تین سال کی مدت مکمل کرنے کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف ریٹائر ہوگئے ہیں اور ان کی جگہ نئے سپہ سالار کا انتخاب ہوگا۔ جنرل اشفاق ندیم خان، جنرل قمر باجوہ اور جنرل جاوید رمدے میں سے کسی ایک کے نام قرعہ فال نکلے گا۔ وزیراعظم نوازشریف نئے آرمی چیف کے نام کے لیے مشاورت کرچکے ہیں۔ اگر نئے متوقع آرمی چیف کے نام کا جائزہ لیا جائے تو جنرل اشفاق ندیم خان اور جنرل قمر باجوہ کے نام بہت قریب قریب ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کے قریبی اور انتہائی معتمد ایک سرکاری افسر بھی وزیراعظم کو اپنی رائے دے چکے ہیں، ان کی رائے جنرل قمر باجوہ کے حق میں بتائی جارہی ہے۔ بہرحال ان سطور کی اشاعت تک اس حوالے سے کوئی نہ کوئی فیصلہ ہوچکا ہوگا۔ اگرچہ یہ بات کہی جارہی ہے کہ فیصلہ سینیارٹی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے، تاہم یہ اصول وزیراعظم کے فیصلے کی راہ میں کہیں بھی رکاوٹ بنتا نظر نہیں آرہا۔ اس حوالے سے حتمی فیصلہ 24 نومبر تک متوقع ہے۔ آرمی چیف کی تقرری کے لیے وزیراعظم نوازشریف کا مجموعی طور پر یہ پانچواں فیصلہ ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) کی تاریخ رہی ہے کہ آرمی چیف کی تقرری میں چودھری نثار علی خان کا بھی کردار رہا ہے، لیکن جنرل راحیل شریف کی طرح اِس بار وزیراعظم یہ فیصلہ ان کے کلیدی مشورے کے بغیر کریں گے۔ وفاقی وزیر جنرل(ر) عبدالقادر بلوچ کسی حد تک مشاورت کا حصہ ضرور ہیں۔ بہرحال دیکھتے ہیں کہ نئے آرمی چیف کا منصب کس جرنیل کے حصہ میں آتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف 24 نومبر کو آرمی چیف سے الوداعی ملاقات کریں گے اور اسی روز اُن کے اعزاز میں عشائیہ دیا جائے گا۔ نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان بھی اسی روز ہوسکتا ہے۔ اس منصب کے لیے اس وقت تین سینئر جرنیل زیربحث ہیں۔ جنرل اشفاق ندیم خان اسی سال اگست میں لیفٹیننٹ جنرل بنے ہیں، ان کے ساتھ جنرل جاوید رمدے اور جنرل قمر باجوہ اور جنرل ضمیرالحسن بھی لیفٹیننٹ جنرل بنائے گئے۔ جنرل اشفاق ندیم خان کو ترقی دے کر کور کمانڈر بہاولپور لگایا گیا۔ ان کا تعلق آزاد کشمیر رجمنٹ سے ہے۔ جنرل قمر باجوہ کور کمانڈر راولپنڈی لگائے گئے، اسی طرح جنرل جاوید رمدے کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور جنرل ضمیرالحسن کو ائر ڈیفنس کمانڈ دی گئی۔ یوں یہ جرنیل ایک روز ہی پروموٹ ہوئے ہیں اور ان میں جنرل زبیر محمود حیات ایس ڈی پی میں رہے، جہاں بہت عرصہ تک جنرل خالد قدوائی تعینات رہے۔ پاک فوج کے سولہویں آرمی چیف اور چیئرمین چیفس آف جائنٹ اسٹاف کمیٹی کا انتخاب انہی فوجی جرنیلوں میں سے ہوگا۔
جنرل راحیل شریف کے تین سال کیسے گزرے اور نئے آرمی چیف کے سامنے کیا چیلنج ہیں، یہ سوال بہت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ کہنا کہ نیا آرمی چیف کوئی بھی ہو، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، ایک غلط تجزیہ معلوم ہوتا ہے۔ ایک ہی جملے میں بھرپور بات کی جاسکتی ہے کہ جنرل اشفاق ندیم خان اور جنرل قمر باجوہ کی کیمسٹری میں بہت فرق ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں جمہوری نظام ہمیشہ خوف کا شکار رہا ہے، فوج اور حکومت کی باہمی ہم آہنگی کی بہت اہمیت ہے، اور اس سے انکار کسی صورت ممکن نہیں۔ جنرل راحیل شریف کی طرح نئے آرمی چیف کو نئے عالمی اور علاقائی حالات کا سامنا بھی ہوگا۔ اس خطہ کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے نئے سپہ سالار کی ترجیحات کیا ہوں گی اس بارے میں فی الحال تو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اس کا اندازہ نئے آرمی چیف کی تشکیل دی جانے والی ٹیم سے ہوگا۔ لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ آرمی چیف کوئی بھی ہو، جمہوری حکومت ہمیشہ دباؤ میں رہتی ہے کیونکہ وہ اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرتی ہے، اور فوج چونکہ بطور ادارہ کام کرتی ہے اس لیے وہ قومی سلامتی کے لیے اپنی ترجیحات کے مطابق کام کرتی رہے گی۔ فوج کی پالیسی کور کمانڈر بناتے ہیں اور فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے سپہ سالار کی حکمت عملی لانچنگ پیڈ ہوتی ہے۔ اس وقت ہمیں اندرونی سلامتی کے مسائل اور سرحدوں پر افغانستان اور بھارت کی صورت میں ایک بڑا چیلنج درپیش ہے، جس کے باعث ملک کا سیاسی اور معاشی نظام بھی دباؤ کا شکار ہے۔ آرمی چیف کے سامنے بھارت پاکسان دشمن جارحانہ عزائم بھی بہت بڑاچیلنج ہیں، پاک افغان سرحد دوسرا بڑا محاذ ہے۔ حکومت اور فوج کی پالیسی اس حوالے سے وہی ہوگی جو ماضی میں رہی ہے۔ یہ پالیسی اُس وقت ہی تبدیل ہوگی جب کابل اور دہلی سرکار ہمارے خلاف سازشوں اور مکروہ منصوبہ بندی سے باز آجائیں، اور اسی طرح بھارت سے دوستی اور تجارت اُسی وقت ممکن ہے جب وہ پاکستان کے تزویراتی معاملات کے لیے خطرہ نہ بنے اور نہ اس مقصد کے لیے کسی کو اپنی سرزمین استعمال کرنے دے۔ یہ فوج کے نکتہ نظر سے بہت اہم محاذ ہے۔ عسکری قیادت اس پر کسی قیمت پر بھی سمجھوتا نہیں کرسکتی۔ عسکری قیادت اور حکومت میں بہترین ہم آہنگی کے لیے ضروری ہے کہ بھارت اور افغانستان کے بارے میں حکومت وہی سوچے جو عسکری قیادت سوچتی ہے۔ اس ایشو پر جمہوری حکومت اور فوج میں یکسوئی ہوگی تو کبھی کسی حکومت کو فوج سے مسئلہ نہیں ہوگا۔ اگر اس مسئلے پر یکسوئی نہیں ہوگی تو پھر مسائل پیدا ہوتے رہیں گے۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کی باتیں اسی بنیاد پر اٹھائی جارہی تھیں، لیکن اب ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد اگرچہ اس بحث کا باب بند ہوگیا ہے لیکن فوج کے نئے سپہ سالار کو بھی وہیں سے کام شروع کرنا ہے جہاں جنرل راحیل شریف چھوڑ کر جارہے ہیں۔
پاک بھارت سرحد سے لے کر پاک افغان سرحد تک پھیلے ہوئے مسائل بہت گمبھیر ہیں۔ عسکری محاذ سے جڑے ہوئے یہ مسائل اپنی جگہ، حکومت کو عدالتی محاذ پر بہت سے چیلنج درپیش ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ میں پانامہ لیکس مقدمہ کی سماعت حتمی مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور عدالتِ عظمیٰ کسی بھی وقت اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے۔ اگرچہ حکومت کی قانونی ٹیم اطمینان کا اظہار کررہی ہے۔ یہ اطمینان اس لیے ہے کہ تحریک انصاف کی قانونی ٹیم نے اپنی کمزوریوں کو پوری طرح پھیلا کر عدالت کے سامنے رکھ دیا ہے اور حکومت اس سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ویسے بھی کسی فریق کے لیے حکومت سے لڑنا بہت مشکل ہوتا ہے، انتظامی مشینری پر کنٹرول کے علاوہ حکومت کے وسائل لامحدود ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی حکومت کے لیے سب اچھا نہیں ہے۔ اسے عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے سے پریشان کن صورت حال کا سامنا کرنا پڑسکتاہے۔ حکومتی ٹیم خوش ہورہی ہے کہ تحریک انصاف کی وکلا ٹیم میں پھوٹ پڑگئی ہے اور حامد خان کی جگہ نعیم بخاری اور بابر اعوان نے لی ہے جو عدالت میں اس مقدمہ کی پیروی کریں گے۔ قانونی ٹیم کی تبدیلی سے حکومت کو خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ دونوں وکلاء ایسے ہیں کہ قانونی نکات پر کم اور مقدمے کے سیاسی پہلوؤں پر زیادہ گفتگو کریں گے اور کاٹ دار جملوں کے ذریعے دباؤ کا حربہ اختیار کرکے پانسہ اپنے حق میں پلٹنے کی کوشش کریں گے۔ اگر آج تک اس کیس کے حوالے سے عدالتی کارروائی کا تجزیہ کیا جائے تو بنیادی بات یہ سامنے آتی ہے کہ تحریک انصاف کے وکیل نے عدالت کے بار بار استفسار کے باوجود اس سے کچھ مانگا ہی نہیں، اسی لیے عدالت نے کہا کہ اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی بنیاد پر کچھ نہیں ہوسکتا۔ امکان یہ ہے کہ عدالت متعدد درخواستیں مسترد کرے گی، اور الیکشن کمیشن سے متعلق معاملے کو وہاں بھجوا دے گی، اور کمیشن کی بات جب سامنے آئے گی تو حکومت اعتراض اٹھا سکتی ہے کہ یہ عدالت کا اختیار نہیں ہے۔ اگلی پیشی 30 نومبر کو ہے، اس پیشی پر عدالت کا موڈ دیکھ کر وزیراعظم نوازشریف کے بچوں کی جانب سے قطر سے لندن بھجوائی جانے والی رقم کی تفصیلات پیش کی جاسکتی ہیں۔ یہ دستاویزات تیار ہیں لیکن مخالف فریق کے اٹھائے جانے والے اعتراضات کا رخ دیکھ کر ہی حکومت فیصلہ کرے گی۔ اس کے مقابلے میں اب وکلا کی ٹیم تبدیل کرنے کے بعد تحریک انصاف کی کوشش ہوگی کہ عدالت وزیراعظم کو سزا نہ بھی دے لیکن انہیں معاملے سے بری الذمہ بھی قرار نہ دے۔ تحریک انصاف کو عدالتِ عظمیٰ سے پانامہ لیکس میں وزیراعظم کے دامن پر لگے ایک چھوٹے سے دھبے کی شہادت درکار ہے۔ وہ رائی کے اسی دانے کو پہاڑ بنانا چاہتی ہے۔ ویسے بھی عدالتی کارروائی اور اس کی رفتار سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ عدالت بھی کسی انتظار میں ہے اور وہ تیل اور اس کی دھار دیکھ رہی ہے۔ ماضی میں ہماری عدالتِ عظمیٰ جنرل پرویزمشرف کو بن مانگے ہی آئین میں ترمیم کا حق بھی دے چکی ہے۔ لہٰذا عدالت سے دونوں فریقوں کے لیے حیران کن فیصلہ بھی آسکتا ہے۔
nn