(مردوں کے شہر میں (اعظم طارق کوہستانی

466

کافی عرصے سے اُکتائے اُکتائے تھے۔ کام کر کرکے جسم اَکڑنے لگا تھا اور دماغ کی چولیں بھی ہل گئی تھیں۔ اچانک فیصلہ ہوا اور پوری ٹیم کو لے کر موئن جودڑو کی سیر کو نکل گئے۔ ہم نے ذرا گھومتے گھامتے موئن جودڑو کا پروگرام بنایا، تاکہ کچھ اور مقامات سے بھی فیض یاب ہوجائیں۔ ہمیں یہ بھی اندازہ تھا کہ کسی مقامی فرد کا ساتھ ہونا ضروری ہے تاکہ اس مطالعاتی دورے سے کماحقہٗ فائدہ اُٹھا سکیں۔
ماہ نامہ ساتھی سندھی کے مدیر ’عاصم بھٹو‘ کو فون کرکے ریڈی ہونے کا کہا، بعد میں پتا چلا کہ وہ جناب بیمار تھے لیکن ہماری آمد کا سن کر بھلے چنگے ہوگئے یا پھر بیماری کو نظرانداز کیا۔ ہم نے ٹرین کے ذریعے روہڑی اور پھر روہڑی سے آگے جانے کا پروگرام بنایا۔ ہم تقریباً نو لوگ کراچی سے تھے اور عاصم بھائی کو ملا کر دس ہوگئے تھے۔
ٹرین کے نظام کی جو دھجیاں ’غلام احمد بلور‘ کے دور میں اُڑائی گئی تھی اس کے اثرات کم تو ہوگئے مگر ختم نہ ہوئے۔ ٹرین کے نظام کو بہتر بنیادوں پر استوار کرنے کی اشد ضرورت ہے لیکن ضروری ہے کہ زمام کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو کم از کم شفاف ہوں۔
ٹرین نے ہمیں صبح سویرے روہڑی جنکشن پر پہنچا دیا۔ روہڑی جنکشن ایک بڑا جنکشن ہے۔ یہاں عموماً تمام گاڑیاں ضرور رُکتی ہیں۔ کراچی سے پشاور تک چلے جائیے، ریلوے اسٹیشنوں پر کھانے ایک ہی قسم کے ملیں گے۔ مختلف ٹھیکوں پر لیے گئے ان اسٹالز پر کھانا کھانے کا مطلب اپنی صحت کے ساتھ دشمنی کرنا ہے۔ اس لیے ہم نے روہڑی اسٹیشن سے باہر نکلتے ہی ایک قریبی ہوٹل سے ناشتا کیا۔ حلوہ پوری کا ناشتا کسی طور پر کراچی کی حلوہ پوریوں سے کم نہیں تھا۔ ناشتا ختم کرنے کے بعد ہماری پہلی منزل لئنسڈاؤن پل تھا۔
یہاں ہم نے روہڑی اور سکھر کو ملانے والا تاریخی پل دیکھا۔ یہ پل ۱۸۸۸ء میں انگریزوں کے دورِ حکومت میں بنا تھا۔ پاکستان میں انگریزوں کے دور میں بنی چیزیں اکثر و بیشتر درست حالت میں ہیں۔ بہت سی چیزیں خستہ حال بھی ہیں، جبکہ بہت سارے پروجیکٹس کو مرمت اور پالش کے بعد چمکا بھی دیا جاتا ہے۔
پی ٹی وی کے پروڈیوسر اور ماہنامہ ساتھی کے مستقل قلم کار غلام مصطفی سولنگی نے سندھ کے مختلف تاریخی اور تفریحی مقامات کو قلم بند کیا ہے اور ڈاکومینٹریاں بنائی ہیں۔
لئنسڈاؤن پل کے متعلق ان کی تحقیق بتاتی ہے: ’’سکھر اور روہڑی کو ملانے والا پل، لئنسڈاؤن پل کسی عجوبے کی مانند ہے۔ انگریزوں کی طرف سے ۱۸۴۳ء میں سندھ فتح کرنے کے بعد سندھ میں ریلوے نظام متعارف کروایا گیا۔ اس سلسلے میں انگریز سرکار نے بڑی سرگرمی دکھائی، لیکن سب سے بڑی رکاوٹ دریاؤں پر پل بنوانے کا معاملہ تھا۔ انگریز حکومت نے سب سے پہلے سکھر اور روہڑی کے درمیان دریائے سندھ پر پل تعمیر کرانے کی منصوبہ بندی کی تاکہ ملک کے باقی علاقوں کو ریلوے کے ذریعے مربوط کیا جاسکے۔ یہ پل اُس وقت کے وائسرائے ہند لارڈ لئنسڈاؤن (Lord Lancedown) کے نام سے منسوب کیا گیا۔ اس پل کا افتتاح بمبئی کے اُس وقت کے گورنر لارڈری (Lord Reay) نے کیا تھا۔
لئنسڈاؤن پل بننے کے بعد دریائے سندھ کے دونوں کنارے آپس میں مل گئے۔ پل بننے سے پہلے لوگ کشتیوں کے ذریعے دریا پار کیا کرتے تھے۔
لئنسڈاؤن پل کی تعمیر پر اُس وقت کے حساب سے۲۸ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ اس پل کا ڈیزائن برطانیہ کے ایک ماہر انجینئر سر الیگزینڈر نے بنایا تھا۔ اس پل کی اہمیت یہ ہے کہ برصغیر پاک و ہند کا پہلا پل ہے، جس کی تعمیر میں بہت زیادہ مقدار میں لوہا استعمال کیا گیا ہے۔ اس پل کے سارے ڈھانچے کا وزن ۳۳۰۰ ٹن ہے۔ پل کے زیادہ تر حصے لندن میں بنائے گئے تھے اور پھر بحری جہازوں کے ذریعے ان کو یہاں لایا گیا تھا۔ درمیان میں پل کی تعمیر کا کام کچھ عرصے کے لیے رک گیا تھا، کیوں کہ لندن میں بنائے گئے پل کے کچھ حصے یہاں دیر سے پہنچے تھے۔ یہ پل اپنے وقت کا سب سے بڑا قینچی نما پل ہے۔
قیام پاکستان کے بعد محسوس کیا گیا کہ لئنسڈاؤن پل کا کچھ حصہ کمزور ہوگیا ہے، لہٰذا ایک متبادل پل بنوایا جائے۔ اس طرح ۱۹۶۲ء میں ایک نیا پل تعمیر کروایا گیا۔ اس کا نام ایوب پل رکھا گیا۔ اس پل کا ڈیزائن ڈی بی اسٹیمئن نامی ایک برطانوی تعمیراتی کمپنی نے تیار کیا تھا۔ یہ ڈیزائن لئنسڈاؤن پل جیسا ہے۔ اس ڈیزائن میں دو طرفہ ریلوے کی آمد و رفت کا انتظام کیا گیا ہے۔ لئنسڈاؤن پل کا بالائی حصہ کمان کی طرح ہے، جس میں فولادی دستے باندھے گئے ہیں، جو کہ پل کا وزن اٹھائے رکھتے ہیں۔ دو جڑواں شہروں روہڑی اور سکھر کو ملانے والا لئنسڈاؤن پل انگریز دور کی ایک خوبصورت یادگار ہے۔
صبح کا وقت تھا، اس لیے سڑکوں پر رَش نہ ہونے کے برابر تھا۔ سکھر بھی اب دو حصوں میں بٹ چکا ہے۔ ایک حصہ پرانا سکھر اور ایک حصہ نیا سکھر کہلاتا ہے۔ سکھر ہی میں تاریخی مقام بابا معصوم شاہ کا مزار بھی ہے۔ مزار پر فاتحہ پڑھنے کا کوئی ٹکٹ نہیں لیکن مینار پر چڑھ کر پورے شہر کا دیدار آپ پندرہ روپے میں کرسکتے ہیں۔ یہ مینار آج بھی آپ کو اپنے طرزِ تعمیر کی وجہ سے ماضی کی سیر کرواتا ہے۔
تاریخی شہر سکھر کی نمایاں اور بلند ترین عمارت معصوم شاہ کا مینار ہے۔ تعمیراتی حوالے سے اس مینار کی اہمیت اتنی ہے کہ اس کا مقابلہ ہندوستان کے تاریخی شہروں دولت آباد، احمد آباد اور دہلی میں موجود مسلمان دور کے تعمیر شدہ میناروں سے کیا جاتا ہے۔
سکھر شہر کے وسط میں واقع یہ مینار میر محمد معصوم بکھری نے تعمیر کروایا تھا۔ میر محمد معصوم بکھری مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں شیخ الاسلام کے لقب سے پہچانے جاتے تھے۔ وہ بڑی عالم و فاضل شخصیت تھے۔ ان کی لکھی ہوئی کتاب ’’تاریخِ معصومی‘‘ کو سندھ کی پہلی مستند تاریخ سمجھا جاتا ہے۔
میر محمد معصوم بکھری نہ صرف بڑے عالم و فاضل اور تاریخ دان تھے بلکہ وہ بیک وقت خطاط، شاعر، منشی، طبیب، بہادر سپاہی، سفارت کار اور بہترین کاتب بھی تھے۔
معصوم شاہ کے مینار کے دروازے پر ایک کتبہ آویزاں ہے۔ اس پر لکھا ہے :
’’یہ مینار بادشاہ اعظم شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر بادشاہ غازی کے دور میں تعمیر شدہ ہے۔ میر محمد معصوم، جو بلند آسمان کا پورا چاند ہے، جو اپنے نام کی وجہ سے دنیا میں مشہور ہے، اس نے یہ شاندار مینار وہاں تعمیر کروایا، جہاں سے نیلا آسمان سر اٹھاتا ہے۔ آسمان سے فرشتوں نے اس کی تعمیر کی تاریخ بتائی تھی۔‘‘
آپ کو یہ معلوم کرکے یقیناًحیرت ہوگی کہ معصوم شاہ کے مینار کی تعمیر میں سیمنٹ کے بجائے جانوروں کی ہڈیاں پیس کر استعمال کی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی معصوم شاہ کا مینار نہایت مضبوطی سے قائم ہے۔
سرخ اینٹوں سے تعمیر شدہ گول شکل کے اس مینار کی ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کی بلندی ۸۴ فٹ، چوڑائی ۸۴ فٹ اور اوپر جانے کے لیے سیڑھیاں بھی ۸۴ ہی بنائی گئی ہیں۔ یہ سیڑھیاں اوپر تک جاتی ہیں۔ مینار کی چوٹی پر ایک گرل لگائی گئی ہے تاکہ اوپر سے گرنے کا خدشہ نہ رہے۔ مینار کی چوٹی سے سکھر شہر کا منظر بہت شاندار اور دل پذیر نظر آتا ہے۔
معصوم شاہ کے مزار کے بعد ہم نے سکھر بیراج کی سیر کی۔ یہ بیراج پانی کی فراہمی اور سیلاب کو روکنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پانی میں بڑی بڑی جھاڑیاں بھی اُگی ہوئی تھیں اور بیراج کے دروازوں پر ڈھیر سارا کچرا انتظامیہ کو منہ چڑانے کے لیے کافی تھا، بشرطیکہ وہ چِڑ جائیں۔
اب ہم نے موئن جو دڑو کے لیے رَختِ سفر باندھا کیونکہ ہمارے نکلنے کا مرکزی خیال اور ہمارے سفر کا لب لباب موئن جو دڑو ہی تھا۔ سندھ ہمیں کچھ زیادہ اچھی حالت میں نظر نہیں آیا۔ اگر موازنہ خیبر پختون خوا یا پنجاب سے کیا جائے تو حالت بہت بُری ہے۔ البتہ کہیں پر کھیت وسیع انداز میں لہلہاتی فصلوں کے ساتھ ملیں گے۔
موئن دڑو کی طرف جاتے ہوئے حسام چندریگر نے لقمہ دیا: ’’موئن جو دڑو جانے کی کیا ضرورت ہے، صوبائی حکومت اگر یہی رہی تو بیس سال بعد یہی موئن جو دڑو کہلائے گا‘‘۔ خیر ہم نے اس درویش کی بات کو ٹال دیا اور فیصلہ مؤرخ پر چھوڑ دیا۔
دوپہر ایک بجے ہم موئن جو دڑو میں موجود تھے۔ موئن جو دڑو ’مردوں کا ٹیلہ‘ کہلاتا ہے، دراصل یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم قبرستان میں موجود تھے، لیکن یہ قبرستان کم از کم مسلمانوں کا نہیں ہے۔
موئن جو دڑو کا انتظام ۲۰۱۶ء کے بجائے ۱۹۱۶ء کا لگ رہا تھا۔ ایک میز لگا کر دو آدمی ٹکٹ کی فروخت کے لیے موجود تھے۔ بڑے گیٹ پر انگریزی لیکن موئن جو دڑو کی زبان کے اسٹائل میں موئن جو دڑو لکھا ہوا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی ایک پارک شروع ہوجاتا ہے اور وہیں ایک خستہ حال چائے کا ڈھابہ بھی ہے۔ ڈھابے کے ساتھ موئن جو دڑو کا خوب صورت میوزیم ہے۔
میوزیم کا ٹکٹ لے کر ہم میوزیم میں داخل ہوئے۔ یہاں حکومت کی جانب سے گائیڈ موجود ہوتے ہیں لیکن آخر میں اپنا نذرانہ وصول کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔
گائیڈ ہمیں ترتیب وار تمام تاریخی اشیاء دکھا رہا تھا جو موئن جودڑو کی کھدائی کے دوران ملی تھیں۔ اس سامان کی کچھ موٹی موٹی تفصیلات یہ ہیں:
موہن جودڑو سے 1200 سے زائد مہریں ملی ہیں۔ اوسط درجہ کی مہریں اتنی شاندار ہیں کہ دستکاری کا شاہکار معلوم ہوتی ہیں۔ عموماً مہروں پر جانوروں کی حقیقت پسندانہ شکلیں ہیں۔ کہیں کہیں دیو مالائی شکلیں ہیں۔ مثلاً ایک سنگھا۔ یعنی ایک ایسا گھوڑا جس کے ماتھے پر سینگ ہیں۔
موہن جودڑو سے گیارہ مجسمے ملے ہیں۔ ان گیارہ مجسموں کا مجموعی جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پانچ مجسموں میں ایک ایسا شخص دکھایا گیا ہے جو آلتی پالتی مارے بیٹھا ہے۔
آپ کو حیرت ہوگی لیکن آج سے ہزاروں برس پہلے موئن جو دڑو کی سرزمین پر رقاصائیں موجود تھیں۔ موہن جودڑو کی رقاصہ سرزمینِ پاکستان کے قدیم کاریگروں کی مہارت کا شاہکار ہے۔ یہ مجسمہ آج بھی دنیا بھر میں وادئ سندھ کی تہذیب کی علامت بن گیا ہے یا بنا دیا گیا ہے۔
مٹی کی بہت ساری مورتیاں ملی ہیں، جن میں انسانی مورتیاں بھی ہیں اور حیوانی مورتیاں بھی۔ ان پر عموماً سرخ رنگ چڑھایا گیا ہے اور بعض پر پالش کی گئی ہے۔
موہن جودڑو کے مٹی کے برتن عموماً چاک پر بنے ہوئے ہیں لیکن اس تہذیب کے سارے عرصے میں ہمیشہ ایک قلیل تعداد برتنوں کی ہاتھ سے بنتی رہی ہے۔ ان میں ایک نمایاں برتن وہ رکابی ہے جو اونچے پائیدان پر جڑی گئی ہے۔ عموماً اسے چڑھاوے کا پائیدان کہا گیا ہے۔
وادی سندھ میں منکے ہیئت میں کثیرالنوع ہیں۔ سونے، چاندی، تانبے، کانسی، روغنی مٹی، صابن، پتھر، قیمتی اور نیم قیمتی پتھروں اور گھونگوں، سیپیوں اور مٹی سب چیزوں سے منکے بنائے جاتے تھے۔ سب سے زیادہ منکے پتھر کے بنے ہوئے ملے ۔
امیر عورتیں بکثرت زیور استعمال کرتی تھیں، جس میں سونے، چاندی اور نیم قیمتی پتھروں سے بنے ہار، گلوبند اور بازو بند شامل تھے۔ ان کے علاوہ سونے کے تعویذ جن میں سفید لئی جڑ کر پھول بنائے جاتے تھے۔
مٹی کی کئی ننھی منی چیزیں بنائی جاتی تھیں جن میں مٹی کی سیٹیاں جو پرندوں خاص کر مرغیوں کی شکل کی ہیں۔ اس کے علاوہ مٹی کے گول جھنجھنے جن میں مٹی کی باریک گولیاں ڈالی جاتی تھیں۔ مٹی کے بنے ہوئے گول اور چوکور پانسے۔ مٹی کے جھانوے، مٹی کے ننھے پنجرے جن میں جھینگر رکھے جاتے ہوں گے، اور مٹی کے چوہے دان بھی ملے ہیں۔ اس طرح کے ننھے منے برتن بھی ہیں، مٹی کی چوڑیاں، کنگن، انگوٹھی اور بٹن وغیرہ ہیں جن پر روغن چڑھایا گیا ہے۔ ان کے علاوہ بازو بند، کھیل کے مہرے اور ننھی منی بے شمار چیزیں بنائی جاتی تھیں۔ بعض جگہ سے نہایت تنگ منہ والی چھوٹی سرمے دانیاں بھی ملی ہیں۔
پختہ مٹی کی بہت سی کھلونا گڑیاں اور دوسرے کھلونے ملے ہیں۔ مٹی کے بنے رتھ اور چھکڑے ہیں۔ مٹی کی بنی پرندوں کی شکل کی سیٹیاں ہیں جو آج بھی پھونک ماریں تو بجتی ہیں۔ دو اینٹوں پر ایسے پانسے بنے ہیں جن سے پانسا پھینک کر کھیلنے والا کوئی کھیل کھیلا جاتا ہوگا۔ پانسوں پر جو نشانات لگے ہیں ان کا طریقہ موجودہ طریقہ کار سے مختلف ہے۔ موجودہ پانسے پر کوئی سی دو مخالف سمتوں کا مجموعہ سات بنتا ہے۔ یعنی ایک کے مخالف چھ ہیں، دو کے مخالف پانچ، تین کے مخالف چار اور پانچ کے مخالف چھ۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ لوگ ان کھیلوں پر جوا کھیلتے تھے یا نہیں۔
وادئ سندھ کے بہت سے سربستہ رازوں میں سے سب سے دلچسپ راز وادئ سندھ کا رسم الخط ہے۔ اسے پڑھنے کی کوششیں دنیا بھر کے ماہرین نے کی ہیں لیکن خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی۔ وادئ سندھ کی کُل تحریریں 5000 سے بھی زائد ہیں جو مختلف مہروں، ٹکیوں اور برتنوں پر ثبت ہیں۔ ان میں سے بعض عبارتیں دہرائی گئی ہیں۔ اس اعتبار سے کل عبارتیں 1500 ہیں۔ ان عبارتوں میں بنیادی علامات 396 ہیں جو اپنے زمانے کے اعتبار سے خاصی مختصر ہیں اور زبان کے ترقی یافتہ ہونے کا ثبوت بھی ہیں۔ اس رسم الخط کو پڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تو یہ ہے کہ دستیاب عبارتیں نہایت مختصر ہیں۔ کوئی سی تحریر ایک آدھ جملے سے زیادہ نہیں۔ سب سے طویل عبارت میں صرف سترہ علامتیں یا شکلیں ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ شاید بعض افراد یا قبیلوں کے نام، خطابات یا کسی تجارتی ادارے کے نام ہیں۔
یہاں سے ہم موئن جو دڑو کے اصل کھنڈرات کی جانب روانہ ہوئے۔ یہیں سے بے نظیر کے بیٹے نے اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا۔ آغاز اس اُجڑے شہر کی جگہ سے ہوا ہے تو سمجھ لیں انجام کیا ہونے والا ہے۔ ایک خطیر رقم اس پروگرام میں خرچ کی گئی جو سندھ جیسے خطے کے حکمرانوں کو زیب نہیں دیتا۔ یہاں بھی ایک گائیڈ موجود تھا جو ہمیں موئن جو دڑو کی گلیاں، مکانات، سوئمنگ پول، واش روم اور کنویں دکھانے لگا۔
1921ء کا واقعہ ہے کہ رائے بہادر ’دیا رام سہنی‘ نے ہڑپہ کے مقام پر قدیم تہذیب کے چند آثار پائے۔ اس کے ایک سال کے بعد اسی طرح کے آثار ’مسٹر آر ڈی بنرجی‘ کو موہنجودڑو کی سرزمین میں دستیاب ہوئے۔ اس کی اطلاع ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کو ملی۔ محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل سر جان مارشل نے دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے ان دونوں مقامات کی طرف توجہ دی۔ چنانچہ رائے بہادر دیا رام سہنی، ڈائریکٹر ارنسٹ میکے اور محکمہ اثریات کے دیگر احکام کے تحت کھدائی کا کام شروع ہوا، تاہم یہ کام اب تک مکمل نہیں ہوسکا ہے۔
وادئ سندھ کی تہذیب کی بے نقابی اور تشریح شاید بیسویں صدی کا عظیم ترین عصریاتی واقعہ ہے۔ کیوں کہ اس تہذیب کی وسعت اور معنویت کو 1922ء میں موہن جودڑو کی کھدائی سے پہلے سمجھا ہی نہ جاسکا۔
موہنجودڑو کا عمومی پلان ہڑپہ جیسا ہی تھا۔ شہر کے مغرب میں قلعہ ہے۔ شہر کی گلیوں کی ترتیب و مکانات اور اناج گھر سب ہڑپہ جیسے ہیں۔ البتہ یہاں کی منفرد اور سب سے نمایاں چیز بڑا اشنان گھر ہے۔ بڑا غسل خانہ، بڑی باؤلی یا عظیم حمام۔ یہ ایک بڑی سی عمارت ہے جس کے وسط میں ایک بڑا سا تالاب ہے۔ یہ تالاب شمالاً جنوباً 39 فٹ لمبا اور شرقاً غرباً 23 فٹ چوڑا اور 8 فٹ گہرا ہے۔ شمال اور جنوب دونوں سمت سے اینٹوں کے زینے اندر اترتے تھے جن پر لکڑی کے تختے چپکا دیے گئے تھے۔
اسی طرح موہن جودڑو تو دریائے سندھ کے اندر ایک جزیرہ نما خشکی پر واقع تھا۔ اس کے ایک طرف دریائے سندھ تھا اور دوسری طرح دریائے سندھ سے نکلنے والا نالہ (جسے نارا کہتے ہیں) بہتا تھا۔ یہ آگے جاکر واپس دریا میں مل جاتا تھا۔ اسی لیے شہر کی حفاظت کے لیے ایک میل لمبا حفاظتی بند باندھا گیا تھا۔ موہنجودڑو میں بار بار سیلاب کی تباہ کاریوں کا ثبوت ملتا ہے۔
ہم جب موہنجودڑو جیسا عالی شان شہر دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے جس کے مکانات پختہ اور مضبوط، دو دو تین تین منزلہ اونچے ہیں، ان میں سڑکیں ہیں، بازار ہیں، ان کے باشندوں کی زندگی، عادات و رواج سانچے میں ڈھلے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ موہن جودڑو کے وہ آثار جو بہت زیادہ گہرائی میں ہیں، سب سے زیادہ ترقی کا پتا دیتے ہیں، یعنی جب یہاں کے شہر پہلے پہل بنے تب یہاں کی تہذیب اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی اور بعد میں اسے زوال آتا رہا۔
ہم کراچی سے آئے تھے، اسلام آباد سے آیا ایک وفد ہمارے ساتھ گائیڈ کی رہنمائی لے رہا تھا۔ بیس روپے کے نوٹ کے پیچھے موئن جو دڑو کی جو تصویر موجود ہے، وہاں ہم نے گائیڈ کے کہنے پر تصویریں بھی کھینچیں کہ یادگار رہیں اور بوقتِ ضرورت کسی کو دکھا بھی سکیں۔
گائیڈ نے بتایا کہ یہ شہر دو دفعہ سیلاب سے اور ایک دفعہ کسی انجانی آگ سے تباہ ہوا۔ لیکن تحقیق کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ یحییٰ امجد (تاریخ پاکستان کا قدیم دور)، پروفیسر محمد مجیب (تاریخ تمدن ہند) میں کچھ اور ہی اشارے کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ موہن جودڑو بتدریج زوال پذیر ہوا۔ بارہا یہ شہر سیلاب سے تباہ ہوا اور ہر بار نئے لوگوں کا معیار پہلے سے بہت پست تھا۔ بڑے مکانوں کے ملبے پر چھوٹے اور گندے مکان بنے۔ بڑے اناج گھر کے اوپر چھوٹے چھوٹے گھٹیا مکان بنے اور بتدریج دارالحکومت ایک وسیع و عریض کچی آبادی میں تبدیل ہوگیا۔ غلاموں کی بغاوت کا لامتناہی سلسلہ وہ بنیادی سبب ہے جس نے سندھ کی تہذیب اور سندھ سلطنت کو تباہ و برباد کردیا۔ متفرق شہروں کے بار بار جلنے اور اس کے بعد کمتر دستکاری کے مروج ہونے کے بہت سے ثبوت آثار قدیمہ نے فراہم کیے۔ یہ کمتر دستکار دیہی کمی تھے جو سماج کی پست ترین سیڑھی پر تھے۔ یہ کوئی باہر سے آنے والی فاتح اقوام کے افراد نہیں تھے۔ مقامی غلام تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کا کوئی شہر یا قصبہ تباہ ہوتا تو اگلی مرتبہ کمتر ثقافت دیکھنے میں آتی۔ بغاوتوں اور تجارتی قافلوں پر ڈاکوؤں کے حملے اور شہروں پر کسانوں کے حملے ہونا فطری سی بات تھی۔ ان روز روز کی بغاوتوں نے سلطنت کو بہت کمزور کردیا۔ جگہ جگہ ریاستی مشنری شکست و ریخت کا شکار ہونے لگی۔
اس صورت حال میں آریاؤں کے وحشی قبائل مغرب سے داخل ہوئے اور ان کے پے درپے حملوں نے سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجادی، اور یہ ماننا پڑے گا کہ زوال آمادہ تہذیب 1700 ق م میں آریاؤں کے ہاتھوں تباہ ہوئی۔ مگر آریاؤں کا حملہ آخری عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔
موئن جودڑو کی سیر کے دوران تھکن نے وار کرنے شروع کردیے لیکن ہمت ابھی باقی تھی، اس لیے لاڑکانہ شہر کا رخ کیا۔
لاڑکانہ آئیں اور بے نظیر صاحبہ کو مِس کریں، یہ کیسے ہوسکتا ہے! اس لیے ہماری اگلی منزل سندھ کے حکمران خاندان کی آخری جائے پناہ تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو، ان کی بیگم نصرت بھٹو اور بیٹی بے نظیر بھٹو کی قبروں پر شاندار مقبرے تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہ خاصا بڑا احاطہ ہے، دیگر بہت سے عزیز بھی یہاں مدفون ہیں۔ احاطہ اتنا بڑا ہے کہ ’مزید ‘ کافی ’گنجائش‘ ہے۔
مزار کا انتظام جس شخص کے بھی سپرد ہے، وہ انتہائی بدذوق اور آرٹ سے کوسوں دور شخص ہے۔ مختلف شہدا کی تصاویر سے مزار کو ایسے بھر دیا ہے کہ وہ دیکھنے میں آنکھوں کو اچھی نہیں لگتیں۔ اگر کوئی باذوق آدمی یہاں کا نگراں ہوتا تو وہ اُسے خوب اچھے انداز سے آراستہ کرتا۔ یہاں بہت بڑے گراؤنڈ میں باقاعدہ ہیلی کاپٹر اُترنے کی بھی جگہ بنائی گئی ہے تاکہ حکمرانوں کو بی بی کے مزار کا دیدار کرنے میں کوئی دِقت نہ ہو۔
شام کا ملگجا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ یہاں سے ہم عاصم بھٹو بھائی کے گاؤں جندو دیرو پہنچے۔ عاصم کے ابو اور بھائی ہمارے منتظر تھے، اُنھوں نے ہماری ایسے میزبانی کی کہ ’حیا‘ سی آنے لگی۔ کھانے میں تقریباً تمام ڈشیں مچھلی سے بنائی گئی تھیں۔ ہر ڈش عمدہ اور لذیذ ۔۔۔ وہاں کی ایک مقامی سبزی اور چاول کی روٹی بھی بنائی، لیکن ان دو نئی چیزوں کا تجربہ کرنے سے سبھی ہچکچا رہے تھے۔ کھانے کے بعد کڑک دار چائے سے سرور پایا اور رات کو لمبی تان کے سوگئے۔۔۔
صبح اتوار تھا۔ ناشتا رات کے کھانے کی طرح پُرتکلف تھا۔ ایک ساتھی نے بتایا کہ عاصم بھائی نیچے لوگوں سے پوچھ رہے ہیں کہ کراچی والے کیسے پراٹھے پسند کرتے ہیں؟ اُف۔۔۔ ہمیں اتنے تکلف کا علم ہوتا تو رات ہرگز جندو دیرو کا رُخ نہ کرتے۔۔۔ مہمان نوازی کے حوالے سے خیبر کے لوگوں کی بہت تعریفیں سنی ہیں لیکن سندھ کے لوگوں کی مہمان نوازی دیکھ بھی لی اور معتقد بھی ہوگئے۔۔۔ واپس کراچی کے لیے روانہ ہوئے لیکن راستے میں ’پانی والی مسجد‘ کو دیکھنے کا بھی پروگرام بنایا۔ یہ خوب صورت مسجد تحصیل گڑھی یاسین، ضلع شکارپور کے قدیم اور تاریخی گاؤں امروٹ شریف کے جنوب میں دو کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ کیرتھر کینال کے بیچ میں موجود پانی والی مسجد، جہاں سے تحریک پاکستان اور نظریۂ پاکستان کو وہ طاقتور بنیادیں فراہم ہوئیں جہاں علم و عرفان اور دانش مندی کے وہ ستارے اُبھرے، جنھوں نے آگے چل کر پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی پاسبانی کی۔ تحریک پاکستان کے حوالے سے شمالی سندھ میں ایک سیاسی قوت کے مرکز کے طور پر شہرت رکھنے والی اس پانی والی مسجد کی بھی ایک الگ ہی کہانی ہے۔ پانی والی مسجد کے بارے میں سولنگی صاحب لکھتے ہیں:
’’صوبہ سندھ میں سیکڑوں قدیم، تاریخی اور نرالی مساجد موجود ہیں۔ ایک بہت ہی منفرد مسجد ’پانی والی مسجد‘ بھی سندھ کی تاریخی مساجد میں شمار کی جاتی ہے اور جس کے متعلق بہت کم لوگوں کو معلوم ہے۔
۱۹۲۳ء کی بات ہے، جب سکھر بیراج اور کینال پراجیکٹ کا کام برطانیہ سرکار کی نگرانی میں شروع ہوا۔ بلوچستان کو آب پاشی کا پانی پہنچانے کے مقصد سے جب سکھر کے قریب سے کیرتھر کینال کی کھدائی شروع ہوئی تو یہ چھوٹی سی مسجد بھی کیرتھر کینال کے بیچ میں آرہی تھی۔ لہٰذا انگریز سرکار نے اس مسجد کو شہید کرنے کا قطعی فیصلہ کرلیا۔
بیسویں صدی کے ایک بے مثال عالم اور اﷲ کے ولی حضرت مولانا تاج محمود امروٹی نے انگریز سرکار کو مشورہ دیا کہ کینال کا رخ تبدیل کیا جائے اور مسجد کو شہید ہونے سے بچایا جائے۔ لیکن انگریز عملدار مسجد کو شہید کرنے پر بضد تھے۔
مولانا امروٹی نے تحصیلدار، کلکٹر اور انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ کے افسران کو کئی درخواستیں لکھیں، لیکن خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔ نتیجتاً مولانا صاحب نے انگریز سامراج سے مقابلہ کرنے اور ان سے آزادی حاصل کرنے کا اعلان کردیا۔ ہزاروں لوگ جمع ہوگئے اور ایک ایسی دینی، سیاسی اور مزاحمتی تحریک شروع ہوگئی، جس نے برصغیر میں موجود انگریز سرکار کی بنیادیں ہلا دیں۔
مولانا صاحب نے مسجد کی حفاظت کے لیے سیکڑوں لوگوں کے گروہ مقرر کیے، جو الگ الگ اوقات میں مسجد کا پہرہ دینے لگے۔ مولانا صاحب کا کہنا تھا کہ انگریزوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ پورے برصغیر میں لوگوں کو مذہبی آزادی ہوگی اور عبادت گاہوں کو سلامتی ہوگی۔ تو پھر یہ وعدہ خلافی کیوں ہے؟ اس طرح مولانا تاج محمود امروٹی کے سینہ سپر ہوجانے سے اس مسجد کو شہید کرنے کا فیصلہ ترک کردیا گیا۔ یوں کیرتھر کینال کو مسجد کے دونوں اطراف سے گزارا گیا اور مسجد پانی کے بیچ میں آگئی۔ اس لیے اس مسجد کو پانی والی مسجد بھی کہا جاتا ہے۔
پانی والی مسجد قدرت کا ایک عجیب نظارہ ہے اور یہ وہ نرالی تاریخی یادگار ہے، جس کی مثال کہیں بھی نہیں ملتی۔‘‘ (ماہنامہ ساتھی، اکتوبر 2016ء)
اس تاریخی مسجد کو دیکھنے کے بعد ہم سکھر بائی پاس کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔ راستے میں ایک جگہ ڈرائیور نے گاڑی روک کر ہمیں چند قبریں دکھائیں۔ سڑک کنارے آباد قبرستان میں یہ قبریں تین صحابہ کرامؓ سے منسوب ہیں۔
قبرستان کے ساتھ ایک مدرسہ بھی تھا۔ اس مدرسے کے امام صاحب کے بقول دو قبریں غیر تصدیق شدہ جبکہ ایک تصدیق شدہ ہے۔
’’اس ایک قبر کی تصدیق کیسے ہوئی؟‘‘ ہم اپنی زبان بند نہیں رکھ سکے۔
اُن کے شاگرد نے کہا: ’’شاہ صاحب نے خواب میں دیدار کیا اور۔۔۔ صحابی نے اپنی قبر کی نشاندہی کی۔‘‘
شک اور تذبذب کی کیفیت میں ہم وہاں سے روانہ ہوئے۔ پاکستان میں آرکیالوجی کی فیلڈ بہت وسیع ہے۔ یہاں کئی تہذیبیں دفن ہیں۔ موئن جو دڑو اور ہڑپہ تو وہ تہذیبیں ہیں جو دریافت ہوگئیں۔ نجانے اس سرزمین نے مزید کتنی قدیم تہذیبوں کو اپنی آغوش میں لیا ہوا ہے۔
ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوجائے، مخلص اور اچھے حکمران نصیب ہوجائیں تو اس شعبے میں وسیع بنیادوں پر کام کیا جاسکتا ہے، چلیے کچھ اور نہیں تو سیاحوں کے لیے تفریح گاہیں ہی دریافت ہوجائیں گی۔
nn

حصہ