طویل

231

ایا صوفیہ جسے سینٹ صوفیہ اور ہگا صوفیہ جیسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے، اس لحاظ سے منفرد حیثیت کی حامل ہے کہ یہ دنیا کی قدیم ترین عمارت ہے جو مکمل طور پر اپنی پرانی حالت میں موجود تھی۔ ایا صوفیہ کی بنیاد بازنطینی حکمران کونسٹنٹائن اول (Constantine) نے رکھی ہے لیکن یہ عمارت اپنی موجودہ حالت میں شہنشاہ جسٹینین (Justinian) کے دور میں 532ء اور 537ء میں تعمیر کی گئی۔ اس عمارت کی سب سے نمایاں شے اس کا وسیع گنبد تھا جسے سنبھالنے کے لیے کوئی ستون نہیں تھا۔ فنِ معماری کی یہ نمایاں خصوصیت اور خوبی دراصل اس کی خامی بھی تھی کیونکہ بعد کے ادوار میں کئی زلزلوں میں یہ گنبد زمین پر آرہا اور اس کی مرمت کرنی پڑی۔ اس کے علاوہ آگ لگنے سے بھی عمارت کلی یا جزوی طور پر تباہ ہوگئی اور مرمت کے مراحل سے گزری۔ بازنطینی دور میں استنبول یا قسطنطنیہ مشرقی رومی سلطنت کا مرکز تھا اور ساتھ ہی ساتھ آرتھوڈوکس کلیسا کی جائے پیدائش۔ اس لحاظ سے ایا صوفیہ کو انتہائی مقدس حیثیت حاصل تھی۔ یہاں نہ صرف یہ کہ بازنطینی شہنشاہوں کی تاج پوشی ہوتی تھی بلکہ دوسرے مذہبی مراسم بھی ادا کیے جاتے تھے اور کلیسا کے راہب کو سارے آرتھوڈوکس عیسائی انتہائی عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 1453ء میں استنبول کی فتح کے بعد سلطان محمد فاتح سیدھے ایا صوفیہ آئے، بچے کھچے عیسائی اور شاہی خاندان کے افراد یہاں آہ و فریاد کررہے تھے اور یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی جانوں کی خیر نہیں، لیکن ترک سلطان نے ان کے لیے عام معافی کا اعلان کردیا۔ خود اپنے سفید گھوڑے سے اترے اور دورکعت نماز شکرانہ ادا کی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ’’ایک مبارک شہر کو فتح کرنے والے مبارک جرنیل‘‘ کا لقب حاصل کیا۔ بعد میں ایک شاہی فرمان کے ذریعے ایا صوفیہ کو ایک مسجد میں تبدیل کردیا۔
[مکتوبِ ترکی/ ڈاکٹر نثار احمد اسرار۔ صفحہ 91]
صبح
اقبال نے خود فرمایا ہے کہ یہ دو شعر شیش محل بھوپال میں لکھے گئے، جہاں وہ نواب صاحب بھوپال کے مہمان کی حیثیت میں بغرضِ علاج ٹھیرے ہوئے تھے۔
یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
1۔ ایک صبح وہ ہے جس سے آنے والی کل اور آج پیدا ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ صبح جو کبھی آج کی شکل اختیار کرتی ہے اور کبھی آنے والی کل کی، کہاں سے پیدا ہوتی ہے۔
2۔ وہ صبح جس سے وجود کا شبستان لرزتا ہے، جس سے زندگی کے اندھیرے میں اجالا ہوتا ہے، ایمان والے بندے کی اذان سے پیدا ہوتی ہے۔
زندگی اور موت
لوگو! تم کہیں بھی رہو، موت تمہیں آکر رہے گی، اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں کیوں نہ ہو۔ (فرمانِ خداوندی)
اللہ کی راہ میں جو قتل ہوئے اُنہیں مُردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم ان کی زندگی کو نہیں سمجھ سکتے۔ (فرمانِ خداوندی)
تعجب ہے اس پر جو دنیا کو فانی جانتا ہے اور پھر بھی اس کی رغبت رکھتا ہے۔
(حضرت عثمان غنیؓ)
موت ایک بے خبر ساتھی ہے۔ (حضرت علی مرتضیٰؓ )
اقوال زریں
*زمانے کی گردش عجیب ہے اور حالت سے غفلت عجیب تر ہے۔ (ابو بکر صدیقؓ)
*ہر وہ لڑکا جو استاد کی سختی نہیں جھیلتا، اُسے زمانے کی سختیاں جھیلنا ہوتی ہیں۔
*صابر ترین وہ شخص ہے جو درویشی میں صبر کر سکے۔ (شیخ سعدی)
*جس کو ماں باپ ادب نہیں سکھاتے اس کو زمانہ ادب سکھاتا ہے۔ (ہربرٹ اسپنسر)
*نادان گزشتہ زمانے کی یاد میں محو رہتا ہے اور کاہل آئندہ زمانے کی موہوم امید کا گیت گاتا ہے۔ مگر میرے خیال کا بڑا راز آج کا دن ہے۔
*اعتقاد سالم نہ ہو تو عبادت بھی بیکار ہے۔ (حضرت معروف کرخیؒ )

حصہ