کانفرنس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ آئی پی ایس کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے افتتاحی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج کی اس گول میز کانفرنس کے انعقاد کا مقصد باہمی تبادلہ خیال سے قبائلی علاقوں کے بے گھر ہونے والے لاکھوں محب وطن افراد کے مسائل کی تفہیم اور اس حوالے سے قابلِ عمل تجاویز مرتب کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گو کہ قبائل کے دیگر عمومی مسائل کو زیر بحث لائے بغیر گفتگو کو صرف آئی ڈی پیز کے مسائل تک محدود رکھنا مشکل ہوگا لیکن پھر بھی ہماری کوشش ہوگی کہ ہمارا زیادہ تر گفتگو ان ہی مسائل پر مرکوزرہے، کیونکہ آج کی اس نشست کا بنیادی مقصد آئی ڈی پیز کی صورت حال اور مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ انہوں نے اس کانفرنس کے انعقاد میں پاکستان اسٹڈی سینٹر کی انتظامیہ اور طلبہ وطالبات کی دلچسپی کو سراہتے ہوئے توقع ظاہر کی کہ اس طرح کی علمی اور معلوماتی نشستوں کے باہمی اشتراک کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رکھا جائے گا۔
بعدازاں کانفرنس کا باضابطہ افتتاح کرتے ہوئے جامعہ پشاور کے ڈین فیکلٹی آف آرٹس پروفیسر ڈاکٹر سید منہاج الحسن نے کہا کہ پاکستان اسٹڈی سینٹر آئی ڈی پیز کے ایک انتہائی اہم اور توجہ طلب ایشو پر یہ پُرمغز کانفرنس منعقد کرکے ایک بار پھر جامعہ پشاور کے دیگر شعبوں پر سبقت لے جانے میں کامیاب ہوگیا ہے جس کا سہرا یقیناًاس سینٹر کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر فخرالاسلام کے سر ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ڈی پیز نے پاکستان کے مستقبل کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ ناقابلِ فراموش ہیں۔ ان کے مسائل اٹھانا، ان پر بات کرنا اور متعلقہ اداروں کو اس ضمن میں توجہ دلاتے ہوئے ممکنہ حل اور تجاویز پیش کرنا ہم سب کی قومی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ آئی پی ایس اور پاکستان اسٹڈی سینٹر نے آج یہ گول میز کانفرنس منعقد کرکے درست سمت میں ایک احسن قدم اٹھایا ہے جس پر دونوں اداروں کی انتظامیہ مبارک باد کی مستحق ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اس سلسلے کو دیگر سنجیدہ مسائل کا احاطہ کرنے کے لیے بھی بروئے کار لایا جائے گا۔
ڈاکٹر فخرالاسلام نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اسٹڈی سینٹر کے زیراہتمام اس گول میز کانفرنس کے انعقاد کی تیاریوں کے سلسلے میں گزشتہ روز مختلف قبائلی ایجنسیوں سے تعلق رکھنے والے جامعہ پشاور کے طلبہ وطالبات کی ایک فوکس گروپ ڈسکشن منعقد کی گئی جس میں شرکا نے آئی ڈی پیز کے مختلف مسائل کے مختلف پہلوؤں پر کھل کر بحث کی اور بعض تجاویز بھی پیش کیں، جن کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میںIDPs کی واپسی کا ایک واضح ٹائم فریم دیا گیا ہے لیکن اس کی پیش رفت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بعض قبائلی علاقوں میں تعمیرنو کا عمل جاری ہے، خاص کر شمالی وزیرستان میں بین الاقوامی معیار کی سڑکیں اورکچھ تعلیمی ادارے قائم کیے گئے ہیں۔ جنوبی وزیرستان میں متاثرین کی واپسی کا عمل مکمل کیا گیا ہے لیکن یہاں سہولیات کی شدید کمی ہے۔ شمالی وزیرستان میں واپسی کے بعد بعض لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایاگیا ہے جو باعثِ تشویش امر ہے۔ دیگر قبائلی علاقوں خاص کر مہمند اور باجوڑ ایجنسیوں میں بھی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ جابہ جا چیک پوسٹوں اور سیکورٹی فورسز کے سخت رویّے سے عام لوگ سخت نالاں ہیں۔ بڑے پیمانے پر جوکاروباری ادارے تباہ ہوئے ہیں ان کی تعمیرنو کا عمل بہت سست ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف نے قبائلی علاقوں میں یونیورسٹی اورمیڈیکل کالج کی تعمیر کا وعدہ کیا تھا، لیکن اس پر تاحال کوئی کام نہیں ہوا۔ کرم ایجنسی واحد ایجنسی ہے جہاں لوگ ایجنسی کے اندر اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ہیں۔ یہاں فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ سے بھی مقامی قبائل کو بے گھر ہونے کے دوران کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ خیبرایجنسی میں اب بھی آپریشن جاری ہے۔ یہاں باڑہ کی ساری تحصیل کے علاوہ وادی تیراہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا تھا۔ باڑہ میں واپسی کا عمل شروع ہوا ہے، البتہ سہولیات نہ ہونے کے باعث لوگوں میں خوف وہراس ہے۔ ضروریاتِ زندگی ناپید ہیں۔ یہاں انفرااسٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں واپسی سے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ تیراہ میں تاحال آپریشن جاری ہے۔ پاک افغان بارڈر کے علاقے راجگل میں کل ہونے والی بمباری سے کئی مشتبہ افراد کی ہلاکت کی اطلاعات ملی ہیں۔ تیراہ میں شاید ہی کوئی گھر سلامت بچا ہوگا۔ لوگوں کی کئی کئی کمروں پر مشتمل سو سو سال پرانی آبادیاں راکھ کا ڈھیر بنا دی گئی ہیں۔ حجرے، مساجد، باغات اور کھیت بھی دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں۔ بعض مقامات پر بارودی سرنگوں سے بھی نقصانات کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔ تیراہ کے بعض علاقوں کے متاثرین کی واپسی کا عمل فی الحال تعطل کا شکار ہے، یہ تب ہی ممکن ہوسکے گا جب جاری آپریشن ختم ہوگا۔ مہمند ایجنسی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سب سے زیادہ ہوئے ہیں۔ یہاں اب بھی خوف وہراس پایا جاتا ہے۔ بعض مقامات پر ریموٹ کنٹرول دھماکوں کے ذریعے امن و امان کو چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ باجوڑ ایجنسی میں سڑکوں کے دونوں جانب 300 میٹر تک فصلیں اگانے پر پابندی ہے۔ یہاں چیک پوسٹوں نے لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ روزگار، تعلیم اورصحت کے مسائل کی وجہ سے لوگوں کو واپسی میں مشکلات ہیں۔
بریگیڈیئر (ر) سید نذیر نے آئی ڈی پیز کی واپسی کی صورت حال بیان کرتے ہوئے کہا کہ بے گھر ہونے والے 3 لاکھ 36 ہزار آئی ڈی پیز خاندانوں میں سے اب تک 2 لاکھ55 ہزار واپس جا چکے ہیں، جبکہ 76 ہزارخاندان اب بھی باقی ہیں۔ کرم ایجنسی میں4 ہزار خاندانوں کو فرقہ وارانہ اختلافات کی وجہ سے واپسی میں مشکلات درپیش ہیں۔ وادی تیراہ کے 5 ہزار خاندان واپسی سے محروم ہیں۔ 30 سے35ہزار افراد اس ماہ کے آخر تک واپس چلے جائیں گے، بقیہ جو موسمی اثرات یا دیگر اسباب کی وجہ سے اب تک نہیں جا سکے ہیں ان کی واپسی بعد میں ہوگی۔ کچھ خاندان جنہیں ٹیکنیکل آئی ڈی پیزکہا جاتا ہے اُن کی واپسی بھی مؤخر ہے کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو پہلے سے بندوبستی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں لیکن انہوں نے خود کو بطور آئی ڈی پیز رجسٹرڈ کروا رکھا ہے۔ تین ماہ پہلے متاثرہ علاقوں کا فوج اور دیگر متعلقہ اداروں کی نگرانی میں گراؤنڈ سروے کیا گیا ہے۔ واپسی کا عمل بتدریج جاری ہے۔ واپسی سے قبل سڑکوں کی تعمیر، صحت اور تعلیم کی سہولیات پر توجہ دی جارہی ہے۔ 6.24 افراد فی خاندان کی شرح سے15لاکھ افرادکے بے گھر ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ متاثرہ خاندانوں کو واپسی پر25 ہزار روپے فی خاندان کے علاوہ 10 ہزار روپے کرائے کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں، جبکہ انہیں 170کلوگرام راشن جس میں آٹا، چینی، چاول، گھی، دالیں وغیرہ شامل ہوتی ہیں، دی جاتی ہیں۔ مکمل طور پر تباہ شدہ گھروں کی دوبارہ تعمیر کے لیے 4 لاکھ روپے، جبکہ جزوی طور پر تباہ گھروں کی تعمیر کے لیے متاثرہ خاندانوں کو ایک لاکھ 60 ہزار روپے امداد دی جا رہی ہے۔ اسسمنٹ کے لیے سول انتظامیہ، آرمی انجینئر کور اور مقامی زعماء پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ میران شاہ میں تباہ شدہ کئی مارکیٹیں زیر تعمیر ہیں جہاں تمام ضروری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ متاثرہ علاقوں میں 39 اسکول دوبارہ تعمیر کیے گئے ہیں۔ پانی کی 150 اسکیمیں مکمل کی گئی ہیں۔ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن(FWO) پل اور سڑکیں تعمیر کررہی ہے۔قبائلی علاقوں میں اکثر مکانات ایک پورے کمپلیکس کی شکل میں تعمیر کیے جاتے ہیں جن میں گھر، حجرہ، مسجد اور جانوروں کے باڑے شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر تباہ ہوچکے ہیں۔ واپسی کے بعد آئی ڈی پیز کو ان کی آبادیاں اجڑے ہوئے گھروں، تباہ شدہ مارکیٹوں اور ٹوٹے پھوٹے کھیتوں کی صورت میں ملیں گی۔ دکانیں بننے کے بعد سرمایہ کاری کے لیے وسائل درکار ہوں گے اور منافع کمانے میں طویل عرصہ لگے گا۔ متاثرین کو کاروباری سرگرمیاں شروع کرنے کے لیے قرضوں کا کوئی میکنزم نہیں دیا گیا ہے۔ قبائل کو نئی زندگی شروع کرنے کے لیے ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہوگی۔ فی کلومیٹر رقبے میں ہزاروں ٹن گولہ بارود استعمال ہوا ہے جس نے ماحول کے ساتھ ساتھ تمام چیزوں کو متاثر کیا ہے۔ سرچ آپریشنوں سے لوگوں میں بے یقینی، بے چینی، مایوسی اور نفرت کے جذبات جنم لے رہے ہیں۔آئی ڈی پیز کی واپسی ایک عبوری دور ہے جس میں بہت ساری باتیں واضح نہیں ہیں۔ اس عمل کو پُرامن طور پر دوستانہ اور مفاہمانہ ماحول میں تکمیل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ نئے مرحلے میں فاٹا اصلاحات کے فوری نفاذ کے ساتھ ساتھ سول انتظامیہ کو اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے آنا چاہیے۔
پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اپنے خطاب میں کہا کہ قبائل کی دانش اور مسائل کی تفہیم بندوبستی علاقوں سے زیادہ ہے۔ قبائل میں سنجیدگی اور متانت بدرجۂ اتم ہے۔ قبائل نے ہمیشہ مشکلات اور پیچیدہ مسائل میں بہترین فیصلے کیے ہیں۔ قبائل کا جرگہ سسٹم اس جدید دور میں بھی پیچیدہ مسائل کو بہتر انداز میں حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کچھ اقدامات فوری طور پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ فوج کے طریقہ کار سے اختلاف ہوسکتا ہے لیکن فوج قبائلی علاقوں میں جوکچھ کررہی ہے وہ یقیناًقومی مفاد میں کررہی ہے اور اسے پوری قوم کا اعتماد حاصل ہے۔ کسی بھی مسئلے کا کوئی بھی فوری حل آج تو مناسب ہوگا لیکن کل کو یہ مسائل کسی دوسری شکل میں زیادہ پیچیدہ صورت میں نمودار ہوں گے۔ فاٹا، خیبرپختون خوا اور افغانستان ایک دوسرے کے لیے رستے ہوئے زخم ہیں۔ افغانستان کے مسائل کو قبائلی علاقوں کے مسائل سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔گلبدین حکمت یار کے ساتھ افغان حکومت کے معاہدے کے بعد ہمیں ان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہیے۔ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ اشرف غنی جو کل تک پاکستان کا حامی سمجھا جاتا تھا آج ہمارا دشمن کیوں بن گیا ہے۔ ہمیں قبائلی علاقوں کی صورت حال کو پوسٹ سی پیک حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ پوسٹ سی پیک کے حالات میں اس خطے کو جو اہمیت ملے گی ہمیں اس کو ہرلحاظ سے مدنظر رکھنا چاہیے۔ قبائلی علاقوں میں پٹوار اورریونیو کا نظام نہیں ہے، اس حوالے سے معاملات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر نسرین غفران نے کانفرنس سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کا دورانیہ مشکل مرحلہ ہوتا ہے، اس میں ہمیں احتیاط کرنی چاہیے۔ میڈیا اور دیگر اداروں کو فاٹا میں رسائی ملنی چاہیے۔ جب تک آپ راستے نہیں کھولیں گے اور لوگوں کو آزادانہ نقل وحرکت کی اجازت نہیں دیں گے تب تک درست اعداد وشمار سامنے نہیں آسکتے۔ لوگوں کو قبائلی علاقوں میں جانے کے لیے سہولیات مہیا کرنی چاہئیں۔ باہر کے مخصوص لوگوں کو تو قبائلی علاقوں میں Excess دیا جاتا ہے لیکن لوکل ریسرچرز کو یہاں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی جس سے درست معلومات سامنے نہیں آرہی ہیں۔ متاثرین کو جو راشن دیا جاتا ہے اس کا معیار گھٹیا ہوتا ہے۔ مالی امداد بھی ناکافی ہے، اور جو ہے وہ بھی بڑی مشکلات کے بعد ملتی ہے۔ قبائلی علاقوں میں غیرمسلح کاعمل ایک مثبت پیش رفت ہے۔ قبائلی علاقوں میں پولیٹیکل انتظامیہ کا خلاء آرمی نے پُر کیا ہے جس سے پاور شفٹنگ آرمی کی جانب ہوگئی ہے، اس سے مسائل بڑھے ہیں۔ آرمی اپنی پاور اب اتنی آسانی سے نہیں چھوڑ ے گی۔ خواتین کی تعلیم پر تاحال کوئی توجہ نہیں دی گئی، سارا زور لڑکوں کی تعلیم پر ہے جو قرین انصاف نہیں ہے۔ نوجوانوں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں جائز مقام دینا چاہیے، یہ طبقہ قبائلی علاقوں میں ریاست کے سفیر کا کردار ادا کرسکتا ہے۔ قبائلی علاقوں میں معلومات تک رسائی نہیں ہے۔ انٹرنیٹ اور میڈیا پرقدغن ہے حالانکہ فوجی علاقوں میں یہ تمام سہولیات دستیاب ہیں۔
پروفیسرڈاکٹر بابرشاہ نے کہا کہ فاٹا کے بارے میں جو معلومات دستیاب ہیں ان کے قابل اعتبار اور متبذہونے پرہروقت سوالیہ نشان لگا ہوتا ہے، کیونکہ پابندیوں کے باعث یہاں معلومات تک کسی کو رسائی نہیں دی جارہی ہے۔ فاٹا میں پچھلے چند سالوں میں بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ ہمارے نوجوان اس تبدیلی کی علامت بن کر سامنے آئے ہیں۔ قبائل کو عزت اورownership دینے کی ضرورت ہے۔ یہ لوگ آپ کے منتظرہیں۔ متاثرین کی Repatriationکے لیے دسمبرکے مہینے کا انتخاب ناقابلِ فہم ہے۔ واپسی کے عمل کو بہار یا گرمیوں میں جاری رکھنا چاہیے تھا۔
رستم شاہ مہمند نے صدارتی خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کی نشستوں کی سفارشات سے پالیسیاں بنانے میں مدد لی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے کافی کمی پائی جاتی ہے۔ قبائلی علاقوں میں کئی فاتحین آئے اورگئے، ان کے اثرات قبائل نے کم ہی قبول کیے۔1980ء کی دہائی میں افغان جہاد، سوویت یونین کی افغانستان آمد اور جنگ سے قبائل کی عمومی زندگی متاثر نہیں ہوئی۔ جنرل پرویزمشرف نے امریکی شہ پر فوج بھیج کر ان علاقوں کو موجودہ حالات سے دوچار کیا۔ Militarization کسی بھی خطے کے لیے اچھی نہیں ہے۔ قبائلی علاقوں میں ڈرونز، شیلنگ، بمباری، فائرنگ اور دھماکوں نے عام لوگوں کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ فوج سرچ آپریشن کے نام پر قبائل کے ساتھ جو سلوک کررہی ہے اس سے لوگوں میں خوف اور نفرت بڑھ رہی ہے۔ قبائلی علاقوں میں حالیہ فوج کشی سے پہلے امن وامان کی صورت حال مثالی تھی۔ یہاں ڈاکے، چوری، قتل نہ ہونے کے برابر تھے۔ اسلحہ کی بھرمار کے باوجود قبائلی نظام کے استحکام کی وجہ سے لوگ اسلحہ کے استعمال میں احتیاط سے کام لیتے تھے۔ قبائلی علاقوں میں تعلیمی سہولیات عام کرنے کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیم پر توجہ دینی چاہیے۔ انفرااسٹرکچر کی تعمیر پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قبائل کی جغرافیائی ساخت کے مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانی وسائل پر سرمایہ کاری ایک بہترین حکمت عملی ثابت ہوسکتی ہے۔ قبائلی علاقوں میں موجود معدنیات لوگوں کے معاشی حالات کو بہتر بنانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔ لوگوں کو قبائلی علاقوں میں آمد کی ترغیب دینے کے لیے رہائشی کالونیاں بنائی جائیں جہاں تمام سہولیات دستیاب ہوں۔ اس سے لوگ قبائلی علاقوں میں خدمات کی انجام دہی میں دلچسپی لیں گے۔ بجلی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے سولر انرجی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لوگوں پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں خوداعتمادی دینی چاہیے۔ قبائلی علاقوں میں جنگلات لگانے پر توجہ دی جائے جو قبائل کی زندگی کا اہم ذریعہ معاش ہے۔ چھوٹے بارانی ڈیم بنائے جائیں، جبکہ فوج کے انخلا کو بتدریج حکمت کے ساتھ شروع کیا جانا چاہیے۔ چیک پوسٹوں اور فوج کے زیر قبضہ علاقوں کو بتدریج واپس مقامی قبائل کے حوالے کرنا چاہیے۔ اصلاحات کے عمل کو مقامی قبائل کے ساتھ مشاورت کی روشنی میں پایۂ تکمیل تک پہنچانا چاہیے۔ متبادل
(باقی صفحہ 41 پر)
سیاسی اور انتظامی نظام متعارف کرانے میں جلدبازی کے بجائے گھروں کی تعمیر، خوراک، روزگار، تعلیم وصحت اور عزتِ نفس کی بحالی جیسے امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات سے پہلے لوگ غربت میں بھی خوش تھے۔ قبائلی روایات کو تہ وبالا کردیا گیا ہے جن کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کو مشکل حالات میں سہارا دیتے تھے۔ اب نفسانفسی کا عالم ہے۔ قبائلی روایات کو اگر آج بھی بروئے کار لایا جائے تو درپیش مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ قبائلی علاقوں میں جاری جنگ بہت سمتوں کی حامل ہے۔ اس جنگ سے نکلنے کے لیے صرف طاقت کے استعمال پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ یہ ایک ہمہ جہت عمل ہے، لہٰذا اس عمل کو نہ صرف جاری رہنا چاہیے بلکہ اس میں مزید تیزی بھی لانی چاہیے۔ فاٹا کے تمام بڑے مسائل کو ایک پہلو سے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ اس کی تمام پیچیدگیوں کو ملحوظِ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے۔
nn