آخرکار وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گزشتہ دنوں کراچی میں ٹریفک جام کی صورت حال کا نوٹس لے ہی لیا۔ وزیراعلیٰ نے ٹریفک پولیس کے اعلیٰ افسران کو ہدایت دی کہ تمام ایس پیز روزانہ، خصوصاً شام کے اوقات میں اپنے اپنے علاقوں میں شاہراہوں پر نکلیں اور ٹریفک کی روانی کو بحال کروائیں، بصورتِ دیگر افسران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔
شہر کراچی میں ٹریفک جام ہونا کوئی نئی بات نہیں، مگر آنے والے دن کے ساتھ ٹریفک کی صورت حال ابتر سے ابتر ہوتی جارہی ہے، کراچی کی سڑکوں پر سفر کرنے والا ہر شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ ٹریفک جام کراچی کے شہریوں کے لیے کس قدر عذاب بنتا جارہا ہے۔ دیر سے ہی سہی، وزیراعلیٰ کو اس مسئلے پر توجہ دینے کا خیال آنا اچھی خبر ہے۔ کئی برس سے یہاں کے شہری گھنٹوں اس عذاب کو جھیلتے آرہے ہیں۔ اکثر مقامات پر سڑکوں کے دونوں طرف غیر قانونی طور پر کھڑی کی گئی گاڑیاں، ٹھیلے، پتھاروں سے بنے بازار، فٹ پاتھوں پر قبضہ مافیا کا کنٹرول اور انتظامیہ کی لاپروائی کا بھی ٹریفک جام میں بڑا حصہ ہے۔ صبح سویرے گھر سے نکلنے والے کو نہیں معلوم کہ وہ کب اپنی منزل پر پہنچے گا؟ رات گئے سڑکوں پر گاڑیوں کا سیلاب کسی کے کنٹرول میں نہیں، اور ہو بھی کیسے سکتا ہے! جن کی ذمے داری ٹریفک کی روانی کو یقینی بنانا ہوتا ہے، وہ کسی بھی اہم شاہراہ پر چراغ لے کر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے، شاید وہ خود ٹریفک میں پھنسنے سے پہلے اپنے اپنے گھروں میں جانے کو ہی غنیمت جانتے ہیں۔ وہ ٹریفک اہل کار کیوں آنے والے سیلاب کا سامنا کریں! کیا بہتر نہیں کہ سڑکوں سے سائیڈ پکڑلی جائے۔۔۔! عقل مندی بھی یہی ہے کہ وقت سے اپنے گھر پہنچا جائے، کوئی سڑک جام بھی ہوتی ہے تو ہوجائے ہماری بلا سے، کل کی کل دیکھیں گے، ابھی تو پتلی گلی پکڑنے ہی میں فائدہ ہے۔ مجھے متعدد بار اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ جب جب میرے ساتھ ایسا ہوا تو میری آنکھوں نے ہمیشہ یہی دیکھا کہ سڑکوں سے ٹریفک پولیس اہل کار غائب تھے اور ٹریفک بری طرح جام تھا۔ ابھی ایک تازہ واقعے ہی کو لے لیجیے۔ 24 جنوری بروز منگل مجھے چند شعرائے کرام کے ساتھ گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی سائٹ جانا پڑگیا، جہاں اسلامی جمعیت طلبہ کراچی کے زیراہتمام نئے آنے والے طلبہ کے لیے ایک استقبالیہ رکھا گیا تھا۔ اس سلسلے میں اسلامی جمعیت طلبہ نے ایک مشاعرہ بھی منعقد کیا تھا۔ مجھے وہاں لازمی شرکت کرنی تھی اور میری ذمے داری تھی کہ میں ملک کے نام ور شعرائے کرام کو لے کر جی سی ٹی مشاعرے میں پہنچوں۔ میرے ساتھ جناب عنایت علی خان، جناب اجمل سراج اور جناب خالد معین تھے، جب کہ نوجوان شعرا میں محمد عارف، اسامہ امیر، ارشد شاد دوسری گاڑی میں موجود تھے۔ نئے آنے والے طلبہ کے استقبال میں منعقد کی جانے والی تقریب میں بسلسلہ مشاعرہ انتظامات کو حتمی شکل دینے اور نظامت کے فرائض انجام دینے کے لیے نوجوان شاعر عبدالرحمن مومن صبح سے ہی پنڈال میں موجود تھے۔ ہمارا رابطہ عبدالرحمن مومن کے ساتھ ہی تھا۔ وقتِ مقررہ پر پہنچنے کے لیے میں تمام شعرا کے ساتھ دوپہر ایک بجے کالج کی جانب روانہ ہوا، جہاں طلبہ کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی۔ ظاہر ہے استقبالیہ میں نئے آنے والے طلبہ اور کالج کے پرانے طلبہ جب ایک مقام پر جمع ہوں تو تعداد کے اعتبار سے یہ کام یاب پروگرام ہی ہوگا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی جانب سے دیے جانے والے استقبالیے میں نظم و ضبط مثالی ہوا کرتا ہے۔ صبح سے چلتے پروگرام میں اب انتظار تھا تو صرف ہمارا ہی تھا۔ عبدالرحمن مومن مستقل مجھے فون کرتے رہے۔۔۔ اور میں کر بھی کیا سکتا تھا! ہر مرتبہ میرا جواب یہی ہوتا کہ ہم ٹریفک جام میں بُری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ کالج میں نئے طلبہ کے سامنے اسٹیج سے بار بار اعلانات ہورہے تھے کہ تھوڑی ہی دیر میں مشاعرے کا آغاز کردیا جائے گا۔ ایک طرف اسلامی جمعیت طلبہ اپنے اعلانات میں طلبہ کو تسلی دے رہی تھی تو دوسری طرف ہم ٹریفک پولیس و انتظامیہ کو کوس رہے تھے۔ ہمارے پاس اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ ہماری گاڑی دیگر گاڑیوں کے ساتھ ٹریفک جام میں بُری طرح پھنسی ہوئی تھی۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ بلوچ کالونی پل کے اطراف کھڑی گاڑیاں، جن کی وجہ سے یہ سڑک شارع فیصل تک مکمل جام تھی، صاف بتا رہی تھی کہ مشکل ہی سے نکلیں گے۔۔۔ یہ سڑک ساتھ بنے ایک نجی اسکول کی ملکیت ہے، عوام کی پریشانی سے تعلیم کے ان ٹھیکے داروں کا کیا تعلق؟ گاڑیوں کا ہجوم، افراتفری، ایک عجیب صورت حال کراچی کی مصروف ترین سڑکوں پر دیکھی جا سکتی ہے۔ ہم جہاں گھنٹوں سے پھنسے تھے، کئی گاڑیوں کا پیٹرول ختم ہوچکا تھا، لوگ بند گاڑیوں کے ساتھ سڑک پر کھڑے تھے اور سڑک پر کھڑی گاڑیوں کی ترتیب بگڑی ہوئی تھی، اس صورت میں یہاں سے نکلنا مشکل ترین لگ رہا تھا۔ میری پریشانی بڑھتی جارہی تھی، مجھے معزز شعرا کو لے کر جی سی ٹی پہنچنا تھا، سارے شعرا بھی فکرمند تھے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ ان طلبہ پر کیا اثر پڑے گا جو ابھی نئے نئے کالج میں آئے ہیں۔۔۔ مجھے اپنی اور شعرا کی عزت کا خیال آرہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کہیں وعدہ خلافی نہ ہوجائے، دور بیٹھے طلبہ کہیں مجھے جھوٹا نہ سمجھیں۔ میں بار بار عبدالرحمن مومن کو ساری صورت حال سے آگاہ کرتا رہا۔ ہماری گاڑی کا ڈرائیور کبھی کسی گلی میں جانے کی کوششں کرتا تو کبھی اس سڑک پر ہی چلتے رہنے کو بہتر جانتا۔ میں دل میں دعائیں کرتا رہا کہ خدایا، ہمیں اس مشکل سے نجات دلا، ہمیں ہماری منزل تک بخیریت پہنچا۔ مجھے ٹریفک پولیس و انتظامیہ پر کسی قسم کا کوئی یقین نہ تھا، اور ہوتا بھی کس طرح! اگر انتظامیہ موجود ہوتی تو اعتبار کرتا۔ یہاں تو دور دور تک کوئی بھی اہل کار نظر نہ آتا تھا۔ میرے ساتھ اگر کچھ تھا تو خدا پر یقین اور ایمان تھا، میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہی ہے جو ہمیں یہاں سے نکالے گا۔۔۔ وقت بڑی تیزی سے گزر رہا تھا۔ قریباً ڈھائی گھنٹے سے زیادہ کا وقت ٹریفک جام میں پھنسے ہوچکا تھا اور کالج میں مشاعرے کا وقت بھی گزر چکا تھا۔ میں اب کالج صرف اس لیے جانا چاہتا تھا کہ اپنی سچائی اُن طلبہ کو بتاسکوں جو ہمارے انتظار میں گھنٹوں سے بیٹھے ہیں۔۔۔ میرا خدا پر ایمان اور دعائیں رنگ لائیں، لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سڑک سے ٹریفک کنٹرول کرنا شروع کیا تو کچھوے کی رفتار سے گاڑیاں نکلنا شروع ہوئیں۔ ہماری گاڑی بھی آہستہ آہستہ چل رہی تھی، یہ دیکھ کر دل کو سکون ملا۔ خیر، ٹریفک میں پھنستے پھنساتے قریباً 4 بجے ہم جی سی ٹی پہنچے۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا، جس نے مجھے اُن طلبہ کے سامنے جھوٹا ہونے سے بچالیا جنہوں نے بڑی محنت سے پروگرام ترتیب دیا تھا۔ میں تمام شعرائے کرام کے ساتھ کالج کے مرکزی ہال کی جانب بڑھا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ تین گھنٹے لیٹ ہونے کے بعد بھی طلبہ کی بڑی تعداد ہال ہی میں بیٹھی ہمارا انتظار کررہی ہے۔ یہ ان کی ادب سے محبت کی اچھی مثال تھی۔ عبدالرحمن مومن نے ہمارے پہنچتے ہی مشاعرے کا باقاعدہ آغاز کردیا۔ مشاعرے کے لیے سجائے گئے ہال کے دروازوں اور راہ داری سے اسٹیج تک شعرائے کرام کو عزت دینے کے لیے ریڈ کارپٹ بچھائے گئے تھے۔ بڑی عزت و احترام کے ساتھ تمام شعرائے کرام کو ہال کے اندر داخل کروایا گیا۔ طلبہ نے کھڑے ہوکر ہم سب کو خوش آمدید کہا۔ ان کی محبت صاف بتا رہی تھی کہ انہوں نے ٹریفک جام میں ہمارے پھنسے ہونے کے باوجود ہمارا انتظار کیا۔ جب کہ تمام شعرائے کرام بھی حکومتی اداروں کی غفلت اور لاپروائی بھول کر باری باری اپنا کلام پڑھتے گئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کی طرف سے ان کے پُرجوش کارکنوں نے تمام شعرا کو بڑی توجّہ سے سُنا اور ہر ایک کے کلام پر دل کھول کر داد بھی دی۔ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد ہم اسی طرح ٹریفک جام کا عذاب جھیلتے رات گیارہ بجے گھر پہنچے۔
قارئین، کراچی میں ٹریفک جام روز کا معمول ہے۔ اسی کی وجہ سے کراچی کی سڑکوں پر نہ جانے کتنے مریض اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی اپنے خالق حقیقی سے جا ملتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کی نااہلی کی وجہ سے یہاں روز درجنوں افراد ائیرپورٹ نہ پہنچنے کی وجہ سے بیرونِ ملک جانے سے رہ جاتے ہیں، نہ جانے کتنے طلبہ روز شروع کے پیریڈ سے محروم ہوجاتے ہیں، دیہاڑی لگاکر اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والے مزدور وقتِ مقررہ پر اپنے کام کی جگہ تک نہیں پہنچ پاتے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ گھروں میں بجلی و پانی نہیں، باہر ٹریفک کا عذاب جھیلو۔۔۔ عوام کریں تو کیا کریں؟ ٹوٹی سڑکیں، فٹ پاتھوں پر قبضہ مافیا، لاپروا انتظامیہ کو دیکھ کر عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ سندھ حکومت کی بے حسی انہیں پتھروں کے زمانے میں دھکیل رہی ہے۔
مجھے ٹریفک جام کی وجہ سے اب تک معزز شعرائے کرام، خاص طور پر جناب اجمل سراج صاحب سے شرمندگی ہورہی ہے، کیوں کہ میں نے اجمل سراج سے بڑی مشکل سے وقت لیا تھا۔ ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے اُس روز اجمل سراج اپنے کئی امور انجام نہ دے پائے، جس کا انہوں نے بعد میں ذکر بھی کیا۔ مجھے سندھ حکومت میں پیپلزپارٹی کے رہنماؤں، وزیروں، مشیروں پر حیرت ہوتی ہے کہ گزشتہ نو، دس برس سے حکمرانی کے مزے لوٹنے کے باوجود انہوں نے کوئی بھی عوامی مسئلہ حل نہیں کیا، بلکہ ان کو تو اس بات کی فکر ہی نہیں کہ قریباً دو کروڑ آبادی والا شہر اس عرصے میں پبلک ٹرانسپورٹ تک سے محروم ہوگیا۔ کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی میں، جہاں سارے پاکستان سے سفری یا گڈز ٹرانسپورٹ کا سیلاب امنڈ آتا ہے،40 لاکھ گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں اور روزانہ آٹھ نو سو گاڑیاں مزید رجسٹرڈ ہورہی ہیں۔ اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ فائلوں میں دبے منصوبے سندھ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ریکارڈ روم کی زینت بن چکے ہیں۔ صوبے کے ان حکمرانوں کے بلند وبانگ دعوے اخبارات تک محدود رہتے ہیں، ان پر کبھی عملدرآمد نہیں کیا جاتا۔ کراچی شہر میں سرکلر ریلوے جیسے منصوبے اس حکومت نے بھلادیے ہیں اور اب بھی صوبے کی حکمران پارٹی بغیر کسی عوامی کام کے اگلا الیکشن جیتنے کی باتیں کررہی ہے۔ اس پارٹی کو یہ بات کرتے ہوئے شرم آنی چاہیے۔۔۔کراچی کے شہری لاہور میٹرو، پنڈی میٹرو اور اب ملتان میٹرو بس سروس کو میڈیا پر دیکھ کر سندھ حکومت سے سوال کررہے ہیں کہ بین الاقوامی معیار کی سہولتیں ان کے نصیب میں کب آئیں گی؟ وہ پاکستان کے دوسرے حصوں میں ٹرانسپورٹ نظام کی بہتری کو دیکھ کر سوچ رہے ہیں کہ کب سندھ حکومت اس شہر میں عوام کو بہترین سفری سہولتیں فراہم کرے گی اور ٹریفک جام کے عذاب سے کب انہیں چھٹکارا ملے گا؟
مدینہ کا بازار تھا، گرمی کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ نڈھال ہورہے تھے۔ ایک تاجر اپنے ساتھ ایک غلام کو لیے پریشان کھڑا تھا۔ غلام جو ابھی بچّہ ہی تھا، وہ بھی دھوپ میں کھڑ ا پسینہ پسینہ ہورہا تھا۔ تاجر کا سارا مال اچھے داموں بک گیا تھا، بس یہ غلام ہی باقی تھا، جسے خریدنے میں کوئی بھی دل چسپی نہیں دکھا رہا تھا۔ تاجر سوچ رہا تھا کہ اس غلام کو خرید کر شاید اس نے گھاٹے کا سودا کیا ہے۔ اس نے تو سوچا تھا کہ اچھا منافع ملے گا، لیکن یہاں تو اصل لاگت ملنا بھی دشوار ہورہا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اگر یہ غلام اُس قیمت پر بھی بکا، جس پر خریدا ہے تو فوراً بیچ دے گا۔
مدینہ کی ایک لڑکی کی اس غلام پر نظر پڑی تو اس نے تاجر سے پوچھا کہ یہ غلام کتنے کا بیچو گے؟ تاجر نے کہا کہ میں نے اتنے میں لیا ہے اور اتنے ہی کا دے دوں گا۔ اس لڑکی نے بچے پر ترس کھاتے ہوئے اسے خرید لیا۔ تاجر نے بھی خدا کا شکر ادا کیا اور واپسی کے راہ لی۔
مکے سے ابو حذیفہ مدینہ آئے تو انہیں بھی اس لڑکی کا قصہ معلوم ہوا۔ لڑکی کی رحم دلی سے متاثر ہوکر انہوں نے اس کے لیے نکاح کا پیغام بھیجا، جو قبول کرلیا گیا۔ یوں واپسی پر وہ لڑکی جس کا نام ثبیتہ بنت یعار تھا، بیوی بن کر ان کے گھر آگئی اور وہ غلام بھی مالکن کے ساتھ مکہ پہنچ گیا۔
ابو حذیفہ مکہ آکر اپنے پرانے دوست عثمان ابن عفان سے ملے تو انہیں کچھ بدلا ہوا پایا اور انکے رویّے میں سرد مہری محسوس کی۔ انہوں نے اپنے دوست سے استفسار کیا کہ عثمان یہ سرد مہری کیوں تو عثمان بن عفان نے جواب دیا کہ میں نے اسلام قبول کرلیا ہے اور تم ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تو اب ہماری دوستی کیسے چل سکتی ہے۔ ابو حذیفہ نے کہا تو پھر مجھے بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلو اور اس اسلام میں داخل کردو، جسے تم قبول کرچکے ہو۔ چناں چہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور وہ کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ گھر آکر انہوں نے اپنی بیوی اور غلام کو اپنے مسلمان ہونے کا بتایا تو ان دونوں نے بھی کلمہ پڑھ لیا۔
حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام سے کہا کہ چوں کہ تم بھی مسلمان ہوگئے ہو، اس لیے میں اب تمہیں غلام نہیں رکھ سکتا، لہذا میری طرف سے اب تم آزاد ہو۔
غلام نے کہا: آقا میرا اب اس دنیا میں آپ دونوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ آپ نے مجھے آزاد کردیا تو میں کہاں جاؤں گا؟ حضرت ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اس غلام کو اپنا بیٹا بنالیا اور اپنے پاس ہی رکھ لیا۔ غلام نے قرآن پاک سیکھنا شروع کردیا اور کچھ ہی دنوں میں بہت سا قرآن حفظ کرلیا۔ جب وہ قرآن کی تلاوت کر تا تو اتنا خوب صورت لحن ہوتا کہ راہ چلتے لوگ اس کی آواز پر رُک جاتے۔
ہجرت کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جن صحابہ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ اور ان کا یہ لے پالک بیٹا بھی شامل تھے۔
مدینہ پہنچ کر جب نماز کے لیے امام مقرر کرنے کا وقت آیا تو اس غلام کی خوب صورت تلاوت اور سب سے زیادہ قرآن حفظ ہونے کی وجہ سے انہیں امام چُن لیا گیا۔ ان کی امامت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی نماز ادا کرتے۔ مدینے کے یہودیوں نے جب انہیں امامت کرتے دیکھا تو حیران ہوگئے کہ یہ وہی غلام ہے، جسے کوئی خریدنے کے لیے تیار نہ تھا۔ آج دیکھو کتنی عزّت ملی کہ مسلمانوں کا امام بنا ہوا ہے۔
اللہ پاک نے انہیں اس قدر خوش گلو بنایا تھا کہ جب آیاتِ قرآنی تلاوت فرماتے تو لوگوں پر ایک محویت طاری ہوجاتی اور راہ گیر ٹھٹک کر سُننے لگتے۔ ایک دفعہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے میں دیر ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توقف کی وجہ پوچھی تو بولیں: ایک قاری تلاوت کررہا تھا، اس کے سُننے میں دیر ہوگئی اور خوش الحانی کی اس قدر تعریف کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود چادر سنبھالے ہوئے باہر تشریف لے آئے۔ دیکھا تو وہ بیٹھے تلاوت کررہے ہیں۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے خوش ہوکر فرمایا: ’’اللہ پاک کا شُکر ہے کہ اُس نے تمہارے جیسے شخص کو میری اُمت کا حصّہ بنایا‘‘۔
آپ جانتے ہیں کہ یہ خوش قسمت صحابی کون تھے؟ یہ صحابی تھے، حضرت سالم رضی اللہ عنہ،جو سالم مولی ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ انہوں نے جنگ موتہ میں جام شہادت نوش کیا۔
اللہ پاک ان پر کروڑہا رحمتیں نازل فرمائے، آمین!
nn
کبوتر بڑے کام کا جانور ہے۔ یہ آبادیوں میں، جنگلوں میں، مولوی اسماعیل میرٹھی کی کتاب میں، غرضیکہ ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ کبوتر کی دو بڑی قسمیں ہیں: نیلے کبوتر، سفید کبوتر۔
نیلے کبوتر کی بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ نیلے رنگ کا ہوتا ہے۔ سفید کبوتربالعموم سفید ہی ہوتا ہے۔ کبوتروں نے تاریخ میں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں۔ شہزادہ سلیم نے مسماۃ مہر النسا کو جب کہ وہ ابھی بے بی نورجہاں تھیں، کبوتر ہی پکڑایا تھا کہ اس نے اُڑا دیا اور پھر ہندوستان کی ملکہ بن گئی۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ اس سارے قصّے میں زیادہ فائدے میں کون رہا؟ شہزادہ سلیم، نور جہاں یا وہ کبوتر؟ رعایا کا فائدہ ان دنوں کبھی معرض بحث میں نہ آتا تھا۔ پرانے زمانے کے لوگ عاشقانہ خط و کتابت کے لیے کبوتر ہی استعمال کرتے تھے۔ اس میں بڑی مصلحتیں تھیں۔ بعد میں آدمیوں کو قاصد بنا کر بھیجنے کا رواج ہوا تو بعض اوقات یہ نتیجہ نکلا کہ مکتوب الیہ یعنی محبوب قاصد ہی سے شادی کرکے بقیہ عمر ہنسی خوشی گزار دیتا۔ چند سال ہوئے ہمارے ملک کی حزب مخالف نے ایک صاحب کو الٹی میٹم دے کر والئی ملک کے پاس بھیجا تھا۔ الٹی میٹم تو راستے میں کہیں رہ گیا۔ دوسرے روز ان صاحب کے وزیر بننے کی خبر اخباروں میں آگئی۔ کبوتر کے ہاتھ یہ پیغام بھیجا جاتا تو یہ صورت حال پیش نہ آتی!!
nn
* دولت کمانے کے لیے اپنی صحت کھوتا ہے اور پھر صحت واپس پانے کے لیے دولت کھوتا ہے۔
* مستقبل کا سوچ سوچ کر اپنا حال ضایع کرتا ہے اور پھر مستقبل میں ماضی یاد کرکے روتا ہے۔
* جیتا ایسے ہے، جیسے کبھی مرے گا نہیں اور مرا ایسے جاتا ہے، جیسے کبھی جیا ہی نہیں تھا۔
nn
استاد: بیٹا آپ بڑے ہوکر کیا بنو گے؟
شاگرد: سر، میں دولہا بنوں گا۔
استاد: میرا مطلب ہے کیا کرو گے؟
شاگرد: سر، شادی کروں گا!
استاد: گدھے، مطلب زندگی میں کیا حاصل کرو گے؟
شاگرد: دلہن حاصل کروں گا۔
استاد: بے وقوف، اپنے ماں باپ کے لیے کیا کرنا چاہتے ہو؟
شاگرد: سر، بہو لانا چاہتا ہوں۔
استاد: (غصے سے) تمہارے والدین تم سے کیا چاہتے ہیں؟
شاگرد: (کندھے اُچکا کر) سر، پوتا۔۔۔
استاد: اُف خدایا، تیری زندگی کا مقصد کیا ہے؟
شاگرد: سر بتایا تو ہے شادی کرنا۔
nn