179ل انڈیا مسلم لیگ کے قیام یعنی 1906ء سے کوئی اکیس سال پہلے ہی آل انڈیا نیشنل کانگریس (28 دسمبر 1885ء) کے قیام سے ہندوستان کے لوگوں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم مل چکا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد ڈالنے میں ریٹائرڈ آئی سی ایس آفیسر ایلن آکٹیوین ہیوم کا اہم کردار تھا۔
ایلن آکٹیوین ہیوم کے خیال میں فرنگی حکومت کو ہندوستانیوں کے ممکنہ باغیانہ اقدامات سے بچانے کی ایک ہی معقول صورت یہ تھی کہ ہندوستانیوں کو حکومتی معاملات پر بولنے اور تنقید کرنے کا حق دیا جائے تاکہ عوام کی توانائیاں آئینی سمت میں استعمال ہوں۔
چنانچہ سرسید احمد خان کی فکر اور ان کی تربیت یافتہ ٹیم کے سرکردہ افراد کو ساتھ ملایا گیا، اور چھان پھٹک کر ایسے ہندوستانی رہنماؤں کو اس میں شامل کیا گیا جو انگریز حکومت کو نعمتِ خداوندی سمجھتے تھے۔
ابتدائی مراحل اور تنظیم سازی کے بعد 1888ء میں وائسرائے لارڈ ڈفرن کی منظوری سے جو کانگریس کو حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے والی انجمن کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے، انڈین نیشنل کانگریس کا باقاعدہ اعلان کیا گیا۔ پہلے اجلاس میں ہندوستان بھر سے 72 مندوبین نے شرکت کی۔ اس اجلاس کی صدارت ڈبلیو۔ سی بنرجی نے کی۔ دوسرا اجلاس 1886ء میں دادا بھائی نوروجی کی صدارت میں کلکتہ میں منعقد ہوا۔ تیسرا اجلاس بدرالدین طیب جی کی صدارت میں 1887ء میں مدراس میں جبکہ چوتھا اجلاس 1888ء میں جارج یول کی صدارت میں الٰہ آباد میں منعقد ہوا۔ جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کانگریس میں انگریز حکومت کے بہی خواہ غالب تھے، جن میں معروف تاجر اور صنعت کار شامل تھے جن کے تجارتی مفادات انگریز سرکار سے براہِ راست وابستہ تھے۔ یہ رہنما انگریزی تعلیم سے آراستہ تھے اور مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے افراد وہ تھے جو سرسید احمد خان کی فکرِ جدید متاثر تھے۔
مگر جیسے جیسے فرنگی حکومت کی پرتیں کھل رہی تھیں ویسے ویسے ہندوستانی رہنماؤں کے مابین فکری انتشار بھی سامنے آنے لگا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس میں دو واضح گروپ تشکیل پا چکے تھے۔ ایک ہندوستانی مفادات کو ترجیح دے رہا تھا جبکہ دوسرا گروہ خالصتاً انگریزی مفادات کو آگے بڑھانا چاہتا تھا۔ اُس وقت کانگریس کے رہنماؤں میں لالہ لاجپت رائے، بال گنگا دھر تلک اور بپن چندر پال بڑی سیاسی حیثیت و اہمیت کے حامل تھے۔ 1907ء میں اعتدال پسندوں اور انتہا پسندوں کے مابین اختلافات کے سبب انڈین نیشنل کانگریس دو حصوں میں تقسیم ہوگئی اور انتہا پسندوں نے معتدل سوچ کے رہنماؤں کو کانگریس سے خارج کرنے کا اعلان کردیا۔
1917ء میں موہن داس کرم چند گاندھی (مہاتما گاندھی) افریقہ سے ہندوستان واپس آئے اور ریاست بہار کے علاقے چمپارن میں ستیہ گرہ (پُرامن احتجاج)کیا۔ اس بھرپور احتجاج کے سبب گاندھی جی کی سیاسی حیثیت مستحکم ہوتی چلی گئی۔ پھر احمد آباد میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں اور مزدوروں کا ساتھ دینے کی جدوجہد اور پھر رولٹ ایکٹ کے خلاف مزاحمت اور 1920ء میں تحریک خلافت میں شمولیت اور عدم اعتماد تحریک نے موہن داس کرم چند گاندھی کو ہندوستان کا مہاتما گاندھی بنادیا۔
علی برادران یعنی مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی دونوں مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے خاص شاگردوں میں تھے۔ مکہ میں جب بدعات کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور مقاماتِ مقدسہ اس وجہ سے گرائے گئے کہ وہاں خلافِ شرع کام ہوتے تھے، ان اقدامات کو برصغیر میں اچھا نہیں سمجھا گیا۔ 1914ء میں مکہ میں مزاراتِ مقدسہ کو گرانے کے خلاف مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے پہلے بزم صوفیائے ہند بناکر اس جانب لوگوں کی توجہ مبذول کرائی، اور بعد میں انجمنِ خدام کعبہ بنائی اور مقاماتِ مقدسہ کی مبینہ بے حرمتی کے خلاف آواز بلند کی۔ اس طرح حجاز اور ترکی کے درمیان ایک سرد قسم کی کشمکش کی ابتدا ہوئی۔
نومبر 1919ء میں جب سلطنتِ عثمانیہ کو بچانے کے لیے آل انڈیا خلافت کمیٹی کا پہلا اجلاس پنجاب کے شہر امرتسر میں ہوا تو مولانا اس میں پیش پیش تھے۔ خلافت کمیٹی ایک متحدہ محاذ تھا جس میں مختلف مکاتبِ فکر کے علماء شامل تھے۔
خلافت بچانے کا نعرہ اپنے اندر مقناطیسی کشش کا حامل تھا، اور ایسے میں جب کہ جنگِ آزادی 1857ء میں جدوجہد کرنے والوں کی دوسری نسل سیاسی اعتبار سے بالغ ہوچکی تھی اور انگریز سرکار کے خلاف جو بھی موقع میسر آتا ہندوستانی مسلمان اور ہندو اس کا بھرپور استعمال کرتے۔ ریشمی رومال تحریک، سول نافرمانی، عدم تعاون، ’’عبوری حکومتِ ہند‘‘ کا قیام، جلیانوالہ باغ، ملک بھر میں رولٹ ایکٹ کا نفاذ، دوسری جانب مرکزِ خلافت کا ختم ہوجانا اور شریفِ مکہ کی بغاوت، اور پھر حجاز میں آلِ سعود کا اقتدار سنبھالنا۔۔۔ یہ تمام عوامل ایسے تھے جن کو انگیز کرنے اور اوپر تلے ملنے والے مواقع نے ہندوستان میں سیاسی ہلچل پیدا کردی تھی۔
رولٹ ایکٹ کے خلاف ملک میں مظاہرے جاری تھے اور ہندو مسلم دونوں جانب کے رہنماء احتجاجی مظاہرین سے خطاب کے لیے دوروں پر تھے۔
ان پریشان کن حالات میں انگریز حکومت نے احتجاج کے ہر چھوٹے بڑے واقعے کو سختی کے ساتھ کچلنے کا فیصلہ کرلیا اور 13 اپریل 1919ء کو انگریز فوج نے سینکڑوں مظاہرین کو اندھادھند فائرنگ کرکے ہلاک کردیا۔ مظاہرین بدنام زمانہ رولٹ ایکٹ کے خلاف مظاہرہ کررہے تھے۔ (اس رولٹ ایکٹ۔ مجریہ 21 مارچ 1919ء قانون نے ہندوستانیوں کی رہی سہی برائے نام آزادی بھی سلب کرلی تھی)۔
یہ واقعہ مشرقی پنجاب میں امرتسر کے مقام پر ہوا جو سکھوں کا اکثریتی اور مذہبی گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ مشرقی پنجاب میں ہڑتالیں اور مظاہرے عروج پر تھے۔ اس اندوہناک سانحے کے بعد ہندوستان میں بڑے پیمانے پر انگریز مخالف جذبات ابھرنا شروع ہوئے۔
تفصیلات کے مطابق اتوار 13 اپریل کی شام جب مظاہرین اپنے گرفتار رہنماؤں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیہ پال کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کے لیے جلیانوالہ باغ پہنچے جہاں بیس ہزار سے زیادہ افراد پہنچ چکے تھے، اور جلسہ اپنے عروج پر تھا۔ مظاہرین اپنے گرفتار رہنماؤں کی رہائی کے لیے نعرے لگا رہے تھے۔ اچانک عقبی جانب سے جنرل ڈائر نے پچاس فوجیوں اور دو مسلح گاڑیوں کے ساتھ وہاں پہنچ کر کسی اشتعال کے بغیر ہجوم پر فائرنگ کا حکم دیا۔ حکم ملتے ہی گولیاں چلنی شروع ہوگئیں اور چند منٹوں میں سینکڑوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
فائرنگ بیس منٹ جاری رہی جس کے بعد جنرل ڈائر اور اس کے ماتحت فوجی کامیاب آپریشن کرنے کے بعد اپنی بیس پر روانہ ہوگئے۔
عدالت میں بیان دیتے ہوئے جنرل نے بتایا کہ مرنے والوں کی تعداد دو سو سے تین سو تھی جبکہ برطانوی حکومت کے ریکارڈ کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 389 اور زخمیوں کی تعداد بارہ سو تھی۔ اور عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ مرنے والوں کی تعداد تیرہ سو سے زیادہ ہے۔ مرنے والے تمام افراد سکھ تھے۔
مشرقی پنجاب میں اس سانحے نے بہت گہرے اثرات مرتب کیے۔ ادھم سنگھ نامی نوجوان اس زیادتی کو فراموش نہ کرسکا۔ جلیانوالہ باغ واردات کے بیس سال گزرنے کے بعد لندن کے کیگسٹن ہال میں ایک نہایت ٹھنڈی شام تقریب جاری تھی، جس میں بہت سے لوگ جن میں ہندوستانی نژاد انگریز بھی شامل تھے، شریک تھے۔ جسم میں گھستی ہوئی سرد ہوا سے بچنے کے لیے کوٹ اور فر کے بنے ہوئے لونگ اوورکوٹ میں ملبوس لیفٹیننٹ جنرل مائیکل اوڈائر (سانحہ امرتسر کا مرکزی کردار) اگلی صف میں بڑے اطمینان اور سکون سے براجمان تھا جسے بیس سال پہلے برطانوی سرکار ہندوستانی عوام کے غضبناک احتجاج کے پیش نظر محض دکھاوے کے لیے لندن کی عدالت میں مقدمہ چلاکر بری کرچکی تھی ۔ اُدھم سنگھ اس کی عقبی قطار میں بہت فاصلے پر بیٹھا تھا۔ گردن میں مفلر اور جسم پر سردی سے بچاؤ کے لیے اوورکوٹ پہنے اُدھم سنگھ نے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں پستول چھپایا ہوا تھا۔
جیسے ہی تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا اور کچھ وقفے کے بعد لیفٹیننٹ جنرل مائیکل اوڈائر کا نام اسٹیج سے پکارا گیا اور وہ تقریر کرنے کے لیے کھڑا ہوا، ہال گولیوں کی آواز سے گونجا اور پلک جھپکتے جلیانوالہ باغ کا جنرل ڈائر اسٹیج پر اوندھے منہ گر گیا۔ اس کے بچنے کی کوئی امید نہ تھی، پھر بھی اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں اس کی موت کی تصدیق کردی گئی۔ ادھم سنگھ کو رنگے ہاتھوں پستول سمیت گرفتار کرلیا گیا۔ اس نے اقبالِ جرم کرتے ہوئے کہاکہ وہ جلیانوالہ باغ میں مارے گئے نہتوں کا انتقام لینے کے لیے ہندوستان سے آیا تھا اور اس نے جوکچھ کیا ہے اس پر اسے فخر ہے۔ انگریزوں نے ادھم سنگھ کو لندن کی ایک جیل میں پھانسی پر لٹکا دیا۔
اس سیاسی اشتعال انگیز فضا میں 23 نومبر 1919ء کو خلافت کمیٹی کا پہلا اجلاس مسٹر فضل الحق (بنگال) کی صدارت میں طلب کیا گیا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس قدر ہجوم کہ چاندنی چوک اور جامع مسجد کا راستہ طے کرنے میں دوگھنٹے سے زیادہ کا وقت صرف ہوا۔ اس اجلاس میں صرف خلافت کمیٹی کے قائم مقام شریک کروائے گئے تھے جو تمام صوبوں سے آئے تھے، البتہ گاندھی جی کو ان کے سیاسی کردار اور برتری کی بنا پر شریک کیا گیا تھا اور کچھ ہندو پنڈتوں نے بھی شرکت کی تھی، جن کو مسلمانوں نے اپنا نمائندہ بناکر بھیجا تھا۔ رنگون، بنگال، بہار، صوبہ متحدہ، سندھ وغیرہ سے جو ہندو آئے تھے ان کو مسلمانوں نے خلافت کمیٹی کی طرف سے بھیجا تھا۔ شیعہ حضرات کی بھی نمائندگی کروائی گئی تھی۔ اس اعتبار سے خلافت کمیٹی کا پہلا اجلاس بھرپور سیاسی اہمیت کا حامل رہا۔
(جاری ہے)