( سٹے کا کاروبار (زاہد عباس

1086

139فتر کا کام ختم ہوتے ہی میں نے جلد گھر جانے کا پروگرام بنالیا۔ موسم کو دیکھتے ہوئے یہی بہتر تھا کہ میں جلدی گھر پہنچ جاؤں۔ لیکن شاید کبھی اس کے برعکس بھی ہوجاتا ہے، میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ دفتر سے نکلتے ہی مجھے میرے ایک پرانے دوست کا فون آگیا، جس نے کسی مسئلے پر مجھ سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ اُس کی بات سن کر یہ ضروری تھا کہ پہلے میں اُس سے مل لوں۔ اُس کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچ کر ہم دونوں ایک ہی گاڑی میں نکل کھڑے ہوئے۔ وہ چاہتا تھا کہ کہیں بیٹھ کر سکون سے بات کی جائے۔ سردی کی شدت میں اضافہ ہوتا جارہا تھا اور ہماری چائے کی طلب بڑھتی جارہی تھی۔ تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ سڑک کے ساتھ بنے ایک ہوٹل میں رش دیکھ کر کہ ضرور یہاں کی چائے عمدہ ہوگی، میں نے گاڑی سائڈ پر لگادی۔ موسم سرما میں گرما گرم چائے پینے کا اپنا ہی ایک مزا ہوتا ہے۔ ہوٹل میں بیٹھنے کے لیے ہمیں دوکرسیوں کی تلاش تھی، بڑی مشکل سے بیٹھنے کے لیے جگہ ملی۔ رش دیکھ کر میں نے دل میں سوچا کہ ہوٹل کا انتخاب بہتر ہی کیا ہے۔ اب میں دوست کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔ وہ مجھے اپنا کوئی مسئلہ سنا رہا تھا، باتوں کے دوران میں نے محسوس کیا کہ ہمارے علاوہ یہاں بیٹھے ہوئے لوگ خاموش اور کسی سوچ میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ چہروں پر تفکرات کی لکیریں سجائے یہ غریب نہ جانے کس سوچ میں مبتلا تھے؟ اب ہوٹل کا ماحول دیکھ کر مجھے کوفت ہونے لگی۔ میں سوچ رہا تھا کہ اتنے لوگوں کے درمیان صرف ہم دو ہی باتیں کررہے ہیں، ہمارے سوا کوئی کسی سے بات کیوں نہیں کرتا؟ اس سے پہلے کہ میں مزید اپنے ذہن پر زور ڈالتا، یک دم بھرا ہوٹل خالی ہونے لگا۔ لوگ قطاروں کی صورت باہر نکلنے لگے، درجنوں افراد کا ایک ساتھ ہوٹل چھوڑ کر چلے جانا میری سمجھ سے بالاتر تھا۔ تھوڑی دیر پہلے جہاں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، اب وہاں ہُو کا عالم تھا، ہوٹل میں اب گنتی کے چند ہی لوگ رہ گئے تھے۔ چائے کا ذائقہ بھی کڑوا کسیلا سا تھا۔ اس قدر بدذائقہ چائے پر لوگوں کا رش میرے لیے حیران کن تھا۔ میرے دوست کی باتیں تو ایک طرف رہیں، میں کاؤنٹر پر پیمنٹ کرنے گیا تو وہاں بیٹھے شخص سے ہوٹل پر رش اور تیزی سے خالی ہوتی کرسیوں پر سوالیہ نشان بن گیا۔ ہوٹل کے مالک نے مجھے بتایا کہ بھائی یہ لوگ کھلاڑی ہیں، گیم کھیلتے ہیں۔ ’’کھلاڑی ہیں، کون سا گیم کھیلتے ہیں؟‘‘ پہلے وہ بتانا نہیں چاہ رہا تھا، مگر میرے پُرزور اصرار پر بتایا کہ یہ سب سٹے کے کھلاڑی ہیں، خبر کے لیے یہاں بیٹھتے ہیں، اب خبر آگئی ہے، چناں چہ اب ان کا یہاں کیا کام۔۔۔! یہ تو گیم لگا کر انتظار کرتے ہیں، خبر آتے ہی دوسرا گیم کھیلنے چلے جاتے ہیں۔ ہوٹل مالک کا بات کرنے کا انداز بڑا اچھا تھا۔ وہ کوئی بات کرنے سے پہلے بھائی ضرور کہتا۔ خیر، جب میں دوست سے نمٹ کر گھر آیا تو فیصلہ کیا کہ اس گیم کے متعلق ضرور معلومات حاصل کروں گا، جس کے کھلاڑی میں کچھ دیر پہلے دیکھ چکا تھا۔ میری سٹے کے بارے میں دل چسپی بڑھ گئی تھی، میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر اس بستی کے غریب مزدور اس گیم کا حصّہ بننے پر مجبور کیوں ہیں اور اس سے کیا حاصل کررہے ہیں۔ مجھے اس بات پر حیرت تھی کہ جن کے چہرے چیخ چیخ کر غربت کی داستانیں سنا رہے ہوں وہ بھلا کھلاڑی کیسے ہوئے؟ میں نے اس سٹے بازی پر معلومات حاصل کرنے کی ٹھان لی۔
دوسرے دن میں ان کھلاڑیوں کی تلاش میں نکلا اور اپنے مقصد میں کام یاب ہونے لگا۔ مجھے قدم قدم پر ان لوگوں سے کھل کر بات کرنے کا موقع ملا۔ اِن کھلاڑیوں سے بات چیت کرکے مجھے ایسا لگا کہ یہ گیم شہر کا ہر دوسرا، تیسرا آدمی کھیل رہا ہے۔ میں جہاں بھی جاتا، گلی محلے سے لے کر چائے کے ہوٹلوں تک خاصی بڑی تعداد دیکھنے کو ملی۔ جوں جوں میں ان سے باتیں پوچھتا، میرے سامنے نئی سے نئی کہانی کھلنے لگتی۔ سٹہ کھیلنے والے افراد کی اتنی بڑی تعداد شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ہو، جتنی تعداد صرف کراچی میں مجھے دیکھنے کو ملی۔ انتہائی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس بُرائی میں مبتلا افراد کا تعلق شہر کی ان مضافاتی بستیوں سے ہے جہاں لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لیے سارا سارا دن محنت مزدوری کرنی پڑتی ہے، جہاں بچے اچھی تعلیم سے صرف اس لیے محروم رہ جاتے ہیں کہ غریب والدین تعلیم کے اخراجات نہیں اٹھاسکتے، جہاں وقت سے پہلے ہی کم عمری میں بچے معاش کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ ایسے غریب علاقے، جہاں گھر کے کئی افراد کمائیں تو گھر کا چولہا جلے، وہاں اس قسم کی کسی بھی برائی کا پھیل جانا لمحۂ فکریہ نہیں تو اور کیا ہے!
میں نے جب اس سلسلے میں مزید معلومات حاصل کیں تو پتا لگا کہ سٹے بازی کی ابتدا گھاس منڈی سے ہوئی۔ وہاں سٹہ کھیلنے والوں کی زبان میں اسے ’’پہلی گھڑی‘‘ کا نام دیا گیا ہے، پھر دوسری گھڑی، تیسری گھڑی۔ اس کے ساتھ ساتھ اکبر اوپن ٹو کا کوڈ بھی چلتا رہتا ہے، یعنی کھیلنے والے غریب تحریر کردہ ترتیب کے مطابق ہر مرتبہ نئے سرے سے رقم لگاتے ہیں۔ ایک شخص نے بتایا کہ ہم تو غریب لوگ ہیں۔ 10 روپے، 50 روپے ہر گھڑی میں کھیلتے ہیں، کبھی کبھار لگ بھی جاتا ہے، ڈبل لگتی ہے تو اچھے پیسے مل جاتے ہیں، خالی 100 روپے کا اوپن لگے تو کم از کم 900 روپے ملتے ہیں، ڈبل کا مطلب دو ہندسوں کا عدد ہوتا ہے، جب کہ اوپن ایک ہندسہ ہوگا۔ ہمیں ڈبل پر کم سے کم رقم لگانے پر 800 روپے مل جاتے ہیں۔ زیادہ تر مال اندر ہوجاتا ہے، سٹہ چلانے والوں کا ہی ہوتا ہے، ہم تو کھلاڑی ہیں۔ میں نے کہا کہ بھائی آپ غریب لوگ روز جتنی رقم اس پر لگاتے ہو، گھر والوں کا پیٹ کاٹتے ہو، تمہیں ندامت نہیں ہوتی؟ میری باتیں سن کر وہ شخص بولا: سٹہ کھیلنے کی عادت ہوگئی ہے، چاہے اُدھار ہی کیوں نہ لینا پڑے، کھیلتے ضرور ہیں، لالچ بری بلا ہے، ہم کو لالچ ہے اور پھر کبھی نمبر لگ جائے تو مزید کھیلنے کو دل کرتا ہے۔
ایک دوسرے سٹہ باز نے مجھے بتایا کہ سٹے کے کھلاڑیوں کو باقاعدگی سے کھلینا ہوتا ہے۔ شام ہوتے ہی پرچی ضرور لکھوانی ہوتی ہے۔ اس نے بتایا کہ سٹے باز مخصوص زبان میں سٹہ لگاتے ہیں، مثلاً آج روٹی کھاؤں گا، اس کا مطلب 3 کا عدد ہوگا، مچھلی کھائی اور پانی پیا، یعنی 5 سے 6 کا عدد ہوگا، یا اگر منڈا کہا جائے تو اس کا مطلب صفر ہوگا۔ میں بولی سن کر حیرت زدہ رہ گیا۔ اسی شام میں ایک سٹے باز کے ساتھ اس مقام پر پہنچ گیا، جہاں اسے اپنا نمبر لکھوانا تھا۔ میں نے وہاں ان گنت لوگوں سے ملاقات کی، جو اس برائی کے شکنجے میں بُری طرح جکڑے ہوئے تھے۔ کسی نے مجھے گندے بابا کی حرکات پر عدد لگانے کی ترکیب بتائی، تو کسی نے اپنے تجربے کی داستان سنائی۔ مست بابا کی کھوج میں گھومتے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ ہم بابا کی ہر حرکت سے اندازہ کرلیتے ہیں کہ آج کون سا نمبر لگے گا، یعنی اگر بابا غصے میں کہے، دفع ہوجا، تو عدد 2 ہوتا ہے۔ مست بابا کی ہر ادا میں کوئی نہ کوئی نمبر چھپا ہوتا ہے۔ سٹے کے کھلاڑی ایسے مست لوگوں سے کافی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ میں ان سٹوریوں کی سادگی پر حیران تھا اور سوچ رہا تھا کہ ان کی عقل جتنی ہے، وہ اس کے سوا اور سوچ بھی کیا سکتے ہیں! کبھی میرے ذہن میں خیال آتا یہ یقین کا معاملہ ہے، اگر ان لوگوں کا یقین اس بات پر ہے تو کیا کیا جاسکتا ہے! ان لوگوں سے باتیں کرتے ہوئے میں سٹے کی پرچیاں بنانے والے کی جگہ جا پہنچا، جہاں لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ لکھنے والے بڑی تیزی سے غریب لوگوں کو پرچیاں بناکر دے رہے تھے۔ لوگوں کا ایک ہجوم ان کے گرد جمع تھا۔ لکھنے والا جلدی جلدی نمبر لکھتا اور لوگوں سے رقم لے کر اپنی جیبوں میں ڈالتا جاتا۔ جو بھی سٹہ لکھوا دیتا، وہ قریبی ہوٹل میں جا بیٹھتا۔ وہاں مجھے اندازہ ہوا کہ وقتِ مقررہ پر دی گئی پرچی ہی قابلِ قبول ہوگی، اسی لیے کام میں تیزی دکھائی جارہی تھی۔ ٹائم ختم ہونے پر اب لوگوں کو اس بات کا انتظار تھا کہ کس کا نمبر لگتا ہے؟ اس بات کو لیے یہ لوگ ہوٹلوں میں بیٹھے تھے۔ اب میری سمجھ میں ساری بات آتی جارہی تھی، میں ان کے عمل پر کچھ کہنے کی جرأت نہیں رکھتا تھا، اگر کچھ کہہ سکتا تھا تو پولیس اور انتظامیہ کو، جن کی ناک کے نیچے انہی کی ملی بھگت سے سٹے کا کاروبارکھلے عام جاری تھا۔ بات صاف تھی کہ بدنامِ زمانہ ادارے پولیس کے بغیر کراچی کی ہر بڑی چھوٹی آبادیوں میں اس کاروبار کا ہونا ممکن نہیں، بقول ایک سٹے باز کے ہر روز کروڑوں روپے کا یہ جوا پولیس ہی کی نگرانی میں کھیلا جاتا ہے۔
میرے نزدیک روزانہ کروڑوں روپے کا یہ کاروبار کسی اسٹاک ایکسچینج سے کم نہیں۔ زیر زمین اس کالے کاروبار پر اتنی بڑی رقم معنی خیز ہے۔ اتنی بڑی رقم کا کھیلا جانے والا سٹہ کراچی کی مارکیٹ میں نوٹوں کی سرکولیشن کو کسی بھی وقت ہائی جیک کرکے عدم استحکام پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ بات سیدھی سی ہے، جب پاکستانی کرنسی اتنی زیادہ تعداد میں ہر آنے والے دن کے ساتھ کسی ایسے کاروبار میں لگ جائے، جو ناجائز ہو تو اس کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے رقم کس طرح نکالی جاسکتی ہے؟ کروڑوں روپے کے کرنسی نوٹوں کا مارکیٹ سے غائب ہونا کیا گل کھلائے گا؟ معاشرے میں اس سے ہر ذی شعور انسان واقف ہے۔
غریبوں کو اس لائن پر لگانے والوں کے خلاف حکومتی خاموشی سب کچھ بتا رہی ہے۔ کھلے عام سٹہ لکھتے ایجنٹ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان کے اوپر رکھا ’’ہاتھ‘‘ ہمارے ملک کے حکمرانوں اور سیکورٹی اداروں سے زیادہ طاقت ور ہے۔ ’’گیم‘‘ کا نام دے کر غریبوں کی جیبوں سے پیسے نکالنے والے افراد کے خلاف کارروائی کا نہ ہونا بتاتا ہے کہ اس دلدل سے لوگوں کو نکالنا حکمرانوں کے بس کی بات نہیں۔ وہ تو شاید خود یہ چاہتے ہیں کہ غریب اپنے حقوق مانگنے کے بجائے راتوں رات امیر ہوجانے والے کسی گُم راہ کام میں لگ جائیں اور ان کی لالچ اس قدر بڑھا دی جائے کہ وہ ان کی لُوٹ مار اور اپنے حقوق کا کوئی حساب کتاب نہ لے سکیں۔ میں نے جہاں بھی کوئی غلط بات محسوس کی ہے، تحریر کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ اس تحریر کے ذریعے میرا مقصد پاکستان کے سوئے ہوئے اس ادارے کو جگانا بھی ہے جو کاغذ کے چند ٹکڑوں کی خاطر معصوم اور غریب عوام کی مدد کے بجائے ان مگرمچھوں کا ساتھی بنا ہوا ہے۔ پولیس، جس نے کراچی کی ہرگلی محلّے میں اس بُرائی کو پھیلا رکھا ہے۔
خدارا، ہوش میں آئیے۔ قوم کو معاشی، معاشرتی اور اخلاقی تباہی سے بچائیے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والی نسلیں ہم سے ایسا حساب لیں جس سے بچنا ناممکن ہو۔ اپنی نسلوں کے لیے ایسے کام کرلیجیے، جس سے وطن عزیز کا نام دنیا بھر میں روشن ہوسکے!!

حصہ