آج ملکی حالات ہمیں جس مایوسی کی طرف لے جاتے ہیں وہاں روشنی کا اک دیا، امید کی ایک کرن ، روشن مستقبل کی ایک جھلک ہمیں ہمارے بچوں میں نظر آتی ہے۔ پاکستان کا کل ، اس کا مستقبل یقیناًہمارے بچے ہی ہیں۔ بڑے بڑے چور ڈاکو‘ لُٹیرے اور شریف النفس، مہذب انسان کی شخصیت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ بڑے بڑے درخت اسی بیج کی پیداوار ہیں جو بچپن میں بویا گیا تھا۔ ریسرچ سے یہ بات ثابت ہے کہ پانچ‘ چھ سال کی عمر میں انسان کی شخصیت بن جاتی ہے۔ گویا انسان کی شخصیت کا بڑا حصہ ابتدائی عمر میں مرتب ہوجاتا ہے۔ باقی عمر تو بس اس کی کانٹ چھانٹ کی جاتی ہے۔
بچوں کی تربیت میں جہاں ماحول، ادارے اور دیگر افراد کا کردار ہے وہاں والدین کا بنیادی کردار اس حوالے سے اہم ہے کہ ابتدائی چند سال وہ گھر ہی میں گزارتا ہے۔ جہاں اسکی شخصیت کا خمیر تیار ہو چُکا ہوتا ہے جسے پکنے کے لیے مختلف اداروں میں بھیجا جاتا ہے۔
دورِ حاضر میں ٹیکنالوجی شفٹ آنے سے جہاں سہولت کے دروازے کھلے ہیں وہاں بچوں کی تربیت بھی والدین کے لیے بڑا چیلنج بن گیا ہے۔اب موبائل ،انٹرنیٹ ،سوشل میڈیا کو بچوں کی بنیادی ضرورت بنا دیا گیا ہے۔عالمی دن کے حوالے سے یہ آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کی موجودہ دور کی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ابتدائی چند سالوں میں کس طرح بچوں کی تربیت کی جائے۔ذیل میں اس سلسلے میں چند اُصول درج ہیں:
اسلامی آداب سکھائیں:
ہمارے معاشرے میں بگاڑ کی جڑ اسلامی آداب سے دوری ہے۔ ابتدائی عمر میں ہی بچوں کو کھانے پینے ، اٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے کے آداب سکھائیں۔تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یورپ میں مائیں ڈیڑھ سال سے اپنے بچوں کو ٹیبل پر کھانا اور چُھری کانٹے کا استعمال سکھاتی ہیں۔
شرم و حیا کا پہلو ان میں اُجاگر کریں۔ ان کے کپڑے کسی کے سامنے بدلنے سے گُریز کریں۔ کوئی بھی فحش چیز نظروں سے گُزرے تو اس پر توجہ دلائیں۔ ان کے انداز اور زبان سے نکلنے والے الفاظ پر خصوصی توجہ دیں۔
رول ماڈل بنیے:
انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر وقت نظر آنے والی چیز کو کاپی کرتا ہے۔ جیسا کہ بچے اپنے اردگرد کرداروں کی نقل اُتارتے ہیں جس سے ہم بہت محضوظ ہوتے ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ یہ ہمیں توجہ دلاتی ہے کہ ہمارا بچہ ماحول سے کتنی جلدی اور کیا اثرات سمیٹ رہا ہے۔ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے بچے میں جو اچھائی دیکھنا چاہتے ہیں خود اس کا عملی نمونہ بنیں ۔ شیخ عبدالقادر جیلانی نے سچ بولنے کی عادت اپنی ماں سے سیکھی تھی جس کی وجہ سے ان کے قافلے کو لوٹنے والے کافر مسلمان ہوگئے۔
نرم مزاجی اور شفقت:
حتیٰ الامکان بچوں سے نرمی ،پیار اور شفقت والا معاملہ رکھیں۔ عموماً والدین اپنی پریشانی یا تناؤ بچوں پر چیخ چلا کر نکالتے ہیں۔ بڑے اگر بچوں پر چلائیں گے تنقید اور غصہ کریں گے تو بچے ذہنی دباؤ ، شدید پریشانی ،وہم اور شک کا شکار ہو جائیں گے۔ اور پھر یہی بچے بڑے ہو کر ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں زندگی میں ہر چیز کا منفی رُخ دیکھتے ہیں گھر کے باہر غلط لوگوں کی صحبت اختیار کرتے ہیں اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ اُونچی آوازیں، دُرشت لہجے اچھی خاصی شخصیت کو تباہ کر دیتے ہیں۔لہذا بچوں کو پیار ،محبت اور شفقت دیجئے۔نرم مزاجی خوبصورت معاشرہ تشکیل دیتی ہے۔
احساس ذمہ داری پیدا کرنا:
بچوں میں بچپن ہی سے احساس ذمہ داری پیدا کریں تاکہ وہ بڑے ہو کر ایک کامیاب اور ذمہ دار انسان بن سکیں۔اسکے لیے ان سے چھوٹے موٹے کام کروائیں اور خود اس کی نگرانی کریں مثلاً کھلونوں کو کھیلنے کے بعد سمیٹ کر مخصوص جگہ پر رکھنا۔ کھانے کے بعد اپنا استعمال شدہ برتن دُھو کر رکھنا۔اپنے کمرے کو صاف رکھنا کوئی بے ترتیب یا اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی ہوتو بچوں کو پیار اور شفقت سے اسکی طرف توجہ دلائیں۔اپنے جوتوں کو ترتیب سے رکھنا، دسترخوان لگانا اور کھانے کے بعد اُسے سمیٹنا یہ تمام کام اُسی وقت انجام پاسکتے ہیں جب بچے اپنے بڑوں کو بھی ایسا کرتا دیکھیں گے۔ ذمہ داری دینے کے بعد اس پر چیک رکھنا اور ذمہ داری دینے کے بعد بار بار یاد دہانی ضروری ہے تاکہ احساس ذمہ داری شخصیت کا حصہ بن سکے۔
کہانی سُنائیے تخیل بڑھائیے:
موبائل اور انٹرنیٹ کے دور میں کہانی کا رواج ڈالنا آسان نہیں اگر بچپن سے کوشش کریں تو ہو سکتا ہے۔ اچھی اور سبق آموز کہانیوں کا انتخاب کیجئے۔دل جیت انداز میں کہانی سنائیے۔سیرت کے واقعات صحابہ کرام اور صحابیات کی زندگی کے واقعات کو کہانیوں کا حصہ بنائیں۔
کہانی سُننے سے بچوں کے تخیل اور تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔کہانی کے مختلف کرداروں کو بچوں سے موازنہ کروائیں ۔ بچے کہانیوں کے مثالی کردار کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔اخلاقی سبق بار بار دُہراتے جائیں اور آخر میں بچوں سے پوچھیں کہ اُنہوں نے اس سے کیا سبق سیکھا۔اس کے علاوہ والدین بچوں کو اپنی زندگی کے واقعات سُنائیں خوشی اور غم کے مواقع ،تعلیمی قابلیتیں ، بچپن کے کھیل ، اپنے واقعا ت و تجربات بچوں سے شئیر کریں والدین بچوں کے لیے آئیڈیل ہوتے ہیں تاکہ وہ آپ کی زندگی سے مثبت سبق حاصل کریں۔
نظم و ضبط پیدا کریں:
بچوں کے روز مرہ کے معمولات طے کریں۔ صبح سے لے کر رات تک کا ٹائم ٹیبل مرتب کریں ۔ بچوں کے ساتھ مل کر ان کا ٹائم ٹیبل بنائیں‘ جس میں نمازکی پابندی کو اولین ترجیح پر رکھیں اور اس میں صفائی ستھرائی ، پڑھائی ، مناسب کھیل کود اور ہلکی پھلکی ورزش شامل ہو۔رات جلدی سونے اور صبح جلدی بیدار ہونے کی عادت ڈالیں۔ بچوں کی صحت مند زندگی کا دارومدار ان کے روزانہ کے معمولات پر ہے۔ایک اچھا ’’معمول‘‘ زندگی میں نظم و ضبط لاتا ہے جس سے ایک اچھا انسان تشکیل پاتا ہے۔
میڈیا کے استعمال پر کنٹرول رکھیں:
ریسرچ کے مطابق زیادہ میڈیا کا استعمال کرنے والے بچے عموماً زیادہ جھگڑالو اور جارحانہ رویے کے مالک ہوتے ہیں۔بچوں میں انرجی نسبتاً زیادہ ہوتی ہے لیکن جب وہ گھنٹوں ٹی وی یا گیمز کے لیے بیٹھے رہتے ہیں تو ان کی انرجی استعمال نہ ہونے کی وجہ سے وہ غصے اور چڑچڑے پن کا شکار ہوتے ہیں اور توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ لہٰذا میڈیا کے استعمال کے لیے وقت مقرر کیا جائے اور جو مواد بچے دیکھ رہے ہیں اس پر کڑی نظر رکھی جائے۔مار دھاڑ والے کارٹون اور اشتعال انگیز گیمز سے بچوں کے رویے پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بچوں کو اس کے متبادل سرگرمیاں مہیا کریں مثلاً سیر وتفریح ، تیراکی وغیرہ۔ والدین بچوں کیساتھ ایسی کھیل کھیلیں جس میں ان کی ذہنی صلاحیت کے ساتھ ساتھ جسمانی قوت کا بھی استعمال ہو۔