(امریکی ایماء پر حافظ سعید کی نظر بندی (حامد ریاض ڈوگر

190

کسی ملک، ادارے یا فرد کی اس سے بڑھ کر بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اس کے بارے میں عمومی تاثر یہ بن جائے کہ اپنے جانثاروں اور خیر خواہوں کا وفادار نہیں، بلکہ بے وفائی اس کا وتیرہ ہے۔ 1971ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کے سانحہ سے قبل جن لوگوں نے پاکستان کے لیے اپنی جانیں قربان کیں اور جی جان سے پاکستان کے تحفظ، دفاع، اتحاد اور یکجہتی کی خاطر پاکستان کی مسلح افواج کا ساتھ دیا۔۔۔ جان، مال، عزت، آبرو اور مستقبل غرضیکہ اپنا سب کچھ پاکستان پر نچھاور کردیا۔۔۔ مگر جب بھارتی فوج کی جارحیت اور مکتی باہنی کی بغاوت و غداری کے نتیجے میں مشرقی پاکستان، بنگلہ دیش بن گیا، تو ہم نے قربانیاں دینے والے اپنے مشرقی پاکستانی بھائیوں کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں وہ تب سے اب تک طرح طرح کی اذیتوں کا سامنا کررہے ہیں۔ نصف صدی ہونے کو آئی ہے بنگلہ دیش کو وجود میں آئے، مگر اسلامی جمعیت طلبہ، جماعت اسلامی اور پاکستان سے محبت کرنے والے دیگر لوگوں کا اپنے وطن پاکستان سے محبت کا جرم ابھی تک معاف نہیں کیا جارہا، اور آفرین ہے ان نیک طینت فرزندانِ اسلام پر کہ ؂
جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
کا نغمۂ جاں فزا گنگناتے ہوئے آج بھی ہنسی خوشی تمام آلام و مصائب برداشت کررہے ہیں اور اسلام و پاکستان کی محبت میں یہ پھانسی کے پھندے پر جھول جاتے ہیں مگر اُف تک ان کے لبوں پر نہیں آتی ؂
اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے
مگر پاکستان کے حکمرانوں اور متعلقہ اداروں کا ناقابلِ فہم طرزعمل یہ ہے کہ ہم پاکستان کے لیے جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے ان جانثاروں پر ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج تک بلند کرنے کے روادار نہیں۔ جب کہ ترک حکومت اپنے مسلمان بھائیوں پر اس ظلم کے خلاف بلند آہنگ صدائے احتجاج بلند کرتی اور اپنا سفیر بنگلہ دیش سے احتجاجاً واپس بلا کر پاکستانی حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ رسید کرتی ہے، مگر ہم اس کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوتے۔
ذرا آگے بڑھیے تو پاکستان کی تاریخ کا بزدل ترین جرنیل ڈھٹائی اور بے وفائی کا ایک اور باب رقم کرتا دکھائی دیتا ہے اور جہادِ افغانستان کے دوران پاک فوج کے ہراول دستے کے طور پر لڑنے والے مجاہدین گلبدین حکمت یار، جلال الدین حقانی، برہان الدین ربانی، اسامہ بن لادن اور ملا عمر وغیرہ۔۔۔ ایک ایک کی پاکستان کے لیے قربانیوں کا صلہ یہ دیا جاتا ہے کہ امریکہ کو ان کے ٹھکانوں پر حملوں کے لیے پاکستان میں اڈے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان ٹھکانوں کے بارے میں حساس معلومات امریکہ کو فراہم کی جاتی ہیں، اور اگر کوئی مجاہد کہیں پاکستان میں پناہ گزین پایا جاتا ہے تو ہر طرح کے اسلامی، اخلاقی اور سفارتی آداب کو پامال کرکے اسے گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کردیا جاتا ہے اور بیک جنبش قلم مجاہدین کو دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی سلوک کشمیری مجاہدین اور حریت پسندوں سے بھی روا رکھا جاتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی مزید آگے بڑھتے ہوئے اب نوبت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اپنے ازلی و ابدی دشمن۔۔۔ جس نے ہمارا وطن دولخت کیا، آئے روز ہمارے فوجیوں اور شہریوں کو کنٹرول لائن پر شہید کررہا ہے، اس کا وزیراعظم کھلے بندوں پاکستان کا پانی بند کرکے ہمیں بھوکا پیاسا مارنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔۔۔ کی خوشنودی کی خاطر امریکہ کے دباؤ کے تحت جماعۃ الدعوۃ اور فلاحِ انسانیت فاؤنڈیشن جیسی دعوت و خدمت کے میدان میں مثالی کارکردگی کی حامل تنظیموں کے امیر و سرپرست حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھیوں کو نظربند کر دیا گیا ہے۔ اور یہ نظربندی کوئی پہلی دفعہ عمل میں نہیں لائی گئی، قبل ازیں بھی امریکہ اور بھارت کے دباؤ پر ہم اپنی کئی فلاحی اور سماجی تنظیموں پر پابندیاں عائد کرکے انہیں کالعدم کرچکے ہیں۔ خود حافظ سعید اور ان کے ساتھیوں کو بھی نظربندی کی آزمائش سے گزارا جاتا رہا ہے، مگرجب اسے عدالت میں چیلنج کیا گیا تو حکومت ان کے خلاف کسی بھی تخریبی یا دہشت گردی کی سرگرمی کا کوئی ثبوت عدالت میں پیش نہ کرسکی۔ سرکاری وکیل نے ڈھٹائی کی انتہا کرتے ہوئے جو واحد جواز عدالت کے روبرو پیش کیا وہ یہ تھا کہ ’’حافظ سعید کی تقریروں سے بھارت ناراض ہوتا ہے۔‘‘ اس شرمناک جواز پر معزز عدالت نے بھی سرکاری وکیل کو ڈانٹ پلائی اور حافظ سعید کی رہائی کا پروانہ جاری کیا۔ حکومت نے عدالتِ عالیہ کے بعد عدالتِ عظمیٰ میں بھی رہائی کے فیصلے کو چیلنج کیا، مگر وہاں بھی عدل کا بول بالا رہا اور عدم ثبوت کی بناء پر حکومت کو حافظ محمد سعید کی نظربندی کے احکامات واپس لینا پڑے۔ عدالتِ عالیہ اور عدالتِ عظمیٰ کے واضح احکام کے باوجود نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ میں آکر حکومتِ پاکستان نے حافظ سعید اور ان کے چار ساتھیوں کو نظربند کردیا ہے اور جماعۃ الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے خلاف امریکہ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں بعض اقدامات کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ حافظ سعید نے نظربندی کے تازہ احکام کے بعد بھی کسی غیر قانونی راستے کو اپنانے کے بجائے قانون کا راستہ اختیار کرنے اور پابندیوں کو ملکی عدالتوں میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے، اور یقینِ واثق ہے کہ اعلیٰ عدالتیں ان پابندیوں کو کالعدم قرار دے دیں گی، کیونکہ حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھی تو پہلے ہی ان عدالتوں سے بے گناہ قرار پا چکے ہیں مگر حکمران ہیں کہ اپنی بار بار کی رسوائی سے کوئی سبق حاصل کرنے پر آمادہ و تیار نہیں۔
جس اقوام متحدہ کی قراردادوں کو جواز بناکر امریکہ و بھارت اور ان کے دیگر ہم نوا پاکستان پر جماعۃ الدعوۃ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور ان جیسی دوسری تنظیموں اور ان کے قائدین پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں، کیا یہ حقیقت نہیں کہ کشمیری عوام کو حقِ خودارادیت دینے کی ایک نہیں کئی قراردادیں بھی اسی اقوام متحدہ نامی ادارے نے منظور کر رکھی ہیں، مگر بھارت ان پر عملدرآمد کرنے اور کشمیری عوام کو آزادانہ رائے شماری کا حق دینے سے گزشتہ ستّر برس سے انکاری چلا آرہا ہے۔ آخر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے بھارت پر دباؤ کیوں نہیں ڈالا جاتا اور بھارت پر اس الزام میں پابندیاں عائد کیوں نہیں کی جاتیں؟ بھارت جس طرح مسلسل کشمیر میں ظلم و ستم روا رکھے ہوئے ہے، اور کالے قوانین کا سہارا لے کر تواتر سے بنیادی انسانی حقوق سے کشمیری عوام کو محروم کیے ہوئے ہے، آخر عالمی قوانین اُس کے خلاف حرکت میں کیوں نہیں آتے؟
اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف غیر انسانی اور وحشیانہ مظالم کے خلاف اقوام متحدہ اب تک کتنی قراردادیں منظور کرچکا ہے اور کتنی قراردادوں کے ذریعے فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر سے روکا گیا ہے، مگر وہ ایسی کسی بھی قرارداد کو تسلیم نہیں کررہا، اور وہی امریکہ جو ہمیں اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کرنے کا درس دیتا ہے، نہایت ڈھٹائی سے اسرائیل کی پشت پناہی کررہا ہے۔ وہاں اسے عالمی اور بین الاقوامی قاعدے اور قانون دکھائی نہیں دیتے؟
حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھیوں کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ کشمیر میں بھارت کے مظالم کے خلاف پورے زور سے صدائے احتجاج بلند کرتے، جمہوریت کے چیمپئن کی غیر جمہوری حرکات کو بے نقاب اور ببانگِ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ ’’کشمیر مذمت کی قراردادوں سے نہیں، ظالم و جابر ہندو ریاست بھارت کی مرمت یعنی جہاد کے راستے ہی سے آزاد ہوگا‘‘۔ حکومت پاکستان اور ہمارے قومی اداروں کا کردار ہونا تو یہ چاہیے کہ وہ حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھیوں کی اس سے بڑھ کر سرپرستی کریں جس طرح بھارتی حکمران اپنے ملک میں اسلام اور مسلمان دشمن تنظیموں کی امداد و اعانت کرتے ہیں، مگر صورت حال اس کے برعکس ہے جس کی وجہ سے یہ تاثر عام ہورہا ہے کہ پاکستانی حکومت اور اس کے ادارے اپنے قومی مفاد سے زیادہ بین الاقوامی دباؤ کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کے واضح حکم کے باوجود حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھیوں کی نظربندی اس کی تازہ مثال ہے۔
شرمناک حقیقت یہ بھی ہے کہ جماعۃ الدعوۃ کے قائدین کے خلاف حالیہ کارروائی عین اُس وقت کی گئی ہے جب پوری قوم پانچ فروری کو سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور کا بناء کردہ ’’یوم یکجہتی کشمیر‘‘ منانے کی تیاریوں میں مصروف ہے اور جماعت اسلامی اورجماعۃ الدعوۃ یکم فروری سے ہفتہ یکجہتئ کشمیر کا آغاز کرچکی ہیں۔ اس مرحلے پر جدوجہدِ آزادئ کشمیر کے پشتی بان حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کے ذریعے ہمارے حکمران مظلوم و محکوم کشمیری مسلمانوں کو آخر کیا پیغام دے رہے ہیں؟ کیا اس اقدام کا واضح مطلب کشمیری عوام کو پاکستان سے مایوس کرنا نہیں؟ اس نازک مرحلے پر اس کارروائی کے ذریعے ہمارے حکمرانوں نے پاکستان کے ازلی و ابدی دشمن بھارت کو یقیناًایک نادر تحفہ دیا ہے اور بھارت اور امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے قومی و ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دیا ہے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ اور بھارت ہر طرح کی خوشامد اور ملکی مفادات سے بے وفائی کے باوجود نہ تو بزدل جرنیل پرویزمشرف سے راضی ہوئے تھے اور نہ موجودہ حکمرانوں اور صاحبانِ اختیار سے خوش ہوں گے، بلکہ اب ان کی طرف سے مزید تقاضوں میں شدت آئے گی اور جتنا ہمارے حکمران اُن کے سامنے جھکتے چلے جائیں گے وہ اتنا ہی اپنے مطالبات بڑھاتے چلے جائیں گے، اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ حکمرانوں کے لیے عزت اور وقار کا راستہ یہی ہے کہ وہ اب مزید دبنے اور جھکنے سے انکار کردیں اور اپنے ملک و قوم کے مفاد کی خاطر ڈٹ جائیں۔۔۔ اور اس کا نتیجہ وہ جلد دیکھیں گے کہ ایک ’’ناں‘‘ سو سُکھ۔۔۔!!!
nn

حصہ