شام: لہو رنگ سرزمین

332

یہ چار الفاظ شامی صورتِ حال کی مکمل تصویر ہیں، بچے اور خواتین سب مل کر پکار رہے تھے: یااللہ! آپ کے علاوہ ہمارا کوئی نہیں بچا!۔
یوں تو اسد خاندان گذشتہ 53 سال سے ظلم ڈھا رہا ہے۔ جس کی بڑی مثال فروری 1928ء میں مسلسل 27 روز تک شہر ’حماۃ‘ کا محاصرہ اور بمباری کرکے 37 ہزار بے گناہ افراد شہید کرنا، تدمر جیل میں 1200 قیدیوں کو بلا جرم اور بلا مقدمہ پھانسیاں دینا شامل ہے۔ 11 اگست 1980ء کو عین عید الاضحی کے دن حلب شہر پر ہلہ بول کر سیکڑوں شہری گرفتار اور پھر شہید کردیے۔ ان کا صرف ایک قصور تھا کہ وہ الاخوان المسلمون سے تعلق رکھتے تھے۔ شامی دستورِمملکت 49 کے مطابق آج بھی اخوان سے تعلق ثابت ہوجانے کی سزا پھانسی ہے۔ یہ مظالم کے چند نمونے ہیں۔ لیکن گذشتہ پانچ سال کے دوران تو درندگی کی انتہا کردی گئی ہے۔ بشارالاسد نے صرف اقتدار بچانے کی خاطر پورا ملک کھنڈر بنا دیا، لاکھوں بے گناہ شہید اور سوا کروڑ سے زائد بے گناہ شہری مہاجرت کے جہنم میں جھونک دیے۔ 13 دسمبر کو تاریخی شہر حلب میں رہ جانے والے باقی ماندہ 48 ہزار افراد کا خود اپنی لاشیں اٹھائے اپنے شہر سے نکل جانا بھی اس تباہی کا ایک خونیں باب ہے۔ جاتے ہوئے کچھ بچے کھنڈرات کی دیواروں پر لکھ گئے: حلب! تیرے اہل خانہ جلد واپس آئیں گے۔
تازہ صورتِ حال کا جائزہ لینے سے پہلے آئیے، چند اَن کہی ذاتی یادداشتوں کی روشنی میں شام کا مسئلہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
بشار کا نام اقتدار کے وارثوں میں شامل نہیں تھا۔ شامی آمرمطلق حافظ الاسد اپنے بڑے بیٹے باسل الاسد (م: 21 جنوری 1994ء) کو اپنے بعد اقتدار کے لیے تیار کررہا تھا۔ بشار نے دمشق میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کی۔ 1992ء میں وہ امراضِ چشم میں تخصص کرنے لندن چلا گیا۔ 21 جنوری 1994ء کو باسل الاسد تیزرفتاری کے باعث حادثے کا شکار ہوگیا، تو لندن میں زیر تعلیم بشار کو واپس بلاکر مختلف ریاستی ذمہ داریاں سونپی جانے لگیں۔
10 جون 2000ء کو حافظ الاسد ہزاروں بے گناہوں کا خون سر پہ لے کر انتقال کرگیا، تو اقتدار ڈاکٹر بشار الاسد کے سپرد ہوا۔ آغاز میں امید پیدا ہوئی کہ بشار اپنے باپ سے مختلف ثابت ہوگا۔ اس نے آغاز میں کئی اچھے اقدامات بھی کیے۔ اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ اس نے خود بھی، شام کے نظام حکومت میں اہم تبدیلیاں کرنے اور عوام کو آزادیاں دینے کے لیے ایک نیا آغاز کرنے کے بارے میں مشورے کیے۔ کئی ممالک میں وفود بھی بھیجے تاکہ اصلاحات کے لیے مشاورت کی جاسکے۔ بعض ارکان پارلیمنٹ اور علماے کرام پر مشتمل ایک وفد پاکستان بھی آیا جس نے سرکاری ذمہ داران کے علاوہ امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور سے بھی مفصل ملاقات کی۔ اس وفد میں شامل بعض نوجوان رہنماؤں نے الگ ملاقات میں رازدارانہ انداز سے بتایا کہ بشار الاسد، شام میں الاخوان المسلمون اور اسلامی ذہن رکھنے والے دیگر افراد کے خلاف اپنے والد کی پالیسی تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اس طرح خود اخوان اور دیگر اسلامی تحریکات کے ساتھ بشار الاسد سے بالواسطہ خاموش مذاکرات کا دروازہ کھل گیا۔ الجماعۃ الاسلامیہ لبنان کے سربراہ علامہ فیصل المولاوی مرحوم کی سربراہی میں ایک وفد دمشق جاکر بشار سے ملا، یوں مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہوگئے۔ اس نے 18 سال سے جیلوں میں پڑے ہزاروں بے گناہوں میں سے سیکڑوں افراد رہا کردیے۔ جیلوں میں ان پر کیا گزرتی رہی اس کی جھلک دیکھنے کے لیے ’منشورات‘ لاہور کی شائع کردہ کتاب صرف پانچ منٹ کا مطالعہ ضرور کیجیے۔ یہ ہماری ایک شامی بہن ھبہ الدباغ کی آپ بیتی ہے، جسے حافظ الاسد کے درندے اس کے ہاسٹل سے یہ کہہ کر لے گئے تھے کہ: ’’صرف پانچ منٹ بعد واپس آجاؤگی‘‘۔ پھر وہ اور اس جیسی سیکڑوں بہنیں کئی سال تک موت و حیات کی دہلیز پر تڑپتی رہیں۔ ھبہ 9 سال بعد جیل سے رہا ہوئی تو ماں باپ اور بہن بھائیوں میں سے کوئی ایک فرد بھی زندہ نہیں رہنے دیا گیا تھا۔
مذکورہ بالا کوششوں کے دوران میں ’حزب اللہ‘ لبنان کے سربراہ حسن نصراللہ سے راقم کی دومفصل ملاقاتیں ہوئیں۔ لبنان، فلسطین اور عالم اسلامی کی صورتِ حال کے علاوہ خود شام اور بشارالاسد کے بارے میں ان کی گرم جوشی اور تعریف و تحسین نے اسلامی تحریکات کی مصالحتی کوششوں کو نئی اُمیدوں سے آشنا کر دیا۔ ’حماس‘ اور ’جہاد اسلامی‘ فلسطین کی قیادت بھی اس وقت دمشق میں تھی، مگر ان پر لگی کئی پابندیاں گاہے خود انھیں پریشان کردیتی تھیں۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد معاملات منجمد ہونے لگے۔ بشار کے قریبی ساتھیوں نے بتایا کہ: ’’بعث پارٹی کی پرانی قیادت بشار کی راہ میں رکاوٹ ہے، اس لیے ذرا احتیاط اور صبر سے آگے بڑھنا ہوگا‘‘۔ اس طرح یہ احتیاط پہلے انتظار،پھر خاموشی اور آخرکار انکار کی صورت اختیار کرگئی۔
2011ء میں تیونس اور پھر مصر، یمن اور لیبیا میں ’عرب بہار‘ کی اُمید پیدا ہوئی تو شام کے عوام نے بھی آزادی سے سانس لینے کی اجازت مانگی۔ حلب اور دیگر کئی شہروں میں طلبہ اور عام شہریوں نے پرامن مظاہرے کیے۔ مصر اور تیونس میں تو عوام نے الشعب یرید اسقاط النظام ’’عوام اس نظام کو گرانا چاہتے ہیں‘‘ کا نعرہ لگایا تھا، مگر ان کے برعکس شامی عوام نے صرف یہ نعرہ لگایا کہ الشعب یرید اصلاح النظام ’’عوام نظام حکومت میں اصلا ح چاہتے ہیں‘‘۔ ان کا مطالبہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی بحالی تھا۔ بدقسمتی سے بشار اور اس کے حواریوں نے خالی ہاتھ، مجبور شہریوں کو پرامن مظاہرہ کرنے کی اجازت بھی نہ دی۔
عوام نے پرامن مظاہرے جاری رکھے، توبشار نے ابتدائی چند روز کے بعد ہی ان پر گولیوں کی بوچھاڑ شروع کردی۔ تب عوام نے قربانیوں کا سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ کچھ ہی عرصے بعد بشار فوج کے کئی نمایاں جرنیلوں اور ان کے ساتھیوں نے بھی بشار سے بغاوت کرتے ہوئے عوام کے ساتھ ملنے کا اعلان کردیا۔ پھر بشار کی نہایت قابلِ اعتماد کابینہ کے ارکان بھی اس کا ساتھ چھوڑنے لگے۔ پرامن تحریک مسلح ہوتی چلی گئی۔ بشارالاسد کی فوج اور انتظامیہ، عوام کے سامنے ایک کے بعد دوسرے شہر سے پسپا ہونے لگی۔ انھی شہروں میں حلب بھی شامل تھا۔ مارچ 2012ء میں اس کا کنٹرول عوام نے سنبھال لیا۔ تب لگتا تھا کہ بشار اقتدار چند روز کا مہمان ہے۔
اب ذرا خطے کا نقشہ ذہن میں تازہ کیجیے۔ ایران، عراق، شام اور لبنان ایک دوسرے سے متصل ممالک ہیں، جو شمال میں ترکی سے جا ملتے ہیں۔ لبنان طویل عرصے تک شام کے براہِ راست نفوذ میں رہا ہے۔ جنوبی لبنان اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر صہیونی قبضے کے بعد اس کے نفوذ میں مزید اضافہ ہوگیا۔ سابق لبنانی وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل کے بعد بالآخر لبنان میں موجود شامی فوجی دستوں کو لبنان سے نکلنا پڑا۔ اس تناؤ کے باوجود لبنان کی شیعہ ملیشیا حزب اللہ اور شام کے مابین تعلقات میں کمی آنے کے بجائے مزید اضافہ ہوتا چلا گیا۔ دوسری جانب مارچ2003ء میں عراق پر امریکی قبضے اور صدام حکومت کے خاتمے کے بعد اب تک وہاں جتنی بھی حکومتیں بنیں، ایران کی مرضی سے بنی ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ بحیرۂ روم کے کنارے واقع لبنان اور شام اب عراق کے راستے براہِ راست ایران سے مل گئے ہیں۔ عملاً ان چاروں برادر ممالک کے درمیان سرحدیں ختم ہوگئیں۔ اس ملاپ پر پوری امت فخر و مسرت کا اظہار کرتی، اگر اس عمل میں تعصب کا رنگ نہ جمایا جاتا۔ لاکھوں بے گناہ انسانوں کا خون نہ بہایا جاتا۔ اس تباہ کن منظرنامے (مذہبی تعصب اور خوں ریزی) نے ان برادر ملکوں کے عوام ہی کو نہیں پوری امت کو انتشار و افتراق کی تباہی سے دوچار کردیا ہے۔ وہی قوت و صلاحیت جو امت کے دفاع، اسرائیلی جارحیت سے نجات اور عالمِ اسلام کی خوش حالی و ترقی میں صرف ہونا تھی، اب بھائی کو بھائی کے خون کا پیاسا بنانے میں تباہ ہورہی ہے۔ اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2016ء میں صرف عراق میں 12ہزار 38 افراد قتل ہوئے، جن میں سے 6 ہزار 4 سو 29 عام شہری تھے۔
اس وقت شام و عراق کے اس قتل عام کے کئی محاذ ہیں۔ بشارالاسد کی شامی افواج کی مدد کے لیے ایرانی افواج اور حزب اللہ اول روز سے میدان میں ہیں۔ ستمبر2015ء میں روس نے بھی بشار کی مدد کے لیے افواج اتار دیں۔ 2014ء میں مختلف مسلح گروہوں نے مل کر داعش بنانے کا اعلان کردیا، جس کے مقابلے کے لیے امریکا درجنوں حلیفوں سمیت حملہ آور ہوا۔ اس کے اپنے اعلان کے مطابق: ’’امریکا داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے شام و عراق پر اب تک 27 ہزار سے زائد فضائی حملے کرچکا ہے‘‘۔ اس اعلان کے باوجود یہ بھی ایک راز ہے کہ ان ہزاروں حملوں کے نتیجے داعش نہ صرف باقی ہے، بلکہ پہلے سے بھی زیادہ جدید اسلحے سمیت موجود ہے۔
27 دسمبر2016ء کی شام ترکی میں ایک نئی سرنگ اور شان دار سڑک کا افتتاح کرتے ہوئے ترک صدر طیب اردوان نے ایک بار پھر وثوق سے کہا ہے: ’’ہمارے پاس ٹھوس شواہد اور دستاویزی ثبوت ہیں کہ شام کے شمال میں موجود داعش کو براہِ راست امریکی امداد مل رہی ہے۔ جب تک ہم نے داعش کے خلاف کوئی آپریشن نہیں کیا تھا، ہم پر اس کی مدد کا الزام لگایا جاتا رہا۔ اب ہم نے اپنی جنوبی سرحدوں کے قریب واقع علاقے سے داعش کا صفایا کرنے کے لیے لڑائی کا آغاز کیا ہے، تو نہ صرف یہ کہ امریکا یا اس کے حلیف کہیں دکھائی نہیں دے رہے، بلکہ وہ اسے مزید اسلحہ و امداد فراہم کررہے ہیں‘‘۔
اسی طرح لاکھوں افراد کی آبادی پر مشتمل شہر حلب، جو قیامت خیز بمباری کے ذریعے کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ وہاں القاعدہ یا داعش کا کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ صرف 48 ہزار کے قریب بچے کھچے شہری تھے، جو مہاجر کیمپوں میں سسک سسک کر مرنے کے بجاے، کھنڈرات بنے اپنے گھر اور اپنے شہر حلب ہی میں رہنے پر مصر تھے۔ عام شہریوں کے علاوہ وہاں ایک مختصر تعداد بشار مخالف مسلح دھڑوں پر مشتمل تھی۔
تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ عین اس وقت جب بشار اور اس کی حامی افواج (بالخصوص روسی) حلب پر بمباری کے نئے ریکارڈ قائم کررہی تھی، چند کلومیٹر پر واقع ایک دوسرے اہم شہر تدمر پر داعش کا قبضہ ہورہا تھا۔ تدمر انتہائی حساس عسکری اہمیت کا حامل شہر ہے۔ اسلحے کے محفوظ ترین اور سب سے بڑے ڈپو اسی شہر میں واقع ہیں۔ پہاڑوں اور دیگر زمینی رکاوٹوں کے باعث اس میں داخلے کا ایک ہی مرکزی راستہ ہے، جس کی دور تک نگرانی ہوتی ہے۔ اتنا محفوظ اور اہم ہونے کے باوجود داعش کو وہاں تقریباً بلا روک ٹوک قبضے کا موقع دیا گیا۔ بالکل اسی طرح جیسے عراق کے شہر موصل پر ان کا قبضہ ہوا تھا۔ اب عراقی پارلیمانی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق: ’’بھاری مقدار میں جدید ترین اسلحہ داعش کے لیے چھوڑ کر موصل سے نکل جانے کا حکم، خود عراقی وزیراعظم نوری المالکی نے دیا تھا‘‘۔
لبنان سے ایک معروف ہفت روزہ الآمان (9 دسمبر2016ء) اپنے اداریے میں داعش جیسے مسلح گروہوں کی تشکیل پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتا ہے: ’’یہاں ہم لبنان میں چند سال قبل وجود میں آنے والے مسلح گروہ ’فتح الاسلام‘ کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ گروہ شاکر العیسی نے بنایا تھا۔ وہ 2007ء تک حلب کی مرکزی جیل میں قید تھا۔ بشار حکومت نے اسے رہا کرتے ہوئے عراقی سرزمین کی طرف دھکیل دیا، وہاں اس نے انتہا پسند عناصر سے تربیت حاصل کی اور ’فتح الانتفاضۃ‘ تنظیم سے وابستہ ہوگیا۔ اس کے سربراہ ابو خالد العملہ نے اسے بیروت کے قریب واقع فلسطینی مہاجر کیمپ شاتیلا بھجوا دیا۔ ایک لبنانی مسلح تنظیم نے اسے ’نہر البارد‘ کیمپ پہنچا دیا، جہاں اس نے ’فتح الاسلام‘ تنظیم قائم کرتے ہوئے اپنے احکامات نافذ کرنا شروع کردیے۔ پھر اس کے خلاف لبنانی فوج کا آپریشن شروع ہوا۔ طرفین کے درجنوں افراد کے علاوہ فلسطینی کیمپوں اور پڑوسی لبنانی بستیوں کے بے گناہ شہری مارے گئے‘‘۔ الآمان کے ایڈیٹر سابق امیر جماعت ابراہیم المصری ہیں، جو اپنی میانہ روی اور صحافیانہ دیانت سے پہچانے جاتے ہیں۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے مسلح دھڑوں کو تشکیل دینے، پھر ان کے خلاف خوفناک عالمی جنگ شروع کرنے، اور پھر بھی ان کے باقی رہنے اور ایک کے بعد دوسرے شہر پر قابض ہوتے چلے جانے سے برہمنی ’نظریہ آواگون‘ کا مکروہ کھیل مکمل بے نقاب ہوجاتا ہے۔ کسی مفاد یا تعصب کا پردہ بھی جسے چھپا نہیں سکتا۔
یہ حقیقت بھی ہر صاحبِ عقل و بینش کو نظر آتی ہے کہ اس ساری خوں ریزی کو جاری رکھنا کس دشمن کے مفادات پورے کررہا ہے؟ روس کے سرکاری ٹی وی RT کے تجزیاتی پروگرام میں شریک معروف امریکی دانش وَر سن او کیف (Cen O Keefe) کہہ رہا تھا: ’’مشرق وسطیٰ میں جاری حالیہ خوں ریزی کی حقیقت سمجھنے کے لیے 80 کے عشرے میں او دیدیینون( Oded Yinon) کی کتاب Strategey for Israel (اسرائیل کے لیے حکمت عملی) پڑھنا ہوگی۔ جس میں ’عظیم تر اسرائیل‘ کا نقشہ اور راہِ عمل دکھاکر واضح کیا گیا تھا کہ یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے پورے خطے میں جنگ و جدل کا میدان گرم کرنا ہوگا۔ مذہبی، نسلی اور علاقائی تعصبات کو ہوا دینا ہوگی۔ اسی کا ایک جملہ یہ ہے:
Israel must reconfigure its geo-political environment through the Balkanization of the surrounding Arab states into smaller and weaker states.
اسرائیل کو اپنے گرد واقع عرب ریاستوں کو بلقانائزیشن کے ذریعے مزید چھوٹی اور کمزور ریاستوں میں تبدیل کرتے ہوئے ایک نیا جیوپولیٹیکل ماحول تشکیل دینا ہوگا۔
ایک طرف یہ تلخ اور خوفناک حقیقت ہے اور دوسری جانب مسلم ممالک میں مختلف لوگ اور طاقت کے سرچشموں پر قابض گروہ اپنے اپنے ’بشار‘ اور ’سیسی‘ کے دفاع میں مست ہیں۔ حلب سے اس کا آخری شہری تک نکال دیا گیا تو روسی وزیر دفاع نے بیان دیا: ’’ہم نے شام میں اپنے جدید ترین ہتھیاروں کے کامیاب تجربات کیے ہیں۔ پہلی بار استعمال ہونے والے یہ ہتھیار ہماری دفاعی ترقی کا واضح ثبوت ہیں‘‘۔ اگلے روز تہران سے چھپنے والے ہراخبار کی شہ سرخی تھی: حلب آزاد شد۔ 16دسمبر کو سرکاری روزنامے وطن امروز کے اداریے کے اسی ایک جملے سے باقی تحریر کا اندازہ لگالیجیے: ہر کہ از ایں فتح خوش حال نیست، و اللہ از دین محمد نیست، ’’جو شخص بھی (حلب کی) اس فتح پر خوش نہیں، واللہ وہ دین محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میں سے نہیں ہے‘‘۔ اس کے جواب میں عرب اخبارات اور سوشل میڈیا میں ایران ہی نہیں، خود شیعہ مذہب کے بارے میں جو تکفیر و شتم عروج پر ہے، وہ بھی ناقابل بیان ہے۔
اس تناظر میں اس سوال کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں کہ اگر خدانخواستہ یہ قتل و غارت چند برس اور جاری رہی تو خطے اور امت مسلمہ کا نقشہ کیا ہوگا۔ نبیؐ رحمت پر ایمان رکھنے والے ہرشخص، ہرمسلک، ہر جماعت، ہر ملک اور ہر حکومت کو تمام تر تعصبات سے آزاد ہونا ہوگا۔ وگرنہ ایک بے کس شامی بوڑھے کے منہ سے انتہائی بے قراری کے عالم میں ادا شدہ الفاظ کا آئینہ دیکھ لے: ’’اے اللہ جو بھی ہم مظلوموں کے قاتل بشار کا ساتھ دے، اسے روز محشر بھی بشار کے ساتھ ہی اٹھا‘‘۔
nn

حصہ