ولیمہ کی دعوت تھی۔ میں نے ایک طائرانہ نظر ہال میں بیٹھے مہمانوں پر ڈالی۔ زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ سو افراد ہوں گے۔ حسبِ معمول مہمانوں نے آدھا کھایا اور آدھا ضائع کیا، جبکہ ابھی تک ڈشز کھانوں سے بھری پڑی تھیں۔ لیکن آج میرا موضوع فضول خرچی کے بارے میں نہیں ہے۔۔۔ بلکہ منصوبہ بندی، انتظامات اور ایک دوسرے سے مشورے کے متعلق ہے۔ خیر جی، اگلے دن پتا چلا کہ تقریباً ایک سو لوگوں سے زیادہ افراد کا کھانا دیگوں میں بھی بچ گیا تھا جو صبح تک خراب ہوگیا اور اللہ کا یہ رزق کچرا دانوں کی نذر ہوگیا۔ جب میں نے معلوم کیا کہ ایسا کیوں ہوا کہ مہمان کم آئے؟ معلوم ہوا کہ گھر میں کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ مہمان اندازاً کتنے ہوں گے، بس آپس میں مشورے اور منصوبہ بندی کے بغیر کھانے کا آرڈر دے دیا گیا۔ ظاہر ہے پھر ایسا ہی ہونا تھا۔ جو کھانا بچ گیا رات میں ہی اسے ٹھکانے لگایا جاتا تو رزق اس طرح ضائع نہ جاتا، کسی کے پیٹ میں چلا جاتا۔
***
ریحانہ: بھابھی میرے ساتھ ذرا پارلر تک چلیں گی۔
حریم: کیوں بھئی خیریت؟
ریحانہ: لو۔۔۔ دو سال کے بعد میرے شوہر دبئی سے آرہے ہیں، فیشل نہ کرواؤں!
حریم: اچھا۔۔۔ دیور جی آ رہے ہیں، کب؟
ریحانہ: آپ کو نہیں معلوم؟ ایک ہفتہ پہلے انہوں نے اماں ابا کو فون کیا تھا۔
حریم: ہوں۔۔۔ یہاں کوئی کسی کو بتاتا ہی کہاں ہے۔
ریحانہ: ہاں بھابھی آپ سچ کہہ رہی ہیں، گھر میں کیا ہورہا ہے کیا نہیں، کسی کو معلوم ہی نہیں ہوتا۔ یہ تو چھوٹی بات ہے، ہانیہ (نند) کی شادی کا معاملہ ہی دیکھو، جب کارڈ بٹنے لگے تب پتا چلا کہ ہمارے گھر میں خیر سے شادی ہے۔ کس طرح ہماری اور ہمارے بچوں کی تیاری ہوئی تھی۔ اگر ہمیں شروع میں معلوم ہوجاتا تو ہم بھی تیاری میں حصہ لیتے اور کچھ پروگرام کے بارے میں مشورے دیتے۔ میں نے تو اماں سے کرید کرید کر پوچھا بھی، لیکن انہوں نے سرسری سا جواب دیا تھا۔
حریم: اسی لیے تو سارے گھر کا نظام درہم برہم سا لگتا ہے۔ بیچ میں بٹھا کر سب گھر والوں کے درمیان بات کرنے کا تو یہاں رواج ہی نہیں ہے۔
***
حلیمہ خود بہت سیدھی سادی خاتون تھی۔ اس لیے تمام اختیارات اس نے اپنی بڑی بیٹی کو دے دیے تھے، جو ہر معاملے میں من مانی کرتی، الٹے سیدھے فیصلے کرتی۔ ماں بیچاری اس کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر رہ گئی، گھر میں حلیمہ کے اور بھی بچے تھے جنہیں اپنی بڑی بہن سے ہر معاملے میں اختلاف رہتا، لیکن کس کی مجال جو دخل اندازی کرے! ہر معاملے میں اس کی رائے پہلی اور آخری تسلیم کی جاتی۔ اس لیے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ باقی بہن بھائی اپنی رائے اور مشورہ اسے دیں۔ جہاں تک بہن بھائیوں کا معاملہ تھا، تو وہ اختلافات کے باوجود بہن کو برداشت کررہے تھے۔ مسئلہ تب پیدا ہوا جب گھر میں بہوئیں آئیں۔ حلیمہ کی بیٹی جمیلہ نے ان آنے والیوں کا جینا حرام کردیا، اس نے ماں کو مشورہ دیا کہ بیٹوں سے کہیں اپنے اپنے گھر بنائیں اور بیوی بچوں کو یہاں سے لے کر جائیں۔ بیٹوں کی آمدنی اتنی نہیں تھی کہ وہ الگ سے اپنے لیے ٹھکانے بناتے، لیکن کیونکہ بیٹی نے حکم صادر کردیا تھا لہٰذا بیچارے بیٹے مجبور ہوگئے۔ انہیں کن حالات کا سامنا کرنا پڑا، اس سے جمیلہ کو کوئی سروکار نہ تھا، وہ تو بس اپنے فیصلے صادر کرنے میں قادر تھی۔۔۔
قصہ مختصر، سب بہن بھائیوں کی یکے بعد دیگرے شادیاں ہوگئیں اور جمیلہ کی غلط منصوبہ بندی اور دوسروں کی رائے کے بغیر اپنی رائے کے مطابق فیصلوں کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان ماں کو پہنچا جس نے تمام بیٹوں سے ناتا توڑ کر بیٹی کو اہمیت دی تھی۔
***
میڈم ریحانہ کو جب گورنمنٹ کالج کا چارج دیا گیا تو اس وقت کالج اور اس کے اساتذہ کی کارکردگی بہترین تھی، لیکن میڈم ریحانہ کے آنے کے بعد کالج کی حالت اور اس کے اساتذہ کی کارکردگی کا گراف دن بہ دن گرتا ہی گیا۔ اس کی وجہ میڈم کی اپنی کارکردگی تھی۔ نہ کسی قسم کی منصوبہ بندی، نہ ہی معاملات کو صحیح طریقے سے چلانے کی قابلیت۔ ظاہر ہے جب سربراہ کی یہ حالت ہو تو عملہ بھی سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اساتذہ کی اکثر غیر حاضری کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاگردوں کی حاضری بھی کم ہونے لگی۔ دیکھا جائے تو تمام قصور میڈم کا ہی نظر آتا ہے۔ گزشتہ سال وہی کالج دوسری میڈم کے حوالے کیا گیا جنہوں نے مناسب منصوبہ بندی اور سینئر اساتذہ کے مفید مشوروں کو بروئے کار لاکر اس ادارے میں نمایاں تبدیلیاں کیں اور مکمل طور پر نہ سہی، لیکن بہت حد تک تبدیلی لانے میں کامیابی حاصل کی۔
***
اوپر بیان کیے گئے تمام واقعات میں انتظامیہ یا سربراہ کی غلط حکمت عملی اور نااہل منتظم کی سرپرستی یا آپس میں گفت و شنید کی کمی ’’وجہ‘‘ نظر آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ ’’ادارے‘‘ یا وہ ’’گھر‘‘ یا حکومتیں ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں جہاں انتظامیہ میں اوپر دی ہوئی خامیاں ہوں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا موازنہ پرائیویٹ اسکولوں سے کیا جائے تو فرق بخوبی نظر آئے گا، اور ہم میں سے اکثر اس کی وجوہات سے بھی واقف ہیں۔ میں یہاں ان سطور کو لکھتے ہوئے ماضی کی طرف چلی گئی۔ گھر میں کوئی شادی ہوتی یا کوئی اور تقریب، اس سے پہلے ایک ’’گول میز کانفرنس‘‘ ضرور ہوتی۔ تمام پوائنٹ ایک ڈائری میں نوٹ کیے جاتے۔ اماں، ابا، بھائی، بہن، بھابھی وغیرہ سب شرکت کرتے اور اس تقریب کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جاتا، مہمانوں کی فہرست، کھانوں کی فہرست اور سب کی ڈیوٹیاں (فرائض) بتا دیے جاتے۔ اس طرح اماں ابا کی سرپرستی میں اس تقریب کو تکمیل تک پہنچانا ہم سب کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ الحمدللہ ہر تقریب بہترین طور پر انجام پاتی۔ یہی چیز ہم بہن بھائیوں کو بھی ورثے میں ملی۔ ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ اپنی اپنی فیملی کے تمام افراد کو بٹھا کر (ہر معاملے میں) گفت و شنید ہو، تمام کی رائے کو سنا جائے اور گھر کا سرپرست تمام آراء کو سن کر ایک حتمی فیصلہ صادر کرے جس میں سب کی خوشی کو مدنظر رکھا جائے۔ اس طرح گھر کا ہر بندہ نہ صرف گھر کے بڑے کی عزت اور احترام کرتا ہے بلکہ گھر میں امن و امان برقرار رہتا ہے، ہر ایک کو اپنی اہمیت بھی محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً مجھے نئے مکان کی تلاش تھی۔ نئے مکان کے سلسلے میں مَیں نے اپنے خاندان کے ہر فرد کے آرام اور خواہش کو مدنظر رکھا، کیونکہ مکان مکینوں کی خوشی سے ہی بنتے ہیں۔ مجھے اپنی 5 سالہ پوتی کا بھی خیال تھا کہ اس کے لیے گھر کے نزدیک ہی کوئی اچھا اسکول بھی ہو تاکہ اسے آنے جانے میں سہولت ہو۔ تمام لوگوں کو جب مکان پسند آیا تو ہم دونوں میاں بیوی نے خریدنے کا فیصلہ کیا۔ پھر بچوں کو یہ آزادی دی گئی کہ اپنی اپنی پسند سے اپنے لیے کمرے منتخب کریں۔ اس طرح خیر و عافیت سے یہ بڑا معاملہ طے ہوگیا اور ہر ایک خوش اور مطمئن نظر آیا۔
اگر منتظم یا سربراہ مثبت خوبیوں کا مالک ہوگا تو یقیناًاس کی ٹیم بھی باصلاحیت ہی ہوگی، کیونکہ وہ پتھر کو بھی تراش کر ہیرا بنانے کی صلاحیت رکھتا ہوگا۔ وہ اپنے ہر کارندے میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پرکھ کر اسے کارآمد بنا سکتا ہے۔ میں نے اپنی شادی کے بعد اپنی تعلیم مکمل کرکے ایک اسکول جوائن کیا، اُس وقت میں ایک معمولی سیدھی سادی لڑکی تھی، مجھے خود بھی نہیں معلوم تھا کہ مجھ میں کچھ چھپی ہوئی صلاحیتیں بھی ہیں جنہیں کام میں لایا جا سکتا ہے۔ بس ملازمت کی وجہ ’’ضرورت‘‘ تھی، یہ میرے اسکول کی ’’پرنسپل‘‘ تھیں جنہوں نے میرے اندر کی چھپی ہوئی صلاحیتیوں کو جانچا اور مجھے ایسے مواقع فراہم کیے کہ یہ ’’صلاحیتیں‘‘ ابھر کر سامنے آئیں، اور مجھے میری کارکردگی کی بنا پر کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ نہ صرف میرے ساتھ بلکہ بہت سے دوسرے اساتذہ کے ساتھ بھی یہی معاملات ہوئے۔ اس طرح ہماری پرنسپل کو ایک اچھی ’’ٹیم‘‘ مل گئی۔ پرنسپل اور اساتذہ کی اس ٹیم کی وجہ سے اسکول کا ایک نام تھا اور پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ اسکول کراچی کا ایک جانا پہچانا اسکول مانا جاتا ہے۔ اسکول منتظمین کی حکمت عملی، منصوبہ بندی، اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں اور سخت محنت کی بدولت یہ سب کامیابی اسکول کا مقدر بنی ہے۔ اس چھوٹی سی مثال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ادارے میں قائدانہ مثبت خوبیوں کا ہونا کتنا ضروری ہے۔
ہم سب کے لیے ہماری ’’آئیڈیل ہستی‘‘ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپؐکی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت رب العزت نے آپؐ کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ جہاد ہو یا کوئی بھی معاملہ، آپؐ نے جو حکمت عملی اور طریقہ کار اپنایا وہ ہم سب کے لیے اعلیٰ مثال ہے۔ اعلیٰ منصوبہ بندی، حکمت عملی، صحابہ کے ساتھ گفت و شنید، نرمی، محبت، دوسروں کے مشورے اور آراء کو اہمیت دینا، نظم و ضبط، اور اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کو کرنے میں عار محسوس نہ کرنا وغیرہ۔۔۔ یہ وہ خوبیاں تھیں جن کی بدولت آپؐ اور صحابہ کرام نے ہر جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ کسی معرکے میں سپہ سالار کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپؐ نہ صرف خود اس شخص میں صلاحیتوں کا جائزہ لیتے بلکہ صحابہ کرامؓ سے بھی مشورہ لیتے، پھر اسے منتخب کرکے معرکے کے لیے روانہ کیا جاتا۔ اسی طرح غزوہ احزاب ہے جس میں مسلمانوں کی قلیل تعداد اور کفار کی کئی جماعتیں (گروہوں) شامل تھیں۔ صحابہ کرام سے آپؐ نے مشورہ کیا اور آخر حضرت سلمان فارسیؓ کی رائے کو سراہا اور پسند فرمایا اور مدینہ سے باہر خندق کھودی گئی اور کفار سے مقابلہ کیا گیا۔ رب العزت نے مسلمانوں کو شاندار فتح سے ہمکنار کیا۔اسی طرح مسجد نبویؐ کی تعمیر ہو یا مسجد نبویؐ کے منبر کی تعمیر، صحابہ کرام کے مشوروں کو اہمیت دی گئی۔ ایک اور قائدانہ خصوصیت یہ کہ آپؐ صحابہ کرام کے ساتھ مل کر ایک عام مزدور کی طرح خود بھی کام کرتے۔ اس طرح ایسے موقعوں پر صحابہ کرام کا جوش و خروش بڑھ جاتا تھا۔
آج ہم اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو یہ خصوصیات بہت کم لوگوں میں نظر آتی ہیں۔ آمرانہ فیصلوں اور عجلت میں کیے گئے فیصلوں کی بدولت کامیابی کا گراف گر جاتا ہے۔ چاہے گھر ہو، ادارہ ہو یا حکومت، ان سب کو کامیابی سے چلانے کے لیے سمجھ بوجھ، باہمی مشورہ، منصوبہ بندی، حکمت عملی، گفت و شنید (آپس میں)، اخلاص، محنت، ایک دوسرے کو اور ماتحتوں کو عزت اور اہمیت دینا لازمی ہے۔ اسی طرح ایک مضبوط ٹیم وجود میں آتی ہے جو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر کامیابی حاصل کرتی ہے۔
nn
***
ریحانہ: بھابھی میرے ساتھ ذرا پارلر تک چلیں گی۔
حریم: کیوں بھئی خیریت؟
ریحانہ: لو۔۔۔ دو سال کے بعد میرے شوہر دبئی سے آرہے ہیں، فیشل نہ کرواؤں!
حریم: اچھا۔۔۔ دیور جی آ رہے ہیں، کب؟
ریحانہ: آپ کو نہیں معلوم؟ ایک ہفتہ پہلے انہوں نے اماں ابا کو فون کیا تھا۔
حریم: ہوں۔۔۔ یہاں کوئی کسی کو بتاتا ہی کہاں ہے۔
ریحانہ: ہاں بھابھی آپ سچ کہہ رہی ہیں، گھر میں کیا ہورہا ہے کیا نہیں، کسی کو معلوم ہی نہیں ہوتا۔ یہ تو چھوٹی بات ہے، ہانیہ (نند) کی شادی کا معاملہ ہی دیکھو، جب کارڈ بٹنے لگے تب پتا چلا کہ ہمارے گھر میں خیر سے شادی ہے۔ کس طرح ہماری اور ہمارے بچوں کی تیاری ہوئی تھی۔ اگر ہمیں شروع میں معلوم ہوجاتا تو ہم بھی تیاری میں حصہ لیتے اور کچھ پروگرام کے بارے میں مشورے دیتے۔ میں نے تو اماں سے کرید کرید کر پوچھا بھی، لیکن انہوں نے سرسری سا جواب دیا تھا۔
حریم: اسی لیے تو سارے گھر کا نظام درہم برہم سا لگتا ہے۔ بیچ میں بٹھا کر سب گھر والوں کے درمیان بات کرنے کا تو یہاں رواج ہی نہیں ہے۔
***
حلیمہ خود بہت سیدھی سادی خاتون تھی۔ اس لیے تمام اختیارات اس نے اپنی بڑی بیٹی کو دے دیے تھے، جو ہر معاملے میں من مانی کرتی، الٹے سیدھے فیصلے کرتی۔ ماں بیچاری اس کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی بن کر رہ گئی، گھر میں حلیمہ کے اور بھی بچے تھے جنہیں اپنی بڑی بہن سے ہر معاملے میں اختلاف رہتا، لیکن کس کی مجال جو دخل اندازی کرے! ہر معاملے میں اس کی رائے پہلی اور آخری تسلیم کی جاتی۔ اس لیے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ باقی بہن بھائی اپنی رائے اور مشورہ اسے دیں۔ جہاں تک بہن بھائیوں کا معاملہ تھا، تو وہ اختلافات کے باوجود بہن کو برداشت کررہے تھے۔ مسئلہ تب پیدا ہوا جب گھر میں بہوئیں آئیں۔ حلیمہ کی بیٹی جمیلہ نے ان آنے والیوں کا جینا حرام کردیا، اس نے ماں کو مشورہ دیا کہ بیٹوں سے کہیں اپنے اپنے گھر بنائیں اور بیوی بچوں کو یہاں سے لے کر جائیں۔ بیٹوں کی آمدنی اتنی نہیں تھی کہ وہ الگ سے اپنے لیے ٹھکانے بناتے، لیکن کیونکہ بیٹی نے حکم صادر کردیا تھا لہٰذا بیچارے بیٹے مجبور ہوگئے۔ انہیں کن حالات کا سامنا کرنا پڑا، اس سے جمیلہ کو کوئی سروکار نہ تھا، وہ تو بس اپنے فیصلے صادر کرنے میں قادر تھی۔۔۔
قصہ مختصر، سب بہن بھائیوں کی یکے بعد دیگرے شادیاں ہوگئیں اور جمیلہ کی غلط منصوبہ بندی اور دوسروں کی رائے کے بغیر اپنی رائے کے مطابق فیصلوں کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان ماں کو پہنچا جس نے تمام بیٹوں سے ناتا توڑ کر بیٹی کو اہمیت دی تھی۔
***
میڈم ریحانہ کو جب گورنمنٹ کالج کا چارج دیا گیا تو اس وقت کالج اور اس کے اساتذہ کی کارکردگی بہترین تھی، لیکن میڈم ریحانہ کے آنے کے بعد کالج کی حالت اور اس کے اساتذہ کی کارکردگی کا گراف دن بہ دن گرتا ہی گیا۔ اس کی وجہ میڈم کی اپنی کارکردگی تھی۔ نہ کسی قسم کی منصوبہ بندی، نہ ہی معاملات کو صحیح طریقے سے چلانے کی قابلیت۔ ظاہر ہے جب سربراہ کی یہ حالت ہو تو عملہ بھی سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اساتذہ کی اکثر غیر حاضری کا نتیجہ یہ نکلا کہ شاگردوں کی حاضری بھی کم ہونے لگی۔ دیکھا جائے تو تمام قصور میڈم کا ہی نظر آتا ہے۔ گزشتہ سال وہی کالج دوسری میڈم کے حوالے کیا گیا جنہوں نے مناسب منصوبہ بندی اور سینئر اساتذہ کے مفید مشوروں کو بروئے کار لاکر اس ادارے میں نمایاں تبدیلیاں کیں اور مکمل طور پر نہ سہی، لیکن بہت حد تک تبدیلی لانے میں کامیابی حاصل کی۔
***
اوپر بیان کیے گئے تمام واقعات میں انتظامیہ یا سربراہ کی غلط حکمت عملی اور نااہل منتظم کی سرپرستی یا آپس میں گفت و شنید کی کمی ’’وجہ‘‘ نظر آتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ ’’ادارے‘‘ یا وہ ’’گھر‘‘ یا حکومتیں ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں جہاں انتظامیہ میں اوپر دی ہوئی خامیاں ہوں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا موازنہ پرائیویٹ اسکولوں سے کیا جائے تو فرق بخوبی نظر آئے گا، اور ہم میں سے اکثر اس کی وجوہات سے بھی واقف ہیں۔ میں یہاں ان سطور کو لکھتے ہوئے ماضی کی طرف چلی گئی۔ گھر میں کوئی شادی ہوتی یا کوئی اور تقریب، اس سے پہلے ایک ’’گول میز کانفرنس‘‘ ضرور ہوتی۔ تمام پوائنٹ ایک ڈائری میں نوٹ کیے جاتے۔ اماں، ابا، بھائی، بہن، بھابھی وغیرہ سب شرکت کرتے اور اس تقریب کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جاتا، مہمانوں کی فہرست، کھانوں کی فہرست اور سب کی ڈیوٹیاں (فرائض) بتا دیے جاتے۔ اس طرح اماں ابا کی سرپرستی میں اس تقریب کو تکمیل تک پہنچانا ہم سب کی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ الحمدللہ ہر تقریب بہترین طور پر انجام پاتی۔ یہی چیز ہم بہن بھائیوں کو بھی ورثے میں ملی۔ ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ اپنی اپنی فیملی کے تمام افراد کو بٹھا کر (ہر معاملے میں) گفت و شنید ہو، تمام کی رائے کو سنا جائے اور گھر کا سرپرست تمام آراء کو سن کر ایک حتمی فیصلہ صادر کرے جس میں سب کی خوشی کو مدنظر رکھا جائے۔ اس طرح گھر کا ہر بندہ نہ صرف گھر کے بڑے کی عزت اور احترام کرتا ہے بلکہ گھر میں امن و امان برقرار رہتا ہے، ہر ایک کو اپنی اہمیت بھی محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً مجھے نئے مکان کی تلاش تھی۔ نئے مکان کے سلسلے میں مَیں نے اپنے خاندان کے ہر فرد کے آرام اور خواہش کو مدنظر رکھا، کیونکہ مکان مکینوں کی خوشی سے ہی بنتے ہیں۔ مجھے اپنی 5 سالہ پوتی کا بھی خیال تھا کہ اس کے لیے گھر کے نزدیک ہی کوئی اچھا اسکول بھی ہو تاکہ اسے آنے جانے میں سہولت ہو۔ تمام لوگوں کو جب مکان پسند آیا تو ہم دونوں میاں بیوی نے خریدنے کا فیصلہ کیا۔ پھر بچوں کو یہ آزادی دی گئی کہ اپنی اپنی پسند سے اپنے لیے کمرے منتخب کریں۔ اس طرح خیر و عافیت سے یہ بڑا معاملہ طے ہوگیا اور ہر ایک خوش اور مطمئن نظر آیا۔
اگر منتظم یا سربراہ مثبت خوبیوں کا مالک ہوگا تو یقیناًاس کی ٹیم بھی باصلاحیت ہی ہوگی، کیونکہ وہ پتھر کو بھی تراش کر ہیرا بنانے کی صلاحیت رکھتا ہوگا۔ وہ اپنے ہر کارندے میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو پرکھ کر اسے کارآمد بنا سکتا ہے۔ میں نے اپنی شادی کے بعد اپنی تعلیم مکمل کرکے ایک اسکول جوائن کیا، اُس وقت میں ایک معمولی سیدھی سادی لڑکی تھی، مجھے خود بھی نہیں معلوم تھا کہ مجھ میں کچھ چھپی ہوئی صلاحیتیں بھی ہیں جنہیں کام میں لایا جا سکتا ہے۔ بس ملازمت کی وجہ ’’ضرورت‘‘ تھی، یہ میرے اسکول کی ’’پرنسپل‘‘ تھیں جنہوں نے میرے اندر کی چھپی ہوئی صلاحیتیوں کو جانچا اور مجھے ایسے مواقع فراہم کیے کہ یہ ’’صلاحیتیں‘‘ ابھر کر سامنے آئیں، اور مجھے میری کارکردگی کی بنا پر کئی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ نہ صرف میرے ساتھ بلکہ بہت سے دوسرے اساتذہ کے ساتھ بھی یہی معاملات ہوئے۔ اس طرح ہماری پرنسپل کو ایک اچھی ’’ٹیم‘‘ مل گئی۔ پرنسپل اور اساتذہ کی اس ٹیم کی وجہ سے اسکول کا ایک نام تھا اور پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ یہ اسکول کراچی کا ایک جانا پہچانا اسکول مانا جاتا ہے۔ اسکول منتظمین کی حکمت عملی، منصوبہ بندی، اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں اور سخت محنت کی بدولت یہ سب کامیابی اسکول کا مقدر بنی ہے۔ اس چھوٹی سی مثال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی بھی ادارے میں قائدانہ مثبت خوبیوں کا ہونا کتنا ضروری ہے۔
ہم سب کے لیے ہماری ’’آئیڈیل ہستی‘‘ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آپؐکی قائدانہ صلاحیتوں کی بدولت رب العزت نے آپؐ کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ جہاد ہو یا کوئی بھی معاملہ، آپؐ نے جو حکمت عملی اور طریقہ کار اپنایا وہ ہم سب کے لیے اعلیٰ مثال ہے۔ اعلیٰ منصوبہ بندی، حکمت عملی، صحابہ کے ساتھ گفت و شنید، نرمی، محبت، دوسروں کے مشورے اور آراء کو اہمیت دینا، نظم و ضبط، اور اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کو کرنے میں عار محسوس نہ کرنا وغیرہ۔۔۔ یہ وہ خوبیاں تھیں جن کی بدولت آپؐ اور صحابہ کرام نے ہر جگہ کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ کسی معرکے میں سپہ سالار کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپؐ نہ صرف خود اس شخص میں صلاحیتوں کا جائزہ لیتے بلکہ صحابہ کرامؓ سے بھی مشورہ لیتے، پھر اسے منتخب کرکے معرکے کے لیے روانہ کیا جاتا۔ اسی طرح غزوہ احزاب ہے جس میں مسلمانوں کی قلیل تعداد اور کفار کی کئی جماعتیں (گروہوں) شامل تھیں۔ صحابہ کرام سے آپؐ نے مشورہ کیا اور آخر حضرت سلمان فارسیؓ کی رائے کو سراہا اور پسند فرمایا اور مدینہ سے باہر خندق کھودی گئی اور کفار سے مقابلہ کیا گیا۔ رب العزت نے مسلمانوں کو شاندار فتح سے ہمکنار کیا۔اسی طرح مسجد نبویؐ کی تعمیر ہو یا مسجد نبویؐ کے منبر کی تعمیر، صحابہ کرام کے مشوروں کو اہمیت دی گئی۔ ایک اور قائدانہ خصوصیت یہ کہ آپؐ صحابہ کرام کے ساتھ مل کر ایک عام مزدور کی طرح خود بھی کام کرتے۔ اس طرح ایسے موقعوں پر صحابہ کرام کا جوش و خروش بڑھ جاتا تھا۔
آج ہم اپنے آس پاس نظر دوڑائیں تو یہ خصوصیات بہت کم لوگوں میں نظر آتی ہیں۔ آمرانہ فیصلوں اور عجلت میں کیے گئے فیصلوں کی بدولت کامیابی کا گراف گر جاتا ہے۔ چاہے گھر ہو، ادارہ ہو یا حکومت، ان سب کو کامیابی سے چلانے کے لیے سمجھ بوجھ، باہمی مشورہ، منصوبہ بندی، حکمت عملی، گفت و شنید (آپس میں)، اخلاص، محنت، ایک دوسرے کو اور ماتحتوں کو عزت اور اہمیت دینا لازمی ہے۔ اسی طرح ایک مضبوط ٹیم وجود میں آتی ہے جو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر کامیابی حاصل کرتی ہے۔
nn