’’گاڑی چلاؤ۔ جیسے جیسے ہم کہیں ویسا ہی کرنا ہے‘‘۔ ان کے برابر بیٹھے ہوئے شخص نے غرّاتے ہوئے کہا۔
پروفیسر خورشید نے گھڑی پر نظر ڈالی اور اپنی سانس روک لی تھی۔ اسی وقت پھر فضا میں گڑگڑاہٹ ہوئی، جس کے ساتھ ہی پروفیسر خورشید کی جان میں جان آئی۔ باہر شدید فائرنگ ہونے لگی۔
چند ہی لمحوں میں باہر موجود بلیکس اپنے لہو میں لت پت دوسرے جہاں کو سدھار چکے تھے۔ گاڑی میں موجود بلیکس میں ہمت نہ تھی کہ باہر جاکر مقابلہ کریں۔ جوں ہی فائرنگ کا شور تھما، انہوں نے دروازہ کھول کر باہر چھلانگ لگائی اور اپنی موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر فرار ہوگئے۔
پروفیسر خورشید کا دماغ پُرسکون ہوا تو انہوں نے آسمان پر نظر ڈالی۔ روشنیوں کا ایک جھرمٹ، دامنِ شب میں محوِ پرواز تھا۔ انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ایک بار پھر اپنی منزل کی راہ لی۔
n۔۔۔n۔۔۔n
رشید نے چائے پی کر میز پر نظر ڈالی تو اسے جھٹکا سا لگا، اس نے اپنی جیب ٹٹولی تو اسے ایک سنگین صورت حال کا احساس ہوا۔ وہ لاکر کے قریب آیا اور اسے کھولنا چاہا، لاکر اچھی طرح بند تھا۔ یہ دیکھ کر وہ کچھ مطمئن ہوگیا، کیوں کہ وہ جتنی دیر کمرے میں رہا، لاکر بند ہی تھا، لیکن چابیوں کا غائب ہونا آنے والے وقت میں کسی سنگین صورت حال سے دوچار کرسکتا تھا۔
’’ایک تو میری بھولنے کی عادت بہت خراب ہے۔ کہیں اس سے کوئی بڑا نقصان نہ ہوجائے اور فائل کسی غیر ذمے دار شخص کے ہاتھ نہ لگ جائے‘‘۔
یہ سوچ کر رشید پریشان ہوگیا اور ذہن پر زور ڈالنے لگا کہ آخری بار اس نے چابیوں کا گچھا کہاں رکھا تھا؟
جب کچھ یاد نہ آیا تو اس نے رصدگاہ کے محافظوں اور چوکیداروں کو بلایا اور انہیں حکم دیا کہ کسی شخص کو بھی رصدگاہ سے باہر نہ جانے دیا جائے۔
تھوڑی دیر بعد وہ کمرے سے باہر نکل آیا اور دروازہ اچھی طرح مقفل کردیا۔ پھر اس نے قمرو کو ہدایت دی: ’’دیکھو اس کمرے کا خیال رکھنا اور اگر کوئی بات ہو یا کسی کے بارے میں کوئی شبہ ہو تو فوراً مجھے بتانا، کسی کو اس کمرے میں نہ جانے دینا‘‘۔
رشید یہ کہہ کر چلا گیا اور قمرو کے چہرے پر پُراسرار سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
n۔۔۔n۔۔۔n
’’کس بے وقوف نے تم سے کہا تھا کہ جا کے خورشید کو اغوا کرو‘‘۔ بلیک چیف کی دھاڑ سے کمرہ گونج رہا تھا۔
بلیکس نے کہا: ’’سر بلیک نمبر ون نے ہمیں یہ مشن سونپا تھا۔ ہمیں یونیورسل اسکیچ سے حکم دیا گیا تھا کہ پروفیسر کو اغوا کرلیں، وہ راستے میں ہی ہوں گے‘‘۔
’’وہ پاگل ہوگیا ہے اور تم لوگ بھی‘‘۔
پھر چند لمحوں کی خاموشی کے بعد بلیک چیف نے کہا ’’اگر اس بے وقوف نے تم سے یہی کہا تھا کہ خورشید کو اغوا کرلو تو تم خالی ہاتھ کیوں آئے؟ بتاؤ تم لوگ اپنے مشن میں ناکام کیوں ہوئے؟‘‘
اس نے بلیکس سکس، فائیو اور فور کو گھورا۔
’’میں نے اس بے وقوف کو کہا تھا کہ رشید کو اغوا کرنا ہے کیوں کہ اسے ہی فائل کا پتا ہے جو مجھے چاہیے۔ تم لوگوں نے ناکامی کا منہ دیکھا ہے اور میں ناکامی کا منہ دیکھنے والوں کا منہ نہیں دیکھنا چاہتا‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے کوٹ کی جیب سے پستول نکال لیا۔ بلیکس اس کے قدموں میں گرگئے۔ اسی وقت تین فائر ہوئے اور تینوں بلیکس دم توڑ گئے۔
n۔۔۔n۔۔۔n
دُور اُفق سے ایک ستارہ ٹوٹا اور زمین کی جانب گرتا چلا گیا۔ یہ دراصل ایک شہاب ثاقب تھا۔
یونیورسل اسکیچ میں نصب فلکی دوربین سے جو ماہرِ فلکیات اس کا مشاہدہ کررہے تھے ان کا نام ’’حافظ جان‘‘ تھا۔ ان کا شاگرد سعید کمپیوٹر کی اسکرین پر نگاہ جمائے ہوئے تھا۔ جب کہ دوسرا معاون فرید اپنے مخصوص کیمرے سے اس شہاب ثاقب کی تصویر کھینچ رہا تھا۔ چند لمحوں بعد وہ شہاب ثاقب اندھیرے میں روشنی کی ایک لکیر چھوڑتا ہوا زمین پر آگرا۔
’’ہاں بھئی سعید، کیا صورت حال ہے؟‘‘
حافظ جان نے دوربین پر سے نگاہ ہٹا کر پوچھا۔
سعید نے جواب دیا:
’’سر وہ شہابیہ ہماری پوزیشن سے شمال کی جانب 76 میل کے فاصلے پر ایک میدانی علاقے میں گرا ہے‘‘۔
’’ہمیں فوراً وہاں چلنا چاہیے‘‘۔ حافظ جان نے کہا۔ ’’میں چاہتا ہوں کہ اس شہابیے کے چند ٹکڑے نمونے کے طور پر حاصل کرلوں‘‘۔
وہ تینوں اپنے کمرے سے نکلے اور جوں ہی رصدگاہ کے بیرونی دروازے پر پہنچے، محافظوں نے ان کا راستہ روک لیا۔
’’کیا ہوا، ہمیں کیوں روکا ہے؟‘‘ فرید نے پوچھا۔
’’رشید صاحب کا حکم ہے کہ کسی کو رصدگاہ سے باہر نہ جانے دیا جائے‘‘۔
(باقی آئندہ)