کہا کہا جائے ۔۔۔کیا لکھا جائے ؟(ڈاکٹر زرینہ)

278

آج کل بہت زیادہ بات ہورہی ہے بلیک فرائی ڈے کی۔ فرائی ڈے جمعہ اور وہ بھی بلیک یعنی کالا۔ نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ ایک مسلمان جمعہ کو کالا کیسے کہہ سکتا ہے! جب کہ ہمارے پیارے رسولؐ نے اس کو ’’سیدالایام‘‘ یعنی دنوں کا سردار (عید کا دن) کہا ہے اور اس میں کرنے کے اعمال خاص طور سے بتائے ہیں۔ قرآن شریف میں سورہ جمعہ نازل کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ نماز جمعہ کے وقت سارے دنیاوی کام چھوڑ کر مسجد کا رُخ کرو۔ جو لوگ عام طور پر مسجد میں نماز نہیں پڑھتے، وہ بھی جمعہ کے روز اہتمام سے تیار ہوکر مساجد کا رُخ کرتے ہیں۔ تو پھر جمعۃ المبارک جیسے مبارک دن کو بھلا کالا یعنی خراب کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟
اصل میں ہم مسلمان بے چارے مغرب سے اتنے مرعوب ہیں کہ ہر اچھی بری چیز کی نقل کرنے کو تیار ہیں۔ یہ نقالی کرنے والے چاہے اپنے آپ کو کتنا ہی تیس مار خان اور تہذیب یافتہ کیوں نہ سمجھیں، لیکن ہیں تو غلام ذہنیت ہی کے مالک۔ ان میں احساسِ کمتری کارفرما ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ مغربی تہذیب کو اپنے سروں پر سوار کرلیتے ہیں۔ جو دین کی اہمیت نہیں سمجھتا، وہ دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے۔ یہ زندگی جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بس ایک دفعہ ہی ملے گی، تو کچھ لوگ اِسے ایسے کاموں میں استعمال کرنا چاہتے ہیں جو ان کو دنیاوی لذت دیں۔ لذت تو دین کے کاموں میں بھی ہے اور بہت ہے۔ ایسے کام، جو اللہ کی خوشنودی کو مدنظر رکھ کر کیے جاتے ہیں۔ لیکن دنیا دار کو اس لذت کا کیا تجربہ؟
یہ ’’کالا جمعہ‘‘ ہمارے یہاں متعارف کروانا دراصل مغربی کلچر کا ہمارے کلچر میں ایک اور تہوار کا اضافہ کرنا ہے۔ اس کو ’’سستی چیزوں‘‘ کی شیرینی میں لپیٹ کر پیش کیا گیا ہے تاکہ نگلنے میں آسانی ہو۔ ارے بھئی چیزیں سستی کرنا تو بڑی نیکی کا کام ہے، لیکن اس کے لیے یہ خاص جمعہ ہی مختص کیوں؟ ہر مہینے ایک دن لوگوں کی سہولت کے لیے تاجر حضرات چیزیں سستی کریں اور ثواب کمائیں، اور تو اور رمضان المبارک اور عید میں تو ضرور بالضرور ایسا کردیا کریں۔ لیکن وہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے۔ رمضان اور عید میں مسلمان کو سہولت دینے کے بجائے ہر چیز کی قیمت آسمان پر پہنچادی جاتی ہے۔
دراصل کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی چال بھی بھول گیا۔۔۔ اگر ہنس کی چال چلنا تھی تو جیسے وہ اپنے تہواروں میں ہر چیز بالکل سستی کردیتے ہیں، یہ بھی اپنے تہواروں یعنی رمضان، عید اور بقرعید میں خوب سیل لگاتے اور اشیائے ضرورت سستی کرتے۔ لیکن یہ تو اُس وقت اس فارمولے پر عمل کرتے ہیں جو اسلام میں سخت ناپسندیدہ ہے کہ ضرورت کے حساب سے قیمتیں بڑھادو، یعنی ضرورت زیادہ ہو تو قیمت بھی زیادہ لو، اس لیے دوسروں کے تہوار پر چیزیں سستی کرنے اور اپنے تہواروں پر قیمتیں بڑھا دینے کا یہ فارمولا بالکل سمجھ میں نہیں آیا۔ سمجھ میں آیا تو یہ کہ ہمارے اسلامی معاشرے کے ساتھ دھیرے دھیرے مصنوعی لیپا پوتی کرکے کھلواڑ کا عمل جاری ہے۔ مدرز ڈے، فادرز ڈے، ویلنٹائن ڈے محبتوں کے نام پر لپیٹ کر ہمارے معاشرے میں داخل کیے گئے ہیں، جب کہ ہمارے یہاں سارے دن محبتوں کے ہیں۔ ماں، باپ سے محبت تو فریضہ ہے۔ ان سے اُف تک نہ کرنے کا حکم قرآن شریف میں ہے، میاں بیوی کی پاک و صاف محبت کو بھی بہت سراہا گیا ہے۔ محبت کرنے والی بیوی دنیا کا سب سے بہترین سرمایہ ہے، کہا گیا ہے کہ محبت اور خدمت کرنے والی بیوی جنت میں حوروں کی سردار ہوگی۔ قرآن شریف میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے۔ کیا مغرب کا ویلنٹائن ڈے اس جملے کا مقابلہ کرسکتا ہے؟
ایک دوسری اہم بات یہ ہے جو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث میں بیان کی ہے کہ جس قوم سے مشابہت اختیار کرو گے رہن سہن میں، بود وباش میں، طور طریقوں میں، قیامت میں اسی قوم کے ساتھ اٹھائے جاؤ گے۔ اللہ نہ کرے کہ ہمارے مسلمان بھائی بہن قیامت کے دن مغربی اقوام کے ساتھ اٹھائے جائیں۔۔۔ ان کے ساتھ، جو آخرت جانتے ہی نہیں، ان کے لیے تو دنیا ہی سب کچھ ہے۔
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری قوم کو بحیثیت قوم اپنی شناخت کروانے کی توفیق عطا فرمائے۔ جس قوم نے اللہ کو اپنا رب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا قائد مان لیا، وہ کسی دوسرے کی طرف کسی بھی چیز کے لیے کیوں دیکھے؟ ہمارا دین مکمل ہے اور ہمارے نبیؐ کی تعلیمات میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں، بس ساری بات عمل کی ہے۔ ہم نے نبی پاکؐ کا اُسوہ تھام لیا تو ہماری ساری منزلیں آسان ہوجائیں گی۔۔۔ ان شاء اللہ!!

حصہ