گزشتہ دنوں جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغِ عامہ کے تحت زبان و بیان کے موضوع پر ایک سیمینار ہوا جس میں وسعت اللہ خان نے کالمانہ اور پروفیسر رؤف پاریکھ نے عالمانہ مضمون پڑھا۔ اس موقع پر برقی ذرائع ابلاغ کی بلاغت خاص موضوع رہی۔ ورقی ذرائع ابلاغ میں تو قاری حسبِ توفیق صحیح تلفظ ادا کرتا ہے، لیکن برقی ذرائع ابلاغ جنہیں عرفِ عام میں چینلز کہتے ہیں، دہری مار مار رہے ہیں اور سمعی و بصری دونوں طرف سے حملہ آور ہورہے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا نقصان اُن نوجوانوں کو پہنچ رہا ہے جو ٹی وی پر ادا کیے ہوئے غلط تلفظ کو سند سمجھ لیتے ہیں۔ ٹی وی مالکان جہاں اپنے پروگراموں پر کروڑوں روپے خرچ کرتے ہیں وہیں اگر اپنے اینکرز کا تلفظ صحیح کرنے پر بھی کچھ خرچ کرڈالیں تو یہ نقصان کا سودا نہیں۔ کبھی ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن پر اس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ۔ اے۔ بخاری تھے جن کی مادری زبان اردو نہیں تھی، وہ اور ان کے بڑے بھائی پطرس بخاری دونوں پشاور کی پیداوار تھے۔ لیکن زیڈ اے بخاری اہلِ زبان کی اصلاح کیا کرتے تھے۔
گزشتہ پیر کو ایک ٹی وی چینل پر عدل کے بارے میں مباحثہ ہورہا تھا۔ میزبان کامران شاہد عَدْل کا تلفظ بروزن بدل، شجر، کمر وغیرہ کررہے تھے، یعنی عَدل کی ’د‘ کو متحرک کررہے تھے، جب کہ یہ عدْل ہے جس میں ’د‘ ساکن ہے۔ دوسری طرف غلط صحیح ہوکر نہیں دے رہا۔ اسے ہمیشہ غلْط بروزن عدْل کہا جارہا ہے، اور یوں دوسری جگہ کسر نکال دی جاتی ہے۔ ہمارے بیشتر سیاست دان بھی غلْط کہتے ہیں۔ اس میں ’ل‘ متحرک ہے یعنی غلَطْ بروزن شجر۔ عوام تو اس بری طرح مونث ہوئے ہیں کہ ٹھیک ہونے ہی میں نہیں آرہے۔ ’’عوام ایسی ہے، عوام یہ کرتی ہے، عوام باہر نہیں نکلتی‘‘۔ ارے بھائی، اگر مونث ہے تو گھر ہی میں بیٹھنا چاہیے۔
12 ربیع الاول کو ایک ٹی وی چینل پر ایک باریش نعت خواں نعت پڑھ رہے تھے جس میں ’’نبض ہستی‘‘ کا ذکر تھا۔ نبض پر موصوف کی انگلیاں صحیح نہیں پڑ رہی تھیں۔ وہ نبض کی ’ب‘ کو متحرک پڑھ رہے تھے یعنی نَبَض بروزن نفَر، شجر وغیرہ۔ جب کہ نبض اگر درست چل رہی ہو تو اس میں ’ب‘ ساکن ہے، بروزن عدل۔ ایک بڑے معروف نعت خواں، جو گزشتہ دنوں طیارے کے حادثے میں شہید ہوگئے، وہ ’’گناہوں کی لِپٹ‘‘ پڑھتے تھے، یعنی لِپٹنا والا لِپٹ۔ جیسے کسی کا مصرع ہے ’’دیوانہ گیا دامن سے لِپٹ‘‘۔ جب کہ یہ لَپٹ ہے (لام پر زبر) جیسے آگ کی لَپٹ۔ یہ ہندی کا لفظ ہے یعنی شعلہ، لو، آنچ، گرمی (لگنا کے ساتھ) مہک، وہ خوشبو جو ہوا کے جھونکے کے ساتھ آتی ہے۔ نظیر کا شعر ہے:
نہیں ہوا میں یہ بو نافۂ ختن کی سی
لَپٹ ہے یہ تو کسی زلف پر شکن کی سی
گزشتہ اتوار کو ایک اخبار کے میگزین میں ایک پروفیسر صاحب کا مضمون پڑھا۔ مضمون دلچسپ تھا لیکن ایک لفظ سمجھ میں نہیں آیا۔ کسی صاحب کا خاکہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ’’ان کی جان زیخ میں رہتی تھی‘‘۔ زیخ بالکل نیا لفظ تھا اور ہر لفظ سے آگہی کا کبھی دعویٰ بھی نہیں رہا۔ چنانچہ زیخ کی تلاش میں کئی لغات دیکھ ڈالیں، یہ لفظ نہیں ملا۔ البتہ ایک لفظ ’’ضیق‘‘ ضرور ملا جو انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ عام طور پر خواتین کے منہ پر رہتا ہے۔ بچے تنگ کریں تو کہہ بیٹھتی ہیں ’’تم نے تو جان ضیق میں کردی‘‘۔ ممکن ہے ضیق کو زیخ کرنے میں کمپوزنگ کا کمال ہو۔ بہرحال ضیق تنگی کو کہتے ہیں۔ سانس کی تکلیف حکیموں کی زبان میں ضیق النفس کہلاتی ہے۔ اسے دما (یا دمہ) بھی کہتے ہیں۔
ضیق مونث اور مذکر دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ مکان کی تنگی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ عاجز ہونا، گھبرانا، مشکل میں پھنسنا وغیرہ۔ ایک شعر گوارہ کیجیے:
ضیق میں کیوں نہ رہے مہرہ شطرنج کی طرح
چال چلتا ہے اگر صاحبِ تدبیر الٹی
گمان ہے کہ یہ ضیق ہے جو زیخ ہوگیا اور اس نے لغات جھنکوا دیں۔
پچھلے شمارے میں آغا شورش کاشمیری (مرحوم) کی تحریر کے حوالے سے ہاتھی کے بچے کو ’’پاٹھا‘‘ کہنے پر تردد ہوا تھا۔ لیکن لغت میں ایسے ہی ہے۔ آغا صاحب کی اردو کمال کی تھی۔ ایک مشاعرے میں کسی کے اعتراض پر انہوں نے بگڑ کر کہا تھا ’’شورش کو اردو سکھاتے ہو‘‘۔ آج ہوتے تو جانے کیا ہوتا۔ پاٹھا کے حوالے سے ایک محاورہ یاد آیا کہ ’’مرد ساٹھا، پاٹھا‘‘۔ یعنی مرد ساٹھ برس کا ہو تو بھی پاٹھا۔ یہ شاید اگلے وقتوں کی بات ہے۔ ہم سمجھتے رہے کہ پاٹھا کا لفظ محض قافیہ پیمائی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ شورش کاشمیری نے لکھا ہے کہ اردو کی عظمت کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ہر جانور کی صوت کے لیے علیحدہ لفظ ہے۔ ہمارے قارئین بھی اس سے واقف ہیں، تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں البتہ کچھ آوازیں ہمارے لیے نئی ہیں مثلاً ’’گائے رانبھتی ہے، اُلّو ہوکتا ہے، اونٹ بغبغاتا ہے، بندر گھگھیاتا ہے‘‘ وغیرہ۔ یہ رانبھنا لغت میں تو ملا نہیں۔ بندر کے بارے میں پڑھا تھا کہ وہ ’’خوخیاتا‘‘ ہے۔ ممکن ہے پہلے کبھی گھگھیاتا ہو۔
لاہور سے محترم جازم صدیقی نے اطلاع دی ہے کہ ٹی وی چینل پر ایک رپورٹر بتا رہے تھے کہ ’’دھند کی وجہ سے لوگوں کے دیکھنے کی قوتِ سماعت متاثر ہورہی ہے‘‘۔ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں شور کی وجہ سے قوتِ بصارت متاثر نہ ہوجائے۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے! ہمارے ایک نیوز ایڈیٹر تھے، ان سے جب کوئی بات کرتا تھا تو وہ پہلے نظر کا چشمہ لگاتے اور بات سنتے تھے۔ یعنی سماعت اور بصارت کا کوئی تعلق ہے ضرور۔
اور اس بار تو پنجاب میں دھند بھی غضب کی ہے۔ بہت کچھ متاثر ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے مذکورہ رپورٹر کی قوتِ گویائی بھی متاثر ہوئی ہو۔ انہی صاحب نے لکھا ہے کہ ’’استفادہ حاصل کیا اب شاید سندِ قبولیت حاصل کرچکا ہے۔ اس پر بہت لکھا گیا لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ بول ٹی وی پر پٹی چل رہی تھی ’حکومت کے فلاحی منصوبوں سے 20 کروڑ لوگ استفادہ حاصل کررہے ہیں، نواز شریف‘۔ اب اگر یہ بات نوازشریف نے کہی تو یقیناًمستند ہے۔ کیونکہ کہتے ہیں ’’کلام الملوک، ملوک الکلام‘‘۔ فی الحال قارئین بھی ’’استفادہ‘‘ حاصل کریں، صرف استفادہ میں مزا نہیں آتا۔