(مظفرآباد میں روان برس کشمیر کابنفرسن منعقد کی جائے گی(سید عارف بہار

188

راجا فاروق حیدر خان اپنی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے یوں گویا ہوئے کہ رواں سال مظفرآباد میں بین الاقوامی کشمیر کانفرنس منعقد کی جائے گی جس میں امریکہ اور برطانیہ سمیت تمام بااثر ملکوں کے تھنک ٹینکس کو مدعو کرکے انہیں مقبوضہ کشمیر کی داخلی صورت حال اور مسئلہ کشمیر کی باریکیوں سے آگاہ کیا جائے گا۔ جس کے بعد فرانس، اٹلی، بیلجیم، جرمنی اور دوسرے ممالک میں بسنے والے تعلیم یافتہ کشمیری نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو یہاں بلا کر مسئلہ کشمیر پر سفارت کاری کی تربیت دی جائے گی۔
وزیراعظم آزادکشمیر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم لوگوں نے مسلم لیگ (ن) بنانے کا فیصلہ اُس وقت کیا تھا جب مسلم کانفرنس کے صدر نے کہنا شروع کیا کہ شیخ عبداللہ کا فیصلہ درست تھا۔ حالانکہ یہ ملک بنانے کے کچھ مقاصد تھے، جدوجہدِ آزادی کی کچھ نظریاتی بنیادیں تھیں، لوگوں نے اس راہ میں قربانیاں دی تھیں، گھر بار چھوڑے تھے۔ میرے والد کے رشتہ دار اوڑی میں ہیں، میری والدہ سری نگر سے تھیں۔ تقسیم کے اثرات کو میں خود بھگت رہا ہوں۔ مجھے اپنی جڑیں تلاش کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ بہت سی نسلیں اس تقسیم کے ضرر رساں سیاسی اور سماجی اثرات کا سامنا کررہی ہیں۔ اگر شیخ عبداللہ ٹھیک تھا تو یہ پوری جدوجہد کیا تھی؟ اسی سوچ نے لوگوں کو مسلم لیگ (ن) کے قیام کی طرف مائل کیا۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے قیام کے بعد پہلے انتخابات میں بھی سب سے زیادہ ووٹ لیے۔ سردار عتیق کی پالیسیوں کی وجہ سے جماعت نہ ٹوٹتی تو ہم آسانی سے حکومت بنا سکتے تھے اور پیپلزپارٹی کامیاب نہیں ہوسکتی تھی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت نے پورا سسٹم تباہ کردیا تھا۔ وزیراعظم ہاؤس اور عہدوں اور مناصب کی توہین کی گئی۔۔۔ رشوت، کمیشن اور غیر قانونی بھرتیاں کرکے سسٹم تباہ کردیا گیا تھا۔ اسمبلی عضوِ معطل تھی اور وزرا اسمبلی کے اجلاسوں میں آنا گوارا نہیں کرتے تھے۔ ہم جب حکومت میں آئے تو اس تباہی کا اندازہ ہوا۔ اسی صورتِ حال کو دیکھ کر ہم نے حکومت میں آتے ہی اپنی تین ترجیحات کا تعین کیا جن میں تحریکِ آزادی، اچھی حکومت کا قیام اور عوام کا معیار زندگی بلند کرنا شامل تھا۔ اپنی بساط کے مطابق ہم ان اہداف کو پورا کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ تحریکِ آزادی کے حوالے سے سردار مسعود خان جیسے کہنہ مشق سفارت کار کو صدر بنایا۔ وہ مسئلے کے زیر و بم سے پوری طرح باخبر ہیں۔ شاہ غلام قادر اور چودھری طارق فاروق جیسے آزمودہ کار سیاست دانوں پر ذمہ داریاں ڈالیں۔ صلاحیتوں کو مدنظر رکھ کر وزرا کا تقرر کیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو کابینہ میں شامل نہیں ہوئے وہ صلاحیتوں میں کم تھے۔ وہ بھی باصلاحیت تھے، میں ان کا شکر گزار ہوں کہ یہ لوگ اسمبلی کی کمیٹیوں میں شامل ہوکر اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔
وزیراعظم آزادکشمیر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نوازشریف جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے پہلے مظفرآباد آئے اور انہوں نے کشمیری قیادت سے کہا کہ میں اپنی سنانے نہیں بلکہ آپ کی سننے آیا ہوں۔ ماضی میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اس مشاورت کا عکس اُن کے خطاب میں جھلکتا رہا۔ میں نے خود کئی ملکوں کے دورے کیے۔ منتخب لوگوں، سفارت کاروں اور تھنک ٹینکس سے ملاقاتیں کیں۔ باہر جاکر جلسہ جلوس نہیں کیا۔ بھارتی سفیر ناروے میں ہم پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھا۔ اس کے بعد صدرِ آزادکشمیر سردار مسعود خان بھی باہر گئے اور انہوں نے بھی مسئلہ کشمیر پر سفارت کاری کی۔ میں اب بھی نہیں سمجھتا کہ یہ کافی ہے، بلکہ مسئلہ کشمیر پر سفارت کاری ایک تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ دوروں کا فالو اَپ ناگزیر ہے۔
راجا فاروق حیدر خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ سردار مسعود خان کا نام صدارت کے لیے خود میں نے تجویز کیا تھا، اور میرے پیشِ نظر تحریکِ آزادی کے مقاصد تھے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایکٹ 74 میں آزاد کشمیر حکومت کو مزید فعال کرنے کے لیے ترامیم کا معاملہ زیر غور ہے۔ اس معاملے میں حکومتِ پاکستان کی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ مرکزی وزیر قانون کی سربراہی میں ایک کمیٹی اس حوالے سے کام کررہی ہے۔ حکومتِ پاکستان کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت ایک کردار ہے۔ اس لیے بہت سی چیزیں ہم یک طرفہ نہیں کرسکتے، ان کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے لوگ ہمیں کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنے طور پر ترامیم نہیں کررہے، تو وہ بتائیں اپنے دور میں انہوں نے خود ایسا کیوں نہیں کیا؟ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے ساتھ ہمارے تعلقاتِ کار بہت اچھے ہیں۔ اوپر سے کوئی فیصلہ مسلط نہیں ہوتا۔ ہماری رائے کو اہمیت اور پوری عزت ملتی ہے۔
آزادکشمیر میں بجلی کی ناروا لوڈشیڈنگ کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ لوڈشیڈنگ کی دو وجوہات تھیں، ایک تو واپڈا نے آزادکشمیر کے ذمے واجبات نکالے تھے، یہ واپڈا اور وفاقی وزارتِ خزانہ کا باہمی معاملہ تھا، اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا۔ دوسری وجہ بجلی کی ترسیل کا بوسیدہ اور ناقص نظام تھا، جس کی وجہ سے لائنیں اور گرڈ لوڈ اُٹھانے سے قاصر تھے۔ اس سسٹم کو ٹھیک کرنے کے لیے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے سات ارب روپے کا منصوبہ لارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم سے بجلی گیارہ پیسے کے حساب سے خریدی جا رہی ہے جو ایک روپے بیالیس پیسے میں خریدی جانی چاہیے۔ تمام معاملات طے ہونے کے بعد ہمیں منگلا ڈیم کی رائلٹی خیبر پختون خوا کے برابر ملے گی جس سے آزاد کشمیر کے بہت سے مالی مسائل حل ہوں گے۔ جب پاکستان میں بجلی سستی ہوگی تو ہم بھی سستی کردیں گے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم سسٹم کے اندر بنیادی اور دیرپا تبدیلیاں لارہے ہیں۔ اس وقت جو بنیادیں ہم رکھ رہے ہیں شاید میں خود ان کے اثرات نہ دیکھ سکوں مگر آنے والی نسلیں اس کے مثبت اثرات ضرور دیکھیں گی۔ جمے جمائے نظام کو بدلنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ محکمہ تعلیم میں بھرتیوں کے لیے این ٹی ایس کا نفاذ اور پبلک سروس کمیشن کی تشکیلِ نو بھی ایسے ہی فیصلے ہیں۔ برابری کی بنیاد پر لوگوں کو مواقع فراہم کردئیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ چھوٹی کابینہ کے فیصلے پر اب بھی مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مئی تک بلدیاتی انتخابات منعقد کروائے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مایوسی کا شور اس وقت ڈیڑھ سو سے دوسو افراد کا ایک گروہ مچا رہا ہے، یہ گروہ نہ اسمبلی میں آنے کا اہل ہوتا ہے اور نہ الیکشن لڑنے کا۔ اس کا کام چاپلوسی اور بلیک میلنگ ہوتا ہے۔ یہ ہر وزیراعظم کو قابو میں کرتا ہے۔ میں اس گروہ کے ہتھے نہیں چڑھا، نہ مجھے اس کی ضرورت ہے۔
گفتگو کے آغاز پر ہی جب اُن سے پوچھا گیا کہ اب جبکہ ان کی حکومت کو قائم ہوئے چھ ماہ سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے تو کیا ان کے کام کرنے کی اسپیس بڑھی ہے یا کم ہوئی ہے؟ تو انہوں نے مسکراتے ہوئے منیر نیازی کا یہ مشہور زمانہ شعر پڑھنے پر اکتفا کیا :
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
nn
انٹرویو

حصہ