اگر یہ فرض ادا نہیں ہوگا تو اتنا ہی گناہ ہوگا، جتنا نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ چھوڑنے کا گناہ ہوگا۔ کیوں؟ اس لیے کہ انسان کی ضرورتیں انسان کی پیدایش کے فوراً بعد ہی اس کے ساتھ منسلک کردی گئی ہیں کہ ان کو بہ ہر صورت پورا کرنا ہے۔ اگر آپ ان ضرورتوں کی تکمیل حلال طریقے سے نہیں کریں گے تو حرام طریقے سے کریں گے، لیکن حرام طریقے سے کرنے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے، تو یقیناًپھر ہمیں حلال طریقے کی طرف جانا چاہیے۔ جب حلال طریقے کی طرف جانا ہمارے لیے لازمی ہے تو یقیناًیہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابندی کی جائے گی تو اس میں ہمیں ان شاء اللہ ثواب ملے گا (قرآن کیا کہتا ہے؟، ص 24۔ 25)۔ دوسری جانب اسلام کمانے میں اعتدال کی تلقین فرماتا ہے، جس کی مثالیں پیش کی جاچکی ہیں۔
اس کائنات میں ایسے نظریات اور خیالات بھی موجود ہیں، جو فطرت کے خلاف عمل ہی کو کام یابی کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ یہ جسم کے مطالبات کو کچل کر راحت تلاش کرتے ہیں اور روح کو جسم کے مقابل رکھ کر سوچتے ہیں۔ یہی وہ رخنہ ہے، جس سے ’رہبانیت‘ انسانی زندگی میں داخل ہوتی ہے۔ اسلام سے اس تصور کا دور کا بھی علاقہ نہیں۔
’رہبانیت‘ انسانی فطرت سے بے اعتنائی اور اس سے جنگ کا نام ہے۔ جو صلاحیت اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدایش کا حصہ بنادی ہے، اس سے لڑنا کیسے مفید ہوسکتا ہے؟ اسی لیے اسلام انسانی فطرت سے لڑنے کے بجاے اس کا حق ادا کرنے اور اس راستے میں اعتدال سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے۔ اسی لیے قرآن کہتا ہے کہ رہبانیت عیسائیت کی اپنی اختیار کردہ راہ ہے، فرمایا:
اور رہبانیت انھوں نے خود ایجاد کی تھی، ہم نے ان پر واجب نہیں کی تھی، لیکن انھوں نے رضائے الٰہی کے لیے اس کو اختیار کیا تھا۔ سو، انھوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی۔ پھر بھی ہم نے ان میں سے ایمان داروں کو ان کا اجر دیا اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ (الحدید57: 27)
’رہبانیت‘ نے برائیوں کے سوا معاشرے کو کچھ نہیں دیا۔ دونوں مقام پر نامکمل انسان انسانی فطرت سے جنگ کرتے اور معاشرے کو برائیوں میں مبتلا کرتے نظر آتے ہیں۔ (ایضاً،ص 62)
اسراف و تبذیر
کمانے کے بعد خرچ کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔ ہر مذہب، مسلک اور نظام میں کمانے کے کچھ نہ کچھ آداب مقرر ہیں۔ اپنے آپ کو آسمانی ہدایت سے یک سر آزاد قرار دینے والے معاشرے بھی اس سلسلے میں ایک ریاستی نظام پر یقین ضرور رکھتے ہیں، اور اسی کے دائرے میں رہتے ہوئے دولت کمانے اور مادیت کی تگ و دو میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ تاہم، کمانے کے بعد خرچ کیسے کیا جائے؟ اس بارے میں اسلام کے علاوہ تمام مذاہب اور تمام نظام ہاے حیات خاموش ہیں۔
اسلام نے اس حوالے سے مکمل وضاحت کے ساتھ ایک نظام قائم کیا ہے، جس کی بنیاد ان دو اصطلاحات پر ہے: اسراف اور تبذیر۔
* اسراف: ’اسراف‘ کی تعریف راغب اصفہانی اس طرح کرتے ہیں:
لغت میں ہر انسانی فعل میں حد سے تجاوز کرنے کو اسراف کہتے ہیں۔ (المفردات، ص23)
اور سفیان بن عیینہ اسراف کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اللہ کی اطاعت کے کاموں کے علاوہ جو کچھ بھی تم خرچ کروگے وہ اسراف ہے، خواہ وہ تھوڑاہی کیوں نہ ہو۔ (موسوعۃ نضرۃ النعیم، ص3884)
اسی طرح مناوی سے اسراف کی اصطلاحی تعریف اس طرح منقول ہے: ’’اسراف حد سے تجاوز کرنے کو کہتے ہیں‘‘۔ ( نضرۃ النعیم، ص 3885)
جرجانی نے اسراف کی یہ تعریف کی ہے: ’’اسراف یہ ہے کہ انسان وہ کچھ کھائے جو اس کے لیے حلال نہیں، یا حلال تو ہے مگر وہ اعتدال اور ضرورت سے زیادہ کھائے‘‘۔ ( ایضاً)
* تبذیر: اس سلسلے کی دوسری اصطلاح ’تبذیر‘ ہے۔ ’تبذیر‘ لغت میں کسی چیز کو پھینکنے اور منتشر کرنے کو کہتے ہیں۔ (نضرۃ النعیم، ص4113)
’تبذیر‘ کی اصطلاحی تعریف امام شافعی سے اس طرح منقول ہے: تبذیر ناجائز کام میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ نیک کام میں تبذیر نہیں ہوتی۔ (تفسیر قرطبی، ج۱، ص247)
قرطبی کہتے ہیں: ’’تبذیر سے مراد نیک کاموں کے سواکسی ایسے کام میں خرچ کرنا ہے جس سے مقصد اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا نہ ہو‘‘۔ (نضرۃ النعیم، ص4114)
مجاہد کہتے ہیں کہ اگر انسان اپنا سارا مال حق کے راستے میں خرچ کردے تو یہ تبذیر نہیں اور اگر وہ گناہ کے کام میں ایک مد، یعنی ایک سیر غلہ بھی خرچ کرے تو یہ تبذیر ہے۔ (صفوۃ التفاسیر، ج2، ص 139)
قتادہ کہتے ہیں کہ تبذیر اللہ کی نافرمانی اور ناحق اور فساد کے لیے خرچ کرنے کا نام ہے۔(ایضاً)
اسراف و تبذیر میں باہمی فرق واضح کرتے ہوئے کفوی کہتے ہیں:
اسراف تو کسی جائز کام میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے کو کہتے ہیں اور تبذیر ناجائز کام میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ (نضرۃ النعیم،ص4114)
اسراف کی وضاحت کے حوالے سے ایک نہایت اہم روایت ذخیرۂ حدیث میں ہمیں اور ملتی ہے۔ عمرو بن شعیب اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’میں محتاج ہوں، میرے پاس کچھ نہیں ہے اور میں ایک یتیم کا سرپرست ہوں‘‘۔ آپ نے فرمایا:
(ابوداؤد، ج3، ص36، رقم: 2872) اپنے یتیم کے مال میں سے کھا، اسراف اور فضول خرچی اور اس کے مال سے پونجی بنائے بغیر۔
یہاں سبق آموز بات یہ ہے کہ یتیم کی کفالت جہاں اسلام میں ایک نہایت اہم فریضہ اور باعث اجر کام ہے، وہیں اس سلسلے میں بھی فضول خرچی، یعنی اسراف سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ گویا اعتدال اور توازن کا دامن ہر صورت میں تھامنا ضروری ہے۔
سادگی اور معاشرتی وحدت
آپؐ کی ذات بابرکات نے اس سلسلے میں بھی اپنی امت کے لیے بہترین نمونۂ عمل چھوڑا ہے۔ آپؐ نے ہمیشہ سادہ زندگی بسر کی اور فقر وفاقے کی حالت میں نہایت صبر وشکر سے اپنے فرائض منصبی ادا کیے، باوجود اس کے کہ آپؐ کو تمام سہولتیں میسر آسکتی تھیں۔ یوں آپؐ کا فقر اختیاری تھا۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کے گھر والے کئی کئی رات خالی پیٹ سوتے تھے، گھر میں رات کو کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ اور ان لوگوں کی خوراک اکثر جو کی روٹی ہوتی تھی۔(ترمذی، ج4، رقم: 2367)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے قیام کے دوران وفات تک کبھی دو وقت سیر ہوکر روٹی نہیں کھائی۔ (الشفا،ج1،ص82)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جوڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا گیا، کیوں کہ آپؐ کا دوسرا جوڑا ہوتا ہی نہ تھا جو تہہ کرکے رکھا جاتا۔ (ایضاً)
آپؐ نے معاشرتی اونچ نیچ ختم کرنے پر بھی زور دیا ہے، اور مساوات واعتدال کا درس دیا ہے۔ جاہ ومال کی غیر ضروری نمایش کا واحد مقصد اپنی برتری کااظہار ہوتاہے۔ اس قسم کی منفی سوچ معاشرے کی وحدت اور اجتماعیت کو ختم کرکے اتحاد واتفاق پرمبنی معاشرے کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس لیے آپؐ نے آرایش پرتو پابندی عائد نہیں کی، لیکن نمایش کو قطعاً ممنوع قرار دیا ہے تاکہ معاشرتی وقار نمایش پسندوں کا شکار نہ ہوسکے۔ چناں چہ عبادت وریاضت، کھانے پینے، سونے جاگنے، اٹھنے بیٹھنے، ملنے جلنے اور رہنے سہنے سے لے کر لباس ومکان تک ہر مقام پر۔ آپؐ کے ارشادات اعتدال کا درس دیتے نظر آتے ہیں۔ اگرہرمعاملے میں اعتدال ومیانہ روی کو اختیار کرلیا جائے تو معاشرتی وحدت اور مساوات خود بہ خود قائم ہوسکتی ہے۔
انسا ن نمایش کی ابتدا عموماً اپنے لباس سے کرتاہے۔ آپؐ نے اس بارے میں اعتدال پر مبنی ہدایات فرمائیں۔ آپؐ نے جہاں ایک طرف غربا وفقرا کو ان کے لباس سے قطعِ نظر ان کے باطنی حالات کے پیش نظر قبولیت کی سند عطا فرمائی، وہیں مال دار افراد کو بھی حیثیت کے مطابق زندگی بسر کرنے کاحکم دیا، تاکہ افراط وتفریط کے مابین توازن قائم ہو سکے اور اعتدال کاقیام عمل میں آسکے۔ چناں چہ آپؐ نے فرمایا:’’کتنے ہی پراگندا حال چیتھڑوں میں ملبوس انسان ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ آ کی قسم کھالیں تو آتعالیٰ اس کو پورا کرتے ہیں‘‘۔ (ترمذی، ج 5، رقم: 3880)
(جاری ہے)
آپؐ نے خود کس حالت میں زندگی بسر کی؟ حضرت عائشہ رضی آعنہا کی گواہی ملاحظہ ہو۔ حضرت ابو دردا اور حضرت ابوہریرہ رضی آعنہما سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی آعنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انھوں نے پیوند لگی ہوئی چادر اور ایک یمن کی بنی ہوئی لنگی پیش کی، اورخدا کی قسم کھا کر کہا کہ آ کے رسولؐ نے انھی دوکپڑوں میں اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کی تھی۔ (بخاری، ج4، ص 21۔ ابن ماجہ، ج4، ص 487، رقم: 3550)
دوسری جانب آپؐ نے مال دار افراد کو تلقین کی: ’’اگر کوئی شخص خوش حال ہے تو کیا حرج ہے کہ اگر وہ کام کاج کے دو کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے دن کے لیے بھی دو کپڑے رکھے‘‘۔ (ابوداؤد، ج4، رقم: 1078)
اسی طرح ایک شخص کو میلے کچلے لباس میں دیکھا تو فرمایا کہ اس سے اتنا نہیں ہوتاکہ کپڑے دھولیا کرے۔ (ابوداؤد، ج4، رقم :4062 )
ایک شخص آپؐ کی خدمت میں حاضرہوا۔ اس کے بدن پرپھٹا پرانا لباس تھا۔ آپؐ نے اس سے پوچھا کہ کیا تمھارے پاس مال ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپؐ نے فرمایا : کس قسم کا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ آنے مجھے ہر قسم کے مال سے نواز رکھا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جب آ نے تجھے مال دے رکھا ہے تو آ کی نعمت اور سخاوت کااثر بھی ظاہر کر‘‘۔ (ابوداؤد، ج4، رقم:4063)
تاہم، اسلام نے خوش پوشاکی کی حد سے گزر کر اسراف کی حدود میں داخل ہوجانے والی آرایش کی سختی سے ممانعت کی ہے جو دراصل نمایش اور دکھلاوے کی خاطر کی جاتی ہے، کیوں کہ یہ راہِ اعتدال سے ہٹ کر ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’جس نے دنیا میں شہرت کا لباس زیب تن کیا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ذلت کا لباس پہنائے گا اور اس میں آگ بھڑکائے گا‘‘۔ (ابن ماجہ، رقم: 3607)
زیورات خواتین کی فطری خواہش ہے۔ آپؐ نے اس فطری تقاضے پرپابندی عائد نہیں کی، البتہ افراط سے وہاں بھی منع فرمایا۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بہن سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عورتو! کیا زیور بنانے کے لیے تمھارے لیے چاندی کافی نہیں ہے؟ خبر دار! جو عورت بھی سونے کا زیور بنائے گی اور اس کے ذریعے زینت کا اظہار کرے گی اسے اسی زیور سے عذاب دیا جائے گا‘‘۔ (ابوداؤد، ج4، رقم: 4237)
یہ وعید ان عورتوں کے لیے ہے جو زیورات کی دیوانی ہوتی ہیں اور جور نگ و نور کے سیلاب میں کھو کر فرائض اورحقوق سے غافل ہوجاتی ہیں۔
مال دار حضرات کاسب سے زیادہ زور تعمیرات میں صرف ہوتا ہے، اور اس موقعے پرعموماً حد اعتدال کوبرقرار نہیں ر کھا جاتا۔ اس کا ایک مقصد نمایش کے علاوہ عیش کو شی اور آرام طلبی ہوتا ہے۔ آپ صلی آعلیہ وسلم نے اس پہلو کو بھی تشنہ نہیں چھوڑا۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی جانب گو رنر بناکر روانہ فرمایا تو یہ نصیحت بھی کی: ’’عیش کوشی سے دور رہنا، کیونکہ اللہ کے بندے آرام طلب نہیں ہوتے‘‘۔ (احمد، ج5، ص 244)
یہی وجہ تھی کہ آپؐ نے سونے اورچاندی کے برتنوں میں کھانا پینا حرام فرمادیا اور مردوں کے لیے حریر وریشم کے استعمال کو ممنوع قرار دیا۔
اس پوری بحث کو ایک حدیث میں یوں مختصراً بیان کیا گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’میری امت میں ایسے لوگ آئیں گے جو رنگ برنگ کے کھانے کھائیں گے، انواع و اقسام کے مشروبات استعمال کریں گے، اورطرح طرح کے لباس زیب تن کریں گے، اور منہ پھاڑ پھاڑ کر باتیں بنائیں گے۔ یہی لوگ میری امت کے بدترین افراد ہوں گے‘‘۔ (المعجم الکبیر، ج1، ص 107)
خود آپؐ نے عملی طور پر اسلامی حکومت کے قیام کے بعد مساوات کا وہ عظیم الشان نمونہ پیش فرمایا کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے آج بھی قاصر ہے۔ آپؐ کے اور صحابہ کرامؓ کے مابین لباس کے اعتبار سے بھی کوئی فرق نہ تھا۔ اسی طرح آپؐ کی نشست بھی ایسی عام اور کسی امتیاز کے بغیر ہوتی تھی کہ باہر سے آنے والے شخص کو آپؐ کے بارے میں پوچھنا پڑتاتھا۔ صحابہ کرامؓ نے آپؐ کے بیٹھنے کے لیے ایک چبوترا بنانا چاہا تو آپؐ نے اس کو بھی پسند نہ فرمایا۔ (سیّدعزیز الرحمٰن، ’تعلیمات نبویؐ اور آج کے زندہ مسائل‘، القلم، فرحان ٹیرس، کراچی، مئی 2005ء)
دین میں بے اعتدالی
اعتدال اور توازن کا حکم صرف کھانے پینے، کمانے اور معاشرتی امور تک محدد نہیں ہے۔ یہ حکم انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ چناں چہ دین کے معاملے میں بھی غلو سے بچنے کا حکم بہ راہ راست قرآن کریم میں دیا گیا، اور یہاں غلو سے مراد بھی حد سے بڑھنا ہے۔ دین کے معاملے میں غلو اور حدود سے تجاوز کرنا سخت ناپسندیدہ ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا: (النساء4:171) ’’تم اپنے دین کے معاملے میں غلو نہ کرو‘‘۔
اس غلو کا نتیجہ بھی شدت پسندی کی صورت میں نکلتا ہے، اور جو لوگ غلو سے دوچار ہوجاتے ہیں وہ پھر اعتدال سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے اس سے بھی منع فرمایا: ’’تم دین میں غلو سے بچو، کیوں کہ، پچھلی امتیں دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں‘‘۔ (ابوداؤد، ج4، رقم: 4904)
اسی طرح شدت پسندی بھی عدم توازن کی علامت ہے۔ اعتدال اور توازن پر کار بند شخص کسی حوالے سے شدت پسند نہیں ہوسکتا۔ قرآن و سنت کی پوری تعلیمات اور اسوۂ حسنہ کا پیغام اسی کے گرد گھومتا ہے۔ اسی بنا پر اسلام نے دین کے معاملے میں بھی اس سے بچنے کی تاکید کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم اپنے آپ پر سختی نہ کرو ورنہ تمھارے اوپر سختی کی جائے گی، کیوں کہ ایک قوم نے اپنے آپ پر سختی کی، پھر اللہ نے بھی ان پر سختی کی۔ ان ہی لوگوں کے باقیات ہیں جو گرجوں اور خانقاہوں میں نظر آتی ہیں۔ (ابوداؤد، ج4، رقم:4904)
یہ حقیقت ہے کہ حسنِ اعتدال اور توازن ہی حیات انسانی کا حسن ہے، اور اسی کے ذریعے ہماری دنیاوی زندگی کامیابی سے بسر ہوسکتی ہے، جس پر ہماری اخروی دائمی زندگی کا مدار اور انحصار ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے، اور اس پر عمل کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین!