آفس سے شام کے وقت گھر پہنچا تو گھر کی طرف جا نے والے تمام راستے بند تھے اور چاروں طرف پولیس اور رینجرز کے اہلکار نظر آئے۔ معلوم چلا کہ شاہ فیصل کا سیکٹر آفس سیل کیا جا رہا ہے اور کافی لوگ جمع ہیں۔ گھر سے دور اپنی بائیک کھڑی کرکے میں بھی مجمع میں کھڑا ہوگیا تاکہ یہ جان سکوں کہ لوگوں کے کیا تا ثرات ہیں؟ تقریباً سب ہی خاموش تھے لیکن کچھ بچوں کو گفتگو کرتے سنا جو کہہ رہے تھے ’’اب ہم گراؤنڈ میں کھیلیں گے۔‘‘ دوسرا بچہ بولا ’’ہاں یار اب گیند بھی نہیں کھوئے گی۔۔۔‘‘ تیسرا بولا ’’اب چاچا بھینس (بچوں نے کسی کا نام رکھا ہوا تھا) کی ڈا نٹ ڈپٹ سے بھی جان چھو ٹ جائے گی۔۔۔‘‘ سب نے اس بات پر اپنی خوشی کا اظہار کر تے ہو ئے ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی سے تھام لیے اور ایک ساتھ کہا ’’کتنا مزا آئے گا۔۔۔‘‘
بچوں کی خوشی دیکھنے والی تھی جیسے ان کو کوئی خزانہ مل گیا ہو‘ لیکن ان بچوں کی یہ خوشی اب تک ادھوری ہے کیونکہ وہ گراؤنڈ اب تک عوام کے لیے نہیں کھولا گیا۔ اس گراؤنڈ میں ہم نے بچپن میں ہاکی، فٹبال، کر کٹ سب کھیل ہی کھیلے اس کے علاوہ جب محلے میں کسی کی شادی ہوتی تو اجازت کے ساتھ شادی کی تقریب گراؤنڈ میں منعقد کی جاتی لیکن جب سے یہ گراونڈ سیکٹر آفس میں تبدیل ہوا‘ بچے اور نوجوان گلی اور سڑکوں پر کھیلنے لگے۔ ظالموں نے نوجوانوں کے ہاتھ سے قلم‘ کتاب چھین کر اسلحہ پکڑا دیا اور دوسرا وار یہ کیا کہ کھیل کے میدانوں پر قبضہ کر کے نوجوانوں اور اہل علاقہ کی صحت وصفائی کے ساتھ جسمانی صلاحیتوں کو بھی زنگ لگا دیا اسی لیے گزشتہ سال سندھ حکومت نے کراچی کے مختلف مقامات پر سرکاری زمین پر بنے ایسے تمام شادی ہالوں کو مسمار کر دیے تھے جو غیر قانونی طور پر بنائے گئے تھے۔ یہ شادی ہال کیوں مسمار کیے گئے؟ جب معلومات لی گئیں تو معلوم ہوا کہ ان غیر قانونی ہالوں کو جرائم پیشہ افراد کا تحفظ حاصل ہے اور ان سے ہونے والی آمدنی کا بیشتر حصہ جرائم پیشہ افراد کو جاتا ہے اور یہ شادی ہالز جرائم پیشہ افراد کی محفوظ پناہ گاہیں بن گئی تھیں ان سے ہونے والی آمدنی دہشت گردی کی کارروائی میں استعمال ہونے کا انکشا ف ہوا تھا اس لیے پولیس اور رینجرز کی نگرانی میں اچانک شاہ فیصل کالونی میں گرین بیلٹ پر لائن سے قائم ان شادی ہالوں کو مسمار کر دیا گیا۔
حکومت کا جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کا یہ پہلا مرحلہ تھا اس کے بعد حکومت نے سرکاری زمینوں پر قائم مختلف جرائم پیشہ نام نہاد سیاسی جماعتوں کے یونٹ اور سیکٹر آفس کو مسمار کیاجو کہ زیادہ تر کھیل کے میدانوں پر قائم کیے گئے تھے۔ ان یونٹ اور سیکٹر دفاتر میں گیس، بجلی، ٹیلی فون کے ساتھ ہر طرح کی سہولیات میسر تھیں لیکن اس کھیل کے میدانوں سے اگر کو ئی مستفیض نہیں ہو سکتا تھا تو وہ اہل محلہ اور اس کے نوجوان تھے۔
حکومت کے جرائم پیشہ عناصر اور ان کے غیر قانونی قائم دفاتر کے خلاف اقدامات پر کراچی کے شہریوں نے سکون کا سانس لیا تھا اور اُمید ہو چلی تھی کہ اب وہ تمام کھیل کے میدان‘ جو مستقبل کے معماروں کی ذہنی و جسمانی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے ہیں‘ عوام وہاں آزادانہ جاسکیں گے۔ لیکن کچھ جگہوں پر ایسا نہیں ہوا اور لینڈ مافیا نے ایک گروپ کا قبضہ ختم ہونے کے بعد دوسرے کا قبضہ کرا دیا اور عوام کے لیے بنائے گئے پارک اور میدان پھر سے کمائی کا ذریعہ بن گئے۔ نارتھ ناظم آباد کے مکینوں نے اپنے علاقے کے مدنی گراؤنڈ کو قبضہ مافیا سے آزاد کرانے کے لیے پُر امن احتجاج کیا جسے میڈیا نے ’’انوکھا احتجاج‘‘ کا نام دیا‘ جس میں علاقے کے نوجوانوں، بزرگوں، خو اتین اور بچوں نے سڑک پر مختلف کھیل کھیلے اور اربابِ اقتدار کو اس جانب متوجہ کیا کہ میدان جس مقصد کے لیے بنا ئے گئے ہیں ان کو اسی مقصد کے لیے قائم رہنے دیا جائے۔
یقیناًیہ پارکس اور کھیل کے میدان کسی سیاسی جماعت یا انتظامیہ کی ملکیت نہیں ہیں بلکہ یہ عوام کے لیے بنائے گئے تھے اس لیے ان تمام جگہوں کو ازسر نو تعمیر کرکے عوام کی صحت مند سرگر میوں کے لیے کھو لا جائے۔
صحت مند سرگرمیاں انسانی زندگی کے لیے کتنی اہمیت کی حامل ہیں‘ اس بارے میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ سرسبز پارکس انسان کی جسمانی و ذہنی صحت اور نشوونما کے لیے انتہائی مؤثر ہیں۔ معاشرے میں تبدیلی کے لیے مثبت تفریح ناگزیر ہے یعنی انسانی صحت کے لیے سازگار ماحول کی تشکیل میں پارکس اہم کردار ادا کر تے ہیں اسی لیے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان نے کراچی کے عوام کے لیے ہر ٹاؤن میں ایک سے دو ’’مثالی پارک‘‘ بنائے تھے۔ جب شاہ فیصل میں پہلے ’’مثالی پارک‘‘ کا افتتاح نعمت اللہ خان کرنے آئے تھے تو اہلِ علاقے اس پارک میں جانے کے لیے اُمڈ آئے تھے۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ لوگ پُر فضا اور اچھی آب و ہوا کے لیے پارکوں میں جانا چا ہتے ہیں اورواقعی نعمت صاحب نے اہلِ کراچی کو چمکتا ہوا اور گرین کراچی بنادیا تھا۔ کھجور اور ناریل کے درخت اور آپ کے بنائے ہوئے مثالی پارکس اب بھی متعدد جگہوں پر اچھی حا لت میں موجود ہیں لیکن نعمت اللہ خان کے جانے کے بعد کچھ علاقوں میں قبضہ مافیا نے ان تفریحی مقامات کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا اور جرائم پیشہ عناصر کو مختلف ٹھیکے پر جگہیں دے دی گئی ہیں جہاں وہ کاروبار کر رہے ہیں جس سے پارک کی خوب صورتی بھی متاثر ہوئی ہے اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور تفریحی مقام کاروباری مرکز میں تبدیل ہونے کی وجہ سے لوگ وہاں جا نے سے بھی کتراتے ہیں۔
سو چنے کی بات ہے کہ ایک سٹی ناظم کے دور میں تمام پارکس مناسب دیکھ بھال کی وجہ سے سرسبز و شاداب نظر آتے ہیں‘ دوسرے سٹی نا ظم کے دور میں یہی پارکس نہ صرف ویران ہو جاتے ہیں بلکہ ان ’’ویران پارکوں‘‘ کی ’’دیکھ بھال‘‘ کے لیے مزید مالی بھی بھرتی کر لیے جا تے ہیں جو اپنا کام کرنے کے بجائے سیاسی جماعت کے یونٹ اور سیکٹر آفس کے لیے ڈیوٹی انجام دیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتی عدم توجہ اور ان گھوسٹ ملازمین کی وجہ سے کرا چی کے بے شمار پارکس‘ جو لا کھوں ‘کروڑوں روپے خرچ کرکے بنائے گئے تھے‘ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے جرائم پیشہ افراد کی آماج گاہ بن گئے ہیں جس کی ایک مثال کلفٹن میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے نام سے بنایا گیا پارک تفریح کے بجائے عوام کے لیے زحمت کا باعث بن گیا ہے۔ یہی نہیں کراچی میں قائم مشہور تفریحی مقامات چڑیا گھر، سفاری پارک، عزیز بھٹی پارک ، باغ ابنِ قاسم کا بھی یہی حال ہے۔ ان پارکوں کی حالتِ زار دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ وطن عزیز کے سب سے بڑے شہر کراچی کے پارکوں کی یہ حالت ہے جبکہ بعض پارکوں میں داخلہ فیس بھی رکھی گئی ہے لیکن ان کے مقابلے میں پرائیویٹ تفریحی پارکوں کو دیکھ کر دل خوش ہو جاتا ہے۔ کیا ان پارکوں کے لیے پانی اور مٹی پنجاب سے آتا ہے جو سرسبز اور شاداب پھولوں اور خوب صورت درختوں سے مزین ہو تے ہیں۔ یقیناًایسا نہیں ہے بلکہ مناسب دیکھ بھال اور توجہ کے باعث یہ پارکس اپنی خوب صورتی بر قرار رکھتے ہیں جن کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو سیر و تفریح کے لیے ان مقامات پر لے کر جاتے ہیں۔
آج سے دس سال قبل کچھ دوستوں کے ہمراہ لاہور جانا ہوا تھا‘ فجر کے وقت بس نے ہمیں مینار پاکستان کے قریب اتارا تو نماز پڑھنے مسجد چلے گئے‘ نماز پڑھ کر باہر آئے تو ایسا لگ رہا تھا پورا لاہور مینار پاکستان پر آگیا ہے۔۔۔ کیا بچے‘ بوڑھے اور جوان، مرد اور عورتیں سب ہی ورزش اور چہل قدمی میں مصروف تھے۔۔۔ لوگوں کو صحت مند جسمانی سرگرمیاں سرسبز و شاداب پارکوں میں میسر ہیں تو وہ جلدی اُٹھنے کے عادی ہیں اور ان سہولیات سے بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ اس کے برعکس کراچی کے پارکوں پر قبضہ مافیا کا راج ہے‘ جہاں سیکٹر اور یو نٹ آفس کے قیام کے باعث بچوں اور بڑوں کی جسمانی صحت کے ساتھ ساتھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی متاثر ہوئی ہے۔ کل تک جو پارک اپنے نام سے پہچانے جا تے تھے اور لوگ ان پارکوں کو نام لے کر یاد کر تے تھے‘ اب سیکٹر اور یونٹ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ جب یہ خبر گرم تھی کہ سرکاری زمینوں پرقائم سیاسی جماعتوں کے دفاتر ختم کر دیے جائیں گے تو شاہ فیصل کے سیکٹر (معاف کیجیے گا میں بھی وہی لکھ رہا ہوں کیونکہ اس پارک کا اصل نام اب کسی کو یاد نہیں) کو بچوں کے لیے کھول دیا گیا۔ مجھے اس طرح معلوم ہواکہ ایک دن میری چھ سالہ بیٹی کہنے لگی ’’ابو سیکٹر (یعنی پارک) چلیں۔‘‘
میں نے کہا ’’بیٹا سیکٹر نہیں جاتے۔۔۔‘‘ مگر بیٹی ضد کرنے لگی تو پوچھا ’’وہاں کیوں جانا ہے؟‘‘ تو بیٹی نے کہا کہ ’’سیکٹر میں بچوں کے لیے مختلف جھولے لگے ہیں اور اب سیکٹر میں بچوں کے ساتھ بڑوں کو بھی آنے دے رہے ہیں۔‘‘ مجبوراً بیٹی کے ساتھ گیا تو دیکھا بچوں کا رش لگا ہے جو سلا ئیڈ لینے اور مختلف جھولوں پر خوشی خوشی تفریح میں مصروف ہیں۔ خوبصورت پھول پودے، قرینے سے لگائی اور کاٹی گئی باڑ، چھو ٹے بڑے پھولوں اور پھلوں کے درخت اور پورے میدان میں خوب صورت گھاس نظر آئی کچھ عرصہ محض دو گھنٹے کے لیے مغرب تک پارک (سیکڑ) کھو لا جاتا لیکن کوئی بھی تد بیر کام نہ آئی اور بالآخریہ پارک بھی سیل کر دیا گیا اور ایک دن خبر پڑھی کہ یہاں سے بھی بھاری تعداد میں دفن کیا گیا اسلحہ برآمد ہوا ہے۔
پارکوں کی بندش اور قبضے کے خلاف عوام میں بیدار ہونے والا شعور قابل تحسین ہے‘ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ خوف کے بادل چھٹ رہے ہیں اور عوام اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند کررہے ہیں۔ عوام میں اپنے حق کے لیے شعور کا بیدار ہو نا کسی خوش خبری سے کم نہیں۔ بیداری‘ شعور اور آگاہی مہم کا یہ سفر جاری رہنا چاہیے تاکہ آئندہ کسی کو عوام کے بنیادی حقوق اور صحت مند سرگرمیوں کے مراکز پر ڈا کا ڈالنے کی ہمت نہ ہو۔ اگر عوام اس شعور اور آگاہی کی تحریک میں اپنے ووٹ دینے کے رویے کو بھی تبدیل کرلیں تو یقیناًقبضہ اور جرائم پیشہ مافیا کی کمر ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جا ئے گی اور کراچی ایک بار پھر ان شاء اللہ’’روشنیوں کا شہر‘‘ کہلائے گا۔ حکومت اور رینجرز نے کراچی میں قیام امن کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ‘ لائق تحسین ہیں۔ اگر یہ اقدامات کراچی کی روشنیوں کو واپس لانے اور اس شہر کے باسیوں کو امن کے ساتھ مختلف سہولیات اور چہروں پر خوشی دینے کے لیے ہیں تو حکومت کو چا ہیے کہ وہ تفریحی مقامات پارکوں اور کھیل کے میدانوں سے قبضہ مافیا کا قلع قمع کرے اور ان پارکوں کو عوام کی صحت مند جسما نی سرگرمیوں کے استعمال کے لیے کھولا جائے تاکہ جو ادھوری خوشی عوام کو ملی تھی وہ خوشی مکمل ہو سکے!!