قدیم وضع پہ قائم رہوں اگر اکبر
تو صاف کہتے ہیں کہ رنگ ہے میلا
جدید طرز اگر اختیار کرتا ہوں تو
اپنی قوم مچاتی ہے ہائے واویلا
ادھر یہ ضد ہے کہ لیمونڈ بھی چُھو نہیں سکتے
ادھر یہ دھن ہے کہ ساقی صراحی مئے لا
ادھر دفتر تدبیر و مصلحت ناپاک
ادھر ہے ولی، ولایت کی ڈاک کا تھیلا
جو اعتدال کی کہیے تو وہ اِدھر نہ اُدھر
زیادہ حد سے دیئے سب نے ہیں پھیلا
***
پانی پینا پڑا ہے پائپ کا
حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا
پیٹ جلتا ہے، آنکھ آئی ہے
شاہ ایڈورڈ کی دہائی ہے
***
چھوڑ کر لٹریچر کو اپنی ہسٹری کو بھول جا
شیخ و مسجد سے تعلق ختم کر، اسکول جا
چار دن کی زندگی ہے کوفت سے کیا فائدہ
کھا ڈبل روٹی، کلرکی کر، خوشی سے پُھول جا
***
چاہا جو میں نے ان سے طریقِ عمل پہ وعظ
بولے کہ نظم ذیل کو ارقام کیجیے
پیدا ہوئے ہیں ہند میں اس عہد میں جو آپ
خالق کا شکر کیجیے آرام کیجیے
بے انتہا مُفید ہیں یہ مغربی علوم
تحصیل ان کی بھی سحر و شام کیجیے
ہوجائیے طریقہ مغرب پہ مطمئن
خاطر سے محو خطرہ انجام کیجیے
رکھیے نمود و شہرت و اعزاز پہ نظر
دولت کو صَرف کیجیے آرام کیجیے
سامان جمع کیجیے، کوٹھی بنائیے
باصد خلوص دعوتِ حکام کیجیے
قومی ترقیوں کے مشاغل بھی ضرور
اس مد میں بھی ضرور کوئی کام کیجیے
جو چاہیے وہ کیجیے، بس یہ ضرور ہے
ہر انجمن میں دعوی اسلام کیجیے
لیکن نہ بن پڑیں جو یہ باتیں حضور سے
مُردوں کے ساتھ قبر میں آرام کیجیے
***