(یہی ہے رنگ زنگی کا۔۔۔۔ (افشاں نوید

285

’’یہی ہے رنگ زندگی کا‘‘۔۔۔ یہ ایک اشتہار ہے دیواروں اور دروازوں کے رنگ اور روغن بنانے والی ایک کمپنی کا۔ شہر کی دیواروں پر جگہ جگہ ہمیں مختلف اشتہاری کمپنیوں کے سلوگن دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں کئی ایک میں مثبت پیغام بھی ہوتا ہے۔ یہ اشتہار جو پینٹ بنانے والی کمپنی کا ہے، اور اشتہار دیکھتے ہوئے عادتاً ہم گزر ہی جاتے ہیں مگر پاپوش نگر کے قبرستان کے سامنے سے گزرتے ہوئے گاڑی تو لمحوں میں آگے بڑھ گئی مگر میری آنکھیں اسی دیوار پر مرکوز ہوگئیں جہاں ہر ایک گز کے فاصلے پر قبرستان کی دیوار پر یہ اشتہار لکھا ہوا تھا کہ ’’یہی ہے رنگ زندگی کا‘‘۔ اور جگہ جگہ دیواروں پر دیگر اشتہاروں کے ساتھ یہ جملہ ایک اشتہاری سلوگن ہی ہے۔ مگر قبرستان کی اس دیوار پر اس جملے نے دل اور دماغ کو ایک عجیب سا جھٹکا لگایا کہ اصل زندگی تو یہی ہے۔ زندگی کا یہ رنگ اگر قبرستان سے باہر کی چہل پہل والی زندگی میں بھی ہمیں یاد رہے تو شاید کوئی فتنہ، کوئی خرابی پیدا ہی نہ ہو۔
آہ! ایک طرف تو زندگی کا حقیقی رنگ یہ ہے اور دوسری طرف مسائل میں جکڑی ہوئی قوم۔ کن کن عذابوں کو ہم جھیل رہے ہیں۔ ایک طرف کرپشن کی دیمک نے ملک چاٹ لیا تو دوسری طرف قتل و غارت اور امن و امان کی حد درجہ بگڑتی ہوئی صورت حال، اسٹریٹ کرائمز ہوں یا مہنگائی کا بڑھتا ہوا عفریت، لوٹ کھسوٹ ہو یا اخلاقی اقدار کا زوال۔۔۔ مسجدوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، قرآنی تعلیم کے مراکز کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے، حفاظ اور حجاج کرام کی تعداد میں برابر اضافہ ہورہا ہے لیکن زندگی سکون سے خالی ہے۔ نفسیاتی امراض کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگر ان تمام مسائل کی گتھی، الجھنوں کا کوئی سرا، کوئی سبب تلاش کیا جائے تو وہ یہی ہے کہ ہم نے یقینی آنے والی آخرت کو بھلا دیا ہے۔ کتنے قبرستان شہر کی آبادیوں کے بیچوں بیچ واقع ہیں مگر کسی کو موت کی یاد دلاتے ہیں؟ یا توبہ کی طرف مائل کرتے ہیں۔۔۔؟
اب یہی دیکھ لیں کہ اشتہارات لکھنے والے قبرستانوں کی دیواروں کو بھی نہیں بخشتے جو عبرت کدے ہیں۔ قبرستانوں کی دیواروں کے ساتھ کچرے کے ڈھیر دیکھ کر دل کتنا دکھی ہوجاتا ہے کہ ہم اپنے پیاروں کو خوشبوؤں میں بسا کر اس گھر تک لاتے ہیں، قبروں پر پھول بچھاتے ہیں، مگر قبرستان کی دیواروں کے ساتھ گندگی اور غلاظت کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔ اور تو اور معاشرے میں کتنے مجرموں کے لیے خود قبرستان محفوظ ترین پناہ گاہیں ہیں۔ اسی ہفتے کراچی کے ایک قبرستان کے بارے میں خبر آئی جہاں قبر کے گڑے مُردے نکال کر بیچنے کے کاروبار کا انکشاف ہوا۔ کتنے سنیاسی بابا ٹائپ لوگ جادو اور ٹونے کے لیے اس عبرت کدہ کو اپنے نجس اعمال کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دکھ تو یہ کہ جو جرائم قبرستانوں میں کیے جاتے ہیں، قبروں کو دیکھ کر بھی اس میں جانے کا خیال دل پر لرزہ طاری نہیں کرتا۔
قرآن و حدیث میں ہر جگہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کے عقیدے کو راسخ کیا ہے۔ اگر آخرت کا تصور انسان کا جیتا جاگتا تصور بن جائے تو معاشرہ ٹھیک ہو جائے۔ معیشت، سیاست، عدالت، حکومت، ریاست سب ہی کچھ درست ہو جائے۔ جواب دہی کا خوف ہی انسان کو ہر برائی سے بچانے کا سبب ہے۔
اس قبرستان کے سامنے سے جو گنجان آبادی کے بیچوں بیچ ہے،ہزاروں لوگ روز گزرتے ہوں گے۔ ہر ایک گز پر جملہ اگرچہ اشتہار کی غرض سے لکھا گیا ہے نہ کہ عبرت کی غرض سے، مگر تحریر تو ہے نا کہ ’’یہی ہے رنگ رندگی کا‘‘ سب دیکھتے ہوئے بغیر ٹھیرے گزر جاتے ہیں۔
جزا اور سزا کا تصور ہر معاشرہ رکھتا ہے۔ دنیا کو بجا طور پر آخرت کی کھیتی بنایا گیا ہے۔ اور جس قسم کے بیج اس مزرعِ دنیا میں بوئے گا آخرت میں انہی کی فصل کاٹے گا۔ بنی اسرائیل نے خود کو اللہ کی چہیتی قوم سمجھا اور کفر میں مبتلا ہوئے، فتنہ و فساد پھیلایا اور اپنی باغیانہ روش کے نتیجے میں اللہ کی مغضوب قوم قرار پائے۔ ان کی بدانجامی کا موجب عقیدۂ آخرت کا یہی بگاڑ تھا۔ آج ہم بھی ہوسِ زر اور بدعقیدگی پر قائم ہیں کہ دنیا چاہے ظلم سے بھرتی رہے مگر ہم چونکہ امتِ محمدیؐ کے افراد ہیں اس لیے روزِ حشر سرخرو قرار پائیں گے۔
اب چونکہ ہر گناہ میں لذت ہے، مال و زر ہمیشہ سے انسان کی کمزروی ہے۔ اس ہوسِ دنیا سے روکنے والی واحد چیز آخرت کے محاسبے کا یقین ہی ہے۔ زندگی کی شاہراہ پر ہم پوری رفتار سے دوسروں کے حقوق کچلتے ہوئے سرپٹ دوڑ رہے ہیں اور بستیوں کے بیچ قائم یہ ’’شہرِ خموشاں‘‘ بھی ہمیں بریک لگانے اور لمحہ بھر کو سوچنے کا موقع دینے میں ناکام ہیں۔۔۔!!
محترم محمد صفدر بشیر صاحب نے اپنی کتاب ’’میرا انتقال پرملال‘‘ میں اس سفرِ آخرت کا نقشہ بہت دل لرزا دینے والے انداز میں کھینچا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں بھی ہے کہ لذتوں کو ختم کردینے والی موت کو یاد رکھو۔ انہی کے الفاظ میں منتخب جملے تذکیر کے لیے نقل کررہی ہوں:
’’میرا سارا بدن، میرا جوڑ جوڑ شدید تکلیف میں تھا۔۔۔ میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوگئے میری پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ گئی۔ جب روح دل تک پہنچی تو میری زبان بھاری ہوگئی۔ فرشتہ اپنی دل دہلا دینے والی آواز میں کہہ رہا تھا ’’نکل اے خبیث روح، خبیث جسم سے نکل، تُو قابلِ مذمت ہے۔ تیرے پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی اور زخموں کی دھون ہے‘‘۔۔۔ مجھے پتا ہی نہ تھا کہ ہر بدکار اور حرام خور کی روح اس طرح نکلتی ہے۔ میں چیخیں مار رہا تھا، چلاّ رہا تھا کہ مجھے چھوڑ دو، مگر میری روح اس طرح نکالی جا رہی تھی جیسے قسائی بکرے یا دنبے کی کھال کھینچتا ہے۔ جیسے میرے پیٹ میں کانٹے بھرے ہوئے ہوں اور مجھے گنا بیلنے والی مشین کے رولر میں ڈال دیا گیا ہو۔ یوں لگ رہا تھا چلتی ہوئی آرا مشین سے درخت کے تنے کی طرح مجھے کاٹا جا رہا ہو۔ قرآن نے تو کہہ دیا تھا ’’کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ مگر میں نے کبھی اس پر توجہ ہی نہ دی۔۔۔ ہائے میری ماں کہاں ہے، تُو دیکھ تیرا بیٹا کس قدر تکلیف میں ہے۔ نہ میری ماں میرے کام آئی، نہ میرا مال۔ نہ کوئی سفارش، نہ ٹیلی فون کال۔ کسی کی چٹ کچھ بھی میرے پاس نہیں جو اس مشکل گھڑی میں کام آسکے۔۔۔ آسمان سے دو نہایت بھیانک چہرے والے فرشتے اترے، ان کے پاس کھردرا ٹاٹ کا ٹکڑا تھا، جس میں انہوں نے میری روح کو لپیٹا۔ وہ میری بدبودار روح کو لے کر آسمان کی طرف پرواز کرنے لگے۔ راستے میں فرشتوں کی جس جماعت سے ملاقات ہوتی، وہ پوچھتے یہ خبیث روح کس کی ہے؟ جواب میں وہ اس برے طریقے سے میرا ذکر کرتے کہ کاش میں نہ سن سکتا۔۔۔ دنیا میں میری میت کو ایمبولینس میں رکھ دیا گیا۔ میں جو بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر ہسپتال آیا تھا، اب ایمبولینس میں لیٹ کر جا رہا تھا۔ میری اولاد اور سیکرٹری نے موبائل فون پر میری موت کی اطلاع دینا شروع کردی۔ محلے کی مسجد سے میری اچانک موت کا اعلان کیا جارہا تھا جہاں میں نے کسی بھی دن پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھی تھی۔ ایمبولینس سے میت اتارکر گھر کے کشادہ ہال میں چارپائی پر ڈال دی گئی۔ میری بیوی نے سینہ پیٹ لیا۔ میرا بھائی، چھوٹا بیٹا اور بیٹی بہت غمزدہ تھے۔ میری بیٹی نے میرے دونوں پاؤں پکڑ رکھے تھے، وہ ان پر آنکھیں رگڑ رہی تھی اور انہیں چوم رہی تھی، وہ اپنے رخسار میرے سر پر رکھ رہی تھی۔ میرے بچے عزیز و اقارب کو فون پر جنازے کے وقت سے آگاہ کرنے لگے۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے شامیانوں، قناتوں اور کرسیوں کے ٹرک آنا شروع ہوگئے۔ میرا یہ محل نما گھر شہر سے باہر نہایت پوش علاقے میں تھا، اس لیے اندرونِ شہر سے آنے والے میرے غریب رشتہ داروں کو بہت تکلیف ہوئی۔ میرا بڑا بیٹا سب کو بتارہا تھا کہ بھلا چنگا گھر سے آفس گیا تھا، راستے میں ہارٹ اٹیک جان لیوا ثابت ہوا۔ ایک کونے میں ماحول سے لاتعلق میرا غریب بھائی انتہائی غمزدہ بیٹھا تھا۔ وہ باپ کے نقشِ قدم پر چل کر سادہ زندگی گزار رہا تھا، میں اُس کی غربت کے باعث کبھی اُس کے گھر نہ گیا۔ مگر آج وہ سب سے پہلے پہنچنے والوں میں تھا۔ میں آج اُسے نہایت عقلمند اور دوراندیش سمجھ رہا تھا۔ وہ آنسوؤں کے ساتھ ایک ہی بات سب سے کہہ رہا تھا کہ مصروفیات کے باعث میرے گھر تو نہ آتے تھے مگر مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔۔۔ اسی دوران مسجد سے میت کے غسل کے لیے استعمال ہونے والا تختہ غسل اور مخصوص چارپائی بھی پہنچ گئی۔ باہر والے برآمدے میں غسل کا بندوبست کیا گیا۔ مجھ پر ڈیٹول ملا پانی ڈالا جا رہا تھا۔ اپنی دانست میں وہ احتراماً نرمی سے آہستہ ہاتھ لگا رہے تھے مگر مجھے سخت تکلیف ہورہی تھی۔ آخر میں میرے پسندیدہ پرفیوم کی شیشیاں مجھ پر انڈیل دی گئیں۔ مارے تکلیف کے جوڑ جوڑ دُکھ رہا تھا۔ غسل کے بعد جنازہ برآمدے کے قریب ہی رکھ دیا گیا۔ لوگ اپنے اپنے انداز میں میرا تذکرہ کررہے تھے۔ کوئی کہہ رہا تھا فلاں پراجیکٹ کے سلسلے میں آج میٹنگ تھی، کوئی کہہ رہا تھا کل ہی میٹنگ ہوئی تھی۔ ایک بزنس پارٹنر نے کہا: مرحوم بہت سمجھ دار تھے، خوب جانتے تھے کہ کہاں دھن چلے گا اور کہاں دھونس۔ میں چاہتا تھا کہ لوگ میری مغفرت کے لیے کچھ کریں، مگر وہ اپنے راگ الاپ رہے تھے۔ کسی کو پتا ہی نہ تھا کہ مجھ پر کیا بیت رہی ہے۔ نماز ظہر کے فوراً بعد امام صاحب جنازہ پڑھانے آگئے۔ میرے بیٹے نے رسمی سا اعلان کیا کہ کسی کا قرض میرے باپ کے ذمے ہو تو مجھ سے وصول کرلے۔ امام صاحب نے دنیا کی بے ثباتی پر مختصر سی تقریر کی، میری بے جا تعریف کرکے نماز جنازہ کا طریقہ بتایا اور اللہ اکبر کہہ کر نماز پڑھانا شروع کردی۔ کچھ لوگ بتائے جانے کے باوجود دوسروں کی نقل مارکر نماز پڑھ رہے تھے، کچھ کا دھیان میرے شاندار مکان کی طرزِ تعمیر اور لان کے درختوں اور پھولوں میں لگا ہوا تھا۔ میرے آخری دیدار کا موقع پہلے عورتوں کو دیا گیا۔ اس کے بعد مردوں کی باری تھی۔ کچھ لوگ مجھ پر جھک جھک کر کیمرے کی طرف دیکھ کر تصویر بنوا رہے تھے۔ ہر ایک اپنے موبائل فون سے میری تصویر لے رہا تھا۔ کسی کو علم نہ تھا کہ میرے جسم کو آروں سے چیرا جا رہا ہے۔ جنازہ میت گاڑی میں رکھ دیا گیا۔ خواتین خوب جی کھول کر روئیں اس وقت۔ میری روح چیخ رہی تھی۔ انسان کے سوا ساری مخلوق میری آوازیں سن رہی تھی۔۔۔ قبرستان میرے گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔ پھر بھی پیدل چلنے کے بجائے جنازہ میت گاڑی ہی میں لے جایا گیا۔ میری قبر تیار کی جاچکی تھی۔ کچھ لوگ گلاب کے پھول اور پتیاں شاپر میں لیے پہلے ہی قبرستان پہنچ چکے تھے۔ میرے بیٹے کا اصرار تھا کہ قبر میں وہ کارپٹ بچھایا جائے جو جنازے کے ہمراہ وہ لے کر آیا تھا، مگر مولوی ٹائپ لوگوں نے کہا: مسنون طریقہ مٹی ہی پر لٹانا ہے۔ میرا بیٹا قبر میں اترنے میں گھبرا رہا تھا۔ بھائی آگے بڑھا، دو آدمیوں کی مدد سے وہ مجھے قبر میں لٹاکر باہر آگیا۔ قبر کو سمینٹ کی سلوں سے پاٹ دیا گیا۔ سب نے تھوڑی تھوڑی مٹی ڈالی، پھر گورکن نے بیلچے سے مٹی ڈال کر اسے ڈھیر کی صورت دے دی۔ پانی کا چھڑکاؤ کیا گیا، اس پر پھولوں کی چادر اور پتیاں بکھیر دی گئیں۔ کچھ پتیاں تکلفاً اردگرد کی قبروں پر بھی بکھیر دی گئیں، اور اگربتیاں سلگا دی گئیں۔ قبر میں سخت اندھیرا تھا۔ میں تنہا تھا، میرا دل گھبرا رہا تھا۔ ہائے میں کہاں آگیا ہوں۔ میں احباب کے واپس لوٹتے ہوئے قدموں کی چاپ سن رہا تھا۔ اے کاش وہ کچھ دیر اور رک جاتے۔ مجھے قبر کی دیواروں سے آواز آنے لگی: اے غافل اور نادان انسان! تُو نے کئی کمروں کے محل بنائے مگر یہ نہ سوچا کہ تیرا اصل گھر تو میں ہی ہوں۔ تُو نے دنیا میں لوگوں کو دفن ہوتے دیکھا مگر یہ نہ سوچا کہ تجھے بھی یہاں آنا ہے۔ کبھی بھول کر بھی تجھے یہاں رات گزارنے کا خیال تک نہ آیا۔ اتنے میں دو خوفناک شکلوں والے فرشتے میری قبر میں آدھمکے۔ ان کی آنکھیں بجلی کے بلبوں کی طرح روشن تھیں۔ انہوں نے مجھے بٹھایا اور پوچھا ’’من رب؟‘‘ میں نے ڈر کر جواب دیا: ہائے ہائے میں نہیں جانتا۔ میری بے بسی اور بے کسی کا منظر الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آسمان سے ایک نہایت غصیلی آواز سنائی دی: انہ کذب، یہ بڑا جھوٹا ہے، اس کے لیے آگ کا بستر بچھا دو، اس کو آگ کا لباس پہنا دو، اور جہنم کا ایک دروازہ کھول دو۔ پھر لُو آنا شروع ہوگئی۔ قبر تنگ ہونا شروع ہوئی اور میری پسلیاں ہاتھ کی انگلیوں کی طرح باہم پیوست ہوگئیں۔ اگر میری چیخ و پکار زمین پر چلنے والے انسان سن لیتے تو وہ گھروں کو چھوڑ کر جنگلوں کی طرف بھاگ نکلتے۔۔۔ اور خدا کی قسم تم مُردے دفن کرنا چھوڑ دیتے۔ میری جو ذلت اور رسوائی ہوئی ہے آپ کو اس لیے بتارہا ہوں کہ آپ کسی نہ کسی طرح اس شدید تکلیف سے بچ سکیں۔ میرے بھائیو، بہنو، خدا کے لیے میری اولاد کو یہ پیغام پہنچا دو کہ اگر میری قبر پر آکر قرآن پڑھنے کی تمہیں فرصت نہیں تو گھر میں ہی میری مغفرت کے لیے اذکار کو معمول بنا لو۔ میرے چھوڑے ہوئے مال میں سے حقداروں کو ان کے حق دے دو۔ میں یہاں بے بس پڑا ہوں۔ ہمارا گھر تو مسلمان کا گھر لگتا ہی نہ تھا۔ آج تمہاری حرکتوں کا بھی مجھے جواب دینا پڑرہا ہے کہ میں نے تمہاری تربیت شریعت کے مطابق کیوں نہ کی۔ کاش میری بیٹی ہی میرے جنت میں داخلے کا سبب بن جاتی۔ میری بے پناہ جائداد کو حرام راستوں پر خرچ نہ کرنا۔ میرے انجام سے عبرت پکڑو۔ یا اللہ اس انجام سے ہر مسلمان مرد اور عورت کو محفوظ رکھنا کہ اصل زندگی تو قبر میں جانے کے بعد ہی شروع ہوگی۔۔۔!‘‘

حصہ