(کراچی لوٹ مار کا بازار(زاہد عباس

353

نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی کراچی میں ڈاکوؤں اور اسٹریٹ کرمنلز نے دبنگ انٹری ڈال دی۔ ڈکیتی کی تیزی سے بڑھتی وارداتوں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ نئے سال کی شروعات کرمنلز کے لیے ’’پستول اٹھا، کرشمہ دکھا‘‘ کا نمونہ بن کر سامنے آئی ہے۔ شہر کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا اگر جائزہ لیا جائے تو پولیس کی نااہلی کے ساتھ ساتھ اسلحہ کے زور پر کی جانے والی وارداتوں کا گراف اوپر کی طرف جاتا نظر آئے گا۔ کرمنلز کی بڑھتی کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ سالِ نو کے ساتھ ہی ڈکیتوں کے تازہ دم دستے بلا خوف و خطر شہر میں کارروائیاں کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ ایک مرتبہ پھر چور سپاہی کا کھیل کھیلنے کو تیار ہیں۔ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ چور سپاہی کے اس کھیل میں ساتھی کی طرح جیت کرمنلز ہی کی ہوگی۔ اُن کے حوصلے بتا رہے ہیں کہ آنے والا برس بھی کرپٹ سیاست دانوں کی طرح ان ہی کا ہوگا۔
اگر کراچی میں ہونے والی وارداتوں پر نگاہ ڈالی جائے تو سال کے پہلے ہی مہینے میں گھروں، دکانوں میں لوٹ مار کی 80 سے زائد وارداتیں ہوچکی ہیں، جب کہ شاہراہوں پر لوٹ مار کی وارداتوں کی تعداد اب تک سیکڑوں میں پہنچ چکی ہے۔ شہر بھر میں ڈکیتوں اور رہزنوں کا راج بدستور جاری ہے۔ جنوری میں ہونے والی وارداتوں میں تیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٹیپو سلطان روڈ پر واقع تین گھروں کو 6 ڈاکوؤں نے لوٹ لیا، اسی طرح کورنگی میں 10 دکانیں لوٹی گئیں۔ ٹیپو سلطان روڈ پر ڈکیتی کی واردات فیروز آباد تھانے کی حدود میں ہوئی، جس میں ڈاکو بڑے اطمینان سے گھروں کو لوٹتے رہے۔ اُن کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ وہ سیڑھی لگاکر ایک گھر سے دوسرے گھر جاتے رہے، کبھی کھڑی کے رستے تو کبھی دیواروں پر چڑھ کر مال سمیٹنے میں مصروف رہے اور گھنٹوں کی کارروائی کے بعد بآسانی فرار ہوگئے۔ دوسری طرف تالا توڑ گروپ بھی شہر میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتا دکھائی دیا۔ کورنگی میں دکانوں پر ہونے والی واردات اسی تالا توڑ گروپ کی کارروائی تھی، جس نے بند دکانوں کے تالے کاٹ کر لاکھوں روپے مالیت کا سامان لوٹ لیا۔ کورنگی کراسنگ، ضیا کالونی، بلال کالونی میں ہونے والی اس شٹرتوڑ کارروائی پر دکان داروں نے شدید احتجاج بھی کیا اور ابھی تک انصاف کے منتظر ہیں۔ شہر کے کئی علاقوں میں ایک ہی دن میں ہونے والی ڈکیتی کی وارداتوں پر شہری عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ فیکٹری ہو یا گھر، سڑکیں ہو یا گلیاں۔۔۔ ہر جگہ کرمنلز کی بڑھتی کارروائیوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ اسی شہر میں موجود ہیں اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
جب کہ شہر کے پوش علاقوں میں گاڑیوں کی چوری میں کم عمر بچوں کا گروہ بھی سرگرم عمل ہے۔ ذرائع کے مطابق جنوری میں شہریوں سے لوٹے جانے والے موبائل فون کی تعداد 2622 ہے، جب کہ سو سے زائد موٹر سائیکل چھینی گئیں۔ بھتہ مافیا کی پرچیاں سات شہریوں کے حصے میں آئیں، متعدد افراد قتل ہوئے۔ شہر کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج لوٹ مار کی وارداتیں اور ڈکیتیاں ہی رہی ہیں۔ گزشتہ برسوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ 2015ء میں جب کراچی آپریشن پورے عروج پر تھا تو صرف 321 وارداتیں ہوئیں۔ جوں ہی آپریشن میں سُستی آئی تو کرمنلز کی کارروائیاں دگنی ہوگئیں۔ یوں 2016ء میں ان وارداتوں کی تعداد 657 تک جا پہنچی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھروں، بازاروں اور سڑکوں پر بڑھتی وارداتیں شہریوں کے لیے عذاب بن چکی ہیں۔ عوام کے ذہنوں میں ماضی کے وہ حالات ابھرنے لگے ہیں جب درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا، شہر کی سڑکیں سنسان ہوا کرتی تھیں، لاقانونیت کا راج تھا اور جب گلیوں میں اسلحہ لیے دہشت گرد، جس کو چاہتے، یرغمال بنالیتے۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور بموں کے دھماکے سنائی دیتے۔ اپنے اپنے علاقوں پر قبضے کی جنگ لڑتے ہوئے گروپ، جو کسی کے کنٹرول میں نہ تھے، شہر کے باسیوں پر دہشت طاری رکھتے۔ کراچی کے باسیوں نے اس دور میں درندگی اور لاقانونیت کے وہ مظاہر دیکھے ہیں کہ جنہیں یاد کرکے آج بھی ان کی روح کانپ جاتی ہے۔
کراچی میں بڑھتی وارداتوں اور لاقانونیت کے نتائج بڑے خطرناک نکل سکتے ہیں۔ یا تو شہری ایک مرتبہ پھر ان کرمنلز کے ہاتھوں یرغمال بن جائیں، یا پھر کسی فلمی انداز میں لوگ مزاحمت کرنے لگیں اور شہری یہ گانا گاتے ڈکیتوں پر ٹوٹ پڑیں: ’’اندھیری راتوں میں سنسان راہوں پر ایک مسیحا نکلتا ہے جسے لوگ شہنشاہ کہتے ہیں‘‘۔ یعنی لوگ قانون پر اعتماد کرنا چھوڑ دیں اور اپنی عدالت لگاکر ظالموں، جابروں اور کرمنلز کو سزائیں دینے لگیں۔ اگر ایسا ہوگیا تو پولیس کا کیا ہوگا، جو خود کرمنلز کی مددگار بنی ہوئی ہے۔ ہر علاقے کے ایس ایچ او کو پتا ہوتا ہے کہ اس کے علاقے میں کون کیا کررہا ہے؟ کرمنلز چوں کہ اپنا کاروبار جاری رکھنے کی قیمت انہیں بھتے کی صورت میں دیتے ہیں، اس لیے پولیس خاموش رہتی ہے۔ ان کرمنلز کو پکڑنے کے بجائے وہ گلیوں، چوراہوں پر شریف شہریوں کو لوٹ رہی ہوتی ہے، یہ اس کا روز کا کام ہے۔ حتیٰ کہ اگر گلی، محلے میں کوئی تعمیرات ہورہی ہے تو پولیس اہل کار موبائل میں سوار وہاں بھی پہنچ جاتے ہیں اور گھر والوں سے بے شرمی کے ساتھ ’’چائے پانی‘‘ مانگنے لگتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے ان پولیس والوں پر، اور ڈر پیدا ہوتا ہے دل میں کہ روزِ قیامت ان راشی پولیس اہل کاروں کا کیا انجام ہوگا، کیا یہ بغیر حساب کتاب ہی جہنم میں بھیج دیے جائیں گے! خدا کے لیے پولیس کے اعلیٰ افسران اپنی صفوں سے ان کالی بھیڑوں کو نکالیں اور ادارے میں ایمان دار اہل کاروں کو تعینات کریں۔
قارئین! لانڈھی میں دودھ کی دکان پر ایک ڈکیتی ہوئی۔ واردات کے دوران کچھ اسی طرح کی صورت حال دیکھنے کو ملی۔ بابر مارکیٹ کے قریب ڈاکو دودھ کی دکان پر لوٹ مارکررہے تھے کہ شہریوں کے ہتھے چڑھ گئے اور لوگوں نے دیکھتے ہی دیکھتے خود ہی سڑک پر عدالت لگالی۔ پہلے ان ڈاکوؤں کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ دورانِ تشدد ان کے دو ساتھی بھاگنے میں کامیاب ہوگئے، جب کہ ایک ڈاکو کو عوام نے پکڑ کر پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ کورنگی میں پیش آیا، جہاں ڈاکو کار سواروں کو لوٹنے کی کوشش کررہے تھے۔ علاقہ مکینوں نے ان اسٹریٹ کرمنلز کو فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ ہلاک ہونے والے ڈکیت کا ایک مرد اور خاتون ساتھی بھی زخمی ہوئے۔
ماضی میں بھی جب لوٹ مارکی وارداتوں میں اضافہ ہوا تو غم و غصے میں بپھرے عوام نے اسی طرح اسٹریٹ کرمنلز کو پکڑ کرآگ لگائی۔ عوام میں اس طرح کی سوچ کا جنم لینا انتہائی خطرناک ہے۔ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ اگر ذمے داران لوگوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو لوگ باگ قانون کو خود ہاتھ میں لے لیں گے۔ پھر قانون کا کیا ہوگا، جب راشی پولیس اہل کاروں کو پکڑ پکڑ کرلوگ سزا دے رہے ہوں گے۔ اللہ نہ کرے کہ وہ وقت آئے۔
عوام کا کہنا ہے کہ پولیس کی سُستی اور نرمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کرمنلز کی واپسی عوام کو تنگ آمد بجنگ آمد تک لے آئی ہے۔ شہر کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی ذمے دار کراچی پولیس ہی ہے، جس کی ناقص پالیسیوں، اور ناقص منصوبہ بندی نے شہر کو ایک مرتبہ پھر جرائم پیشہ افراد کے حوالے کردیا ہے۔ کراچی کے شہری پولیس کے رویّے سے اس قدر واقف ہیں کہ ہر دوسرا شخص شہر کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا ذمے دار صرف اور صرف کراچی پولیس ہی کو گردانتا ہے۔ مجھے کراچی پولیس کے ایک اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ محمکہ پولیس میں موجود کالی بھیڑیں نہیں چاہتیں کہ کراچی دوبارہ امن کا گہوارہ بنے۔ عوام کی رائے کے مطابق رینجرز کے مقابلے میں محکمہ پولیس کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے، کراچی آپریشن میں جو اہداف رینجرز نے حاصل کیے، کراچی کا امن اسی کا ثمر ہے۔ پُرامن ہوتے شہر میں ایک مرتبہ پھر جرائم کا سر اٹھانا سندھ حکومت اور سندھ پولیس کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ عوام کے نزدیک ان رپورٹس کی بڑی اہمیت ہے جو 2013ء میں رینجرز حکام نے مرتب کیں، جس کے مطابق اب تک 7900 ملزموں میں سے 6360 کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔ 5518 افراد کو بغیر ایف آئی آر کے چھوڑ دیا گیا، جب کہ 313 افراد کو ضمانت ملی اور صرف 188 ملزمان کو سزا سنائی گئی۔ اتنی بڑی تعداد میں ملزمان کو پولیس کے حوالے کرنے کے بعد ان کا رہا ہوجانا بتاتا ہے کہ ملزمان کی رہائی سیاسی دباؤ یا پھر ’’چمک‘‘ کا نتیجہ تھی۔ جو لوگ عدالت میں پیش کیے گئے، ان کا چالان اتنا کمزور تھا کہ وہ ضمانتوں پر باہر آگئے۔ جب اتنی بڑی تعداد میں لوگ چھوڑ دیے جائیں تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ وہ شہر میں کیا فرائض انجام دے رہے ہوں گے؟ ظاہر ہے ان جرائم پیشہ ہزاروں لوگوں کا حوصلہ پہلے سے کہیں زیادہ بلند ہوگا۔ شہر میں جرائم کی شرح میں اضافہ ایسے ہی ملزمان کی کارروائیاں ہوسکتی ہیں، جنہیں قانون کی سرپرستی حاصل ہو۔ کراچی میں جرائم پیشہ افراد کی سیاسی سرپرستی کا بنیادی سبب کرپشن اور پیسے کے بل پر ہونے والی تباہ کن سیاست ہے۔ کراچی میں گڈ گورننس کے بجائے حکومت کا جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ’’گٹھ جوڑ‘‘ عوام کو جمہوریت کے ثمرات سے دور کرتا جارہا ہے۔ اسٹریٹ کرمنلز کے سامنے قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس ہوتے جارہے ہیں۔۔۔ آخر کب تک عوام دہشت گردوں کے رحم وکرم پر رہیں گے؟ کراچی آپریشن کب تک اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا اور کب تک پولیس سیاسی دباؤ کے تحت مجرموں کو چھوڑتی رہے گی؟
موجودہ خراب ہوتی ہوئی صورتِ حال میں سندھ حکومت کو مصلحتوں سے بالاتر ہوکر عملی اقدامات کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سیاسی دباؤ سے نکل کر جرائم کے خاتمے کے لیے یکساں کارروائیاں کرنی ہوں گی۔ مجرم چاہے کوئی بھی ہو، جتنا بھی طاقت ور ہو، اس کے خلاف شفاف کارروائی کرنی ہوگی۔ اب وقت آگیا ہے کہ پی پی پی کی صوبائی حکومت حیلے بہانے چھوڑے اور نیک نیتی سے ایسے اقدامات اُٹھائے جس سے شہر کی فضا کو دوبارہ پُرامن بنایا جاسکے۔ سندھ اور کراچی کے مفاد میں آخری دہشت گرد اور جرائم میں ملوث افراد تک کراچی آپریشن پر توجہ دی جائے تاکہ ایک مرتبہ پھر شہر کراچی کی رونقیں واپس لائی جاسکیں اور صوبائی حکومت کا گرتا ہوا مورال بلند ہوسکے!!
nn

حصہ