(کراچی کے عوام اور موجودہ بلدیاتی نظام عوامی مسائل سیاسی چپتقلش کا شکار(عارف میمن

194

کراچی کے عوام اور موجودہ بلدیاتی نظام عوامی مسائل سیاسی چپتقلش کا شکار
پاکستان کا معاشی حب کراچی جس طرح کچرے کاڈھیر بنا ہوا ہے اس سے پہلے یہ صورت حال کبھی نہ تھی‘ دنیا چاند سے آگے نکل چکی ہے اور ہم آج بھی اسی بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ آیا شہر سے کچرا اٹھانے کی ذمے داری کس کی ہے۔ ہم جدید ہتھیار بنا کر فروخت کررہے اس حوالے سے دفاعی نمائشوں کا انعقاد بھی کررہے ہیں اور اس دوران شہر قائد کو جس طرح سجانے کی کوششیں کی جاتی ہیں اس سے نہیں لگتا کہ یہ وہی کراچی ہے جو کچرے کا ڈھیر بنا ہوا تھا۔ سڑکیں انتہائی صاف ستھری اور خوشبوؤں سے معطر کی جاتی ہیں‘ مگر افسوس کہ یہ کراچی والوں کے لیے نہیں بلکہ ’’نمائش‘‘ کے لیے کیاجاتا ہے تاکہ باہر سے آنے والے مہمان اچھا تاثر لے کر جائیں۔ باہر سے آنے والے اور اندر سے آنے والے مہمان اچھا تاثر تو ضرور لے کرجاتے ہیں مگر کراچی والے پھر سے وہیں کیوں آجاتے ہیں جہاں وہ موجود تھے۔ شہری آج بھی اسی کشمکش میں مبتلاہیں کہ آیا وہ کس یوسی میں رہائش پذیر ہیں اور وہاں کا کونسلر‘ چیئرمین‘ وائس چیئرمین کون ہے‘ ان کے مسائل کا حل کس کے پاس ہے؟ جب بھی کوئی شہری اپنے مسائل کے حل کے لیے متعلقہدفتر میں جاتا ہے تو وہاں شکایت سننے سے پہلے ہی اسے یہ کہاجاتا ہے کہ ’’یہ ہمارے یو سی کا مسئلہ نہیں ‘ آپ کی گلی فلاں یو سی میں آتی ہے وہاں جائیں۔‘‘ کسی طرح جب مطلوبہ جگہ پہنچ جاتے ہیں تو وہاں یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ ’’ہم کچھ نہیں کرسکتے‘ ابھی تک ہمیں اختیارات نہیں ملے۔جب اختیارات ملیں تب آنا۔‘‘
گٹر اُبل رہے ہیں ‘سیوریج کا پانی گھروں میں داخل ہوچکا ہے‘ کھیل کود کے گراؤنڈ کچرے کا ڈھیر بن چکے ہیں‘ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور ابھی تک ہمیں اس نظام کی الف سے ب تک معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا مسئلہ حل کون کرے گا؟ پانی کے لیے کس کے پاس جائیں‘ کچرے کے لیے کس پاس جائیں اور سیوریج کے مسائل کون حل کرے گا؟
عوامی نمائندے صوبائی اسمبلی کے ہوں یا قومی اسمبلی کے‘ انہیں صرف وہ مسائل یاد رہتے ہیں جن سے عوام کا کوئی تعلق نہیں۔ اسمبلی میں روزانہ کسی نہ کسی سیاسی مسئلے پر بحث ہوتی نظرآتی ہے‘ مگر عوامی مسائل وہیں موجود ہیں جہاں پہلے تھے‘ شاید اب مزید بڑھ چکے ہیں۔ لیکن کسی ایک نمائندے نے بھی اس پر کوئی بات نہیں کہ شہر کے شہر کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہورہے ہیں‘ عوام کو صحت کی سہولیات میسر نہیں‘ تعلیمی اداروں میں تعلیم برائے نام ہے ‘ پرائیوٹ اسکولوں نے پورے ملک میں قبضہ جمالیا ہے‘ اسپتالوں میں مریض مر رہے ہیں۔۔۔ مگران پرکسی کی توجہ نہیں اور اگر کسی طور ان پر ایک نظرپڑ بھی جائے تو ایک جملہ کہہ کر بات ختم کردی جاتی ہے کہ ’’انکوائری کمیٹی بنا دی گئی ہے۔‘‘ ملک میں یہ کمیٹیاں کلو کے بھاؤ بکنے لگی ہیں۔ اب عوام بھی سمجھ چکے ہیں کہ جس مسئلے کو حل نہ کرنا ہو اس پر ’’انکوائری کمیٹی‘‘ بنادی جاتی ہے۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے پورے ملک کو معلوم ہے۔
بلدیاتی نظام میں جہاں نواز لیگ کا چیئرمین ہے‘ وہاں ایم کیو ایم پاکستان کی اکثریت خوار‘ جہاں پیپلزپارٹی کا چیئرمین ہے وہاں تحریک انصاف کی اکثریت والے خوار ‘جہاں متحدہ کا چیئرمین ہے وہاں پیپلزپارٹی کی اکثریت والے خوار نظرآتے ہیں۔ آج کراچی والوں کو حقیقت میں مشرف کا بلدیاتی نظام یاد آتا ہے ‘جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا کونسلر کو پکڑ کر اسے حل کروا دیا جاتا تھا‘ اگر مسئلہ بڑا ہو تو یو سی ناظم کو پکڑ لیتے تھے اور اگر اس سے بڑا کوئی مسئلہ ہو تو سیدھا ٹاؤن ناظم کے دفتر پہنچ جایا کرتے تھے۔ مگر موجودہ بلدیاتی نظام میں یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ بلدیہ ٹاؤن کا چیئرمین کون ہے اور آپ کس یوسی میں کھڑے ہیں؟ موجودہ بلدیاتی نظام پر پہلے بھی متعدد بار لکھاجاچکا ہے مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی اور اسے نافذ کرکے ہی دم لیا۔ اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو یہ نظام عوام کے لیے تھا ہی نہیں بلکہ حدود بندی کر کے ووٹ مختلف سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک کو توڑنے کے لیے تھا۔ اس نظام نے شہری زندگی کو یکسر مفلوج کرکے رکھ دیا ہے ‘ اگر کسی نے اپنے شناختی کارڈ کے فارم کی تصدیق کروانی ہے تو وہ پورا دن اسی کشمکش میں رہتا ہے کہ آیا اس کے علاقے کا یو سی کونسلر اور یو سی چیئرمین کہاں بیٹھا ہے اور اس کے لیے موصوف کو اپنے کام سے چھٹی کرنی ہوگی کیوں کہ چیئرمین اتوار کے روز آپ کو ملے گا نہیں اور باقی دنوں میں وہ کبھی کسی میٹنگ میں ہوگا تو کبھی کسی اجلاس میں۔ اس لیے آپ کو لازماً اپنے کام کاج کو بالائے طاق رکھ کر اس مشن پر نکلنا ہوگا۔
گزشتہ روز بلدیہ ٹاؤن جانے کا اتفاق ہوا۔ سیکٹر 9 بلاک بی میں موجود کچرے کے ڈھیر دیکھ کر کوئی حیرت نہیں ہوئی‘ اس سے قبل ٹاؤن ناظم کامران اختر نے جہاں گراؤنڈکو صاف ستھرا بنایا تھاآج وہاں کچرا پھینکنا معمولی بات ہے۔ لیکن اب صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ گراؤنڈ میں جگہ کم پڑگئی ہے اس لیے سڑکوں پر کچرا پھینکا جاتا ہے۔ وجہ صرف ایک ہی ہے کہ کوئی متبادل نظام نہیں‘ کوئی کچرا اٹھانے والا نہیں۔ دوستوں کے ساتھ اسی کچرے کے ڈھیر پر گفتگو ہورہی تھی کہ اسی دوران ایک خاتون سے ملاقات ہوئی‘ کسی طرح اس خاتون کو معلوم ہوا کہ میں میڈیا سے تعلق رکھتا ہوں تو فوراً میرے پاس آئی اور کہا آپ سے ایک کام ہے اگر کردیں گے تو مہربانی ہوگی۔ میں نے جواب دیا اگر میرے بس کا ہوا تو ضرور کردوں گا‘ خاتون مجھے اپنے ساتھ گھر لے گئی اور دروازہ کھولا‘ جیسے ہی میری نظر گھر کے صحن پر گئی تو دیکھ کر حیران ہوگیا‘پورا صحن سیوریج کے پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔
میں نے پوچھا کہ یہ گندا پانی آپ کے گھرمیں کیسے آیا‘ تو اس خاتون نے جواب دیا کہ یہ جو مین لائن ہے اس کی وجہ سے ‘میں کئی بار یو سی چیئرمین رفیق تنولی کے پاس گئی اور کم ازکم 15سے زائد بار درخواستیں دے کر آئی ہوں کہ میرے گھرمیں سیوریج کاپانی موجود ہے براہِ مہربانی اس لائن کو ٹھیک کریں‘ مگر مہینے سے زیادہ ہوچکا ہے لیکن ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ہر بار یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ آپ جائیں ہم آتے ہیں‘ نہ وہ آتے ہیں نہ یہ مسئلہ حل ہوتا ہے۔ میں اور میرے بچے روز صبح سے رات تک باری باری اس پانی کو باہر نکالتے ہیں۔ روز روز شکایت لے کر جانے پر اب مجھے بھی شرم آتی ہے مگر ان عوامی نمائندوں کو ذرا فرق نہیں پڑ رہا۔
میں اس خاتون کو لے کر سیدھا یو سی آفس پہنچ گیا‘ مگر بدقسمتی سے یوسی چیئرمین رفیق تنولی سیٹ پر موجود نہیں تھے۔ وہاں موجود عملے کو اپنا تعارف کروایا اور مسئلے کاحل پوچھا تو آگے سے ایک ہی جواب ملا کہ آپ کو معلوم ہے ابھی تک اختیارات نہیں ملے اور جب تک اختیارات نہیں ملتے اس وقت تک کچھ نہیں ہوسکتا۔ مطلب یہ ہوا کہ پہلے عوام کو بلدیاتی انتخابات کے انتظار لٹکا کر رکھا گیا اور اب جب اللہ اللہ کرکے بلدیاتی انتخابات ہوئے تو اختیارات کے انتظار میں بٹھا دیا گیا۔ اسی وقت یو سی کونسلر انتھونی سے فون پر رابطہ کیا تو آگے سے یو سی کونسلر انتھونی نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ یہاں ایم کیو ایم کی اکثریت ہے اور چیئرمین ن لیگ کا ہے اور میں متحدہ کا کارکن ہوں اس لیے وہ یہاں پر کام نہیں کرے گا‘جب میں نے کہاکہ مجھے چیئرمین کا نمبر ہی دیں دیں تو آگے سے یہ جواب ملا کہ ہماری بنتی نہیں اس لیے نمبر بھی نہیں رکھا۔
یعنی عوام نے جو ووٹ دیے وہ ضائع ہوچکے ہیں۔ اب اس نئی گیم میں عوام کو کتنا رگڑا جائے گا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ اب شہرِ قائد کے باسیوں کو چاہیے رہائش کے لیے ان علاقوں کا انتخاب کریں جہاں کا چیئرمین ان کی اپنی پارٹی کا ہوں یا پھر دوسرا راستہ یہ ہے کہ جنہوں نے پیپلزپارٹی کو ووٹ دیا ہو وہ تلاش کریں کہ پیپلز پارٹی کا چیئرمین کس علاقے میں موجود ہے وہاں چلے جائیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کو ووٹ دینے والے اور ن لیگ کو ووٹ دینے والے اپنے اپنے چیئرمین ڈھونڈیں اور وہاں منتقلہوجائیں شاید اختیارات ملنے کے بعد آپ کے مسائل کا حل نکل آئے۔ ورنہ جس طرح کا موجودہ نظام بنایاگیا ہے اس میں آپ کی نسل بھی آپ کے مسائل کا حل ڈھونڈتی پھیرے گی۔
nn

حصہ