٹ فارم کے ڈائریکٹر تھے اور ان کا انتقال 31 سال کی عمر میں ہو گیا تھا۔ اس وقت ان کی والدہ ذاکرہ بیگم کی عمر صرف 27 برس تھی۔ بانو قدسیہ کی عمر اس وقت ساڑھے تین سال تھی۔ ان کا ایک ہی بھائی پرویز تھا جن کا انتقال ہو چکا ہے۔
بانو قدسیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے ہی میں حاصل کی۔ انھیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے اُنھوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کر دیا تھا۔ جب پانچویں جماعت میں تھیں تو ان کے اسکول میں ڈراما فیسٹیول کا انعقاد ہوا جس میں ہر کلاس کو اپنا اپنا ڈراما پرفارم کرنا تھا۔ بہت تلاش کے باوجود بھی کلاس کو تیس منٹ کا کوئی اسکرپٹ دستیاب نہ ہوا۔ چنانچہ ہم جولیوں اور ٹیچرز نے اس مقصد کے لیے بانو قدسیہ کی طرف دیکھا جن کی پڑھنے لکھنے کی عادت کلاس میں سب سے زیادہ تھی۔ ان سے درخواست کی گئی کہ تم ڈرامائی باتیں کرتی ہو لہٰذا یہ ڈراما تم ہی لکھ دو۔ بانو قدسیہ نے اس چیلنج کو قبول کیا اور بقول ان کے جتنی بھی اُردو آتی تھی اس میں ڈراما لکھ دیا۔ یہ ان کی پہلی کاوش تھی۔
اس ڈرامے کو اسکول بھر میں فرسٹ پرائز کا حقدار ٹھہرایا گیا۔ اس حوصلہ افزائی کے بعد وہ دسویں جماعت تک افسانے اور ڈرامے ہی لکھتی رہیں۔ طویل عرصے تک وہ اپنی کہانیوں کی اشاعت پر توجہ نہ دے پائیں اور ایم اے اُردو کرنے کے دوران اشفاق احمد کی حوصلہ افزائی پر ان کا پہلا افسانہ ’’داماندگی شوق‘‘ 1950 میں اس وقت کے ایک سرکردہ ادبی جریدے ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شائع ہوا۔
اپنے لکھنے کے حوالے سے بانو قدسیہ کہتی ہیں کہ میں نے کسی سے اصلاح نہیں لی اور نہ کبھی کچھ پوچھا تاوقتیکہ میری شادی نہیں ہوگئی۔ اس کے بعد اشفاق احمد صاحب میرے بڑے معاون و مددگار بلکہ استاد ہوئے۔ اُنھوں نے مجھ سے کہا اگر تمھیں لکھنا ہے تو ایسا لکھو کہ کبھی مجھ سے دو قدم آگے رہو اور کبھی دو قدم پیچھے تاکہ مقابلہ پورا ہو۔ اس کا مجھے بڑا فائدہ ہوا۔ اشفاق صاحب نے ہمت بھی دلائی ‘حوصلہ افزائی بھی کی اور حوصلہ شکنی بھی کی۔ میری کئی باتوں پر خوش بھی ہوئے۔ آخر تک ان کا رویہ استاد کا ہی رہا۔ میں انھیں شوہر کے ساتھ ساتھ اپنا استاد بھی سمجھتی رہی ہوں۔
بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جب کہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا جس وقت انھوں نے بی اے کا امتحان دیا اس وقت 47 کے فسادات کی آگ پھیل چکی تھی۔ گورداس پور اور شاہ عالمی اس آگ کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔ اس آگ کے دریا میں بانو قدسیہ بی اے کے پیپرز دینے کے لیے ایف سی کالج جاتی رہیں کیوں کہ فسادات کی وجہ سے کنیئرڈ کالج میں امتحانی مرکز نہ کھل سکا تھا۔ بی اے کا امتحان کسی طرح دے دیا۔ فسادات پھیلتے چلے گئے بانو قدسیہ اپنے خاندان کے ہمراہ گورداس پور میں‘ جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی‘ مطمئن تھیں کہ یہ حصہ پاکستان کے حصے میں آئے گا مگر رات بارہ بجے اعلان ہو گیا کہ گورداس پور پاکستان میں نہیں ہے چنانچہ بانو قدسیہ اپنے کنبے کے ہمراہ پتن پہنچیں جہاں سے رات کو قافلے نکل کر جاتے تھے اور اکثر قافلے رات کو قتل کر دیے جاتے تھے۔ بانو قدسیہ کا آدھا قافلہ بچھڑ گیا تھا اور آدھا قتل ہو گیا تھا۔ تین ٹرک پاکستان پہنچے ایک میں بانو قدسیہ، ان کی والدہ اور بھائی بچ گئے تھے جبکہ دوسرے رشتے دار قتل کر دیے گئے۔
پاکستان پہنچ کر بانو قدسیہ کو بی اے کے رزلٹ کا پتا چلا جس میں انھیں کامیابی ملی تھی۔ 1949 میں انھوں نے گورنمٹ کالج لاہور میں ایم اے اُردو میں داخلہ لیا۔ یہاں اشفاق احمد ان کے کلاس فیلو تھے۔ دونوں کی مشترکہ دلچسپی ادب پڑھنا اور لکھنا تھا۔ دسمبر 1956 میں بانو قدسیہ کی شادی اشفاق احمد سے ہو گئی۔ دونوں لکھاری تھے اور ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔ شادی کے بعد دونوں کام میں جُت گئے۔
ایک سال بعد انھوں نے ایک ادبی رسالہ ’’داستان گو‘‘ کا اجرا کیا۔ تمام کام خود کرتے تھے۔ رسالے کا سرورق بانو قدسیہ کے بھائی پرویز کا فنِ کمال ہوتا تھا جو ایک آرٹسٹ تھے۔ چار سال تک ’’داستان گو‘‘ کا سلسلہ چلا پھر اسے بند کرنا پڑا۔ اشفاق احمد ریڈیو پر اسکرین رائٹر تھے وہ دونوں ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھتے تھے۔ ’’تلقین شاہ‘‘ 1962ء سے جاری ہوا۔ اس کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد ایوب خان کے ہاتھوں تازہ تازہ جاری ہونے والے سرکاری جریدے ’’لیل و نہار‘‘ کے ایڈیٹر بن گئے تھے۔
ٹیلی ویژن نیا نیا ملک میں آیا تو اس کے لیے اشفاق احمد اور بانو قدسیہ مسلسل لکھنے لگے۔ اشفاق احمد کی کوئی سیریز ختم ہوتی تو بانو قدسیہ کی سیریل شروع ہو جاتی تھی۔ ٹی وی کے پہلے ایم ڈی اسلم اظہر نے اشفاق احمد کو ٹی وی کا سب سے پہلا پروگرام پیش کرنے کی دعوت دی۔ اس پروگرام میں اُنھوں نے ٹیلی ویژن کو متعارف کرایا تھا۔ اشفاق احمد ٹی وی کے پہلے اناؤنسر تھے۔ ان کا ریڈیو پر بہت وسیع تجربہ تھا۔ یہاں ایک اطالوی فلم بنی تھی۔ اس کے بھی اشفاق احمد مترجم تھے۔ ٹی وی پر سب سے پہلا ڈراما ’’تقریبِ امتحان‘‘ انہی کا ہوا تھا۔
ریڈیو اور ٹی وی پر بانو قدسیہ اور اشفاق احمد نصف صدی سے زائد عرصے تک حرف و صورت کے اپنے رنگ دکھاتے رہے۔ ٹی وی پر بانو قدسیہ کی پہلی ڈراما سیریل ’’سدھراں‘‘ تھی جب کہ اشفاق احمد کی پہلی سیریز ’’ٹاہلی تھلے‘‘ تھی۔ بانو قدسیہ کا پنجابی میں لکھنے کا تجربہ ریڈیو کے زمانے میں ہی ہوا۔ ریڈیو پر اُنھوں نے 1965 تک لکھا پھر ٹی وی نے انھیں بے حد مصروف کر دیا۔ بانو قدسیہ نے ٹی وی کے لیے کئی سیریل اور طویل ڈرامے تحریر کیے جن میں ’دھوپ جلی‘، ’خانہ بدوش‘، ’کلو‘ اور ’پیا نام کا دِیا‘ جیسے ڈرامے شامل ہیں۔ اس لکھاری جوڑے کے لکھے ہوئے ان گنت افسانوں، ڈراموں، ٹی وی سیریل اور سیریز کی مشترکہ کاوش سے ان کا گھر تعمیر ہوا۔
لاہور کے جنوب میں واقع قیامِ پاکستان سے قبل کی ماڈرن بستی ماڈل ٹاؤن کے ’’داستان سرائے‘‘ میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی یادیں بکھری ہوئی ہیں۔ ان دونوں کا تخلیقی سفر جیسے جیسے طے ہوتا گیا ’’داستان سرائے‘‘ کے نقوش اُبھرتے گئے۔ آج ’’داستان سرائے‘‘ ان دونوں کی شب و روز محنت کا امین ہے۔
بقول بانو قدسیہ ’’شادی کے بعد مفلسی نے ہم دونوں میاں بیوی کو لکھنا پڑھنا سکھا دیا تھا۔ اشفاق احمد نے ایک فلم ’’دھوپ سائے‘‘ بھی بنائی تھی جو باکس آفس پر فلاپ ہو گئی تھی اور ایک ہفتے بعد ہی سنیما سے اُتر گئی تھی۔ ’’دھوپ سائے‘‘ کی کہانی بانو قدسیہ نے لکھی تھی۔ ڈائریکشن کے علاوہ اس فلم کا اسکرین پلے اشفاق احمد نے لکھا تھا۔
بانو قدسیہ نے افسانوں، ناولز، ٹی وی، ریڈیو ڈراموں سمیت نثر کی ہر صنف میں قسمت آزمائی کی۔ 1981 میں شائع ہونے والا ناول ’’راجہ گدِھ‘‘ بانو قدسیہ کی حقیقی شناخت بنا۔ موضوع کے لحاظ سے یہ ناول درحقیقت ہمارے معاشرے کے مسائل کا ایک ایسا تجزیہ ہے جو اسلامی روایت کے عین مطابق ہے اور وہ لوگ جو زندگی، موت اور دیوانگی کے حوالے سے تشکیلی مراحل میں گزر رہے ہیں بالخصوص ہمارا نوجوان طبقہ ان کے لیے یہ ایک گراں قدر حیثیت کا حامل ناول ہے۔ یہ ناول مڈل کلاس کی جواں نسل کے لیے محض اس لیے دلچسپی کا باعث نہیں ہے کہ ناول کے بنیادی کردار یونیورسٹی کی کلاس میں ایک دوسرے سے آشنا ہوتے ہیں بلکہ اس لیے کشش کا باعث ہے کہ بانو قدسیہ نے جذبات اور اقدار کے بحران کو اپنے ناول کا موضوع بنایا ہے اور اسلامی اخلاقیات سے عدم وابستگی کو اس انتشار کا سبب اور مراجعت کو ’’طریقہ نجات‘‘ بتایا ہے۔ راجہ گدِھ کا مطالعہ کرنے والے خوب جانتے ہیں کہ یہ کتنا اچھا ناول ہے۔ راجہ گدھ کے 14 سے زائد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
بانو قدسیہ نے 27 کے قریب ناول، کہانیاں اور ڈرامے لکھے، راجہ گدِھ کے علاوہ بازگشت، امربیل، دوسرا دروازہ، تمثیل، حاصل گھاٹ اور توجہ کی طالب، قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں 2003 میں ’’ستارہ امتیاز‘‘ اور 2010 میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ ٹی وی ڈراموں پر بھی انھوں نے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے۔
بانو قدسیہ کو 26 جنوری علالت کے باعث لاہور کے اتفاق اسپتال میں داخل کروایا گیا جہاں وہ دس روز زیر علاج رہنے کے بعد ہفتہ 4 فروری 2017ء کو شام 5 بجکر 15 منٹ پر انتقال کرگئیں۔