ہم دوسرا گال پیش نہیں کرتے (اوریا مقبول جان)

347

امتِ مسلمہ کا حال بالکل سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں بیان کردہ پیش گوئی کے مصداق ہوچکا ہے جس میں آپؐ نے فرمایا تھا: ’’تم پہلی امتوں کی اسی طرح پیروی کرو گے جس طرح بالشت بالشت کے برابر اور گز گز کے برابر ہوتا ہے، یہاں تک کہ اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں گئے ہوں گے تو تم ان کی پیروی کرو گے‘‘۔ ہم لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، کیا یہود و نصاریٰ کی پیروی کریں گے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’اور کون ہوسکتا ہے‘‘ (متفق علیہ)۔ یہود پر بار بار عذاب اترے اور انھیں بار بار اللہ کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا۔
اللہ قرآن پاک میں ان کی ذلت و رسوائی اور ان پر عذاب کی جو وجوہات بتاتا ہے، کیا وہ ہم سے مختلف ہیں۔ ’’پھر ذرا یاد کرو، ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا۔ تم نے اس کا اقرارکیا تھا، تم خود اس پر گواہ ہو، مگر آج تم ہی ہو جو اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو، اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کردیتے ہو، ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھے بندیاں کرتے ہو، اور جب وہ لڑائی میں پکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں تو ان کی رہائی کے لیے تاوان کا لین دین کرتے ہو، حالانکہ انھیں ان کے گھر سے نکالنا ہی سرے سے حرام تھا۔ تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو۔ تم میں سے جو لوگ ایسا کرتے ہیں اُن کی سزا اِس کے سوا کیا ہے کہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوکر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں۔‘‘ (البقرہ 85)
قرآن پاک کی اس آیت میں یہودیوں کی حرکات، جرائم اور بداعمالیوں کو ایک نکتے سے واضح کیا ہے اور آیت کا بہاؤ یہود کے ان جرائم کی بنیادی وجہ کی جانب لے جاتا ہے، اور وہ وجہ یہ ہے کہ ’’تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو‘‘۔ یہ وہ تفریق تھی جو یہود نے اللہ کی تعلیمات اور احکام کے بارے میں کی۔
آج پوری مسلم امہ میں آپ کو ایسے ہزاروں علماء، دانشور، ادیب، مذہبی اسکالر بلکہ مذہبی کالم نگار ملیں گے جو یہودیوں کی اس روش کے مطابق کتاب اللہ کی تعلیمات کو اپنی مرضی سے تقسیم کرتے ہیں۔ سب سے بڑی تقسیم تو یہ ہے کہ یہ دنیا کے معروضی حالات و واقعات ہیں، یہ الیکشن، جمہوریت، پارلیمنٹ، بین الاقوامی تعلقات، عالمی برادری، سودی معاشی نظام، سب کے سب جدید دنیاوی زندگی کے بکھیڑے ہیں، ان کے بارے میں قرآن پاک یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے رہنمائی لینے کی کیا ضرورت ہے! دین تو لوگوں کی تربیت اور تزکیے کے لیے آیا ہے، اجتماعی خیر تو یتیموں، بیواؤں کی مدد اور پڑوسی سے حُسنِ سلوک کے رویوں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیکن شام، عراق، افغانستان میں اگر مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے تو ایسے میں ہمیں اپنا مفاد اور اپنے ملک کا مفاد دیکھنا چاہیے۔
ایسے میں اس امتِ مسلمہ کے پچاس سے زیادہ ممالک ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں اور قرآن کے ان واضح احکامات کا انکار یعنی کفران کردیتے ہیں جو سورہ النساء کی آیت میں ہیں ’’اور تم کو کیا ہوا کہ نہیں لڑتے اللہ کی راہ میں اُن کے واسطے جو مغلوب ہیں، مرد اور عورتیں اور بچے، جو کہتے ہیں اے رب ہمیں نکال دے ان ظالموں کی بستی سے اور بھیج دے ہمارے واسطے اپنی طرف سے کوئی حمایتی، اور بھیج دے ہمارے واسطے اپنی طرف سے کوئی مددگار۔‘‘ (النساء 75)
پاکستان میں ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند ہوتا ہے اور اس کے ہوائی اڈوں سے 57 ہزار دفعہ امریکی جہاز اڑتے ہیں اور مسلمان افغان بھائیوں کے گھر برباد کرتے ہیں اور جسموں کے پرخچے اڑاتے ہیں۔ ملکی مفاد میں ہی سعودی عرب یمن پر بمباری کرتا ہے، اس کی بستیاں اجاڑتا ہے اور 34 اسلامی ممالک ایک فوج بنا لیتے ہیں کہ سعودی عرب کی سالمیت کو مسلمان کے خون پر ترجیح دی جا سکے۔ یہ ہیں معروضی اور زمینی حقائق۔ ایران اپنے مفاد کے لیے عراق اور شام میں موجود مسلمانوں پر نہ صرف خود حملہ آور ہوتا ہے، وہاں کی حکومتوں کا ساتھ دیتا ہے بلکہ وہ ایک غیر مسلم ملک کی مدد بھی حاصل کرتا ہے۔
روس کے جنگی جہاز حلب شہر میں بسنے والے کلمہ گو مسلمانوں کے گھروں کو کھنڈر اور بستیوں کو قبرستان بنا دیتے ہیں۔ قرآن و سنت تو ایک طرف، سیدنا علیؓ کی زندگی کو دیکھ لیں، ان کی تمام جنگیں کلمہ گو مسلمانوں کے ساتھ ہوئیں، کیا انھوں نے کبھی اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے پڑوس میں عیسائی رومن حکومت کی مدد حاصل کی؟
یہ حرکت تو ان کے مخالفین حضرت امیر معاویہؓ اور خارجیوں نے بھی نہیں کی تھی۔ لیکن معروضی حالات، زمینی حقائق، بشارالاسد کی حکومت کو بچانا اور ایران کی بالادستی کے قیام کا قرآن کے پیغام سے کیا تعلق! یہ سب تو علاقائی سیاست ہے اور جدید قومی ریاستوں کی ضروریات ہیں۔ قومی ریاست کے تحفظ کے لیے مسلمان کا خون بھی حلال ہوسکتا ہے۔
اس امتِ مسلمہ کے مقابل ایک اور امت ہے، ایک ایسی امت جس پر اللہ نے ذلت و مسکنت مسلط کردی تھی۔ 70ء میں رومن حکومت نے یروشلم پر حملہ کرکے، ان کے ہیکل کو تباہ کردیا اور انھیں وہاں سے نکال دیا۔ اس کے بعد یہ قوم پوری دنیا میں دربدر ہوگئی۔ ہر ملک میں ان پر ظلم کے پہاڑ ٹوٹے، بار بار بے گھری اور ہجرت دیکھی، لیکن دو ہزار سال تک وہ اس بات پر پختہ یقین رکھے رہے کہ انھیں ایک دن یروشلم واپس آنا ہے اور پھر وہاں ان کا مسیحا آئے گا جو ان کی حضرت داؤدؑ اور حضرت سلیمانؑ کی سطح کی عالمی حکومت قائم کرے گا۔
اپنے صحیفوں میں درج روایات اور اپنے اخیار اور رہبان کے نظریات کے مطابق یہ لوگ 1920ء میں فلسطین میں قافلہ در قافلہ آباد ہونا شروع ہوئے۔ ان میں اکثریت اُن کی تھی جو پیرس، لندن، برلن، نیویارک اور دیگر بڑے شہروں میں بہترین گھروں میں رہتے تھے اور وسیع کاروبار کرتے تھے، لیکن یہ لوگ اپنے مذہب میں بتائی گئی پیش گوئیوں کے مطابق حیفہ اور تل ابیب جیسے ریگستان میں جا کر آباد ہوگئے، جہاں چاروں طرف عرب مسلمان ان کی جان کے دشمن تھے۔ 14 مئی 1948ء کو ان کا ملک بنا تو انھوں نے اعلان کیا کہ ’’اسرائیل آئین نہیں بنائے گا کیونکہ ہمارا آئین تورات ہے۔‘‘
1967ء میں انھوں نے رنگ، نسل، زبان اور علاقے میں بکھری ہوئی مسلم امہ کو بدترین شکست دے کر اپنے مقدس شہر یروشلم پر قبضہ کرلیا۔ فتح کا جشن پیرس میں منایا گیا، جہاں اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں کسی اور ملک سے کوئی خطرہ نہیں سوائے پاکستان کے، کیونکہ یہ ہمارا نظریاتی حریف (Ideological equal ) ہے۔ آج بغداد، دمشق، حلب، موصل اور بیروت سمیت یروشلم کے اردگرد ہر بڑا شہر تباہ ہوچکا ۔ یہودی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اب وہ وقت نزدیک ہے جب دنیا بھر کی طاقت کا مرکز یروشلم ہوگا۔
اس کے لیے دنیا کے معاشی دارالحکومت (financial Capital) کو نیویارک سے یروشلم منتقل کرنا ضروری ہے، اور یہ سارے کا سارا صرف ایک وال اسٹریٹ پر مشتمل ہے۔ دنیا بھر کی 45 ہزار کارپوریشنوں کو 22 بینک کنٹرول کرتے ہیں۔ یہ سب اس ایک گلی میں موجود ہیں۔ اس منتقلی کے لیے امریکا سے ایک کھلی جنگ ضروری ہے۔ امریکی معاشرے کے تعصبات کو اجاگر کرکے ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوایا جا چکا ہے۔ اکیاون ریاستوں پر مشتمل امریکا کس قدر آسانی سے اکیاون ملکوں میں تقسیم ہوسکتا ہے، اس کا اندازہ صرف اسرائیل کو ہے۔
کیا دنیا کو اس بات پر حیرت نہیں ہوئی کہ وہ امریکا جس کے ہر ادارے میں اسرائیلی صہیونی لابی چھائی ہوئی ہے، جس کا میڈیا ان کی دسترس میں ہے، وہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں اسرائیل کے خلاف قرارداد کو ویٹو نہ کرے، وہ اوباما حکومت جس کے دور میں مشرقی یروشلم اور مغربی کنارے پر سب سے زیادہ گھر تعمیر ہوئے ہوں۔ 2009 میں 4,905,737 گھر تھے اور 2014ء میں 5,94,000 یہودی گھر تعمیر ہوگئے۔
اس قرارداد کے منظور ہوتے ہی اسرائیل نے سیکورٹی کونسل کے رکن پندرہ ممالک کے سفیروں کو بلا کر غم و غصے کا اظہار کیا۔ یروشلم کے میئر نے کہا کہ ہم 5,600 نئے گھر بنا رہے ہیں، لیکن وزیراعظم نیتن یاہو نے پوری مسیحی دنیا کو للکارتے ہوئے کہا ’’اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جسے یہودی قومیت پر فخر ہے۔ ہم تم لوگوں کی طرح حضرت عیسیٰ کی تعلیمات پر عمل نہیں کرتے کہ اگر کوئی تمہیں ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال آگے کر۔دو، ہم دوسرا گال آگے نہیں کرتے۔‘‘
اسرائیل کے وزیراعظم کا یہ بیان معروضی، تزویراتی اور زمینی حقائق پر مبنی نہیں ہے بلکہ اس یقین کی بنیاد پر ہے کہ انھیں ایک دن سب کو شکست دے کر عالمی قوت بن جانا ہے۔ کیا امتِ مسلمہ کو قرآن کی آیات اور سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں پر اتنا یقین ہے؟ کیا وہ اس آخری جنگ کے لیے تیار ہیں؟
nn

حصہ