(اوّل انعام یافتہ مضمون)
صاحبو! آج ہمارے مضمون کا عنوان ہے ’’وطن کو اپنے سنوارنا ہے‘‘۔ دل نے سوچا، سنوارنے کی ذمّے داری کس کی ہے۔۔۔ فرد، سماج، صاحبِ اقتدار طبقہ۔۔۔ ذہن نے کئی ذمّے داروں کی طرف اشارہ کیا۔ صاحبِ اقتدر طبقہ درست نیت اور ارادے کے ساتھ بے لوث جذبے سے فرد کی تعمیر کرے تو قوم کے لیے تعمیر کی صورت نکل سکتی ہے۔
چیزوں کو سنوارنا انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے رہنے کی جگہ کو خوب صورت بنایا جائے اور بات جب مادرِ وطن کی ہو تو یہ خواہش بھی عروج پر ہوتی ہے کہ ارضِ پاک کو خوب سے خوب تر بنایا جائے۔
مگر بات صرف خواہش کرنے سے نہیں بنتی، اس کے لیے کام کرنا پڑتا ہے، اپنا آپ کھپانا پڑتا ہے، خود مثال بن جانا ضروری ہوتا ہے، تب جاکر چراغ سے چراغ جلنے کا عمل شروع ہوتا ہے، یوں سلسلہ چل نکلتا ہے۔
جیسے فتح حاصل کرنے کے لیے لشکر کو پہلا قدم اٹھانا پڑتا ہے۔۔۔ تب افراد، قوم، سماج میں تبدیلی نظر آتی ہے۔
ایک قوم فرد سے بنتی ہے۔ فرد معاشرے کی اکائی ہے۔ معاشرہ فرد کے وجود سے تشکیل پاتا ہے۔۔۔ اگر مثبت تعمیری سرگرمیاں ہوں تو بہتر معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ اگر سماج میں افراد انفرادی طور پر مثبت ذمّے داری ادا کرے تو معاشرہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔
ریاست کے تمام ادارے قانونی دائرے میں رہتے ہوئے کام کریں تو بہتر شکل نظر آتی ہے۔۔۔ اگر منفی رخ پر سرگرمیاں ہوں تو معاشرہ شکست و ریخت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اپنی زندگی پر نظر ڈالیں، دیکھنے کو بہت سی مثالیں ملیں گی۔
دیکھیے کہ کس طرح کہاں کیا کیا ہورہا ہے۔۔۔
آج سے چند سال قبل نیشنل ڈیٹا بیس اتھارٹی (نادرا) کا ادارہ اپنے فرائض ادا کرنے میں کسی حد تک مخلص تھا، مگر آج کل تو جو دھکے کھلائے جارہے ہیں، لگتا ہے کہ ہم پاکستان کے شہری نہیں ہیں۔۔۔ ہر کھڑکی رشوت کے لیے ہی کھلتی ہے۔۔۔ معاشرے کی ترقی وطن اور قوم کی ترقی اور قوم کا سدھار ہے۔ قومی یک جہتی کو پروان چڑھانا لازم ہے، جس کے لیے تعلیمی اداروں میں ابتدا سے اعلیٰ سطح تک نصاب کو تعمیری بنیادوں پر استوار کرنا لازمی ہے۔ تعلیم کے ساتھ تربیت لازم ہے کہ تعلیم انسان کو حیوانی خصلت سے دور کرتی ہے۔
لسانی تعصّب پرستی فرد اور قوم کے حب الوطنی کے جذبے کے لیے زہرِ قاتل ہے۔۔۔ اس کا اثر ہم تنظیم پرستی میں دیکھ رہے ہیں اور اس کے مضر اثرات کی وجہ سے اس ارضِ پاک نے جو دکھ اٹھائے ہیں، ان پر نظر ڈالیں تو دور دور تک لہو رنگ ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ مختصراً 12 مئی 2007 کا واقعہ، سانحہ بلدیہ اور اسی طرح کے دیگر واقعات۔۔۔ شام ہڑتال، صبح ہڑتال۔۔۔
پاکستان کو بنے 70 سال کا عرصہ ہونے کو آیا ہے۔۔۔ اردو کو قومی زبان کا درجہ حاصل ہے، مگر تعلیمی اور تحقیقی بنیادوں پر، حکومتی سطح پر اس کو وہ درجہ حاصل نہیں ہوا، جس کی وہ حق دار ہے۔۔۔ گویا عدالتوں کا حکم ہوا میں اُڑ گیا۔۔۔ اس لیے کہ کوئی پنجابی ہے، کوئی پٹھان ہے، کوئی بلوچی ہے، کوئی سندھی ہے اور کوئی مہاجر۔۔۔ پاکستان میں رہتے ہوئے سچا اور محب وطن پاکستانی نظر نہیں آتا۔ جب سچائی نہیں تو کچھ بھی نہیں۔۔۔ دو رنگی ہوگی تو خسارہ ہی خسارہ ہے۔۔۔ ہم مختلف ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں، اس لیے ضرورت ہے حب الوطنی کے اس جذبے پر فخر کرنے کی، اس کو سراہنے کی، اس کے لیے کچھ کرنے کی۔۔۔ مگر ہمارے ہاں دور دور تک اندھیرا ہے۔ لیکن کہیں کہیں بے غرض اور بے لوث خدمت کے جگنو چمکتے نظر آتے ہیں، اسی لیے ارضِ پاک میں خیر جاری ہے۔۔۔ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘۔ طبقہ اشرافیہ (حکم ران) اپنا قبلہ درست کرلے۔
ایران کے صدر احمدی نژاد اپنا کھانا روزانہ ٹفن میں لے کر آتے تھے۔ ہمارے حکم ران طبقے کے لمبے دستر خوان۔۔۔ کہاں تک شمار کیا جائے۔۔۔ مدتوں کا بگاڑ ہے، کیسے دور ہوگا۔۔۔ کب وقت آئے گا۔۔۔! ابھی حال ہی کی بات ہے پارلیمنٹرین کی تنخواہ میں 200 فی صد اضافہ ہوا۔ کیا یہ ضروری تھا؟ غریبوں کے دکھ کون سمیٹے گا۔۔۔ جب کہ ’’بڑے‘‘ لوگ یعنی پارلیمنٹرین تو بلاناغہ حاضر بھی نہیں ہوتے۔۔۔ کیوں ایسا ہی ہے ناں۔۔۔!!
خدا کے لیے حکم ران طقبہ آخرت میں جواب دہی کا احساس بیدار کرلے۔۔۔ آپ کے سامنے مثالیں ہیں، خامیاں کہاں کہاں ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ خونِ دل دے کر اس ارض وطن کی صورت نکھار دیں۔
خامیاں اور کمیاں ہر جگہ ہوتی ہیں، مگر نیت خالص ہو اور کام پر توجہ ہو تو کام یابیاں ضرور ملتی ہیں۔۔۔ کرپشن نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے، اس ناسور کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
ہر فرد عہد کرے کہ نیکی اور خیر کا ساتھ دے گا، بُرائی کے خلاف جہاد کرے گا۔ وطن سے محبت اور کارکردگی اور فرد کا مخلصانہ رویّہ سماج کی مثبت تعمیر کا ضامن ہے، بالکل اسی طرح جیسے رگوں میں بہتے لہو اور روح کا رشتہ لازم و ملزوم ہے۔ اگر فرد اکائی، سماج دوسرا جزو یک جان ہوجائیں تو کام یابی ضرور ہوگی اور اس دعا کے ساتھ بقول شاعر:
خدا کرے کہ میری ارضِ پاک پر اُترے
وہ فصلِ گُل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھِلے وہ کھِلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
nn