(انٹر نیٹ کے اثرات (نصرت مبین

291

موجودہ دور کمپیوٹر کا کہلاتا ہے۔ آج کل اساتذہ، طالب علم، ڈاکٹر، ماہرین قانون، فن کار، صنعت کار، تاجر، بینکر سب کمپیوٹر استعمال کررہے ہیں۔ ہر چھوٹے بڑے پرائیویٹ، گورنمنٹ اداروں میں کمپیوٹر کا استعمال عام ہے۔
کمپیوٹر کی بدولت طویل ترین معلومات مختصر ہوکر کم وقت میں سامنے آجاتی ہیں۔ کمپیوٹر کی بدولت ایک اور سہولت انٹرنیٹ ہے، اس کی وجہ سے فاصلے سمٹ گئے ہیں۔
ایک محبت کی ماری ماں روزگار یا طلبِ علم کے لیے گئی اپنی اولاد سے انٹرنیٹ کی بدولت بات کرلیتی ہے، دیکھ لیتی ہے کہ کس طرح کس حال میں اس کے بچے رہ رہے ہیں۔۔۔ سب جان لیتی ہے۔
دنیا کے ہر حصے میں موجود ہر رشتے سے، ہر فرد سے رابطہ ہوسکتا ہے۔ کاروبار کو بہت وسعت حاصل ہوئی ہے۔
لیکن ان فوائد کے ساتھ کچھ نقصانات بھی ہیں۔ طالب علموں کا وقت ضائع ہوتا ہے، جسمانی صحت تباہ ہورہی ہے، بچوں کی سماعت اور بینائی کمزور ہورہی ہے، تعلیمی معیار گررہا ہے، بچوں کا نتیجہ خراب آرہا ہے، بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں، اور آج کے دور کا شاخسانہ ایک نفسیاتی بیماری آئرازم ہے جو موبائل اور انٹرنیٹ کی مرہونِ منت ہے جس میں فرد سماجی زندگی سے دور ہوجاتا ہے۔ خاندان کا ہر فرد موبائل پر مصروف ہوتا ہے۔ آپس میں بات کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا، اس لیے ایک دوسرے کے بارے میں کم جانتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک نہیں ہوسکتے۔ نوجوان نسل رات رات بھر انٹرنیٹ پر مصروف رہتی ہے اور سارا دن سوکر گزارتی ہے۔
انٹرنیٹ کے ذریعے جہاں بہت سی معلومات ملتی ہیں وہاں کچھ غلط اور نامکمل معلومات بھی ہوتی ہیں۔ یہ نامکمل معلومات یا غلط یا بری معلومات برے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ بقول علامہ اقبالؒ
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
ہماری معاشرتی اقدار تبدیل ہورہی ہیں، افکار تبدیل ہو رہے ہیں۔
ہر شے کا ایک مثبت اور ایک منفی پہلو ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کو استعمال کرنے کے لیے یہ دیکھنا ہے کہ کس طرح سائنس کی اس ایجاد کو بہتر طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے گھر میں ایک ٹائم ٹیبل اور حدود و قیود بنانے ہوں گے‘ مثلاً وقت کا تعین، رات کے وقت استعمال کرنے پر پابندی، بچوں کے لیے ماؤں کی موجودگی میں استعمال، خاندان کے سب افراد کو کھانے کے وقت موبائل کو استعمال نہ کرنے کی ہدایت وغیرہ۔ اس طرح ہم غور کرکے کچھ مزید اصول و ضوابط بھی بنا سکتے ہیں۔ یوں سائنس کی اس ایجاد کے منفی استعمال کو روک سکتے ہیں۔
nn

حصہ