آئن اسٹائن نے کہا تھا ’’ذہانت کی اصل علامت علم نہیں بلکہ تخیل ہے‘‘۔ سقراط کہتا ہے ’’مجھے معلوم ہے کہ میں ذہین ہوں، کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا‘‘۔ فلاسفہ صدیوں تک اسی تگ و دو میں لگے رہے کہ کسی طرح سے ذہانت کی پیمائش کے لیے کوئی طریقہ ترتیب دے سکیں۔ اور اب علم الاعصاب کے ماہرین (Neuroscientists) اس بحث میں کود چکے ہیں۔ وہ اس گتھی کو سلجھانے کی کوششیں کررہے ہیں، اور ذہانت کے حوالے سے سائنسی وضاحتوں کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ مثلاً ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ ذہین ہوتے ہیں؟ کیا ذہین لوگ اپنے حافظے میں چیزوں کو بہتر طریقے سے محفوظ کرکے ان کا اظہار کرتے ہیں؟ یا پھر ان کے عصبی خلیوں (neurons) میں ربط زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ مختلف خیالات کو بہتر انداز میں جوڑ لیتے ہیں؟ ایسا کیسے ہوتا ہے کہ ان عصبی خلیوں کی روایتی فائرنگ سے کوئی سائنس دان ایٹم بم بنا ڈالتا ہے، اور کوئی غالب اور جون ایلیا بن جاتا ہے؟ ذہانت میں نیورونز کے جو نیٹ ورک کام کررہے ہیں ان کی دریافت کا عمل بہرحال بہت مشکل ہے۔ کیونکہ ذہانت ہمارے حافظے یا جذبات کی طرح کی کوئی شئے نہیں ہے۔ دراصل ذہانت کی ہیئت ہی ایک معمّا ہے کہ آیا یہ کس طرح سے وجود میں آتی ہے۔ ذہانت کی کچھ اقسام بھی عام طور پر مانی جاتی ہیں، مثلاً تجزیاتی (analytic)، لسانیاتی (linguistic)، یا پھر جذباتی ذہانت۔ لیکن نفسیات دانوں اور علم الاعصاب کے ماہرین کا اس بات پر اختلاف ہے کہ آیا یہ ساری ذہانتیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں یا پھر یہ ایک دوسرے سے مختلف وجود رکھتی ہیں۔
بیسویں صدی میں ذہانت کے حوالے سے تین اہم نظریات سامنے آئے ہیں۔ پہلا نظریہ چارلس اسپیرمین نے 1904ء میں پیش کیا تھا، جس میں اس نے یہ تو مان لیا کہ ذہانت کی مختلف اقسام ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یہ ساری اقسام باہمی طور پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ گویا اگر کوئی شخص کسی آئی کیو ٹیسٹ کے ایک شعبے کو اچھی طرح سے پار کرتا ہے تو وہ باقی شعبوں میں بھی اچھا ہوگا۔ دراصل اسپیرمین کی بحث عمومی ذہانت (جسے Factor “g” کہا جاتا ہے) کے حق میں تھی، جو کہ آج تک ایک اختلافی مسئلہ ہے۔ کئی سال بعد ہارورڈ یونیورسٹی کے نفسیات دان ہاورڈ گارڈنر نے اسپیرمین کے اسی خیال پر اپنے نئے نظریے Multiple Intelligences کے ساتھ نظرثانی کردی، جس میں آٹھ مختلف اقسام کی ذہانتوں کا ذکر کیا اور دعویٰ کیا گیا کہ ان ذہانتوں کے درمیان کسی باہمی تعلق کی ضرورت نہیں۔ یعنی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک آدمی اچھی طرح سے کئی زبانیں سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو لیکن تجزیاتی صلاحیت سے محروم ہو۔ بعد میں 1985ء میں رابرٹ سٹرن برگ نے ایک نظریہ پیش کیا جس میں یہ بحث کی گئی کہ ذہانت کی پرانی تعریفات بہت تنگ نظر تھیں، کیونکہ وہ صرف انہی ذہانتوں پر انحصار کرکے ترتیب دی گئی تھیں جو کہ آئی کیو ٹیسٹ سے ناپی جاسکیں۔ اس کے برعکس سٹرن برگ کا نظریہ یہ ہے کہ ذہانت کو بنیادی طور پر تین ذیلی اقسام میں بانٹا جاسکتا ہے، یعنی: تجزیاتی ذہانت، تخلیقی ذہانت اور عملی ذہانت۔ ڈاکٹر گارڈنر اپنے نظریے ملٹی پل انٹیلی جنسز کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر ان کا انسانی تاریخ میں کوئی فائدہ نہ ہوتا تو ذہانت کی یہ قسمیں وجود میں ہی نہ آئی ہوتیں۔ لیکن ایک چیز جس کا تاریخ کے کسی ایک حصے میں کوئی فائدہ ہو، ضروری نہیں ہے کہ تاریخ کے دوسرے حصے میں بھی اس کا فائدہ برقرار رہے۔ ’’جیسے جیسے تاریخ آگے بڑھتی ہے، جیسے جیسے ثقافتیں ترقی کرتی ہیں، ذہانتیں بھی اسی حساب سے تبدیل ہوتی ہیں‘‘۔ وہ کہتے ہیں ’’سو سال پہلے تک اگر آپ کو اعلیٰ تعلیم کی ضرورت ہوتی تو آپ میں لسانیاتی ذہانت اہم کردار کی حامل تھی۔ ڈیڑھ سو سال پہلے داخلے کے امتحانات یونانی، لاطینی اور عبرانی زبانوں میں ہوا کرتے تھے۔ اور اگر مثال کے طور پر آپ ڈس لیکزیا (Dyslexia) کا شکار ہیں تو آپ کے لیے یہ سب کرنا بڑا مشکل ہوگا‘‘۔ آج کے دور میں ریاضیاتی اور جذباتی ذہانتیں معاشرے میں زیادہ اہم ہیں۔ ان کے نزدیک اگر آپ کو لوگوں کے ساتھ بہتر برتاؤ کرنا نہیں آتا تو آپ معاشرے میں کسی کام کے نہیں ہیں۔
ذہانت کی ماہیت کے حوالے سے اختلافات کی اس نوعیت نے سالوں سے اس کی سائنسی بنیادیں کھوجنے کے عمل کو جاری رکھا ہوا ہے۔ تاہم 2007ء میں ایک تحقیق شائع ہوئی جس میں آئی کیو کی 37 مختلف نیورو امیجنگ (neuro imaging)تحقیقات کو ذہانت کی مختلف تعریفوں کے لحاظ سے ریویو کیا گیا۔ یہ ایک کامیاب کوشش تھی جس میں یہ معلوم کیا گیا کہ دماغ کے کون سے حصے آئی کیو کی زیادتی میں ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس تحقیق کو ایک نظریے Parieto- Frontal Integration کے طور پر پیش کیا گیا۔ علم الاعصاب کے ماہرین کے نزدیک یہ نظریہ جان پکڑتا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال میں ایک مزید تحقیق بھی ہوئی تھی جس میں تحقیقاتی ٹیم نے دماغی لیژن (brain- lesion) کے 241 مریضوں کے آئی کیو ٹیسٹ کے نتیجوں کا معائنہ کیا۔ دماغی لیژن کی جگہ اور ٹیسٹ میں نمبروں کا موازنہ کرنے سے یہ بات سامنے آئی کہ ذہانت کے مختلف حصوں میں دماغ کے کون سے حصے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ مزید برآں اس دوسری تحقیق کے نتائج parieto- frontal integration theory سے ملتے جلتے دیکھے گئے ہیں۔
nn