(جہان ادب (ڈاکٹر نثار احمد نثار

443

13254’عمران کی شاعری‘‘ عمران شمشاد کے شعری مجموعے کا نام ہے۔ یہ کتاب ابھی حال ہی میں اشاعت پذیر ہوئی ہے جس کی پہلی تقریبِ پذیرائی کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے زیر اہتمام 19 نومبر 2016ء کو ہوئی۔ اس تقریب کے صدر اجمل سراج تھے جب کہ خالد معین مہمان خصوصی تھے‘ ہدایت سائر نے نظامت کی۔ علاء الدین خانزادہ‘ زیب اذکار‘ سیمان نوید‘ جہانگیر سید‘ علی زبیر‘ شاہ رخ مرزا‘ مجید رحمانی‘ کامی شاہ اور سائرہ غلام نبی مقررین میں شامل تھے۔ ابراہیم جلیس ہال میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں شہر کی اہم شخصیات شریک تھیں جن میں عمران شمشاد کے دوستوں کی کثیر تعداد بھی شامل ہے۔ مجید رحمانی نے عمران شمشاد کے بارے میں کہا کہ ان کی شاعری زندگی سے مربوط ہے جس میں جمالیات‘ رومانس اور عصری مسائل بھی شامل ہیں۔ انہوں نے شاعری کی روایتی تراکیب سے اجتناب برتا ہے ان کی شاعری میں نیا ڈکشن نظر آتا ہے یہ اپنی شاعری کے ذریعے سماجی تبدیلیوں کے خواہش مند ہیں۔ سیمان نوید نے کہا کہ عمران شمشاد نوجوان شعرا میں ایک معتبر نام ہے انہوں نے اپنی لگن اور محنت سے ادبی منظر نامے میں اپنی جگہ بنائی ہے ان کی نظمیں جان دار‘ ان کی غزلیں زندگی سے بھرپور ہوتی ہیں یہ اپنی شاعری میں نئے نئے تجربات کر رہے ہیں یعنی شاعری کی روایات سے انحراف کرتے ہوئے قارئین ادب پر نئے نئے ابواب کھول رہے ہیں یہ ایک ماہر تماشا گر ہیں انہوں نے معاشرے کے مختلف مناظر کو اپنی شاعری میں پینٹ کر دیا ہے یہ بازیات کے شاعر ہیں‘ یہ زمینی حقائق کو نظر انداز نہیں کرتے بلکہ پوری سچائی کے ساتھ ہمارے سامنے رکھ دیتے ہیں ان کی شاعرعی میں بصری امیجزی پائی جاتی ہے جس کے باعث یہ اپنے ہم عصروں میں سب سے الگ دکھائی دیتے ہیں۔ جہانگیر سید نے کہا کہ عمران شمشاد کی شاعری میں تحیرات پائے جاتے ہیں ان کی شاعری میں غنائیت اور نغمگی ہے‘ جان ہے تاثیر۔ انہیں زبان و بیان پر دسترس حاصل ہے ان کے یہاں آفاقیت ہے ان کا مشاہدہ سچا ہے‘ یہ بدلتے ہوئے نظاروں کو محسوس کرتے ہیں اور اپنے احساسات میں سمو کر شاعری بنا دیتے ہیں ان کو الفاظ کی کوزہ گری آتی ہے ان کی بالغ نظری قارئین کے ذہن پر دستک دیتی ہے انہوں نے بہت سی چیزوں سے اختلاف کرکے نئی جہت تلاش کی ہے ان کے تمام دوست پُر خلوص ہیں‘ روایت سے استفادہ کرنا عمران کے مزاج کا حصہ نہیں ہے۔ علی زبیر نے کہا کہ عمران شمشاد نے پورے شعور کے ساتھ روایتی شاعری سے ہٹ کر اپنی شاعری کو روشن کیا ہے انہوں نے لفظی روایات سے بغاوت کی ہے‘ فکری روایات سے بغاوت نہیں کی ان کی شاعری ترقی پسندانہ ہے ان کی شاعری کی تراکیب عام ڈگر سے ہٹ کر ہیں انہوں نے نئی لفظیات سے اپنی شاعری کو مزین کیا ہے یہ اپنی شاعری میں وہ الفاظ لائے ہیں جو ہماری روز مرہ کی بول چال میں شامل ہیں‘ بھاری بھاری لفظیات سے انہیں چڑ ہے انہوں نے سہل ممتنع میں بہت اچھے اشعار نکالے ہیں مجھے امید ہے کہ یہ بہت آگے جائیں گے۔
اس موقع پر شاہ رخ مرزا نے عمران شمشاد کی نظمیں اور غزلیں تحت الفظ سنائیں اور خوب داد حاصل کی انہوں نے تمام شعراء کے لیے اپنی خدمات پیش کیں کہ وہ جب چاہیں انہیں اپنی محفل میں بلائیں وہ بلا معاوضہ اپنی خدمات انجام دیں گے۔ کامی شاہ نے کہا کہ عمران شمشاد نے نامانوس لفظوں کو بھی خوب صورت شعری لبادہ پہنا دیا ہے جب کہ یہ ایک مشکل کام ہے ان کی جاگتی آنکھیں معاشرے کے اندر جھانک لیتی ہیں اور یہ پوری سچائی سے ہر منظر کو بیان کر دیتے ہیں‘ یہ نام و نمود سے بے نیاز ہیں‘ چور بازاری سے دور ہیں اور ایمان داری پر گامزن ہیں انہیں علمِ عروض پر بھی دسترس حاصل ہے ان کی شخصیت کی طرح ان کی شاعری بھی جداگانہ ہے انہیں فیس بک کے ماہرانِ شاعری اور ڈرائنگ روم کے نقادوں سے سند لینے کی ضرورت نہیں ہے ان کے الفاظ خود لوگوں کے دلوں میں اتر جاتے ہیں ان کی شاعری سر چڑھ کر بولتی ہے۔
سائرہ غلام نبی نے عمران شمشاد پر مدّلل اور پُر مغز مقالہ پیش کیا جس کا عنوان تھا ’’زندگی کا تماشائی‘‘ انہوں نے کہا کہ عمران شمشاد نے ضابطے اور قواعد کے اندر رہتے ہوئے خوش گوار شاعری کی ہے۔ ان کی شاعری میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی۔ ان کے یہاں نئے نئے استعارے اور تلمیحات نظر آتی ہیں ان کی نظموں کی بُنت نہایت مضبوط اور مربوط ہے ہر نظم کی Punc Line پُر تاثر ہے۔ ان کی غزلوں میں جدیدیت اور نئے اسلوب پائے جاتے ہیں‘ ان کی شاعری فکر انگیز ہے‘ ان کا اندازِ بیان دل کش ہے‘ ان کے اشعار ابلاغ کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں اور ہر شخص با آسانی ان کے اشعار سمجھ لیتا ہے گویا یہ ’’عوامی شاعری‘‘ کر رہے ہیں‘ یہ ایک کامیاب شاعر ہیں۔
کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے چیئرمین اور تقریب ہذا کے منتظم زیب اذکار نے کلمات تشکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ عمران شمشاد کے بارے میں کہا کہ یہ ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ ہم عمران شمشاد کی کتاب کی تقریب اجرا کر رہے ہیں عمران اپنے عہد کا ایک بڑا شاعر ہے انہوں نے معاشرتی اقدار کو دیکھا‘ پرکھا اور انہیں شعوری اور بامعنی شعری لباس پہنا دیا ان کا ڈکشن سب سے الگ نظر آتا ہے ان کی شاعری میں تازہ کاری اور تغیر پذیری ہے ان کی شاعری مزاحمتی شاعری ہے۔ یہ ہر ظلم کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ اس موقع پر زیب اذکار نے تمام شرکاء محفل کا فرداً فرداً نام لے کر شکریہ ادا کیا۔ علاء الدین خان زادہ نے کہا کہ ادب کمیٹی کے معتمد اعلیٰ زیب اذکار ہر ہفتے کوئی نہ کوئی تقریب منعقد کر رہے ہیں یہ بڑے محنتی ہیں اور کراچی پریس کلب کے منشور کے مطابق علم وادب کی خدمت میں مصروف ہیں۔ علاء الدین خانزادہ نے مزید کہا کہ عمران کی کتاب ’’عمران کی شاعری‘‘ واقعی عمران کی شاعری ہے اس کا غیر رسمی نام رکھ کر انہوں نے بہت سی روایات توڑی ہیں۔ میں ان کی اس بہادری پر مبارک باد دیتا ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عمران شمشاد کی شاعری کا رنگ و آہنگ دوسروں سے مختلف ہے‘ اس شہر میں عمران شمشاد ایک توانا آوازہے‘ آج ان کی کتاب کی تقریب اجراء ہے اور سارا ہال بھرا ہوا ہے یہ اس کا ثبوت ہے کہ لوگ ان سے محبت کرتے ہیں ان کی شاعری کے شیدائی ہیں۔ صاحبِ اعزاز عمران شمشاد نے اپنی غزلیں اور نظمیں سنائیں اور کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کا شکریہ ادا کیا کہ جن کے زیر اہتمام ایک شان دار تقریب کا انعقاد ہوا۔ مہمان خصوصی خالد معین نے کہا کہ کسی کتاب کی پہلی تقریب بہت اہم ہوتی ہے کہ اس میں کتاب اور صاحبِ کتاب کی شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ شاعر کی شخصیت اس قسم کی تقریب میں ڈسکس ہوتی ہے جہاں تک عمران شمشاد کی بات ہے تو ان کی کتاب کا شدت سے انتظار تھا ان کی شاعری سے بہت لوگوں نے اختلاف کیا ہے جو کہ ایک صحت مندانہ علامت ہے انہوں نے اپنی شاعری میں عہدِ حاضر کے تقاضے نظم کیے ہیں انہوں نے عام ڈگر سے ہٹ کر شاعری کی ہے ان کے یہاں کرافٹ اور کون ٹینٹ معیاری ہے انہوں نے مکھی پر مکھی نہیں ماری ان کے سوچنے کا انداز جداگانہ ہے یہ انتہائی سنجیدہ تخلیق کار ہیں یہ جدید روایت کے علمبردار ہیں ان کے یہاں انگریزی کے الفاظ بھی پائے جاتے ہیں لیکن نئے ڈکشن کے ساتھ ۔ ان کے دو مصرعوں میں زمانی اور مکانی اختلاف ہوتا ہے لیکن یہ بڑی مہارت کے ساتھ دو مصرعوں میں اپنی بات مکمل کر لیتے ہیں یہ شدید محنت و ریاضت سے گزرے ہیں لیکن تھکے نہیں یہ ٹھہر ٹھہر کر‘ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں۔ یہ موجودہ زمانے سے جڑے ہوئے ہیں انہوں نے جدید استعاروں‘ نئے اندازِ سخن سے اپنی نظموں اور غزلوں کو آراستہ کیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ کچھ شاعر اپنی نظموں میں کچھ نظر آتے ہیں اور جب وہ غزل کہتے ہیں تو ان کا اندازِ بیاں بدل جاتا ہے لیکن عمران شمشاد اپنی غزلوں اور نظموں میں یکساں نظر آتے ہیں یہ پورے اعتماد کے ساتھ شعرا کے ہجوم میں اپنا نام کما رہے ہیں۔ ہمیں اپنے ذہن اور آنکھوں کو وسیع کرنا چاہیے اور بلا تشخیص رنگ و نسل و زبان ہر اچھے شاعر کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ صدرِ تقریب اجمل سراج نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ کسی بھی شاعر کے بارے میں کوئی فیصلہ ایک نشست میں نہیں ہوسکتا لیکن عمران شمشاد کی شاعری کا جتنی بار بھی جائزہ لیا جائے آپ اس کے اشعار کی تعریف کریں گے کیونکہ اس کے یہاں جھوٹ اور منافقت نہیں ہے وہ سیدھے سادھے الفاظ میں اپنا مافی الضمیر بیان کرتے ہیں‘ ان میں اخلاص پایا جاتا ہے‘ اخلاق جب مکمل ہوتا ہے تب اخلاص جنم لیتا ہے یہ عمران شمشاد کی شب و روز محنت کا نتیجہ ہے کہ آج ان کے چاہنے والوں کی کثیر تعداد یہاں جمع ہو کر انہیں خراج تحسین پیش کر رہی ہے۔ یہ بے حد حساس شخص ہیں یہ معاشرتی زندگی کی اونچ نیچ کو نظر انداز نہیں کرتے بلکہ جو کچھ دیکھتے ہیں وہ لکھ دیتے ہیں ان کی شاعری میں فنی پختگی آتی جارہی ہے انہوں نے زندگی کے نشیب و فراز دیکھے ہیں‘ انہوں نے معاشرتی سہولیات حاصل کرنے کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں لگایا انہوں نے اپنے الفاظ نہیں بیچے حالانکہ یہ جس فیلڈ کے آدمی ہیں وہاں کے بہت سے لوگ دنیاوی عیش و آرام کے لیے خود کو بیچ دیتے ہیں۔ وہ چند سکوں کے عوض وہ زبان بولنے لگتے ہیں جس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا میں ’’زرد صحافت‘‘ بھی جاری ہے۔ اجمل سراج نے مزید کہا کہ عمران شمشاد کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ علامہ اقبال سے بہت متاثر ہیں‘ عمران ایک نئے جہان کی تلاش میں ہے جہاں ہر طرف امن و سکون ہو‘ عمران شمشاد نے اپنی شاعری میں زمینی حقائق نظر انداز نہیں کیے‘ انہوں نے شاعری کے میدان میں خود کو منوانے کے لیے دوسروں کی زمینیں نہیں چُرائیں بلکہ اپنی زمینیں خود ایجاد کی ہیں انہوں نے افسانے لکھے‘ ناول لکھے‘ ٹی وی پر کام کیا‘ اخبارات میں کالم نگاری بھی کی، لیکن ہر میدان عمل میں اپنے جوش و جذبے سے دوسروں کی Good Book میں ہیں۔ ان کی ترقی کا سفر جاری ہے‘ ان کی نظموں میں معاشرتی کرب نمایاں ہے انہوں نے معاشرے کے سلگتے ہوئے مسائل پر قلم اٹھایا ہے‘ انہوں نے اصولوں پر سودے بازی نہیں کی مجھے امید ہے کہ ان کی یہ کتاب اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہے۔ تقریب کے ناظم ہدایت سائر نے بہت اچھے انداز میں اجلاس چلایا اور کسی بھی موقع پر تقریب کے ٹیمپو کو ٹوٹنے نہیں دیا انہوں نے وقفے وقفے سے خوب صورت جملے ادا کیے جس نے حاضرین پر خوش گوار اثرات مرتب کیے۔
۔۔۔*۔۔۔
پاکستان بنے سے قبل کیف بنارسی اپنی عملی حیثیت میں اور تخلیقی صلاحیتوں کے حوالے سے مشہور ہوچکے تھے‘ وہ 29 برس کی عمر میں سیاست میں بے حد فعال تھے انہوں نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا‘ وہ بے لوث قومی رہنما تھے ان کی شاعری کا محور ’’پاکستان‘‘ تھا‘ وہ شعلہ بیان مقرر بھی تھے۔ 1948ء میں ’’فسانۂ درد‘‘ نظم لکھ کر قائداعظم کو پیش کی اس نظم میں انہوں نے پاکستان کی سیاسی ناہمواریوں کے تذکرہ کے علاوہ یہ بھی بتایا کہ سیاست دان اپنی ذمے داری پوری نہیں کر رہے جس کی وجہ سے پاکستان کی ترقی کا سفر متاثر ہورہا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر جاذب قریشی نے ادارۂ فکر نو کراچی کے زیر اہتمام کیف بنارسی ادبی ریفرنس میں اپنے صدارتی خطاب میں کیا انہوں نے کہا کہ کیف بنارسی ایک تاریخ ساز شخصیت تھے ان کے نغمات آج بھی زبان زد عام ہے۔ ان کا مشہور مصرع ’’بن کے رہے گا پاکستان‘ بٹ کے رہے گا ہندوستان‘‘ آج بھی ہمارے لہو کو گرما رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی آگئے یہاں بھی انہوں نے سچائیوں کو آگے بڑھایا‘ وہ اپنے محبوب سیاست دان قائداعظم سے بہت پیار کرتے تھے۔ وہ اپنی تحریروں اور اشعار میں قائداعظم کا تذکرہ ضرور کرتے تھے ان کی شاعری میں حالاتِ حاضرہ کے مسائل پائے جاتے ہیں‘ ان کی نظموں کا آہنگ قابل ستائش اور جاذبِ نظر ہے۔ وہ اندھیروں میں روشنی تقسیم کرتے تھے‘ اپنے دکھ درد چھپا کر دوسروں کو خوشیاں بانٹتے تھے۔ انہوں نے کورنگی ٹاؤن میں ’’جشن کورنگی‘‘ کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا ہر سال اس جشن کے موقع پر نمائش کا اہتمام ہوتا تھا جس میں کورنگی کے صنعت کاروں کی چیزیں پیش کی جاتی تھیں اور مشاعرہ بھی ہوتا تھا۔ وہ اپنے علاقے کے مسائل کے حل کے لیے ارباب اقتدار سے ملتے تھے چونکہ وہ P.R کے آدمی تھے لہٰذا ان کے ذریعے بہت سے مسائل حل کر لیے جاتے تھے اورینٹ ایڈورٹائزنگ کے ایس ایچ ہاشمی صاحب نے کیف بنارسی کے لیے جاب مہیا کی۔ ایس ایچ ہاشمی صاحب کا یہ اقدام قابل ستائش تھا کہ انہوں نے قلم کار کو Adjust کیا اور معاشی معاملات میں ان کی مدد کی۔ پروفیسر جاذب قریشی نے مزید کہا کہ یہ دونوں حضرات اجلی زندگی کے سفر پر چلے گئے لیکن ہمارے دلوں میں زندہ ہیں کیف بنارسی نے ایک ایسی مضبوط روایت قائم کی جو دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ان کی تحریر کردہ کتابوں میں شعلۂ آزادی‘ دل کی دھڑکن پاکستان‘ بیت المقدس کی تلاش اور چراغِ آشیاں شامل ہیں۔ اس موقع پر کیف بنارسی کے صاحبزادے اختر سروش نے کہا کہ وہ ادارۂ فکرِ نو کے ممنون ومشکور ہیں کہ جنہوں نے ان کے والد کی یاد میں یہ شاندار تقریب منعقد کی انہوں نے اختر سعیدی سے گزارش کی کہ جس طرح انہوں نے لانڈھی کی ایک شاہراہ کو خالد علیگ کے نام سے منسوب کرانے میں اہم کام کیا ہے اس طرح وہ کیف بنارسی شاہراہ کے لیے بھی کچھ کریں۔ ارباب اقتدار سے بات کریں شاید میرے باپ کے نام سے بھی کوئی سڑک منسوب کر دی جائے۔
تقریب میں حمد و نعت پڑھنے کی سعادت فرید احمد خورشیدی نے حاصل کی جب کہ علی کوثر نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ ممتاز ماہر تعلیم رشید خان رشید نے نظامت کے فرائض انجام دیے انہوں نے کیف بنارسی کے بارے مین اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کیف بنارسی کے ساتھ جشن کورنگی کے سلسلے میں بہت کام کیا ہے۔ کیف بنارسی ایک عظیم شخص تھے وہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ مشاعرے کے مہمان خصوصی سعید الظفر صدیقی تھے جب کہ رفیع الدین راز مہمان اعزازی تھے‘ ادارۂ ہذا کے صدر محمد علی گوہر نے خطبۂ استقبالیہ پش کیا جب کہ رئیس احمد ایڈووکیٹ نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔ ادارۂ فکرِ نو کے روحِ رواں اختر سعیدی نے کہا کہ ہم نے لانڈھی‘ کورنگی کے اہم قلم کاروں کے حوالے سے ’’یادِرفتگاں‘‘ کے عنوان سے تقریبات کا سلسلہ شروع کیا ہے ہم اس علاقے کے تمام صاحبانِ قلم کی یاد منائیں گے اس سلسلے میں ہمارے ساتھ جو لوگ تعاون کر رہے ہیں ہم ان کے شکر گزار ہیں انہوں نے مزید کہا کہ لانڈھی‘ کورنگی میں کچھ نوجوان بہت اچھا کہہ رہے ہیں ہماری کوشش ہے کہ ہم انہیں پرموٹ کریں اس موقع پر صاحبِ صدر‘ مہمان خصوصی‘ مہمان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ ظفر محمد خاں ظفر‘ فیروز ناطق خسرو‘ عزمی جون‘ سلیم فوز‘ اختر سروش‘ اختر سعیدی رشید خاں رشید‘ محمد علی گوہر‘ راقم الحروف (ڈاکٹر نثار)‘ سراج الدین سراج یوسف چشتی‘ آئرن فرحت‘ ضیا شاہد‘ گلِ انور‘ محسن سلیم‘ صدیق راز ایڈووکیٹ‘ شبیر احرام‘ اسحاق خان اسحاق‘ کامران محور‘ الحاج نجمی‘ عارف نظیر‘ عاشق شوکی‘ علی کوثر‘ زبیر احمد صدیقی اور جنید خان خانانی نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ مشاعرے میں سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی جو کہ داد رہے تھے جب کہ کچھ شاعر دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے رہے انہوں نے داد بھی نہیں بلکہ ان میں سے کچھ تو موبائل پر مصروف رہے۔ دو چار شعراء اپنا کلام سنا کر چلے گئے اس صورت حال کا صاحبِ صدر نے نوٹس لیا اور کہا کہ مشاعرے کے آداب کو پامال کرنا تہذیبی روایات کے خلاف ہے۔
nn

حصہ