(برصگیر اسلام کے احیاء اور آزادی کی تحاریک(نجیب ایوبی

339

ریشمی رومال تحریک عبیداللہ سندھی کے بعد ایک سیاسی جدوجہد میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ گاندھی جی کی، تحریک سے علیحدگی سے مسلمانوں اور ہندوؤں میں الگ الگ قوموں کا تصور پختہ ہونے لگا تھا۔ ان حالات میں سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ہندو اور مسلم رہنماؤں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد برصغیر پاک و ہند کے افق پر نمودار ہوئی۔ ان مسلم رہنماؤں میں ایک بہت بڑا نام مولانا ابوالکلام آزاد کا بھی ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد مقناطیسی شخصیت کے حامل تھے۔ آپ عربی، اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں پر مکمل عبور رکھتے تھے۔
آپ کی ہمہ گیر شخصیت بیک وقت مذہبی اور سیاسی اعتبار سے مسلمہ تھی۔ آپ نڈر، بے باک اور جہاندیدہ رہنما کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔
مولانا ابوالکلام آزاد برصغیر کی تقسیم کے مخالفین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جب انگریز حکومت نے برصغیر کو تقسیم کرنے کے منصوبے پر کام شروع کیا تو مولانا نے سخت ترین مخالفت کی۔ آپ کا خیال تھا کہ مسلمان چونکہ پسماندہ ہیں اس لیے انگریز سرکار ان مسلمانوں اور ان کے رہنماؤں کو کچھ لالچ اور مراعات دے کر بآسانی اپنا آلہ کار بنا لے گی۔
مولانا ابوالکلام آزاد انگریز سرکار کی اس سازش کو بھانپنے کے بعد سیاسی میدان میں کود پڑے اور مسلمانوں کو متحدہ ہندوستان کے نام پر مجتمع کرنے کی کوششوں میں لگے رہے۔ مولانا آزاد کا خیال تھا کہ کیونکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 9 کروڑ سے زیادہ ہے اور مسلمان عددی اعتبار سے ہندوؤں کے مقابلے میں کم ضرور ہیں مگر اعلی اخلاقی، مذہبی و معاشرتی صفات کے حامل ہیں، جس کی بدولت وہ آنے والے دنوں میں ہندوستان کی قومی زندگی میں فیصلہ کن اثرات ڈال سکتے ہیں۔
ان کا نظریہ تھا کہ اگر آج ہندوستان کے مسلمان اپنے لیے ایک الگ ملک حاصل کرلیں گے تو وہ ہمیشہ کے لیے انگریزوں کے آلہ کار ہوجائیں گے، جس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہندوستان کے مسلمان اپنی اجتماعی قوت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
آپ 11 نومبر 1888ء کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور 22 فروری1958ء کو دارِ فانی سے کوچ فرمایا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب حالات خراب ترین ہوئے تو مولانا آزاد کے والد نے ہندوستان سے ہجرت اختیار کی اور حجاز چلے گئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا، ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انہیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا۔
مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم گھر میں ہی والد سے حاصل کی، اور پھر جامعہ ازہر(مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں مشرقی علوم کا تمام نصاب مکمل کرلیا تھا۔
پندرہ سال کی عمر میں ماہانہ پرچہ ’’لسان الصدق‘‘ کا اجراء کیا۔ 1912ء میں ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ کلکتہ سے جاری کیا، جس کی بدولت اہلِ علم و دانش میں آپ کی علمیت کی دھاک بیٹھ گئی۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا پرچہ تھا۔ اُس وقت کے جدید اور ترقی پسند سیاسی افکار و خیالات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔ الہلال ٹائپ شدہ چھپتا تھا اور جدت آفرینی یہ تھی کہ تصاویر سے مزین ہوتا تھا۔ اس میں مصری اور عربی اخبارات سے بھی تازہ خبریں ترجمہ کرکے شائع کی جاتی تھیں۔ مذہب، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، جغرافیہ، تاریخ، ادب اور حالاتِ حاضرہ پر معیاری مضامین اور فیچر شامل کیے جاتے تھے۔ اُن دنوں جاری تحریکِ خلافت اور سول نافرمانی کی تحاریک کا زبردست مبلغ و موید تھا۔ حکومتِ وقت نے الہلال سے دو ہزار روپے کی ضمانت مانگ لی، جو خزانے میں جمع کروائی گئی۔ اس کے بعد 18 نومبر 1914ء کو مزید دس ہزار روپے کی ضمانت طلب کرلی گئی جو رقم نہ ہونے کے سبب جمع نہ کرائی جاسکی اور اخبار بند ہوگیا۔ 1927ء میں الہلال پھر نکلا مگر صرف چھ ماہ کے لیے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران میں اس کی اشاعت 25 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔
مولانا اپنے وقت کے بہترین انشا پرداز، جادو بیان خطیب، بلند پایہ صحافی اور بہترین مذہبی اسکالر و مفسر تھے۔
سیاسی وزن اگرچہ آل انڈیا کانگریس کے پلڑے میں تھا، مگر ان کے دل میں مسلمانوں کا درد بھی موجود تھا۔
اس بحث میں جائے بغیر کہ آپ کا نکتہ نظر صحیح تھا یا غلط۔۔۔ آپ نے سیاسی میدان میں اپنا لوہا منوایا، اور جب ہندوستان آزاد ہوا تو مولانا ابوالکلام آزاد، آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بنائے گئے۔ بلاشبہ آپ کا نام ہندوستان کی سیاست کے معروف اور مقبول ناموں میں سے ایک تھا۔ آپ انڈین نیشنل کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اہم ترین رکن اور انڈین کانگریس کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے افکار و نظریات کو عوام تک پہنچانے کے لیے نثر کا میدان منتخب کیا۔ کئی کتابیں لکھیں جن میں غبار خاطر، انڈیا ونس فریڈم (انگریزی)، تزکیہ، ترجمان القرآن (قرآن کی تفسیر) سرفہرست ہیں۔
مولانا آزاد کے خطوط کا مجموعہ ’’غبارِ خاطر‘‘ ہے، جو انہوں نے قلعہ احمد نگر میں 1942ء تا 1945ء اپنی اسیری کے دوران تحریر کیے۔ ان کے یہ تمام خطوط نواب صدر یار جنگ، مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے۔ اگرچہ مولانا کی زندگی کا ایک بڑا حصہ قید و بند میں گزرا مگر قلعہ احمد نگر کی اسیری زیادہ سخت ثابت ہوئی۔ وجہ یہ تھی کہ اس مرتبہ کی اسیری میں ملاقاتوں پر پابندی تھی اور اس پر ظلم یہ کہ خط کتابت کے ذریعے بھی کلام کی کوئی صورت نہ تھی۔ مولانا نے اپنے دل کا غبار نکالنے کا بہترین حل ڈھونڈا اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرتے رہے۔ اسی مناسبت سے ان خطوط کو ’’غبارِ خاطر‘‘ کا نام دیا گیا اور ’’خط غبار من است ایں غبار خاطر‘‘ سے اسے تعبیر کیا گیا۔ ایک خط میں شیروانی صاحب کو مخاطب کرکے کہتے ہیں: ’’جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی، تاہم طبعِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ آپ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میری ذوقِ مخاطبت کے لیے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔‘‘
بذلہ سنجی اور زبان و بیان کی روانی دیکھیں، ایک خط جو17 دسمبر 1942ء کو لکھا، صدیق مکرم کو مخاطب کرکے لکھا، لکھتے ہیں کہ
’’میرے جغرافیہ میں اگر چین کا ذکر کیا گیا ہے تو اس لیے نہیں کہ جنرل چنگ کائی شک اور میڈم چنگ وہاں سے آئے تھے، بلکہ اس لیے کہ چائے وہیں سے آتی ہے۔
مئے صافی ز فرنگ آید و شاہد ز تتار
ما نہ دانیم کہ بسطامے و بغدادے ہست
ایک مدت سے جس چینی چائے کا عادی ہوں، وہ وہائٹ جیسمین (White Jasmine ) کہلاتی ہے۔ یعنی ’’یاسمین سفید‘‘ یا ٹھیٹ اردو میں یوں کہیے کہ ’’گوری چنبیلی‘‘:
کسی کہ محرم راز صبا ست، مے داند
کہ باوجود خزاں، بوئے یاسمن باقی ست
اس کی خوشبو جس قدر لطیف ہے، اتنا ہی کیف تند و تیز ہے۔ رنگت کی نسبت کیا کہوں؟ لوگوں نے آتش سیّال کی تعبیر سے کام لیا ہے:
مے میانِ شیش ساقی نگر
آتشے گویا بہ آب آلودہ اند
لیکن آگ کا تخیل پھر ارضی ہے اور اس چائے کی علویت کچھ اور چاہتی ہے۔ میں سورج کی کرنوں کو مٹھی میں بند کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ یوں سمجھیے، جیسے کسی نے سورج کی کرنیں حل کرکے بلوریں فنجان میں گھول دی ہیں، ملا محمد مازندرانی صاحبِ بت خانہ نے اگر یہ چائے پی ہوتی تو خانخاناں کی خانہ ساز شراب کی مدح میں ہرگز یہ نہ کہتا
نہ می ماند ایں بادہ اصلاً بہ آب
تو گوئی کہ حل کردہ اند آفتاب
لڑائی کی وجہ سے جہازوں کی آمدورفت بند ہوئی تو اس کا اثر چائے پر بھی پڑا۔ میں کلکتہ کے جس چینی اسٹور سے چائے منگوایا کرتا تھا، اس کا ذخیرہ جواب دینے لگا تھا۔ پھر بھی چند ڈبے مل گئے اور بعض چینی دوستوں نے بطور تحفہ بھی بھیج کر چارہ سازی کی۔ جب کلکتہ سے نکلا تو ایک ڈبہ ساتھ تھا۔ ایک گھر میں چھوڑ آیا تھا۔ بمبئی سے گرفتار کرکے یہاں لایا گیا تو سامان کے ساتھ وہ بھی آگیا۔ اور پھر قبل اس کے کہ ختم ہو، گھر والا ڈبہ بھی پہنچ گیا۔ اس طرح یہاں اور چیزوں کی کتنی ہی کمی محسوس ہوئی ہو، لیکن چائے کی کمی محسوس نہیں ہوئی، اور اگر چائے کی کمی محسوس نہیں ہوئی تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کسی چیز کی کمی بھی محسوس نہیں ہوئی۔‘‘
مولانا ابوالکلام آزاد نے 69 سال کی عمر میں 22 فروری، 1958ء کوانتقال فرمایا۔
ابوالکلام آزاد کی وفات پر مرحوم آغا شورش کاشمیری نے یہ شہرۂ آفاق نظم کہی:
عجب قیامت کا حادثہ ہے،کہ اشک ہے آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے، اُفق پہ مہر مبین نہیں
( جاری ہے )

حصہ