بچپن سے سنتی آرہی تھی کہ دعاؤں کے بڑے کرشمے ہیں، بندے کو فرش سے عرش پر پہنچاتی ہیں۔ وقت آنے پر ڈوبتی کشتیوں کو دعاؤں کے طفیل رب العزت پار لگاتا ہے۔ ماں باپ کی دعائیں تو اولاد کے لیے یقیناًانمول خزانہ ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ مظلوم کے ساتھ نیکی کریں یا مدد کریں، بظاہر وہ لبوں سے دعا نہیں دیتا لیکن آپ کی وجہ سے اسے جو تقویت، مدد یا سہارا ملتا ہے، بارگاہِ الٰہی میں وہ بھی دعا سے کم نہیں ہوتا۔ لہٰذا والدین کی خدمت کرکے ان کی دعائیں حاصل نہ کرنا سب سے بڑی محرومی ہے۔ اسی طرح اپنے آس پاس نظر رکھیں کہ ایسے مظلوم یا بے سہارا اور تکلیف میں مبتلا لوگ ہیں جو خودداری اور شرم کی وجہ سے سوال نہیں کرسکتے، اُن کی ضرور مدد کریں۔ اپنے بزرگوں اور اساتذہ کرام کی خدمت اور عزت کرکے بھی دعائیں وصول کی جا سکتی ہیں۔ رب العزت اپنے بندے کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی ضائع نہیں کرتا، اسے اس کا صلہ ضرور دیتا ہے، اِس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اس مضمون کو لکھتے ہوئے مجھے اپنے اردگرد ایسے کئی واقعات نظر آئے جہاں انہیں (لوگوں کو) والدین، اساتذہ، بزرگوں اور مظلوموں کی دعاؤں نے دلی سکون اور خوشیوں سے مالا مال کردیا۔
***
انعم کی شادی سمجھو تو زبردستی ہی ہوئی تھی۔ انعم کا شوہر جو ایک پڑھا لکھا، اسمارٹ، سلجھا ہوا لڑکا تھا اُس کے مقابلے میں انعم 9/8 جماعتیں پاس، قبول صورت، غریب گھرانے کی سیدھی سادی لڑکی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ماجد اکثر اپنی ماں بہنوں سے شکایت کرتا کہ مجھے تم لوگوں نے رشتے داری کی وجہ سے قربانی کا بکرا بنایا۔ ماں بہنیں اسے سمجھاتی تھیں کہ انعم اچھی لڑکی ہے، اس کی طرف توجہ دو اور اس کے ساتھ وقت گزارو۔ لیکن ماجد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ماں بہنوں نے انعم کو بھی ماجد کی پسند کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی۔ ماجد ملازمت کی وجہ سے ملک سے باہر رہتا تھا، سال میں ایک آدھ چکر لگاتا۔ انعم کے دادا سسر کی طبیعت انہی دنوں بہت خراب ہوگئی۔ دادا سسر کا کمرہ ہوادار اور روشن نہ تھا۔ پورے گھر میں انعم کا کمرہ نہایت ہوادار، روشن اور وسیع تھا۔ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ اس کمرے میں سوتی تھی۔ دادا کو جب ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق ہوادار کمرے میں شفٹ ہونے کی ضرورت پیش آئی تو انعم نے بڑی فراخ دلی سے دادا کو اپنا کمرہ پیش کیا اور خود چند دنوں کے لیے نند کے کمرے میں شفٹ ہوگئی۔ یہ کمرہ پُررونق بھی تھا، دادا کا دل لگ گیا۔ زندگی کے آخری دن دادا نے انعم کے کمرے میں گزارے۔ یقیناًدادا نے زبان سے نہ سہی دل میں انعم کے اس اقدام کو سراہا ہوگا اور دعا بھی دی ہوگی۔ دادا کے انتقال کے کچھ ہی عرصے بعد اللہ نے انعم کی سن لی، اُس کے شوہر کی توجہ اُس کی طرف مبذول ہوگئی اور وہ اسے اپنے پاس بلانے کے لیے راضی بھی ہوگیا۔ بیٹے کے اس فیصلے اور تبدیلی پر انعم کے بعد سب سے زیادہ خوشی ماجد کی ماں کو ملی، کیونکہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو بیٹے کی خوشیوں کا قاتل سمجھتی تھی۔ جس نے بھی انعم کی اس خوشی کے بارے میں سنا یہی کہا کہ مرتے ہوئے شخص کی دعا کا ثمر اسے ملا ہے۔ بے شک رب العزت اپنے بندے کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی ضائع یا رائیگاں نہیں جانے دیتا۔
***
یہاں میں اپنے استادِ محترم کی دعا کا ضرور ذکر کروں گی۔ ہم بہن بھائی استادِ محترم کے پسندیدہ شاگردوں میں شامل تھے۔ وہ ہم سے خوش رہتے، خاص طور پر الطاف بھائی اور مجھ سے۔ آنے والے وقت میں ماں باپ کی تعلیم و تربیت کے ساتھ استاد کی تربیت، تعلیم اور نصیحتوں نے ہر قدم پر رہنمائی کی۔ اور مجھے تو اُن کی دعاؤں سے بھی رہنمائی و مدد ملی جس کے سب بہن بھائی بھی گواہ ہیں۔ رخصتی کے لیے جب مجھے شادی ہال میں لایا گیا تو آدھا گھنٹہ انہوں نے عربی، اردو دعاؤں اور قرآنی آیات کا ورد جاری رکھا اور مجھ پر دم کیا۔ سب کے پوچھنے پر انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ہر قدم پر اللہ کی مدد اس کے ساتھ ہوگی، ہر قسم کے شیطانی شر، جادو ٹونے سے رب العزت اس کی حفاظت فرمائے گا۔ آنے والے وقت میں، مَیں نے بہت کچھ دیکھا اور محسوس کیا لیکن رب نے میری حفاظت فرمائی اور ثابت قدم رکھا۔ ان واقعات کی تفصیلات میں، مَیں جانا نہیں چاہتی لیکن مختصراً صرف یہی کہوں گی کہ والدین کی دعاؤں کے ساتھ مجھے استادِ محترم کی بھی خاص دعا نصیب ہے۔ یہ میری خوش نصیبی ہے، خدا میرے والدین کے ساتھ ساتھ استادِ محترم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ (آمین)
***
اشعر (فرضی نام) بچپن سے ہی شوخ و چنچل اور نٹ کھٹ طبیعت کا مالک تھا۔ کھیل کود اور تفریح میں زیادہ دلچسپی لیتا تھا، اسی لیے پڑھائی میں ذہین ہونے کے باوجود سرسری دلچسپی لیتا۔ جوانی میں قدم رکھا تو ماں کو اُس کی غیر سنجیدہ طبیعت کی وجہ سے اس کے مستقبل کی بڑی فکر رہنے لگی۔ تمام بھائی اپنے اپنے روزگار میں لگ گئے لیکن وہ ہنوز بے روزگار تھا۔ بچپن سے ہی چھوٹا ہونے کی وجہ سے ماں کے قریب رہا۔ اس کی لا ابالی طبیعت کے باوجود اس میں ایک خصوصیت یہ پائی جاتی تھی کہ ماں کا فرماں بردار تھا۔ وہ ڈانٹتیں تو ہنس کر ان کے قدموں اور پیشانی پر بوسہ دیتا اور پیار کرتا۔ بہنیں اور بھابھیاں مذاق کرتیں کہ ماں کی ڈانٹ پر بھی خوش ہوتے ہو! تو کہتا کہ تم لوگوں کو کیا معلوم یہ ڈانٹ نہیں ماں کی دعا ہے جو مجھے کامیابی کی طرف لے جائے گی۔ سب اس کی بات کو مذاق میں اڑا دیتے۔ اور یہ حقیقت تھی کہ ماں کو اس کے مستقبل کی بڑی فکر لاحق تھی، ہر وقت رب کے حضور اس کے لیے دعا کرتیں کہ یارب تُو نے میرے تمام بچوں کو اچھا اور باعزت روزگار دیا ہے، اسے بھی عزت والا کر، میں اپنی زندگی میں اس کی خوشیاں دیکھنا چاہتی ہوں۔ رب کی بارگاہ میں والدہ کی دعائیں قبول ہوئیں اور اشعر کو تمام بھائیوں سے بھی زیادہ باعزت اور اچھی ملازمت مل گئی۔ ماں کا سایہ تو اب سر پر نہیں رہا لیکن وہ بڑے فخر سے یہ بات سب کو بتاتا ہے، خصوصاً اپنی اولاد کو، کہ کس طرح رب نے اس کی روزی کا دروازہ کھولا اور زندگی میں اسے عزت اور وقار ملا، جو صرف اس کی ماں کی دعاؤں کے طفیل ہے۔
***
میرے اردگرد چند ایسے لوگ ہیں جنہیں رب العزت نے ماں کی دعاؤں کے طفیل بیماریوں سے نجات دی اور نئی زندگی بخشی۔ اور یہ بیماریاں کوئی معمولی نوعیت کی نہ تھیں۔ میں یہاں صرف ایک ہی مثال پیش کررہی ہوں۔ رضوان نامی شخص ماں باپ کو ایئرپورٹ سے لے کر واپس آرہا تھا کہ راستے میں لیٹرے نے اس کا تعاقب کیا اور اسے اتنے نزدیک سے فائرنگ کا نشانہ بنایا کہ اس کے بچنے کی امید ہی نہ رہی۔ ہسپتال میں ICU میں زندگی و موت کی کشمکش میں تھا، ڈاکٹر اس کی جان بچانے کی کوشش کررہے تھے مگر 5 فیصد بھی زندگی کی امید نہ تھی۔ لیکن اُس وقت ایک ایسی ہستی تھی جسے نہ اپنے کھانے پینے کا ہوش تھا نہ آرام کا۔ جائے نماز پر سربسجود اس کی سرگوشیوں کی آوازیں ہسپتال کے کمرے میں سنائی دے رہی تھیں۔ آخر رب العزت کو اس بے چین ممتا کی ماری پر رحم آگیا اور موت کے منہ سے اس کے لختِ جگر کو بچالیا۔ اس رب کے لیے تو کچھ بھی ناممکن نہیں، وہ کہتا ہے ’’کن فیکون‘‘ اور سب کچھ لمحوں میں ہوجاتا ہے۔ وہ تو ستّر ماؤں سے بھی زیادہ اپنے بندوں پر مہربان ہے، پھر وہ اس سسکتی بلکتی ماں کو اس کرب میں کیسے چھوڑ دیتا! اللہ رب العزت نے اس کے اکلوتے بیٹے کو دوبارہ اس کی گود میں ڈال دیا۔ ڈاکٹر، رشتے دار، تمام دیکھنے اور سننے والے بے اختیار کہہ اٹھے: یہ ماں کی دعا کا کرشمہ ہے جسے بارگاہ الٰہی میں قبولیت کا شرف حاصل ہوا۔
***
اگر یہ کہا گیا ہے کہ دعا عبادت کا ’’مغز‘‘ ہے تو غلط نہیں۔ رب سے گڑگڑا کر دعائیں مانگنی چاہئیں، رب العزت کو اپنے بندے کی یہ ادا پسند آتی ہے۔ دعا نہ مانگنا تکبر کی نشانی ہے۔ ہم اپنے رب کی ناچیز، حقیر مخلوق ہیں جسے رب نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا ہے، لیکن اپنی ادنیٰ سے ادنیٰ خواہش کے لیے ہم اپنے رب کے محتاج ہیں، اسی لیے اس سے مانگتے ہیں اور وہ ہماری دعا قبول کرتا ہے اور مرادیں پوری کرتا ہے۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی مصلحت کے تحت (جسے ہم نہیں جانتے، ہمارا رب جانتا ہے) دعائیں دیر سے قبول ہوتی ہیں۔ یا پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم جو اپنے رب سے مانگتے ہیں رب العزت اس سے بھی بہتر سے ہمیں نوازتا ہے، اور کبھی کبھار اگر ہماری دعائیں کسی مصلحت کے تحت رب کریم اس دنیا میں پوری نہیں کرتا تو اس کا اجر آخرت میں دے گا۔ خدا ہماری خواہشوں سے بھی زیادہ بہتر ہمیں نوازتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک خاتون کا بتایا ہوا واقعہ آپ سب سے شیئر کروں گی۔
***
واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک خاتون کے دو بیٹے تھے۔ اللہ نے بڑے بیٹے کو تو خوب دولت سے نوازا، اس کا کاروبار دن بدن ترقی کرتا گیا، لیکن چھوٹا بیٹا جس کی آل اولاد بھی زیادہ تھی، مفلس تھا۔ دو وقت کی روٹی ہی کا بندوبست کرپاتا۔ ماں تھی، ظاہر ہے چھوٹے بیٹے کی حالت پر اس کا دل کڑھتا۔ وہ رب کے حضور دعائیں مانگتی کہ اسے بھی خوشحالی نصیب ہو۔ بہت عرصے تک جب اس کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو خدا سے بھی شکایت کرنے لگی کہ میری دعائیں پوری نہیں ہورہی ہیں۔ ایک دن خواب میں دیکھا کہ کوئی اس سے کہہ رہا ہے کہ اللہ کی بندی تیرے بیٹے کی موت تو آج سے کتنے عرصے پہلے ہی لکھ دی گئی تھی، یہ تیری دعائیں ہیں کہ جن کے بدلے رب نے اس کی موت کو ٹال کر اسے زندگی دی ہے۔ تب وہ عورت مطمئن ہوگئی اور اپنے رب کا شکر ادا کرنے لگی جس نے اس کی دعاؤں کے طفیل اس کے بیٹے کو نئی زندگی عطا کی ہے۔
***
بیشک اس کی مصلحتیں وہی جانے۔ انسان بے بس ہے۔ لیکن اسے دعاؤں کا سلسلہ بند نہیں کرنا چاہیے اور نہ یہ سوچنا چاہیے کہ وہ میری نہیں سنتا۔ اپنے لیے دعائیں مانگیں تو اس وقت دوسروں کو بھی یاد رکھیں، ان کے لیے بھی رب سے دعا کریں، کیونکہ کہا جاتا ہے کہ وہی دعائیں قبول ہوتی ہیں جن میں دوسروں کے لیے بھی بہتری مانگی جائے، اور ایک کوشش یہ بھی ہونی چاہیے کہ ہمارا کوئی قدم اور عمل ایسا نہ ہو جس سے دوسرے کو اذیت پہنچے اور وہ بددعا دینے پر مجبور ہوجائے، یا اس کے دل سے ’’آہ‘‘ نکل جائے۔ کیونکہ جس طرح دعائیں کرشمہ دکھاتی ہیں اسی طرح کسی کی ’’آہ‘‘ اور ’’بددعا‘‘ بھی اثر دکھاتی ہے۔ خصوصاً والدین کی بددعا سے ڈریں، انہیں ناراض نہ کریں کہ کبھی ان کے دل سے آہ نکل جائے یا لبوں سے بددعا۔ ہم نے اور آپ نے اپنے اردگرد ایسے ہزاروں واقعات دیکھے اور سنے ہوں گے کہ والدین کو ناراض کرنے والوں کا دنیا میں ہی حشر برا ہوا اور ان کی زندگی اذیت ناک اور دوسروں کے لیے عبرت ناک بن گئی۔ اللہ رحم کرنے والا ہے اور رحم کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ دوسروں پر ظلم و تشدد کرنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اور مظلوم کی آہ اور بددعا عرش پر پہنچنے میں دیر نہیں کرتی۔
سعدیہ رخصت ہوکر سسرال پہنچی تو بہت سے ارمان اور خواب سجائے دہلیز پار کی، لیکن اس کے سب خواب چکناچور ہوگئے۔ گھر والوں کا سرد اور ناخوشگوار رویہ اُس کے ارمانوں پر بجلی بن کر گرا، خصوصاً نند جو اس کی تقریباً ہم عمر اور غیر شادی شدہ تھی، ہر وقت زہر میں ڈوبی تلوار کی مانند اس کے سر پر مسلط رہتی۔ سیدھی سادی، کم عمر سعدیہ کا حوصلہ جواب دے گیا، کوئی لمحہ ایسا نہ ہوتا کہ نند اس کو ایذا اور تکلیف دینے سے اپنے آپ کو روکتی یا گریز کرتی، بلکہ دن بدن اس کا رویہ بھاوج کے ساتھ تلخ ہوتا گیا۔ سونے پر سہاگہ ماں نے بھی اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ سعدیہ کی یہ حالت کہ ہر وقت ڈری سہمی رہتی، دونوں ماں بیٹی کو خوِ رکھنے کی کوشش کرتی، اپنا محاسبہ کرتی کہ ان کی ناراضی کی وجہ جان سکے، لیکن کچھ حاصل نہ ہوا۔ بس رو کر اپنے رب کے حضور جھک جاتی، اور اسے اللہ کے قرب سے ہی سکون ملتا۔ ساس سسر اپنی بیٹی کی طبیعت سے واقف تھے، انہوں نے اپنے تئیں بھرپور کوشش کرکے بیٹی کے لیے ایسا رشتہ تلاش کیا جو چھڑا ہو، نہ ساس نہ سسر، نہ نند، نہ دیور دیورانی کا چکر ہو، تاکہ ان کی بیٹی کی زندگی آرام سے گزرے۔ لیکن رب کی تدبیریں کچھ اور ہی ہوتی ہیں۔ سعدیہ کی نند شادی کرکے شوہر کے گھر پہنچی تو شوہر اس سے بھی دو ہاتھ آگے نکلا۔ اگر وہ چنگاری تو اُس کا شوہر پورا شعلہ تھا۔ دونوں میں کھٹ پٹ شروع ہوگئی۔ اس نے 6/5 سال میں بھابھی کی زندگی جہنم بنادی تھی، یہاں اس کی زندگی جہنم بن گئی۔ 7۔8 سالوں میں ہی شوہر نے دو بچوں کی پیدائش کے بعد اسے طلاق دے دی۔ سعدیہ کو اپنی نند کے حالات پر انتہائی افسوس ہوا۔ اس نے گرچہ اپنی نند کو کبھی بددعا نہیں دی تھی لیکن اکثر اس کے دل سے یہ آہ نکل جاتی کہ کاش اس کی نند کو اس کا احساس ہو اور اسے اپنی غلطی محسوس ہو۔
***
اسلام میں دعا کی بڑی اہمیت ہے۔ دعا رد نہیں ہوتی بلکہ بہترین وقت میں قبول ہوتی ہے۔آپؐ نے فرمایا ’’دعا بہترین عبادت ہے‘‘۔
صحیح بخاری کی ایک حدیث مبارکہ ہے۔ سعد بن ابی وقاصؓ کا خیال تھا کہ انہیں دوسرے بہت سے صحابہ پر (اپنی مالداری اور بہادری کی وجہ سے) فضیلت حاصل ہے تو آپؐ نے فرمایا ’’تم لوگ صرف اپنے کمزور اور معذور لوگوں کی دعاؤں کے نتیجے میں اللہ کی طرف سے مدد پہنچائے جاتے ہو اور ان ہی کی دعاؤں سے رزق دیئے جاتے ہو۔‘‘ (سبحان اللہ)
صحیح مسلم کی ایک اور حدیث مبارکہ کچھ اس طرح ہے ’’جو اپنے بھائی کی غیر موجودگی میں اس کے لیے دعا مانگتا ہے وہ قبول ہوتی ہے۔ اور اس کے قریب ایک فرشتہ کھڑا ہوتا ہے جو کہتا ہے
’’اے اللہ اس کو بھی وہ عطا کر جو یہ اپنے بھائی کے لیے مانگتا ہے۔‘‘
اسی طرح سورۃ البقرہ کی آیت 216 میں رب العزت کا فرمان ہے:
’’ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار گزرے اور وہی تمہارے لیے بہتر ہب۔ اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے‘‘۔
بے شک اللہ ہماری وہی دعائیں قبول کرتا ہے جو ہمارے لیے بہتر سمجھتا ہے، لیکن دعاؤں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے کیونکہ یہ عبادت کا جز اور مغز ہیں۔
nn